تحریر:پروفیسر علامہ سید علی محمدنقوی صاحب قبلہ،علی گڈھ
تاریخی راہوں کا ہر چلنے والا جانتا ہے کہ ابتدائے عمر سے امام حسین - کی تقریباً پوری زندگی ایک مسلسل اضطراب وکشمکش کا مجموعہ رہی۔
حسینؑ آغوش طفلی ہی میں تھے جب شفیق نانا، رسول اسلام محمد مصطفیٰ ؐکا انتقال ہوگیا۔۔۔۔۔۔ رسولؐ کی آنکھ بند ہونا تھی کہ دنیا ہی بدل گئی۔ خانۂ اہلبیتؑ آفات دنیا، پریشانیوں اور بلائوں کا گہوارہ بن گیا۔ وہ لوگ برسراقتدار آگئے جن کا کیش ہی اہلبیت اطہارؑ کو اذیتیں دینا تھا۔
اب کبھی علیؑ وفاطمہؐ کے گھر کے گرد لکڑیاں جمع کی جاتی ہیں۔ کبھی علیؑ کے گلے میں رسی ڈالی جاتی ہے۔ ان تمام مصائب وآلام میں اپنے باپ، ماں اور بھائی بہنوں کے ساتھ ساتھ حسین بن علیؑ بھی برابر کے شریک رہے۔
پچیس سال کی طولانی مدت اور قتل عثمان کے بعد اہلبیتؑ کو اطمینان وسکون کی ایک سانس لینے کا موقع مل سکتا تھا جب کہ امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کو مسلمانوں نے اپنا سربراہ منتخب کیا۔ مگر جمل وصفین اور نہروان کے فتنوں نے اس دور میں بھی اطمینان نصیب نہ ہونے دیا اوربالآخر ابن ملجم کی ضربت سے امیرالمومنینؑ شہید ہوگئے۔ اب مسلمانوں نے امام حسنؑ کو خلیفہ مقرر کیا۔ مگر جلد ہی امیرشام معاویہ نے خلیفۃ المسلمین پر چڑھائی کردی۔ امام حسنؑ نے مسلمانوں کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے امیرشام سے صلح کرلی۔
اب اہلبیتؑ کے خلاف آندھیاں شدّت سے چلنے لگیں۔ مسجدوں میں منبروں پر علیؑ وحسنؑ پر دشنام طرازی عام ہوگئی۔ امیرالمومنینؑ کے شیدائیوں کو قیدخانوں میں ڈال دیاگیا۔ اہلبیتؑ کانام لینا جرم قرار دے دیا گیا۔
یقینا یہ دور امام حسینؑ کے لئے بہت پریشان کن ہوگا۔ مگر ابھی سر پر ایک سرپرست تھا۔ حسنؑ مجتبیٰ جیسے بھائی زندہ تھے۔ غم والم میں حسینؑ کا ایک شریک موجود تھا۔ خاندان کاایک بزرگ صفحۂ وجود پر باقی تھا۔ ذمہ داریاں ابھی حسنؑ پر تھیں، حسینؑ پر نہیں۔ ابھی محبان علیؑ کے لئے ’’دستورعمل‘‘ مرتب کرنے کا فرض حسنؑ کے کاندھے پر تھا، حسینؑ پر نہیں مگر ۵۰ھ میں امام حسنؑ کی شہادت کے بعد سے حسینؑ بن علیؑ کی زندگی کا انتہائی صبرآزما دور شروع ہوگیا، جو دس سال تک مسلسل قائم رہا۔ اس ’’صبر شکن‘‘ زمانہ میں اپنے فرض کا احساس ہرہر لمحہ رکھنا اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہونا صرف حسینؑ جیسے سید الصابرین ہی کے بس کی بات تھی۔
اس امتحانی دور کی ابتدااس وقت سے ہوگئی تھی جب امام حسینؑ، اور محبان اہلبیتؑ امام حسنؑ کا جنازہ لے کر مسجد نبوی میں دفن کرنے کی غرض سے جارہے تھے۔ اور راستے میں مروان اور دوسرے لوگوں نے آکر جنازہ پر تیر باران شروع کردیا۔ اس وقت امام حسینؑ کی حالت کیا ہوگی۔۔۔۔۔۔؟ اس کا ہر انسان اندازہ لگا سکتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر قبل مشفق بھائی کا سایہ سر پر سے اٹھا ہے۔ یکبارگی نہ صرف خاندان بلکہ ایک پورے ’’فرق‘‘ کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری سر پر آگئی ہے۔ ہر طرف غمگین وگریاں فضا ہے اور ایک جماعت کی طرف سے بھائی کے جنازے پر تیر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس وقت یقینا اصحاب کو جوش آیا ہوگا۔ شاید محمد حنفیہ اور ابوالفضل العباسؑ نے تلواریں کھینچ لی ہوں مگر امام سب کو سمجھاکر جنازہ کو پلٹا کر جنۃ البقیع میں دفن کردیتے ہیں۔
اگر حسینؑ اس وقت تلوار کھینچ لیتے تو دنیا کو کہنے کا موقع مل جاتا کہ حسینؑ بھائی کے رویہ کے مخالف تھے۔ جیسے ہی ان کا انتقال ہوا۔ بہانہ تراش کر جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے۔ مگر حسینؑ کو تو ثابت کرنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم میں اختلاف ہو۔ ہم تو حکم خدا کے پابند ہیں۔ جب خدا کا حکم صلح کرنے کے لئے ہوگا ہم صلح کرلیںگے۔ جب اس کا حکم جہاد کے لئے ہوگا تلوار کھینچ لیںگے۔ جب تک اس کا حکم رہے گا جنگ کریںگے اور جب اس کا حکم ہوگا سر کٹا دیںگے۔
اگر اس وقت حسینؑ تلوار کھینچ لیتے تو ان کی ’’مظلومی‘‘ معرض بحث میں پڑ جاتی۔ لوگوں کو کہنے کا موقع مل جاتا کہ حسینؑ نے تو خودمعاہدۂ صلح کی خلاف ورزی کی۔عامۂ خلائق کا امن غارت کرنے کی کوشش کی۔ اب اگر انھیں شہید بھی کردیا گیا تو اعتراض کی کیا گنجائش اور حکومت شام کے لئے معاہدہ کی دوسری شرطوں کو توڑنے کا جواز بھی فراہم ہوجاتا۔ اس لئے حسینؑ نے طے کرلیا کہ جب تک حکومت شام معاہدہ کو بالکل پس پشت نہ ڈال دے گی میں اس کے خلاف کھڑا نہ ہوںگا۔
اس موقع کے بعد بھی نہ جانیں کیاکیا تکلیفیں برسراقتدار گروہ نے امام کو پہنچائیں۔ ایک اسلامی رہنما کے لئے یہی کیا کم تکلیف کا باعث ہے کہ خدا کے بنائے اور رسولؐ کے پہنچائے ہوئے قانون میں تبدیلیاں کی جانے لگیں۔ ’’زکوٰۃ فطرہ‘‘ کی مقدار بدل دی گئی۔ ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ سونے کے زیورات پہننے لگا۔ درندہ جانوروں کی کھال فرش کے طور پر بچھائی جانے لگی۔ شریعت اسلام میں حکم تھا کہ پیخانے قبلہ رو نہ ہوں، شام میں تمام پیخانے قبلہ کی طرف بنوائے گئے، عرفہ کے دن تلبیہ کہنے کا حکم تھا، معویہ نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ حضرت محمد مصطفی اور علی مرتضیٰ اور اب تک تما م صحابہ کرام بھی بسم اللہ نماز میں بآواز بلند کہتے تھے، معاویہ نے آواز کے ساتھ بسم اللہ کہنے سے ممانعت کردی۔ ’’دینی مواخات‘‘ ہونے کی بناء پر امیرشام نے ایک شخص حتات بن زید کی میراث پر قبضہ کرلیا۔ حالانکہ شرع محمدی میں میراث نسبی وارث کو ملتی ہے۔ غرض اس قسم کی نہ جانیں کتنی ’’بدعتیں‘‘ رواج پاگئیں۔
ان تمام واقعات کی اطلاع امام حسینؑ کو بھی یقینا پہنچتی ہوگی۔ امام حسینؑ کے لئے تلوار اٹھانے کے واسطے صرف یہی ایک وجہ کافی تھی کہ اسلام کے وجود کو شامی حکومت سے خطرہ تھا مگر حسینؑ کو تو صبرورضا کا نمونہ قائم کرنا تھا۔ ان کو تو ثابت کرنا تھا کہ خد اکے منتخب کئے ہوئے رہنما نہ موقع پرست ہوتے ہیں، نہ جلدباز بلکہ وہ تو وہی کرتے ہیں جو اس کی مرضی ہو۔ چاہئے اس سلسلے میں ان کو کتنے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑے، کتنی ہی تکلیفیں اٹھانا پڑیں۔
اموی اہل اقتدار نے نہ صرف یہ کہ دین خدا میں تبدیلی کی بلکہ اس کے محافظوں کو تہہ تیغ بھی کیا۔ سیکڑوں حافظان قرآن اور صحابۂ رسولؐ بے درنگ قتل کئے گئے۔ ان ہی میں حجر بن عدی بھی تھے جن کی شہادت سے دنیائے اسلام میں تہلکہ پڑگیا تھا۔ امیرشام معاویہ نے حجر کوا ن کے وطن سے بلوا کر موت کی آغوش میں ڈال دیا۔ ان کی غلطی کیا تھا؟ بس یہ کہ وہ علیؑ اولاد علیؑ کے نام لیوا تھا۔ جمہور مسلمین کے چوتھے خلیفہ کے مدّاح تھے۔ یہ امیرشام کے نزدیک وہ سنگین جرم تھا جس کی سزا موت، اور بس موت، تھی حجر کے قتل پر مخالفین اہلبیتؑ تک تڑپ اٹھے تھے۔ خلیفہ اول کی صاحبزادی عائشہ کو جب اس المناک واقعہ کی اطلاع ہوئی تو وہ بِلبلاکے کہہ اٹھیں کہ ’’اگر معاویہ کو اہل کوفہ کی بیداری کو تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔‘‘ مگر جگر خوارہ کا فرزند جانتا تھا کہ عرب سے ’’آدمی‘‘ فنا ہوچکے ہیں۔ بخدا حجر اور ان کے ساتھی عرب کے سر اور دماغ کی حیثیت رکھتے تھے۔ خلیفۂ دوم کے صاحبزادے عبداللہ بن عمر کو جب حجر کے قتل کا حال معلوم ہوا تو وہ ڈاڑھیں مار مار کے رونے لگے۔ جب ان لوگوں کا یہ حال تھا تو امام حسینؑ پر اس واقعہ کا کتنا اثر ہوا ہوگا؟ اس کا ہر انسان اندازہ کرسکتا ہے۔
امامؑ نے اس حادثہ پر اپنے رنج والم کا اظہار بھی فرمایا جس کی اطلاع امیرشام معاویہ تک پہنچی اور ان کو خدشہ ہوا کہ کہیں امامؑ اپنے جانثاروں کو لے کر ان کے خلاف کھڑے نہ ہوجائیں۔ اس لئے انھوں نے امام حسینؑ کے نام ایک تہدیدی خط بھی لکھا۔ معاویہ کے اس خط کا حسینؑ نے جوتاریخی جواب دیا ہے اس نے بہت سے حقائق کے چہروں کو بے نقاب کردیا۔ امامؑ جانتے تھے کہ ان کے والد کی خاموشی سے جو مفاد اسلام کے لئے اس وقت ضروری تھی غلط فائدہ اٹھاکر لوگوں نے کہہ دیا تھا کہ علیؑ اہل اقتدار کے مخالف نہیں تھے ورنہ وہ صدائے احتجاج کیوں نہ بلند کرتے۔ اس لئے حسینؑ نے اپنے اس خط میں امیرشام کی ان تمام غلطیوں کا ذکر کردیا جن سے اسلام اور احکام خداورسولؐ کو گزند پہنچا تھا۔ حسینؑ کا یہ خط معاویہ کے ’’اعمال نامہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے جس میں امیرشام کو ان کے تمام کرتوتوں سے آگاہ کردیا گیاہے۔
اس خط میں امام حسینؑ نے لکھا ہے کہ:
’’میں ابھی تم سے دست وگریباں ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور سکوت کو گلے لگائے ہوئے ہوں مگر میں خود اس خاموشی سے خوش نہیں ہوں اور نہ یہ خاموشی تم لوگوں کے لئے سند بن سکتی ہے۔‘‘
امامؑ کا یہ جملہ بتاتا ہے کہ ان کو احساس تھا کہ امیرالمومنینؑ کی خاموشی کو اہل باطل نے سند کے طور پر استعمال کیا اور حسینؑ نہیں چاہتے تھے کہ بنی امیہ کے بہی خواہ ان کی خاموشی کو بھی سند قرار دے سکیں اور کہہ سکیں کہ ’’حسینؑ کو یزید سے اختلاف تھا۔ معاویہ سے نہیں۔‘‘
آگے چل کر امام نے معاویہ کے جرائم کی فہرست اس طرح پیش کی ہے: ’’کیوں معاویہ! کیا تم ہی وہ نہیں ہو جس نے حجر بن عدی کو قتل کیا؟ کیا تم ہی وہ نہیں ہو جس نے ایسے نماز گزاروں اور خدا پرستوں کو قتل کیا جو ظلم وبدعت کو پسند نہیں کرتے تھے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔امامؑ نے اس طرح معاویہ پر یہ واضح کردیا کہ اموی خلافت ظلم وجور وبدعت کی خلافت ہے جس میں خدا پرستوں اور حق وصداقت کے پرستاروں کے لئے رحم وکرم کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے بعد حسینؑ نے لکھا ہے کہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اے معاویہ کیا تم ہی وہ نہیں ہو جس نے زیاد بن سمیہ کو جو بنی ثقیف کے غلام عبید راعی کا لڑکا تھا اپنا بھائی اور اپنے باپ ابوسفیان کا بیٹا قرار دیا۔ حالانکہ رسولؐاللہ نے فرمایا تھا کہ بیٹا اس کا سمجھا جائے گا جو عورت کا اصلی شوہر ہے اور زناکار کے لئے بس پتھر ہیں اور کچھ نہیں، مگر تم نے رسولؐاللہ کے اس حکم کو اپنے مقصد کی خاطر پس پشت ڈال دیا۔‘ ‘۔۔۔۔۔۔۔۔ حسینؑ کے جملہ نے ثابت کردیا کہ ان کو اپنی حق تلفیوں سے زیادہ شریعت اسلام میں ہونے والی تبدیلیوں کا صدمہ تھا۔۔۔۔۔۔۔پھر امام نے تحریر فرمایا کہ ۔۔۔۔’’وہ تم ہی تھے جس نے حکم دیا تھا کہ جو علیؑ کا پیرو ہوا اس کو مارڈالو‘‘۔۔۔۔۔۔۔خط کی آخری سطروں میں امام حسینؑ نے نہایت صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اموی جابر پر واضح کردیا کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ میں تمہارے خلاف لوگوں کو ابھارکر امت محمدؐی کے سفینہ کو فتنہ وفساد کی موجوں کے تھپیڑوں میں ڈال رہا ہوں۔‘‘ امام ؑنے حق وصداقت کے چہرہ پر سے یہ تحریر فرماکر نقاب کھینچ لی ہے کہ:
’’اس امت میں کوئی فتنہ تمہاری حکومت سے بڑھ کر نہیں ہے اور میں اپنے نفس، اپنے دین اور امت محمدی کے لئے کسی فائدہ کو اس سے بڑھ کر تصور نہیں کرتا کہ میں تمہاری مزاحمت کروں۔ اگر ایسا میں کروں تو یہ یقینا قربت الٰہی کا موجب ہوگا۔‘‘
اس خط نے ثابت کردیا کہ امامؑ مدینہ میں مطمئن نہیں تھے۔ ان کو ہرلمحہ اس کا احساس تھا کہ شامی اقتدار نے اسلام کو تباہی وبربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور اس سخت وقت میں اسلام کو حسینؑ کی ضرورت ہے۔ مگر وہ خاموشی کے ساتھ اس لمحہ کے منتظر تھے کہ جب ’’معاہدۂ حسنؑ‘‘ کی آخری سطر بھی صفحۂ وجود سے فنا کردی جائے تاریخ اس ’’فیصلہ کن‘‘ موڑ کی طرف آہستہ آہستہ اس وقت سے بڑھنے لگی جب سے معاویہ کو اپنے بیٹے یزید کی خلافت مسلمانوں سے تسلیم کرانے کی دھن ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاویہ کو اس کا اچھی طرح علم تھا کہ یزید ایک فاسق وفاجر وبدکار جوان ہے جس کو مذہب سے کوئی دور کا بھی لگائو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ہیں کہ عرب کے آدمیوں میں ’’انسانیت‘‘ نام کو بھی باقی نہ رہ جائے اور اس لئے یزیدی خلافت کے سامنے مسلمانوں کا سرخم کرا لینا سنگ خارا کی رگوں سے ’’جوئے شیر‘‘ برآمد کرنے سے کم نہیں تھا۔ مگر وہ اپنے بعض ’’بلند ہمت‘‘ مددگاروں کو لے کر اس مہم کے سر کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
اس مقصد کے حاصل کرنے کی خاطر ہر وہ حربہ استعمال کیاگیا جس کا دنیا میں وجود تھا۔ کبھی طاقت کے بل پر لوگوں کی پیشانیاں خم کی گئیں، کبھی دولت کے جادو سے مسلمانوں کے دین وایمان کو خریدا گیا، کبھی خطابت کی قلابازیوں سے لوگوں کو قائل کیاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر بعض ایسے من چلے اور بندگان دنیا کی نظروں میں ’’سر پھرے‘‘ اللہ کے بندے بھی عرب کی ریگستانی فضا میں موجود تھے۔ جو نہ طاقت سے مرعوب ہونا جانتے تھے، نہ پیسے سے دبنا اور نہ جاہلانہ دلیلوں سے خاموش ہوجانا۔
امیرشام کو ان چند نفوس کا سب سے زیادہ خوف تھا۔ ان میں سرفہرست حسینؑ بن علیؑ کی ذات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔معاویہ جانتے تھے کہ حسینؑ حق کے علاوہ کسی طاقت سے دبنے والے انسان نہیں ہیں مگر پھر بھی انھوں نے اپنے ذہن کو مطمئن کرنے کے لئے وہ تمام ہتھیار استعمال کئے جن سے کوئی انسان دب سکتا ہے۔ کبھی دولت سے لالچ دلائی گئی، کبھی طاقت سے ڈرایا گیا مگر سب بے کار۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسینؑ کی ذات ایک اٹل پربت تھی جس کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موقع پر امام حسین - نے حکمت عملی کا وہ عدیم المثال نمونہ پیش کیا جس نے ثابت کردیا کہ دینی رہنما سیاست کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسینؑ یہ جانتے ہوئے کہ صلح نامہ کی آخری شرط بھی پیروں تلے روندی جارہی ہے تشدد سے کام نہیں لیا ورنہ دنیا حسینؑ کو جارح قرار دیتی۔ معاویہ بھی اپنے سالہاسال کے تجربہ کی بناء پر امامؑ کے خلاف تشدد کے حربہ کے استعمال سے کترا رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ اگر حسینؑ جیسا رہنما ان کے ہاتھ سے ظاہر بظاہر شہید ہوگیا تو دنیائے اسلام میں ان کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور مسلمانوں میں ایک ایسا آتش فشاں پھٹ پڑے گا جو اموی خلافت کو جلاکر راکھ کردے گا۔ وہ چاہتے تھے کہ تشدد کا حربہ استعمال کئے بغیر وہ کسی طرح حسینؑ سے یزید کی بیعت حاصل کرلیں مگر ان کی یہ خواہش دل کی دل ہی میں رہ گئی یہاں تک کہ رجب ۶۰ھ میں موت کے فرشتہ نے آکر ’’اسلامی جابر‘‘ کو اپنے آ ہنی پنجوں میں لے لیا۔
معاویہ کے مرتے ہی حسینؑ بن علیؑ کے لئے وہ دہ سالہ ’’حوصلہ شکن‘‘ اور ’’صبرآزما‘‘ دور ختم ہوگیا۔ جو امام حسنؑ کی شہادت سے شروع ہوا تھا۔
ان دس برسوں میں حسینؑ جس ذ ہنی اور نفسیاتی کشمکش میں مبتلا رہے شاید ویسی امتحانی کشمکش واقعۂ کربلا کے ذیل میں بھی حسینؑ کو نہیں جھیلنا پڑی۔ مگر یہ حسینی کردار تھا جس نے باطل کے تمام منصوبوں کو اس دور میں بھی خاک میں ملا دیا۔ اگر حسینؑ تشدد پر آمادہ ہوجاتے تو اموی مقصد حاصل ہوجاتا اور پھر شاید واقعۂ کربلا جیسا انقلابی کارنامہ دنیا میں رونما نہ ہوسکتا۔
حسینؑ نے خاموشی کے ساتھ اس دور میں جس طرح مسلمانوں کی رہنمائی کے فرض کو انجام دیا وہ صرف حسینؑ اور کسی حسینؑ، ایسے ہی کے بس کی بات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درحقیقت یہ دس سال واقعۂ کربلا کے مقدمہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور حسینؑ بن علیؑ کی یہ خاموشی فضا کے اس سکون کے مثل ہے جو کسی آنے والے غیرمعمولی طوفان کا پتہ دیتا ہے۔