جنت البقیع میں موجود دختر رسول ؑ،ائمہ معصومین ؑ ،صحابہ ٔ کرامؓ اور ازواج پیغمبرؐ کی قبروں کی مسمار ی کے ۹۰ سال پورے ہوچکے ہیں۔سعودی عرب میں وہابیت کے سرغنہ محمد بن عبدالوہاب کے زمام اقتدار سنبھالتے ہی آل رسولؐ پر انکی ظاہری زندگی کے بعد سعودی حکومت کا یہ پہلا بڑا ظلم تھا ۔وہابیت جو آج تکفیریت کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے شعائر اسلامی اور مقدسات اسلامی کے خاتمہ کے لئے آج بھی سینہ سپر ہے ۔آج بھی قبریں کھودی جارہی ہیں اور اصحاب رسول کی لاشوں کی توہین کی جارہی ہے مگر صحابہ کرام کی محبت کا دم بھرنے والے اور صحابہ کرام کی جھوٹی توہین کے جرم میں شیعوں کے قتل کا فتویٰ جاری کرنے والے نام نہاد مفتیوں کی زبان سعودی عرب کے خلاف فتویٰ دیتے ہوئے کیوں گنگ ہو جاتی ہے ۔جنت البقیع میں رسول کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ کی قبر کے علاوہ خلیفۂ سوم حضرت عثمان ابن عفان، رسول کے فرزند حضرت ابراہیم،رسول خدؐ کے نواسے امام حسن ؑ،رسول خداؐ کی اولاد میںامام زین العابدین ،امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق ؑ کی قبریں ہیں۔ساتھ ہی مسلمانوں کے خلیفہ حضرت علیٰ کی والدہ فاطمہ بنت اسد،رسول کے چچا عباس بن عبدالمطلب،ازواج رسول میں جناب زینب بنت خزیمہ،جناب ریحانہ بنت زید،جناب ماریہٴ قبطیہ، جناب زینب بنت جحش،جناب عائشہ بنت ابی بکر،جناب ام حبیبہ،جناب حفصہ بنت عمر،جناب سودہ بنت زمعہ،جناب صفیہ بنت حی،جناب جویریہ بنت حارث، جناب ام سلمہ کی قبریں موجود ہیں۔صحابۂ رسول میں جناب مالک ابن انس،حضرت عقیل ابن ابی طالب،جناب نافع،جناب عثمان بن مظعون،جناب عبداللہ بن مسعود،جناب ابو سعید خدری،جناب جابر عبداللہ انصاری،جناب مقداد اسود کندی،دفن ہیں۔اس قبرستان میں رسول خداؐ کی پھوپھی عاتکہ بن عبدالمطلب اور صفیہ بن عبدالمطلب کے علاوہ حضرت علی کی زوجہ ام البنین اور دیگر معروف اسلامی شخصیات دفن ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ صحابہ رسول کی ہتک حرمت کا سلسلہ وفات رسول خداؐ کے فورا بعد شروع ہوگیا تھا ۔خلافت کی کرسی کے لئے ہاتھ پائوں مارنے والی سیاسی جماعت نے سقیفہ میں بزرگ صحابیوں کو پیٹا ۔رسول کے بھائ اور صحابی حضرت علی ؑ کے گلے میں رسی کا پھند ا ڈال کر کشاں کشاں پھرایا گیا ۔دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے دروازہ پر لکڑیاںجمع کرکے آگ لگائ گئی ۔جلتا ہوا دروازہ بی بی فاطمہؑ پر گرایا گیا جسکے نتیجہ میں آپ کی شہادت واقع ہوگئی ۔میں آج بھی مسلمانوں سےاس سلسلے میں کوئ توقع نہیں رکھتا ہوں کہ وہ انہدام جنت البقیع کے خلاف اور صحابہ رسول و آل رسولؑ کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کرین گے کیونکہ جو لوگ آ ج سے چودہ سو سال پہلے ظلم کے خلاف خاموش رہے اور ظالموں کی ہمت افزائ فرماتے رہے وہ چودہ سو سال کے بعد کیسے ظلم کے خلاف اپنی مہر بند زبانوں کو کھول سکتے ہیں۔اگر مسلمانوں میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو مالک ابن نویرہ کے قتل کے بعد خالد ابن ولید پر حد جاری کی جاتی ۔خالد ابن ولید نے صحابی رسول مالک ابن نویرہ کی زوجہ کے ساتھ دست درازی کی مگر خالد کو خطائے اجتہادی کی آڑمیں معاف کردیاگیا ۔یزید نے قتل حسینؑ کے بعد مدینۂ رسول کو اپنے فوجیوں پر حلال کردیا تھا جسکے نتیجہ میں عورتوں کے ساتھ علی الاعلان زنا کیا گیا جسکے نتیجہ میں سترہزار بچے پیدا ہوئے،مسجد نبوی کو گھوڑوں کا اصطبل بنایا گیا ،بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کو بے دریغ قتل کیا گیا،خانۂ کعبہ پر آتش بارانی کی گئی اور خدا کے گھر کو جلاکر راکھ کردیا گیا ۔مگر عالم اسلام کل بھی خاموش تھا اورآج بھی خاموش ہے ۔حد یہ ہے کہ آج بھی یزید پرست اسے عشرہ ٔمبشرہ میں مانتے ہیں اور اسکی بخشش کی اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ ظلم کا حامی رہاہے ۔مسلمان کبھی ظالموں اور جابروں کے خلاف کمربستہ نظر نہیں آیا کیونکہ اسکی طینت میں ظلم ہے ۔آج اگر دہشت گرد قبریں کھود کر لاشیں نکال رہے ہیں تو ہمیں حیرت نہیں ہوتی کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو چودہ سو سال سے آج تک انسانی کھوپڑیوں میں کھانا کھاتے آرہے ہیں۔یہ وہی ٹولا ہے جو لاشوں کےڈھیر پر بیٹھ کر شراب کی چسکیاں لیتا تھا ۔یہ وہی گروہ ہے جو اعلان کرتا تھا کہ ہمیںسرسبزوشاداب باغ کی سیر میں اتنا لطف نہیں ملتا ہے جتنا علیؑ کے چاہنے والوں کی لاشیں دیکھ کر مسرت ہوتی ہے ۔آج بھی وہی نسل دہشت گردی کو فروغ دےرہی ہے جو کل نیزوں پرکٹے ہوئے سر اٹھائے ہوئے فخر یہ قصیدے پڑھ رہی تھی ۔آج بھی وہی مفتی جہاد النکاح کی دعوت دے رہے ہیں جو یزیداور اسکے آباء و اجداد کی محرم عورتوں کے تقدس کی پامالی پر مختلف جواز پیش کررہے تھے ۔ایسے لوگوں سے ہم کیا توقع کرسکتے ہیں۔یہ لوگ کبھی رسول ؐ و آل رسولؑ کی بے حرمتی کے خلاف آواز احتجاج بلند نہیں کرسکتے ۔افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ جب مسلمانوں پرغیر اسلامی حکومتوں میں ظلم ہوتے ہیں تو وہ چیختے ہیں ،بلبلاتے ہیں اور اپنی مظلومی کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔چودہ سو سال سے مسلمانوں تمہاری تاریخ بھی یہی رہی ہے کہ کبھی مسلمان نے مسلمان پر ظلم کیا ہے اور کبھی دوسروں پر تشدد کیاہے ۔اگر تم اپنے حاکموں اور بادشاہوں کےظلم و سفاکیت کی مذمت نہیں کرسکتے تو خود پر ہونے والے مظالم کے خلاف دوسروں سے احتجاج کی امید کیوں رکھتے ہو ۔اگر مسلمان اپنے رسول کے گھرانے کے قتل پر خاموش رہ سکتاہے اور قاتلوں کی مذہبی و سیاسی پزیرائی کی جاتی رہی ہے تو پھر مسلمان کسی پر بھی ظلم کرسکتا ہے اور کسی بھی حد تک جاسکتاہے ۔اگر خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف دنیا کو سراپا احتجاج دیکھنا چاہتے ہو تو اپنوں کے کئے ہوئے ظلم کے خلاف بھی احتجاج کرنا سیکھو۔
اگر آج کا مسلمان سعودی حکومت کے انہدام جنت البقیع کے فیصلے کو جائز قرار دیتاہے تو کیا مسلمان یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ رسول اکرم ؐ نے کبھی کسی مسلمان یا کافر کی قبر کھدوائی ہو ؟کیا رسول اسلام نے کبھی کسی کی لاش کو مثلّہ کرنے کا حکم دیا ہو ؟کبھی رسول اکرم ؐ نے قبروں کی مسماری کا فرمان جاری کیا ہو ۔اگر رسول کے بعد کسی حاکم نے ایسا فتویٰ دیاہے تو کیا وہ بدعت نہیں ہے ۔اجتہاد کے مخالف کب سے نام نہاد اجتہاد کی حمایت کرنے لگے ۔یا پھر آج بھی دین و ایمان کی بنیادیں قیاس پر ہیں۔اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو سنت رسولؑ کے خلاف جاکر کسی دوسرے کی سنت پر کیوں عمل کررہے ہیں؟ ہمارے لئے رسول کی سنت کی پیروی کرنا ضروری ہے یا پھر کسی جابر و فاسق حکمران کی اتباع کرنا واجب ہے ۔جب تک مسلمان جابر بادشاہوں کی سنت پر عمل کرنا ترک نہیں کرینگے دنیا میں اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیںگے۔ہم نے قرآن میں یہ ضرور پڑھا ہے کہ رسول اسلام نے اپنی حیات طیبہ میں ایک مسجد کے انہدام کا حکم دیا تھا ۔اس مسجد کو تاریخ میں مسجد ضرار کے نام سے جانا جاتاہے ۔مسجد ضرار وہ جگہ تھی جہاںمنافقین جمع ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے تھے ۔لہذا رسول اکرمؐ نے اس مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دیدیا تھا ۔مگر آج مسلمانوں کی مسجدیں ایک دوسرے کے لئے بند ہیں۔ایک فرقہ دوسرے فرقہ کے خلاف مسجد کی محراب میں بیٹھ کر زہر پاشی کرتاہے ۔ایک دوسرے کو مٹانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔کیا ایسی مسجدوں کے وجود کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟
میرے مسلمان بھائیو!قرآن کے حکم پر عمل کرئیے ناکہ کسی بادشاہ یا مفتی کے کہنے پر اپنا دین و ایمان خراب کرئیے۔ہر انسان اپنے عمل کا ذمہ دار آپ ہے ۔کوئی مفتی یا بادشاہ کسی کی نجات کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔قبر میں تمہارے اپنے اعمال تمہارے کام آئیں گے ناکہ کسی کی اندھی پیروی تمہاری نجات کی ضامن ہوگی۔اگر کچھ ذرا سی غیر ت باقی ہے اور ازواج رسولؑ کو مسلمان حکم قرآن کی روشنی میں اپنی مائیں تسلیم کرتےہیں اور صحابہ کرامؓ کی عزت کرتےہیں تو سعودی حکومت کی اسلام دشمنی کے خلاف آواز احتجاج بلند کریں ۔اگر اب بھی جابر بادشاہوں کی اندھی تقلید کرتے رہیں گے اورمفتیوں کے فتوئوں کے جال میں الجھ کر یونہی ایک دوسرے کوکافر کہہ کر قتل کرتے رہینگے اور اپنوںکے ظلم پر تالیاں بجا کر حوصلہ افزائ کرتے رہینگے تو دنیا اسی طرح تمہیں نفرت کی نظروں سے دیکھتی رہے گی اور تمہارے دامن پر جمے ہوئے خون کے دھبے کسی بھی طرح نہیں چھٹیں گے ۔خواری اور رسوائی تمہارا مقدر رہے گی جیسا کہ ابھی ہے۔