ہربرس اسلامی ماہ صفرکی 20 تاریخ کوعمومی طور سے پوری دنیا میں اور خصوصی طور سے کربلاء عراق میں اربعین حسینی کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یوم عاشورہ شہادت سید الشہداء علیہ السلام کے بعد 40ویں دن زائرین کربلاء پہنچتے ہیں اس لئے اسے یوم اربعین حسینی کہا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس مخصوص دن کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کے گوشے گوشے سے زائرین کرام روضہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کے لئے قافلوں کی صورت میں پاپیادہ کربلاء معلی پہنچتے ہیں۔
اربعین حسینی کے ان پا پیادہ قافلوں کی ابتداء اس قافلہ سے ہوئی تھی جس میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی قیادت میں اہل حرم کربلاء پہنچے تھے جس کی تاسی میں لاکھوں کی تعداد میں زائرین یہ سفر طے کرتے ہیں۔ گو کہ موجودہ دور میں یہ طویل سفر طے کرنا بھی کوئی معمولی مرحلہ نہیں ہوتا مگر تاریخ میں زیارت کربلاء کو آنے والے زائرین کو جو صعوبتیں اورمشکلیں پیش آتی رہی ہیں ان کا تصور کرکے دل کانپ جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ اسی تاریخی حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ محبان اہلبیت نے صرف زیارت مرقد امام حسین علیہ السلام کرنے کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ اہل حرم کے اربعین سنہ 62 ہجری میں کربلاء پہنچنے والے سب سے پہلے قافلہ سے لیکرگذشستہ صدی تک عراق میں موجود مختلف حکومتوں نے زیارت سید الشہداء کرنے والوں کی راہوں میں نہ صرف رکاوٹیں اور پابندیاں عائد کیں بلکہ زائرین کو زیارت کرنے کی پاداش میں اذیتیں دینا بھی روا رکھا۔ مگر محبان اہلبیت نے قربانیاں دیکر زیارت امام حسین علیہ السلام کو قائم اور جاری رکھا اور اس کی حفاظت کی جس کے نتیجہ میں یہ دن آج پوری اسلامی دنیا میں اک اہم ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔
کربلاء کے سب سے پہلے زائر حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم کے برگزیدہ عظیم صحابی حضرت جابرابن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ پہلا اربعین حسینی سنہ 62 ہجری کے ماہ صفر کی 20 تاریخ کو برپا کیا گیا تھا۔ حضرت جابرابن عبداللہ الانصاری کی زیارت قبرامام مظلوم کرنے کے فورا" بعد اسی دن قافلہ ایل حرم کربلاء پہنچا تھا۔
اہل حرم کے کربلاء پہنچنے کا تاریخی پس منظر یہ تھا کہ قتل امام حسین( ع) کے نتیجہ میں جب مملکت اسلامی میں ہرطرف انتشار پیدا ہونا شروع ہوا اور یزیدی حکومت کو سیاسی خطرات محسوس ہوئے تو اس نے ایک سال سخت ترین قید میں رکھنے کے بعد اہل حرم کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یزید نے امام زین العابدین (ع) کو اپنے دربار میں بلایا اور آپ کے طوق و زنجیر اتارنے کا حکم دیا اور اپنے تخت پر بیٹھنے کی جگہہ دی۔ پھرامام کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا کہ لعنت ہوابن مرجانہ یعنی ابن زیاد پرجس نے آپ کے والد کو قتل کیا۔ بہرحال آپ اپنے والد کا خوں بہا لے لیجئے اوراب آپ آزاد ہیں۔ آپ چاہے یہاں رہیں چاہے مدینہ چلے جائیں۔ اس وقت امام نے اسے جواب دیا تھا کہ میرے بابا کا خوں بہا تو انکے جد رسول خدا (ص )کو دینا جنھوں نے انہیں اپنی زبان چساکر پالا تھا۔ رہائی کے بعد کہاں جانا ہے اس کا فیصلہ میں اپنی پھوپی جناب زینب سلام اللہ علیھا سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کرونگا۔
رہائی کی خبر سن کر ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے خواہش ظاہر کی ہم کچھ دن دمشق میں رہ کر اپنے شہداء کا ماتم کرینگے۔ اس کے لئے ایک مکان خالی کرایا گیا جہاں اہل حرم نے اپنے مقتولوں کا ماتم کیا اور دمشق کی عورتوں نے اہل حرم کو ان کے وارثوں کی تعزیت پیش کی۔ قاتل کے شہرمیں مقتولوں کی یہ پہلی مجلس عزاء تھی جس کی بانی ثانی زہرا جناب زینب سلام اللہ علیھا تھیں۔ ایک ہفتہ دمشق میں قیام کے بعد اہل حرم کا قافلہ بشیر بن جزلم کے ہمراہ مدینہ کے لئے روانہ ہوا۔ اس وقت جناب زینب سلام اللہ علیھا نے امام زین العابدین ع سے فرمایا کہ بشیر سے کہو کہ ہم کو کربلاء کے راستے مدینہ لے جائے۔ یہ اس اک بہن کی خواہش تھی جو کربلاء سے جب قید ہوکر چلی تھی تو اس کے بھائی اوراقرباء کے لاشے بے گوروکفن پڑے تھے۔ اوراب جب یہ خبر ملی ہے کہ کربلاء میں بھائی کی قبر بن چکی ہے مگر وہاں اس پرکوئی رونے والا نہیں ہے تو بہن بے قرار ہوکر کربلاء کے لئے چل پڑی۔ بس آج بھی محبان اہلیبت زینب علیا مقام کی تاسی میں ہربرس جوق درجوق بی بی کوان کے بھائی کا پرسہ دینے کے لئے کربلاء پہنچتے ہیں۔
ادھرجب قتل حسین ع کی خبر مدینہ پہنچی تھی تو مدینہ میں قیامت برپا ہوگئی ۔ صحابئ رسول حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے مگر نابینا ہوچکے تھے تقریبا" ایک سال تک کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح کربلاء پہنچ کر قبرامام حسین ع کی زیارت کرسکیں مگر کامیابی نہ ہوئی۔آخر کارایک سال بعد کسی قافلے کے ساتھ کربلا کے قریب پہنچ گئے۔ اپنے غلام سے کہا کہ جب کربلاء آجائے تومجھے بتادینا۔ کربلاء پہنچنے پرغلام نے اک مقامی کسان سے پوچھا کہ اس جگہہ کا کیا نام ہے۔ اس نے بتایا کہ کربلاء ہے ۔ حضرت جابر نے کہا کہ اونٹ کو یہیں بٹھادے تاکہ میں یہاں سے پاپیادہ قبرحسین ع تک جاوں۔ غلام نے حضرت جابر کا ہاتھ پکڑا اور وہ پاپیادہ مقتل میں پہنچے۔ یہ 20 صفر کا دن تھا جو یوم اربعین تھا۔ رسول کریم کے عظیم صحابی کی تاسی میں ہی اب زائرین پاپیادہ اپنے امام کی قبر کی زیارت کرنا باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ حضرت جابر کے کربلاء پہنچنے کے بعد 20 صفر سنہ 62 ھجری کو ہی اہل حرم کا قافلہ بھی وارد کربلاء ہوا تھا۔ یہی وہ دن تھا جب اہل حرم اور صحابی رسول حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری نے اربعین حسینی کی ابتدا کی۔
یہاں اک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صرف اک اتفاق تھا کہ حضرت جابرابن عبداللہ الانصاری اوراہل حرم کا قافلہ یوم عاشورہ کے چالیسوِیں دن یعنی اربعین کو ہی کربلاء پہنچے تھے یا چالیسوِں دن یا چالیس کےعدد کی دین اسلام میں کوئی اہمیت اورخصوصیت بھی ہے۔
اس حقیقت سے قطع نظرکہ دنیا کے کم و بیش تمام ادیان اورثقافتوں میں چالیس کے عدد کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں دین اسلام میں چالیس کے عدد کی اہمیت سمجھنے کے لئے قرآن کریم کو رجوع کرنا مفید ہوگا۔ چنانچہ ہم جب قرآن میں چالیس کا عدد اوراس کی اہمیت تلاش کرتے ہیں تو ہمیں چار مقامات ایسے ملتے ہیں جہاں ہمیں چالیس کے عدد کا ذکراوراہمیت معلوم ہوتی ہے۔
سب سے پہلے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 51 میں اس کا ذکرکیا گیا ہے۔ :
{ترجمہ} " اور ہم نے حضرت موسی ع سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کردیا اورظالم بن گئے۔"
یہاں یہ بات غورطلب ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی ع کے لئے چالیس راتوں کا ہی انتخاب کیوں کیا ؟ کیونکہ چالیس کاعدد اللہ تعالی کی جانب سے ہی متعین کیا گیا ہے اس لئے اس آیت سے چالیس کے عدد کی اہمیت منکشف ہوجاتی ہے۔
اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت 26 میں ارشاد ہورہا ہے:
{ترجمہ} : " ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پرچالیس سال تک حرام کردی گئِ ہے۔"
یہاں بھی چالیس سال کا تعین اللہ تعالی کی جانب سے ہی کیا گیا ہے جوچالیس کےعدد کی خصوصیت اور اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
سورہ الاعراف آیت 142 میں تو چالیس کے عدد کی اہمیت اللہ تعالی اس طرح بیان فرما رہا ہے کہ :
ترجمہ: " اورہم نے موسی علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اور اسے دس مزید راتوں سے مکمل کردیا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا وعدہ ہوگیا۔"
یہاں بھی یہ بات قابل غورو فکرکرہے کہ اللہ تعالی نے پہلے تیس راتوں کا تعین کرنے کے بعد ان میں دس مزید راتوں کا اضافہ فرما کر چالیس راتوں سے مکمل کیا اور اس طرح اللہ تعالی نے تاقیامت آنے والے لوگوں کے لئے چالیس کے عدد کی اہمیت اور اس کی تکریم کی نشاندہی فرمائی۔ یعنی چالیس کے عدد کو تیس کے عدد پر فوقیت و فضیلت عطا کی۔
سورہ الاحقاف کی آیت 15 سے بھی چالیس کے عدد کے اللہ تعالی کے نزدیک مخصوص ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ ارشاد ہورہا ہے:
ترجمہ: " ۔۔۔اور اس کے حمل اور دودھ بڑھائی کا کل زمانہ تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے دعا کی کہ پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں۔۔۔۔۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اعداد اللہ تعالی ہی کے تعلیم کردہ ہیں مگر اس نے کچھ اعداد کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے مخصوص فرمایا ہے۔ ان مخصوص اعداد میں چالیس کا عدد بھی شامل ہے جس کا ثبوت مزکورہ بالا قرآنی آیات کریمہ سے مل جاتا ہے۔
چالیس کے عدد کی اسی خصوصیت کے پیش نظر ہم اپنے اعزا کا غم بھی چالیس دن تک منانا باعث اجرو ثواب سمجھتے ہیں۔
چودہ سو سال قبل اربعین کے موقعہ پرزیارت کربلاء کا جوروح پرورسلسلہ اک برگزیدہ صحابی رسول اورحضرت امام زین العابدین ع کی قیادت میں شروع ہوا تھا وہ اب اک پرامن اتحاد انسانیت کا آفاقی مشن بن چکا ہے۔
کربلاء معلی کی جانب آنے والے زائرین کی ضیافت کا اہتمام اہل عراق بڑی عقیدت اور احترام سے کرتے ہیں جس کے لئے وہ جگہ جگہ سبیلوں اور مواکب کا انتظام کرتے ہیں۔ کربلاء جانے والے راستوں پران عارضی آرامگاہوں اورسبیلوں پراس مقام کے قبائل کے ناموں پران مواکب کی پہچان رکھی جاتی ہے۔
مواکب الحسینی کی اصطلاح ان اجتماعات اور جلوسھائے عزاء کے لئے مخصوص ہے جو اربعین کے موقعہ پر دور دراز مقمات سے کربلاء معلی کی جانب زیارت سیدالشہدا کے لئے منعقد کرنے کی غرض سے جاتے ہیں۔ ان مراکز پرشرب و طعام اور استراحت کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی زائرامام مظلوم کو کسی قسم کی بھی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔
اربعین کے موقعہ پر قافلہ زوار حسینی کی اک خصوصیت یہ بھی نظرآتی ہے کہ زائرین کرام پاپیادہ چلتے ہوئے نوحہ خوانی کرنے کے ساتھ ساتھ اک نعرہ " لبیک یا حسین ، لبیک یا حسین ع" لگاتے ہوئے چلتے ہیں۔
یہ نعرہ دراصل امام مظلوم کی اس ںدائے استغاثہ کے جواب میں لگایا جاتا ہے جب امام نے عصرعاشور اپنے تمام انصارواقرباء کے قتل ہوجانے کے بعد تنہا ہوجانے پرآوز دے کر پکارا تھا:
" ہے کوئی جو میری مدد کرے" ۔
یہ ندائے استغاثہ امام عالی مقام نے میدان کربلاء میں موجود لوگوں کی مدد حاصل کرنے کے نہیں دی تھی کیونکہ امام جانتے تھے کہ اس وقت کارزار حق میں وہ اس وقت تن تنہا ہیں جبکہ میدان میں ہرطرف باطل کی فوجیں ان کے قتل پر آمادہ ہیں جن پر امام کی ندائے استغاثہ کا کوئی مثبت اثر ہونے والا نہیں تھا۔ دوسرے یہ ندائے استغاثہ امام عالی مقام نے اپنی ذات اور وجود کے تحفظ کے لئے نہیں دی تھی بلکہ نصرت دین اسلام اور انسانیت کے تحفظ کے لئے دی تھی۔
دراصل امام حسین علیہ السلام یہ ندا تاقیامت آنے والے ہراس انسان کو مخاطب کرکے دے رہے تھے جس کے سینے میں اک حساس دل دھڑک رہا ہو، جو امن و آشتی کے لئے ہر مصیبت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو، جو انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت تیار ہو اور جو باطل کے خلاف کھڑے ہو جانے والے حق ہرستوں کا ہر وقت ساتھ دینے کا عزم رکھتا ہو۔
اس ندائے امام کا قول و عمل سے جواب دینے کے لئے عصر حاضر سے زیادہ اور کون سا موقع ہوگا جب دنیا میں ہر طرف ظالم و جابر باطل قوتیں عدل و انصاف کا قتل عام کررہی ہیں ، کمزورطبقوں کا استحصال کیا جارہا ہے اور ہر طرح کی آزادی سلب کی جارہی ہے۔
بس اربعین حسینی کے یہ زائرین یک زبان ہوکر اپنے امام کی نداء استغاثہ کا جواب " لبیک یا حسین " کہہ کر دیتے ہیں جس کا مطلب ہے " اے مرے مولا حسین ع میں آپکی نصرت کے لئے حاضر ہوں "۔ دوسرے الفاظ میں یہ نعرہ دراصل طاغوتی طاقتوں کے خلاف شروع کی گئی حسینی تحریک میں پرخلوص طریقہ سے شامل ہو جانے کا اک عہد بھی ہے۔
زائرین کا یہ عہد صرف روضہ مقدس کی آنکھوں سے زیارت کر لینے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ہر زائر ' لبیک یا حسین " کی صدا بلند کرکے صمیم قلب سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ مقصد حسینی کی تبلیغ و ترویج میں ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ اس عہد میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کی مختلف نسلوں ، تہذیبوں اور مذاہب سے ہوتا ہے کیونکہ امام کی نداء استغاثہ تمام بنی نوع انسان کے لئے تھی۔ " لبیک یا حسین " کا نعرہ وہ زائرین بھی لگاتے ہیں جو عربی سے ناواقف ہیں۔ پوری دنیا میں کسی مجمع کی یکجہتی اور اتحاد کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوگی۔ امام کے اس مشن میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں ہربرس اضافہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ مقصد حسینی اربعین کے توسط سے عام ہورہا ہے۔ اس لئے عصر حاضر میں باطل قوتوں اور ناانصافی کے خلاف پرامن طریقہ سے احتجاج کرنے کے لئے اربعین حسینی کے عظیم اجتماع اور پلیٹ فارم کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جس جذبہ ،ولولے اور جوش کے ساتھ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لوگ اس مشن میں شامل ہورہے ہیں یہ اک خوش آئند رجحان ہے۔