مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے جہاد کے بارے میں کسی طرح کا غور و خوض اور اسے ثابت کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی دلیلیں فراہم کرنا ایسا ہے جسے سورج کو چراغ دکھانا۔ اس سلسلے میں تمام مسلمان بلکہ تمام غیر مسلم بھی متفق ہیں اور کسی کو ذرہ برابر اختلاف یا شک و شبہ نہیں ہے کہ جہاد کے مرحلے میں مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تمام صحابہ میں سب سے زیادہ شجاع و بہادر اور میدان جہاد میں سب سے زیادہ ثابت قدم رہنے والے تھے اگر چہ صحابہ کرام کی حیات میں شجاعت و جواں مردی اور جہاد سے عشق و محبت ایک نمایاں حقیقت تھی جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس مرحلے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات سب سے ممتاز اور منفرد تھی۔ آپ کے لئے خاص طور پر انتہائی مشکل اور خطرناک مراحل میں جہاد اور راہ خدا میں ایثار و قربانی سے زیادہ قیمتی اور کوئی شئے ہرگز نہیں ہوتی تھی۔
ایسے سخت مراحل میں جب دوسرے اصحاب پیٹھ دکھا کر واپس آ جاتے تھے اور میدان جنگ کو سر کرنے سے عاجزی اور ناتوانی کا اظہار کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام توفیق الٰہی کے سایہ میں کسی طرح کے خطرہ کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے تھے اور مسلمانوں کو حلقۂ کفار سے نجات دلا کر ان کو درپیش مشکلات اور خطرات سے چھٹکارہ دلاتے تھے۔
ہماری اس گفتگو پر وہ تمام عظیم معرکے شاہد ہیں جن میں کفار و مشرکین یا اہل کتاب سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ نے سب سے نمایاں کارنامے انجام دئے جیسے بدر، خندق (احزاب) خیبرو حنین وغیرہ۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے خیبر کے دن فرمایا:
لا دفعن الرایۃ الیٰ الرجل یحب اللہ و رسولہ ٠٠٠٠٠٠
میں کل ایسے شخص کو علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوگا۔
حضرت عمر کا کہنا ہے کہ میں نے امیری اور سرداری کو اس دن سے زیادہ کبھی نہیں چاہا لیکن آپ نے پرچم حضرت علی علیہ السلام کو دے دیا اور فرمایا (بغیر فتح کے) واپس نہ آنا۔ آپ نے رسول اسلامؐ کے پاس جا کر دریافت فرمایا: کس چیز پر جنگ کروں؟ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: اس بات پر کہ وہ گواہی دے دیں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اگر وہ لوگ اس پر عمل کر لیں تو ان کا خون اور ان کا مال محفوظ ہے ،باقی ان کا حساب خدا کے ذمہ ہوگا۔ (۱)
جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام نے حق کی نصرت و حمایت کی انوکھی مثال قائم کر دی اور تمام اصحاب کے درمیان ایک منفرد اور ممتاز کارنامہ انجام دیا۔ پیغمبر اسلامؐ نے اس عظیم معرکہ میں جس عظیم اعزاز سے نوازا اس کی مثال تاریخ میں ملنا نا ممکن ہے۔ آپ نے واضح لفظوں میں اعلان فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام حق کا مجسمہ ، اس کا مکمل نمونہ اور اس کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔
جمہور علماء سے روایت ہے کہ عمرو ابن عبدود العامری نے جنگ خندق میں مبارز طلب کیا۔ تمام مسلمانوں نے اس کے مقابلے میں عاجزی اور ناتوانی کا اظہار کیا سوائے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے۔
آپ کے اس شجاعانہ اقدام اور جنگ کے لئے روانگی پر پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:
برز الایمان کلہ الیٰ الشرک کلہ
کل ایمان کل شرک کے مقابلہ پر جا رہا ہے۔(۲)
احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ امام حسنؑ نے مولائے کائناتؑ کی شہادت کے بعد خطبہ دیا اور فرمایا:
" لقد فارقکم رجل بالامس لم یسبقہ الاولون بعلم و لا یدرکہ الآخرون، کان رسول اللہ یبعثہ بالرایۃ جبرئیل عن یمینہ و میکائیل عن شمالہ لا ینصرف حتیٰ یفتح لہ
کل ایسا شخص تم سے جدا ہوا ہے جو علمی اعتبار سے اتنا بلند مرتبہ تھا کہ نہ پہلے والے اس سے آگے بڑھ سکے اور نہ بعد والے اسے پا سکتے ہیں۔ پیغمبر اسلامؐ انہیں پرچم اسلام کے ساتھ روانہ فرماتے تھے تو جبرئیل ان کی داہنی طرف اور میکائیل ان کی بائیں طرف ہوتے تھے اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آتے تھے جب تک خداوند عالم فتح و نصرت عطانہ فرما دے۔(۳)
خوارزمی سے روایت ہے کہ ہم سے عبید اللہ ابن عائشہ نے اپنے باپ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ مشرکین جنگ کے میدان میں جب حضرت علی علیہ السلام کو دیکھ لیتے تھے تو ایک دوسرے سے عہد و پیمان اور وصیت کرنے لگتے تھے۔ (۴)
حضرت جابر ابن عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں نے پیغمبر اسلامؐ کو صلح حدیبیہ کے دن فرماتے ہوئے سنا ۔ آپ حضرت علی علیہ السلام کا بازو پکڑے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے:
" ھذا امیر البررۃ و قاتل الفجرۃ، منصور من نصرہ، مخذول من خذلہ، ثم مد بہا صوتہ و قال:
یہ نیک اور ابرار لوگوں کے سید و سردار اور فاجروں کو قتل کرنے والے، مدد کرنے والے کی مدد سے بہرہ مند اورچھوڑ کر الگ ہو جانے والوں کا درد سہنے والے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اونچی آواز کرتے ہوئے فرمایا:
"انا مدینۃ العلم و علی بابہا فمن اراد الدار فلیات الباب۔" میں علم کا شہر اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں جو کسی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ دروازہ سے ہی وارد ہو۔(۵)
ابن عباس سے روایت ہے کہ بدر کے دن مہاجرین کی تعداد ۷۷ تھی اور انصار ۱۶۳ تھے اور پیغمبر اسلامؐ کے علمبردار حضرت علی علیہ السلام تھے جب کہ انصار کے علمبردار سعد ابن عبادہ تھے۔ (۶)
ابن عباس سے روایت ہے کہ مہاجرین کا پرچم ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک میں رہا چاہے بدر کی جنگ ہو یا احد کا معرکہ یاخندق و خیبر کی جنگ یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر بھی یہ پرچم آپ ہی کے پاس تھا اور ان تمام مواقع پر کہیں آپ سے الگ نہیں ہوا۔(۷)
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامؐ کی صحبت اور ان کی ہمراہی کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے جس میں اس موقع کی گفتگو بھی شامل ہےجب رسول اسلامؐ اور حضرت علی علیہ السلام خانۂ کعبہ کے اوپر رکھے ہوئے بتوں کو توڑنے کے لئے گئے تو حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامؐ کے دونوں کاندھوں پر سوار ہوئے۔ یہاں اس واقعے کو خود امیر المومنین علیہ السلام کی زبانی نقل کرتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
انطلقت مع رسول اللہؐ حتیٰ اتینا الکعبۃ فصعد رسول اللہ علیٰ منکبی ثم قال: انھض فنہضت فنھض بہ علی فلما رای رسول اللہ ضعفی قال لی: اجلس فجلست فنزل النبی و جلس لی و قال لی اصعد علیٰ منکبی فصعدت علیٰ منکبیہ فنھض بی فقال علی انہ یخیل الیٰ انی لو شئت لنلت افق السماء فصعدت علیٰ الکعبۃ و علیہا تمثال من صفر او نحاس فجعلت اعالجہ لازیلہ یمینا و شمالا و قداما و من بین یدیہ و من خلفہ حتیٰ استمکنت فقال النبی اللہ اقذفہ فقذفہ بہ فکسرتہ کما یکسر القواریر ثم نزلت فانطلقت انا و رسول اللہ نستبق حتیٰ توارینا بالبیوت خشیۃ ان یلقانا احد
میں اللہ کے رسول کے ساتھ چل رہا تھا یہاں تک کہ کعبہ کے پاس پہنچ گیا۔ پیغمبر اسلامؐ میرے کاندھوں پر سوار ہوئے اور فرمایا: اٹھو۔
جب پیغمبر اسلامؐ نے محسوس کیا کہ میں آپ کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا ہوں تو فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ پیغمبر اسلامؐ اترے اور زمین پر بیٹھ کر فرمایا: میرے کاندھوں پر سوار ہو ۔ میں ان کے کاندھوں پر سوار ہو گیا ۔ آپ مجھے لے کر اٹھے ۔
مولا فرماتے ہیں:
اس وقت مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو آسمان کی سب سے آخری بلندیوں کو چھو سکتا ہوں۔ میں کعبہ کے اوپر چڑھ گیا میں نے دیکھا کہ اس پر تانبے، پیتل اور رانگے کے بت رکھے ہوئے ہیں۔
میں انہیں ادھر ادھر گرانے کی کوشش کرنے لگا، کسی کو داہنی طرف گرایا، کسی کو بائیں طرف گرایا، کسی کو آگے ڈھکیلا اور کسی کو پیچھے پھینکا یہاں تک کہ سارے بت گرانے میں کامیاب ہو گیا۔ اللہ کے نبی نے فرمایا: انہیں توڑ دو۔ میں نے سارے بت توڑ دئے پھر میں اترا اور اللہ کے رسولؐ کے ہمراہ چل دیا۔
آپ جس طرف آگے بڑھتے تھے لوگ اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کوئی آپ کے سامنے پڑ جائے۔(۸)
یہاں پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے تمام خدائی کارناموں اور ان کی الٰہی زندگی کے تمام پہلوؤں کا خلاصہ پیغمبر اسلامؐ کے اس ارشاد میں بیان ہوا ہے جس میں آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو تمام گذشتہ انبیاء سے تشبیہ دی ہے۔ رسول اسلامؐ فرماتے ہیں:
من اراد ان ینظر الیٰ آدم فی علمہ و الیٰ نوح فی عزمہ و الیٰ ابراہیم فی حلمہ و الیٰ موسیٰ فی ھیبتہ و الیٰ عیسیٰ فی زھدہ فلینظر الیٰ علی ابن ابی طالب علیہ السلام
جو علم و آگہی میں جناب آدم ؑعزم و استقلال میں جناب نوح ؑ، حلم و بردباری میں جناب ابراہیم ؑ، ہیبت و وقار میں جناب موسیٰ ؑ، زہد و رع میں جناب عیسیٰ ؑکو دیکھنا چاہے اسے چاہئے کہ حضرت علی علیہ السلام کو دیکھے۔ (۹)
گذشتہ تمام انبیاء کے پراکندہ صفات و کمالات آپ کی
ذات با برکت میں یکجا نظر آئیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ مسند احمد ۳: ۸۶ ،ح ۸۷۶۴، مجمع الزوائد ۹: ۱۲۳، التاریخ الکبیر للبخاری ب۷: ۲۶۳، الطبقات الکبری لابن سعد ۲: ۱۱۰ باب غزوۃ رسول اللہؐ خیبر ، خصائص أمیر المئومنین علی بن أبی طالب للنسائی : ۵۹
۲۔ شرح نھج البلاغہ لابن أبی الحدید ۱۳: ۲۶۱ و ۲۸۵ ، ۱۹: ۶۱
۳۔ مسند احمد بن حنبل ۱: ۱۹۹
۴۔ ابن المغازلی فی مناقبہ : ۷۲، ۱۰۶
۵۔ تاریخ مدینۃ دمشق ۴۲: ۳۸۳
۶۔ تاریخ الطبری ۲: ۱۳۸
۷۔ تایخ دمشق لابن عساکر ترجمۃ : الامام علی علیہ السلام ۱: ۱۴۲ ، الفصول المائۃ ۱: ۳۰۷
۸۔ خصائص أمیر المئومنین للنسائی : ۱۱۳، و مستدرک الحاکم ۲: ۳۶۶ ، و مسند أحمد ۱: ۸۴ ، و کنز العمال ۶: ۴۰۷، والریاض النضرۃ ۲: ۲۰۰ ، و تاریخ بغداد ۱۳: ۳۰۲ ، و ذخائر العقبی : ۸۵
۹۔ ینابیع المودۃ للقندوزی ، الباب : ۴۰