مفکرِ اسلام ڈاکٹر مولانا سید کلب صادق نقوی
زمانہ بھی کتنا ظالم ہے ! رسولؐ کے بڑے نواسے نے صلح کرلی تو کہا جانے لگا کہ حسنؑ کا دل کمزور تھا اور پیسے کی لالچ تھی ۔ چھوٹے نواسے نے جان دے دی ، بیعت نہ کی تو کہا جانے لگا کہ حسینؑ ضدی تھے ، بزرگوں کا مشورہ نہ مانا ۔ وہ اعتراض بھی مسلمانوں کا، یہ اعتراض بھی مسلمانوں کا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ رسولؐ کے ان کلمہ گویوں نے نہ بڑے نواسے کے لئے رسولؐ کے ارشاد کو دیکھا ، نہ چھوٹے نواسے کے لئے سنت رسولؐ کو قابل توجہ سمجھا ۔ برادران اہل سنت ہی کے یہاں یہ حدیث معتبر بھی ہے کہ حضورؐ نے اپنے بڑے نواسے کے لئے ارشاد فرمایا کہ ’’ میرا یہ کریم بن کریم بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کا سبب بنے گا ۔ اور یہ روایت معتبر بھی کہ حسینؑ کی شہادت کا حال حضورؐ اصحاب و ازدواج و اہل بیت ؑ کو رو رو کرسناتے رہے ۔
مسلمان کبھی ایک نواسے کو نیچا کرتے رہے اور کبھی دوسرے کو ، مگر رسولؐ نے نہ اس کو نیچا ہونے دیا نہ اس کو ۔ جو ایک کے لئے کہا وہی دوسرے کے لئے، جو ایک کے لئے کیا وہی دوسرے کے لئے۔ امام کہا تو دونوں کو ، سردار جنت کہا تو دونوں کو ، عرش کا گوشوارہ بتایا تو دونوں ، اپنے چمن کا پھول کہا تو دونوں کو ، حسنؑ کےلئے کہا کہ حسنؑ مجھ سے اور میں حسنؑ سے ، حسینؑ کے لئے کہا کہ حسینؑ مجھ سے میں حسینؑ سے ، پھر کاندھے پر بٹھایا تو دونوں کو ، ، ناقہ بنے تو دونوں کے لئے ، ہاتھوں میں زلفیں دیں تو دونوں کے لئے ، حسنؑ سجدے میں پشت پر آگئے تو سجدے کو طول ، حسینؑ پشت پر آگئے تو سجدہ طولانی ۔۔۔ مگر بعض لوگوں کو نہ حسنؑ اچھے لگے نہ حسینؑ ، ان پر بھی اعتراض اور ان پر بھی ۔ انھوں نے صلح کیوں کی ؟ انہوں نے جنگ کیوں کی ؟ ان حضرات کو دونوں کے لئے بس ایک ہی شے پسند تھی اور یہ شے بھی بیعت ! حسنؑ معاویہ کی بیعت کرلیتے ، حسینؑ یزید کی بیعت کرلیتے تو ان دونوں سے بہتر کوئی نہ تھا !
ان لوگوں سے زائد با معرفت تو ابن سعد ہی تھا کہ جب ابن زیاد کی طرف سے شمر کے ذریعہ حسینؑ سے بیعت لینے پر اصرار ہوا اور صلح کی گفتگو سے روک دیا گیا تو ابن سعد نے ریمارک پاس کیا: ’’حسینؑ بیعت تو ہرگز نہ کریں گے ، انّ بین حینیہ نفس ابیہ ‘‘ اس جملے میں ’’ابیہ‘‘ کو دو طرح پڑھا جاسکتاہے ۔ ’’اَ بِ یْ ہٌ‘‘ اور ’’ اَبِ یَّ ۃٌ ‘‘ پہلی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ بیعت نہ کریں گے ‘‘ان کے سینے میںا ن کے باپ کادل ہے ‘‘ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ بیعت نہ کریں گے ۔ ‘‘ ان کے سینے میںا یک غیرت مند اور خوددار دل ہے ۔ ‘‘ جو دل حسینؑ کے سینے میں تھا وہی حسنؑ کے سینے میں اور وہی علیؑ کے سینے میں اور وہی ہر امامؑ کے سینے میں اور وہی خود رسولؐ کے سینے میں ۔ اسی لئے محمدؐ و آل محمدؐ کی تاریخ میں صلح تو اکثر ملے گی مگر بیعت کبھی نہ ملے گی ۔
بہت گھسی پٹی ضرب المثل ہے کہ ’’ انسان جیسا ہوتاہے ویسا ہی دوسرے کو سمجھتا ہے ۔ ‘‘ ضرب المثل بہت چلتی ہوئی ہے اس لئے کہ حقیقت بھی یہی ہے کسی ہستی کے حالات کا تجزیہ کرتے وقت انسان اس ہستی کے کردار و طرز فکر کو سمجھانا چاہتاہے
مگر حقیقتاً اس تجزیہ کی روشنی میں خود اس کا کردار اور طرز فکر نمایاں ہوجاتا ہے ۔
آج کی خود غرض ، پست نظر ، سیاست زدہ ، مکارو عیار دنیا کے نمائندے جب مرد ان حق کی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان کی نظر کی پستی ، پست توجیہات ہی کی جستجو میں مفاد انسانی کو مفاد ذاتی پر قربان کردینے کے لئے عادی تصور ہی نہیں کرسکتے کہ اسی دنیا میں بعض خدا کے بندے ایسے بھی گذرے ہیں جو مفاد انسانی کے لئے ذاتی مفاد ہی کو نہیں اپنی ذات تک کو قربان کردینے کے لئے تیار رہا کرتے تھے ۔
محمدؐ وآل محمدؐ وہ انسان دوست الٰہی رہنما تھے جنہوں نے اپنی ذات کو مفاد انسانی کی حفاظت کے لئے قربان کردیا تھا ۔ ان کا اپنا فلسفہ حیات تھا ۔ جو وحیٔ الٰہی کے اشاروں پر مبنی اس فلسفے کی بنیاد تھی ’’تقرب الٰہی۔ ‘‘اسی فلسفہ کے ذیل میں صلح وجنگ کے لئے بھی ان کے کچھ اعلیٰ اصول تھے جن میں سے بعض یہاں ذکر کئے جارہے ہیں ۔ انہیں اصولوں میں سے کسی ایک اصول کے تحت محمدؐ وآل محمدؐ نے جنگ یا صلح کی راہ اپنائی ہے ۔
۱۔سب سے مقدم ہے اسلامی اصولوں کی حفاظت ۔ اسلام کسی قیمت پر قربان نہیں کیا جاسکتا ۔ اصولوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ جہاں تک ممکن ہوسکے دوسروں کی جان بھی بچاؤ، اپنی بھی ۔ لیکن جب سوال ہو کہ جانیں بچائی جائیں یا اصول تو اصول بچالو ۔ ‘‘ جانیں بے دھڑک جانے دو ، خواہ دشمنوں کی ہوں یا تمہاری اپنی ۔ انسان دوسرے پیدا ہوجائیں گے مگر دین دوسرا نہ مل سکے گا۔
اسی اصول کو تین اماموںؑ نے اپنے کردار میں تقسیم کرلیا ۔
اصول بچائے جائیں اور جانیں بھی ، کیونکر ؟ یہ بتایا حسنؑ نے ۔
اصولوں کی حفاظت دوسروں کے قتل پر منحصر ہو تو خون بہانے میں تکلف نہ کرو ، کیسے ؟ اسے سمجھا یا علیؑ نے ۔
اصولوں کی حفاظت اپنے اور اپنے اہل بیت اور دوستوں کی جانوں کی قربانی پر منحصر ہو تو ان سب کو کٹوا کر دین بچالو، کس طرح ؟ یہ دکھادیا حسینؑ نے ۔
آل محمدؐ کے نزدیک جو کچھ تھا وہ دین تھا، دین کو ہر قیمت پر بچانا تھا، ان کے مقابلے میں منافقین کے پیش نظر جو چیز تھی وہ حکومت تھی ، جسے ہر قیمت پر حاصل کرنا تھا اور حاصل ہوجائے تو بچائے رکھنا تھا ۔ ایک کے پیش نظر دین تھا ، دینی اصول تھے، دوسرے کی نظر میں صرف اور صرف تخت حکومت تھا ۔ ایک دین کے بچانے کے لئے سب کچھ قربان کردینے پر تیار تھا۔ دوسرا حکومت کے لئے سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ تھا مگر اتنے فرق کے ساتھ کہ وہاں ہر بات کی تہہ میں قربانی تھی ، یہاں ہر بات کی تہہ میں مکاری تھی ۔ حکومت ، حکومت ، حکومت ۔ خواہ اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے ۔ ابن الوقت بن کر حکومت ملے بن جاؤ، روپیہ خرچ کرکے حکومت ملنے کا امکان ہو بے دریغ خرچ کرڈالو ۔ صلح کے ذریعہ مل سکے ، صلح کرکے حاصل کرلو ، جنگ وسیلہ ہو جنگ کرڈالو ، بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوکر ملے، یونہی لے لو ۔ آل محمدؐ دین کے لئے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار تھے ، بنی امیہ حکومت کے لئے ہر قیمت دے دینے پر آمادہ تھے ، دونوں اپنے اپنے مقصد کے لئے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار تھے، مگر ایک قیمت وہ تھی جسے آل محمدؐ ادا نہ کرسکتے تھے اور ایک قیمت وہ تھی جسے مخالفین آل محمدؐادا نہ کرسکتے تھے ۔ وہ اس جہاد میں مکاری کو نہ اپنا سکتے تھے ، اس لئے کہ مکاری سے دین بچایا جاتا تو خود دین برباد ہوجاتا ۔ بنی امیہ ہر قیمت ادا کرسکتے تھے مگر جان قربان کرنے پر تیار نہ تھے ۔ اس لئے کہ ’’جان ہے تو جہان ہے ‘‘ جان ہی نہ رہی تو حکومت سے کیا فائدہ؟ اسی لئے میدان صفین میں امیر شام نے حکومت باطل کے لئے ہزاروں کو کٹوادیا ، کوئی حیلہ اٹھا نہ رکھا ، کوئی سازش باقی نہ چھوڑی ، مگر جب علیؑ نے آواز دی کہ دوسروں کو کیوں کٹوا رہاہے ، خود نکل آ میرے مقابلہ میں کہ تو مجھے قتل کردے تو حکومت تیری ہوجائے اور میں تجھے قتل کردوں تو خس کم جہاں پاک ہوجائے ۔ مگر معاویہ چوہے کی طرح بل میں دبک گیا ۔ دوسروں کو کٹواتا رہا ۔ خود جان خطرے میں نہ ڈالی۔ اسی ایک بات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ کون دنیا کے لئے لڑرہاتھا ، کون دین کے لئے ؟
۲۔بہر حال یہ تھا صلح وجنگ کے سلسلے میں محمدؐ وآل محمدؐ کا پہلا اصول ۔ دوسرا اصول تھا کہ نہ طاقت سے دبیں گے، نہ طاقت سے دبائیں گے ۔ مخالفین آل محمدؐ کا اصول تھا طاقت سے دبائیں گے، طاقت سے دبیں گے ۔ ایک اصول کرامت نفس کا آئینہ دار تھا، دوسرا خباثت نفس کا ۔ رسولؐ کے پاس بدر واحد میں طاقت نہ ہونے کے برابر تھی ، اسلام دشمن گروپ زبردست طاقت لے کر آیاتھا مگر حضورؐ نے طاقت کے سامنے دبنے سے انکار کردیا اور ناطاقتی کے باوجود باطل سے مورچہ لینے کے لئے تیار ہوگئے ۔ حدیبیہ میں صورتحال برعکس تھی ۔ آج رسولؐ کے پاس طاقت تھی اور کفر کمزور و ناتواں تھا ۔ مگر رسولؐ نے کفر کی منہ مانگی شرطوں پر صلح کرلی ۔ اسی سیرت پر رسولؐ کے دونوں نواسے چلے ۔ حسنؑ کے پاس لشکر تھا ، طاقت تھی، جنگ کرسکتے تھے، مگر صلح کی منہ مانگی پیش کش ہوئی تو قبول کرلی ۔ حسینؑ کے پاس لشکر تھا تو بے کسی کا ، فوج تھی تو ناطاقتی کی، مگر حسینؑ نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا ۔ سرکٹا دیا مگر سرجھکانے پر تیار نہ ہوئے ۔
۳۔محمدؐ و آل محمدؐ کا تیسرا اصول تھا کہ جنگ ہو یا صلح ، ذات اور ذاتی مفاد درمیان میں نہ آنے پائے ۔ وہ کیا جائے جو ہدایت کے لئے مناسب ہو ۔ حسنؑ کا منصب بھی امامت تھا اور حسینؑ کا منصب بھی امامت تھا ۔ امامت کے معنی ہیں ’رہنمائی ‘،’رہبری‘ ۔ اس لئے امامؑ کے پیش نظر سوائے امت کی ہدایت اور ملت کی رہنمائی کے کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی ۔ رہنمائی اگر صلح کے ذریعہ ہوسکے گی توصلح کرلی جائے گی ۔ رہنمائی اگر جنگ کے ذریعہ ممکن ہوگی تو جنگ کرلی جائے گی ۔
حالات کا ذرا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ امت کی رہنمائی کے لئے دورِ حسنؑ میں صلح ہی مناسب تھی اور امت کی ہدایت کے لئے دورِ حسینؑ میں جنگ ہی درست تھی ۔ امتیاز حق و باطل حسنؑ کے دور میں صرف صلح ہی کے ذریعہ ممکن تھا اور حسینؑ کے دور میں امت کی آنکھوں میں پڑے ہوئے غفلت کے پردوں کو صرف جہاد حق ہی کے ذریعہ دور کیا جاسکتاتھا۔
آئیے ! حالات کا تجزیہ کرکے اس حقیقت کو روشن کیا جائے ۔
علیؑ کے دورِ حکومت میں شام کی پروپیگنڈا مشینری نے جھوٹ کا وہ طوفان اٹھایا تھا کہ آفتاب امامت تک گردو غبار کے بادلوں میں چھپ گیا تھا ۔ ۱۹؍ رمضان المبارک کو علیؑ کے سر پر مسجد میں ، عالم نماز میں تلوار لگی اور اس کی اطلاع شام پہنچی تو آپ جانتے ہیں کہ شام والوں پر کیا رد عمل ہوا؟ انھوں نے کہا ’’ اچھا ! اس کا مطلب یہ کہ علیؑ مسجد جاتے تھے !! اس کا مطلب یہ کہ علیؑ نماز پڑھتے تھے !!! کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ۔ یہ تو شام کی حالت تھی کہ وہاں علیؑ کو (معاذاللہ ) ڈاکو سمجھا جاتا تھا ، بے نمازی سمجھا جاتا تھا ، مستحقِ لعن سمجھا جاتاتھا ۔ خود عراق و حجاز کی حالت بھی اچھی نہ تھی یہاں بڑے لوگوں کے دین خریدے جاچکے تھے چھوٹوں میں اتنی تمیز نہ تھی کہ حق وباطل کو پہچان سکیں ۔ وہ حق و باطل سے شخصیتوں کو نہیں شخصیتوں سے حق وباطل کو پہچاننے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔ وہ حق کی پیروی نہیں کرتے تھے بڑوں کی پیروی کیا کرتے تھے۔ جدھر یہ ’’بڑے ‘‘ اس طرف’’ پھلکیاں ‘‘ بھی چل پڑیں ۔ ان حالات میں حجاز و عراق میں بھی اکثر افراد کی نظروں میں یا تو علیؑ کی قیادت باطل تھی یا کم ازکم مشتبہ ہوگئی تھی ۔ ظاہر ہے کہ قیادت کے بارے میں یہی فضا وراثت میں حسنؑ کو ملی تھی ۔ یعنی حسنؑ کے دور میں مسلمانوں کی اکثریت قیادت کے بارے میں یا شبہات کی شکار تھی ، یا کھلم کھلا معاویہ پر اعتماد کررہی تھی ۔ حسنؑ امامِ وقت تھے ، امامت ور ہنمائی ان کا الٰہی فریضہ تھا انہیں ایسی راہ پر چلنا تھا کہ اتمام حجت ہوجائے اور باطل کی خباثت ابھر کر سامنے آجائے ۔ حسنؑ نے صلح کرکے باطل کو ایکسپوز ہوجانے کا موقع دے دیا کہ دنیا دیکھ لے کہ اسلام کا نام صرف اسلام کے نام پر حکومت حاصل کرنے کے لئے ہے ۔ حکومت مل جائے گی تو اسی حکومت سے اسلام کے گلے پر چھری پھیری جائے گی ۔ حسنؑ کو گویا بے بس بنایا جاچکا تھا ۔ پورے عالم اسلام پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کا نشہ تھا ، اسی نشہ نے امیرشام میں چھپے ہوئے جانور کو ابھارنا شروع کیا اور معاویہ کے جسم میں حلول کی ہوئی ابولہب و ابوجہل و ابوسفیان کی روحوں نے دھیرے دھیرے نمایاں ہونا شروع کردیا ۔ دینی اقدار مٹائے جانے لگے ۔ جاہلی قدریں واپس آنے لگیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ کافروں سے بھی صلح کرو تو صلح کی پابندی کرو ۔ یہاں نواسۂ رسولؐ سے کئے ہوئے صلح نامے کو پیروں تلے روندا گیا ، لوگوں کے دین کو درہم و دینار کے عوض خریدا جانے لگا ، جو بیچنے پر تیار نہ ہوئے انہیں موت کی نیند سلا دیا۔ متقی اور پارسا لوگوں کا خون ارزاں ہوگیا ، دربار شام میں قرآن کی جگہ شاعروں کی فحش غزلیں گونجنے لگیں۔ راتوں کو تسبیح کی آواز قصہ گویوں کی کہانیوں کی لے میں بدل گئی ، زندوں کو قبروں میں سلایا گیا ، مردوں کو نہر کھودنے کے بہانے قبروں سے نکلوایا گیا ، رسولؐ کے جگر پاروں پر منبر رسولؐ سے گالیوں کی بوچھار شروع کی گئی ، قصاص عثمان کے بہانے علیؑ کی زندگی اجیرن بنادی گئی تھی ۔ حکومت مل گئی تو نہ عثمان یادر ہے نہ ان کا قتل ۔ !
ادھر رسولؐ کا بڑا نواسہ مکمل سکوت اختیار کرکے باطل کو جی بھر کر ابھرنے کا موقع دے رہاتھا ، لوگ سمجھ رہے تھے کہ معاویہ کو حسنؑ سے دشمنی حکومت کے سبب ہے مگر آخر یہ بھی دیکھ لیاگیا کہ حکومت دے دینے کے باوجود حسنؑ کی زندگی باطل سے برداشت نہ ہوئی اور زہرکے ذریعے چراغ حیات حسنؑ خاموش کردیا گیا ۔ بہ ظاہر چراغ خاموش ہوگیا تھا ، شمع بجھ گئی تھی ۔ مگر اس بہ ظاہر خاموش چراغ اور بجھی ہوئی شمع سے ایکس ریز سے ملتی جلتی ایسی غیر مرئی اور اندیکھی نورانی لہریں نکل رہی تھیں جس کے سامنے باطل بالکل عریاں ہوچکا تھا۔ معاویہ دنیا سے رخصت ہوا ، باطل کا دوسرا نمائندہ یزید تختِ حکومت پر آیا ۔ باپ کی رہی سہی کسر کو یزید نے پورا کردیا ۔
اسلام کا ایک ماہر ڈاکٹر صلح کے ایکس رے سے مرض باطل کو نمایاں کرچکاتھا ، اب دوسرا ڈاکٹر آپریشن کے لئے آگے بڑھا جیسا کہ عرض کیا جاچکاہے ، حسنؑ کے دور میں قیادت اسلامی کو مشتبہ بنادیا گیا تھا کہ واقعی قائد یہ ہیں یا وہ، حسنؑ کی صلح نے شبہے کے پردے چاک کر دئے اور لوگوں نے حق و باطل کو اچھی طرح پہچان لیا ۔ حسینؑ کا دور آیا تو قیادت آل رسولؐ میں مسلم ہوچکی تھی ، بنی امیہ کا دھوکہ اور فریب ظاہر ہوچکا تھا مگر باطل نے دہشت و بربریت کے ذریعے لوگوں کو اتنا مرعوب اور دہشت زدہ کررکھا تھا کہ باطل کو پہچان لینے کے باجود اس کے خلاف لب ہلانے کی کسی میں ہمت نہ تھی ۔ یعنی حسنؑ کے دور میں مسئلہ تھا ۔ ’’بے بصیرتی‘‘ اور حسینؑ کے دور میں مرض تھا ’’کم ہمتی‘‘ وہاں آنکھوں کو بصیرت دینا تھی اور حسنؑ اس بارے میں اپنی حکمت عملی میں صد فی صد کامیاب رہے ۔ یہاں باطل کی مصنوعی طاقت کا بھر م کھولنا تھا ، اس کی کمزوری کو نمایاں کرنا تھا ۔ ضرورت تھی کہ باطل کے رخسارے پر برسر عام طمانچے لگا کر اس کا بھر م کھول دیا جائے ۔ اس کی طاقت کا پول کھول دیا جائے۔
اسی لئے حسینؑ اپنے ساتھ صرف عباسؑ و علی اکبرؑ کے ایسے جوانوں ہی کو نہیں لائے ، مسلمؑ وحبیبؑ کے ایسے بوڑھوں کو بھی لائے ، غلاموں کو بھی لائے، عورتوں کو بھی لائے ، بچوں کو بھی لائے، حسینؑ نے کربلا کے میدان میں باطل کو اتنا بے بس کردیا تھا کہ بوڑھوں نے اسے طمانچے لگائے ، غلاموں نے اس کے منہ پر تھوکا ، عورتوں اور بچوں نے ٹھوکریں لگائیں ۔ یہاں تک کہ حسینؑ کی گود میں چھ ماہ کے اصغرؑ نے بھی ہمک ہمک کر فرعونِ وقت کی ڈاڑھی موسیٰ وارنوچی۔ حسینؑ کربلا کے میدان میں باطل سے سہمے ہوئے مسلمانوں کو آواز دے رہے تھے کہ باطل کے ان بہ ظاہر لمبے تڑنگے بتوں سے ڈرو نہیں ، یہ بے جان ہیں ان میں کے کچھ وہ ہیں جن کو میرے بچوں تک نے کربلا میں توڑ کر ڈال دیا ہے ، جو رہ گئے ہیں ان کو زمیں بوس کرنے کے لئے ، ذلیل ورسوا کرنے کے لئے ، میری زینبؑ میری ام کلثومؑ، میری سکینہؑ ، میرے اہل حرم کوفہ وشام تک جائیں گے ۔ اس عدیم المثال حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ باطل کو پہچاننے کے باوجود اس کے خلاف لب کھولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے ، ان میں تلوار لے کر باطل سے مورچہ لینے کی ہمتیں بندھ گئیں ۔ شہید خود ہی زندہ نہیں ہوتا ، حقیقتاً وہ زندگی بخش ہوتا ہے ۔ شہادت حسینؑ نے مردوں میں ، بے جان مسلمانوں میں، جان ڈال دی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہادت حسینؑ کے بعد بنی امیہ کی ایک رات بھی سکون سے بسر نہ ہوئی ۔ کبھی مدینے میں تلوار بلند ہوگئی ، کبھی مکے میں ، کبھی عراق میں ، کبھی حجاز میں ۔ آخر وہ وقت بھی آگیا جب فراعنۂ بنی امیہ کی بوسیدہ ہڈیوں کو بھی قبروں سے نکال نکال کے جلادیا گیا ۔ یہ شہادت حسینؑ ہی کا اثر تھا کہ دلوں سے مرعوبیت ختم ہوگئی اور نہتے عوام نے ایک ظالم و جابر حکومت کا تختہ الٹ دیا اور شام سے بنی امیہ کا تخت یوں اکھڑا کہ قبریں بھی سالم نہ رہ سکیں ۔
چراغ امامت ایک ہی تھا ، ہاتھ بدل رہے تھے ۔ کبھی یہی چراغ حسنؑ کے ہاتھ میں تھا ، کبھی حسینؑ کے ہاتھ میں ۔ حسنؑ کے ہاتھ میں یہ چراغ آیا تو حسنؑ نے اسے باطل کے چہرے کے سامنے لاکر باطل کے بھیانک چہرے کو نمایاں کر دیا۔ حسینؑ کے ہاتھ میں یہی چراغ آیا تو حسینؑ نے اسی چراغ سے باطل کے خرمن میں آگ لگادی ۔ اور پھر اسی چراغ سے صدیوں بعد ایک قوم نے اپنے ایمان کے چراغ کو روشن کرلیا ۔ وہ اپنے اس ایمانی چراغ سے ، جس کی لو چراغ امامت سے ملی ہوئی ہے ، ایک طرف باطل کو پہچان بھی رہی ہے ،رہی سہی دوسری طرف باطل کے خرمن میں آگ بھی لگا رہی ہے ۔
۶۱ ھ میں چراغ امامت نے کوفہ ودمشق کو راکھ بنادیا تھا ، ایرانیوں کے ایمان کے چراغ نے امام عصرؑ کے سائے میں اور نائب امام کی سربراہی میں واشنگٹن ، تل ابیب ، بغداد ، ریاض اور عمان میں آگ لگادی ہے ۔
خدا وہ وقت جلد لائے جب ہم بھی اپنے ایمان کے بجھتے ہوئے چراغ کو ایک مرتبہ پھر انہیں چراغوں سے روشن کرلیں تاکہ ہم میں حق وباطل کی تمیز کی قوت بھی پیدا ہوجائے ۔ اور باطل سے مورچہ لینے کی ہمت بھی۔