کل شام چھ بجے سے ہی چشم فلک نے اشک فشانی کا عندیہ دیکر اہل شعور کی دہلیز پر دستک دے دی تھی اور باضمیر افراد صرف دل کو بہلانے کے لیے خبروں کی تہوں تک جا کر حیات کی امیدیں باندھ رہے تھے ورنہ نیلے آسمان پر سیاہ بادلوں سے ہلکی ہلکی بارش کسی گریاں کناں کیفیت کی علامت بنی ہویی تھی یہ بات عام لوگوں کے لیے عام ہے مگر جن خواص کے سینہ میں ایک منٹ میں بہتر بار دھڑکتا ہوا دل اور درد دل بھی ہے تو ایسے وادی احساس میں قدم زن افراد ان استعاروں کے رموز و اسرار کو کلک قلم سے صفحہ قرطاس حقیقت پر رقم کرنے کا ہنر پیدا کر لیتے ہیں اس سے پہلے شب جمعہ کو جب درگاہ عالیہ باب الحوایج لکھنو میں قبل از مغرب شرف زیارت کے لیے مع اہل و عیال گیا تو چھوٹی بیٹی نے شفق کے ماتھے پر بکھری ہوئی سرخی کو دیکھا تو بے خیالی میں مجھ سے کہنے لگی بابا آسمان کی جانب دیکھیں کتنا خوبصورت لگ رہا ہے اور ہم نے جیسے ہی اپنی آنکھوں کو آسمان کی جانب کیا کیا دیکھا حمرہ مشرقیہ مشرق سے سفر طے کرکے مغرب کے ماتھے پر سج چکی تھی مگر آج کی سرخی کی کیفیت میرے مشاہدے کی روشنی میں کچھ عجیب سی تھی جا بجا خون کے دھبہ سے دیکھا دے رہے تھے جس نے مجھے اچانک اس جانب متوجہ کیا کہ خدا خیر کرے یہ خونی کیفیت آسمان میں کیوں ہے اور دوسرے ہی دن سے یہ خبریں گردش کرنے لگی کے لبنان کے جنوبی علاق ضاحیہ میں ہزاروں ٹن بارود برس رہا ہے اور مظلوموں کی چیخیں بلند ہیں شہادتوں کا خیمہ آباد ہے اور سگ صفت اسراییلی دہشت گردوں کی ٹولیاں خون کی ہولی کھیل رہی ہیں اور فلک حقیقت نے خون کے آنسو رونا شروع کردیا ہے کبھی کبھی واقعات قلم فکر پر دستک دیتے ہیں مگر دنیا کی ضرورتوں کا شور شعور پر غالب آجاتا ہے اور تقوی و تقدس کی کمی بسا اوقات حق شناسی سے دور کردیتی ہے اور حب دنیا کا حجاب نہ جانے کتنے حقایق سے چشم پوشی کی راہ دکھلا دیتا ہے مگر جب کلک قلم فکر رواں کے ساتھ میل کھاتا ہے تو پرانی دستکوں کی آوازوں کی بازگشت ہونے لگتی ہے اور جولانی فکر کتاب حیات کے اوراق پر شہادتوں کے خیمے تلاش کرتی ہے اور اسکی طنابوں سے نورانی پہرے داروں کو پا لیتی ہے موسم کی اداسی دل کی خاموشی ماحول میں عجیب سا سناٹا کسی چیز میں دل کا نہ لگنا ہر کام سے من کا اچٹنا محبوب کے مصیبت میں ہونے کا ایک رمز ہے بس خدا کرے کے یہ پاپی دل اس رمز حیات کا ادراک کرلے اور فہم و فراست اس کیفیت و حیثیت کو قلم بند کر لے ۔
وہ راہی ملک شہادت ہوا
یا مسافر بہشت بریں ہوا وادی مغفرت سے گزرتا ہوا وہ رحمت الہی کے سایہ میں پناہ گزیں ہو گیا تیس برس کی عظیم ذمہداری کے بعد ترسٹھ برس کی تکمیل نے شہادت کا الارم بجا کر اس کے کاسہء گدایی میں عصمتوں کی قیادتوں کی جھلک کا نتیجہ دیکر قربتوں کا حق دے دیا ورنہ ترسٹھ برس کی حیات میں جام شہادت یا نبوت کو ملتا ہے یا امامت و صداقت کو مگر جو انکے نقش قدم کا راہی ہو خاک قدم کو سرمہ بنایا ہو صراط صبر کا سالک رہا ہو تو اسکا حق تھا کہ کتاب حیات کے آخری صفحہ پر لکھی ہویی کاتب تقدیر کی عبارت شہادت کو قبول کر کے شاکر رب کعبہ ہو جایے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ قرار پا سکے ہماری جانیں قربان اس عاشق آل محمد ص پر جس نے پوری قوت کے ساتھ دفاع حرم کے فریضہ کو انجام دیا اور کلنا عباسک یا زینب کے اس باوقار نعرے کی گونج سے دہشت گردوں کا درندہ صفت ٹولہ بھاگتا نظر آیاخیبر کی شکست کا بدلہ لینے والے اس چشم حقیقت کے آنکھیں موند لینے کو اپنی کامیابی نہ سمجھیں ۔
سرزمین لبنان نے شہیدوں کی کاشتکاری کی ہے یہاں لہو سے زمیں کی سینچایی کی گیی ہے مصیبتوں اور آتش جنگ کی تمازت نے سورج کی حرارت دے دی اور اس طرح شجر شہادت پروان چڑھتا رہا بلکہ یوں کہا جایے کہ شہادت کا رنگ حنا ہر ہتھیلی پر کھلا ہے اور کھلتا رہیگا خوش قسمت ہیں وہ قومیں جو شرف شہادت سے سرشار نظر آتی ہیں خدا انھیں نسلوں میں برکت دیتا ہے جن کے حوصلوں میں شہادت کے جزبے پروان چڑھتے ہیں ۔
رب کریم سید حسن نصراللہ اور انکے رفقاء کار شہداء اسلام کے درجات بلند فرمایے ہم اس عظیم سانحہ پر حضرت بقیہ اللہ الاعظم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو انکے سپاہی کی اور عالم اسلام و مظلومین عالم کو انکے مسیحا کی اور رہبر معظم کو انکے دست راست قوت بازو کی شہادت کی تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔