تاریخِ اسلامی عمرو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ کو کبھی نہیں بھولے گی، کیونکہ ان کے دو مشوروں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا، ایک نے باپ (امیر معاویہ) کو مشورہ دیا کہ صفین میں قرآن نیزوں پر بلند کریں اور دوسرے نے بیٹے (یزید) کو مشورہ دیا کہ اپنے والد (امیر معاویہ) سے کہو کہ تمہاری (یزید) کی ولیعہدی کا اعلان کریں۔ دونوں کے اپنے اپنے مفادات تھے، مگر ان دو مشوروں نے مسلمانوں کے اندر انتشار اور فرقہ واریت کی بنیاد ڈالی۔ ورنہ دیکھا جائے تو کربلا کی جنگ شیعہ سنی سے ماورا ہے۔ وہ اس طرح کہ سن 61 ہجری میں مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک کے سربراہان یزید کو فاسق و فاجر سمجھتے تھے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ جب امیر شام مسجد نبوی میں یزید کی ولی عہدی کا اعلان کر رہے تھے تو سب سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ٹوکا کہ یہ طریق سابقہ خلفاء کا نہیں رہا، جس طرح تم یزید کو ولی عہد بنا رہے ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلمانوں کے ہر فرقے کے نقطہ نظر سے جن جن افراد کو اسلامی معاملات سے کوئی ورثہ پہنچتا تھا، ان تمام سے یزید کی بیعت طلب کی گئی، جن میں عبد الرحمن بن ابی بکر جو خلیفہ اول کے فرزند تھے، عبداللہ بن عمر جو خلیفہ دوم کے فرزند تھے، تیسرا عبداللہ بن زبیر اور چوتھے عبداللہ ابن عباس دونوں جلیل القدر صحابیوں کے فرزند تھے۔
ان سب نے یزید کے کردار کو دیکھتے ہوئے یزید کی بیعت کو مسترد کر دیا، یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں نے یزید کے خلاف قیام نہیں کیا۔ مگر اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کربلا کی جنگ کسی مسلک یا نظریہ کے خلاف نہیں اور نہ ہی کسی غیر مذہب کے خلاف ہے، بلکہ یزید جیسے فاسق اور فاجر کے خلاف ہے اور اسی لیے کوئی بھی چودہ صدیوں میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کو ناحق نہیں کہہ سکا۔ اب یہ بات تو روشن کی طرح عیاں ہے کہ کربلا کی جنگ شیعہ سنی سے ماوراء ہے، کیونکہ حسین ابن علی ؑ اسلام کا روشن چہرہ ہیں اور کربلا کو انسانی المیے کے طور پر لیا جائے، نہ کہ مسلکی نقطہ نظر کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔ سلام یا حسین ؑ