تحریک دینداری یعنی بیسویں صدی میں قیام مکاتب امامیہ کا عمل ایک الھی وروحانی پلان تھا جس میں خطیب اعظم مولانا سیدغلام عسکری طاب ثراہ بفضل خدا وند متعال کامیاب ہوئے تھے وہ گھڑی کتنی مبارک رہی ہوگی جب مرحوم کے ذہن رسا میں یہ فکر آئی ہوگی جیسے جاں بلب کو بے آب وگیاہ صحرا میں پانی مل جائے اور وہ ہلاک ہونے سے بچ جائے قوم کے بچوں کے لئے تعلیم و تربیت کا اتنا مضبوط آسان سادہ سستا اور کارآمد انتظام ناممکنات میں سے ہے مگر خلوص نیت للہیت اور محنت و لگن کا نتیجہ ہی کچھ اور ہوتاہے۔
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
مکتب امامیہ کے اعلی تعلیم یافتہ
آج بر صغیر(ہند و پاک) کے بکثرت طلباء وطالبات مکاتب امامیہ سے فراغت پا کر حوزہ ہائے علمیہ قم و نجف میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا بھر میں مکتب أہل بیت کی تبلیغ و ترویج میں سرگرم عمل ہیں ۔
خداوند عالم اس شجرہ طیبہ کے سایہ کو دوام واستمرار عطا فرمائے آمین ۔
دور حاضر کے تقاضے
مگر دور حاضر کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں یقینا اگر آج خطیب اعظم مولانا غلام عسکری رح با حیات ہوتے تو عصری تقاضوں کے تحت قوم وملت کے جوانوں کی فکر کرتے اور مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ انہیں عصری علوم سے بھی آراستہ فرماتے حدود دین میں رہ کر اچھی مفید کارآمد اور سستی تعلیم کا پلان ضرور انکے گوشہ ذہن میں رہا ہوگااس لئے کہ وہ ایک تحریکی عالم باعمل اور مرد مجاہد تھے فکر کرتے اجتہادی توانائی صرف کرتے اور پھر فراخ دلی سے اہلیت رکھنے والوں کوساتھ لیکر منزل کی طرف بڑھنے کا عزم کرتے یقینا کوئی بھی تعلیمی و ثقافتی کام ٹیم ورک کے بغیر ناممکن ہے جہاں ہر فرد تن دہی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی محنت ولگن سے تلاش و کوشش کرتا ہے اور ہر چھوٹی اور بڑی عدد اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہے یہی وہ منزل ہے جہاں ایسے سربراہوں کی اعلی ظرفی دور اندیشی ذاتی مفادات سے بالاتر قومی مفاد کے تحت حکمت عملی تحریک میں چار چاند لگا دیتی ہے چاہے وہ انقلاب اسلامی ایران کی بنیاد ہو یا سر سید احمد خان تحریک یا پھر تحریک دینداری ہر جگہ قومی مفادات ہر چیز سے بالا تر دکھائی دیتے ہیں جس کے احیا وتجدید کی ضرورت کا احساس دن بدن اور بڑھتا جارہا ہے۔
قومی ادارے
ہائے افسوس ہمارےقومی ادارے دینی مدارس اور دینی درسگاہیں اب قومی روح سے خالی ہیں تربیت کا عمل ٹھپ ہے بلکہ دنیوی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنتی جارہی ہیں تو اس نابسمانی کے عالم میں قوم جائے تو کس کے پاس چاۓ کہے تو کس سے کہے پھر قوم کو ایک غلام عسکری کی ضرورت ہے۔
اٹھارہ شعبان سن چودہ سو پانچ ہجری مطابق نو مئی انیس سو پچاسی عیسوی تحریک دینداری مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کی تاریخ وفات ہے اور یہ تحریر خراج تحسین بھی ہے اور قوم وملت کے درمندوں کے لئے یاد آوری بھی۔
خدا یا مولانا مرحوم اور ان کے تمام رفقاء کار اورقوم کے ان تمام افراد کی جنہوں نے اس تحریک میں دام درم قدم حصہ لیا ہے مغفرت فرما اور اگر وہ باحیات ہیں تو انہیں مزید کار خیر کی توفیق عنایت کر۔