بیسوی صدی کے اوائل میں عالمی سطح جو سیاسی سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ انسانی اقدار کو بے پناہ متاثر اور متروک کرنے کے لیے کافی تھیں جنگ عظیم کی آگ میں جھلسی ہوئی دنیا مغربی تہذیب کی وبا میں گرفتار ہوتی جارہی تھی جنگ ختم ہونے کے بعد سرمایہ دارانہ استکبار کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کرچکا تھا دوسری طرف کارل مارکس کے نظریات کی بنیادوں پر ٹکا ہوا اشتراکی نظام کمزور ہونے کے باوجود دنیا کے بڑے حصہ کو متاثر کرنے کے ساتھ استکباری نظام ہی کی طرح ظلم وبربریت کی بنیاد پر اپنے وجود کو بچانے کے لیے جدوجہد کررہا تھا جس کے ا نتیجہ میں دنیا دوحصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اسی درمیان ایران میں اسلامی انقلاب ظہور پذیر ہوا جس نے حیات انسانی کے ہر گوشہ کو متاثر کرتے ہوئے مطلق العنانیت کا خاتمہ کیا۔ اور دنیا بھر کے مستضعفین کو اپنی فطری آزادی اور بقا کے لیے سوچنے کا موقع دیا۔
۱۹۸۲ء میں رہبر انقلاب ایران نے کمزور اور دبے کچلے استکباری اور اشتراکی طاقتوں کے ذریعہ متاثر عالمی برادری کو خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں چاہتاہوں دنیا بھر کے محرومین مل کر جماعت بنام جمعیت محرومین عالم کا قیام کریں جہاں وہ بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرسکیں اور مغرب ومشرق کے ظالم لیڈروں کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھائیں دنیا میں کہیں بھی ظالموں کے خلاف جدجہد ہوگی ہم ان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔‘‘
آقائے خمینیؒ نے اپنی استقامت اور قوت ربانی کے ذریعہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ظالمانہ اور جابرانہ طور پر عوام کے استحصال کرنے والے طرز حکومت کو ٹھکرادیا۔ جس کے اثرات پوری دنیا میں نظر آنے لگے۔ ایرانی تحریک سے پہلے بازیابی فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کی تحریک دم توڑ چکی تھی۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہوکر جو صیہونی ریاست قائم کی گئی تھی اس کے استکباری طاقتوں نے اتنی مادی طاقت سے آراستہ کیا تھا عرب ممالک اپنے کو لاچار محسوس کررہے تھے۔صیہونیوں نے فلسطینی عوام اور اس خطہ پر خوف طاری کرنے کے لیے جس طرح کے مظالم ڈھائے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا جس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ اسی دہشت ووحشت کے ماحول کو بنانے کے لیے جبل عامل او رجنوبی لبنان کو بھی نشانہ بنایا دیدیاسین اور سالمہ میں خون کی ندیاں بہائی گئیں انہوں نے اس گاؤں کے ۸۵؍افراد کو باندھ کر مسجد کے عقب میں عورتوں اور بچوں کے سامنے پہلے گولیوں سے بھونا پھر مسجد کے صحن میں رکھ کر نذر آتش کردیا اور ساتھ ہی مسجد کو بھی مسمار کردیا ا اس طرح کے مظالم اور بربریت کا مظاہرہ انہوں نے پورے خطہ میں اپنا خوف پیدا کرنے کے لیے کیاجس کا فائدہ اٹھا کر جنوبی لبنان کے تقریباً ۱۴؍گاؤں کو خالی کروالیا جس میں شیعوں کی آبادی تھی صیہونیوں کی ان وحشیانہ پالیسیوں کا شکار شیعہ اور سنی دونوں طبقوں کو ہونا پڑا۔
ایسے مایوس کن حالات میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آقائے خمینی کے انقلابی پالیسی نے فلسطینیوں کی مردہ تحریک میں نئی روح پھونک دی انہوں نے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے ضمیر ووجدان کو جھنجھوڑتے ہوئے کہاکہ ُُٰٰٰٰ۔۔تم اپنی طاقت کو پہچانوں اگر تم ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر ڈالوگے تو وہ بہہ جائے گا۔ انہوں نے کہا اگر تم رمضان المبارک کا آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہوئے اگر سڑکوں پر نکل کر نعرہ بلند کردو تو اس نعرہ کی گرج میں اسرائیل تباہ ہوجائے گا۔،، رہبرکبیر کا فلسطینی مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے سے تحریک قدس اس قدر کامیاب ہوئی کہ جس جنوبی لبنان کو صیہونیوں نے اپنی وحشت کا مرکز بنایا تھا آج اس خطہ کی طرف دیکھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
استکباری اور صیہونی طاقتوں کو سب سے بڑا جھٹکا ۲۰۱۹ء میں سینچری ڈیل کے موقع پر لگا جب امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نے اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کے مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے سینچری ڈیل کے نام سے ایک منصوبہ سازی کی ا جس کی کے درپردہ فلسطین اور قدس کا سودا کرنا مقصود تھا جس میں اس طرح کی تجاویز رکھی گئی۔ ۔ یروشلم تقسیم نہیں ہوگا۔ ۔ مسجد اقصیٰ ودیگر مقامات اسرائیل کے زیر انتظام رہیں گے۔ یروشلم میں رہنے والوں کو اسرائیل شہری تسلیم کیاجائے گا، مصر کا ایک خطہ فلسطین کو دیاجائے گا وغیرہ۔ اس ڈیل کو کامیاب کرنے کے لیے سعودی شہزادے بن سلمان نے دس ارب ڈالر کا آفر فلسطین رہنما محمود عباس کو کیا جس کے بدلے قدس کا علاقہ یروشلم اسرائیل کے سپرد کیا جائے اور ایک حصہ فلسطینیوں کو دے دیا جائے اور فلسطینی حکومت کو غزہ کے اندر محدود کرکے اسرائیل کو زیر اثر دے دیاجائے۔
مذکورہ سینچری ڈیل کو فلسطینی رہنما محمود عباس نے فلسطینی مزاحمت اور مقصد کا خاتمے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ اسرائیل کے خلاف تحریک آزادی کی سربراہی کرنے والے حماس کے رہنما خالد مشعل کا کہنا تھا امریکہ اور اسرائیل عرب ممالک پر ڈیل کو ماننے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ جبکہ فلسطینی عوام ڈیل آف سینچری کے خلاف متحد ہے۔‘‘ عالمی استکبار کی تمام تر سازشوں کے باوجود تحریک قدس پوری طرح شباب پر ہے۔ حزب اللہ کے قائد سید نصراللہ نے اسرائیل کو مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور قرار دیا اور چند سال قبل آقائے خامنہ ای نے اپنے بیان میں پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’۲۰؍سال کے عرصے میں اسرائیل ختم ہوجائے گی۔‘‘ رہبر معظم کا یہ بیان تجزیہ نگاروں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے لیکن اگر ہم عالمی تناظر میں تجزیہ اور تحلیل کریں تو جتنا کمزور اسرائیل اس دورمیں ہوا ہے اتنا کمزور کسی زمانہ میں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ کہیں نہ کہیں عالمی استکبار کی اکھڑتی ہوئی سانسیں ہیں اور اس کا تجزیہ ہمیں سپاہ قدس کے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر ہوا ایرانی فوج نے عراق میں امریکہ اڈے الاسعد پر حملہ کرکے یہ ثابت کردیا امریکی پالیس کس قدر ناکام ہوچکی ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کا خوف ختم ہوچکا ہے۔
عراق کے بعد امریکہ نے افغانستان سے بھی اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود عرب کے بعض ممالک جنہیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ یمن کے دلدل میں پھنسے ہونے کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی اور بے حسی پر قائم رہتے ہوئے اسرائیل کے وجود کو منوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں اپنی بادشاہت کے استحکام کا خوف ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومانہ تحریک اور رہبر معظم کی اسلامی اور روحانی حکمت عملی کی بنیاد پر دنیا بہت جلد فلسطینی کی آزادی کے مناظر دیکھے گی فرزندان انقلاب احام شہادت باندہ کر مصلہ عشق پر نماز شہادت پڑہنے کے لئے آمادہ ہیں اور طاغوتی طاقتوں کی ہر سازش کو ناکام بنا چکے ہیں لیکن رب اکبر نے ہر مسلمان کے اوپر کچھہ فرائض اور زمہ داریاں عائد کی ہیں سب سے ایم فریضہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی نظام ظلم انسانیت کو پامال کر نے کی کوشش کرے اسکے خلاف حتلالقدور قیام کریں ایسے وقت میں جب صیہونی درندے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور قبلہ اول کی بے حرمتی پر آمادہ ہیں ہماری فطری ذمہ داری اور ایمانی فریضہ ہے کہ ہم صیہونی پالیسیوں کے خلاف قیام کریں اور اگر پابندیوں کے اسیر ہیں تو کم از کم ظالموں کی نابودی کے لئے دست بد دعا بلند کریں ۔۔۔۔۔۔۔ہ۔ اگر ہم نے فرائض سے چشم پوشی کی تو آنے والے نسلیں ہم سے نفرت کریں گی۔