مفکرِ اسلام ڈاکٹر مولانا سید کلب صادق نقوی
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ بشر میں بھائیوں کے لئے قابل ناز بہنیں بھی گذری ہیں اور سرمایۂ افتخار بھائی بھی لیکن جس طرح امام حسینؑ نے شب عاشور خود ارشاد فرمایا کہ:
’’جیسے اصحاب مجھے ملے کسی کو نہ ملے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کسی کو نہ زینبؑ کی ایسی بہن ملی نہ عباسؑ کا ایسا بھائی۔‘‘
زینبؑ کو حسینؑ سے وہی نسبت ہے جو خود حسینؑ کو رسولؐ سے تھی۔ جس طرح حسینؑ نے اپنی قربانی دے کر رسولؐ اور رسولؐ کے مشن کو زندہ کردیا۔ اسی طرح حسینؑ کی اس بہن نے منبر سے کوفہ وشام کے بھرے بازاروں اور آراستہ وپیراستہ درباروں میں اپنے خطبوں کے ذریعہ حسینؑ اور حسینی مشن کو زندہ کردیا اور عباسؑ ابن علیؑ نے اپنی تاریخی علمداری، بے مثال شجاعت، ناقابل تصور وفا واخلاص کے ذریعہ نگاہ انتخاب علیؑ کی لاج رکھ لی۔
اللہ نے ہر انسان کی طرح اس گناہ گاہ کو بھی دو آنکھیں دی ہیں اور اس سال میں نے ان دو آنکھوں سے دو منظر دیکھے ایک کا تعلق حسینؑ کی بہن سے ہے ایک کا تعلق حسینؑ کے بھائی اور علمدار سے۔ میں نے اس سال (۱۹۹۳ء) امریکہ کے دورانِ سفر میں ایک سخت مشکل سے دوچار ہونے پر یہ نذر مانی تھی کہ اللہ نے اس مشکل کو حل کردیا تو میں شام میں حمزۃ الحسین کی زیارت کروںگا، رب کریم نے اپنے فضل وکرم سے اس کے طفیل میری مشکل حل کردی۔ چنانچہ میں اپریل کی ۱۰؍تاریخ کو نذر کی تکمیل کے لئے شام روانہ ہوگیا۔
میں ۶۵ھ میں شام گیا تھا اس وقت نظریں نہ تھیں اور نگاہ اعتبار نہ تھی۔ اب صورت حال دوسری تھی اب میں حالات کو دیکھ بھی سکتا تھا اور حالات کا تجزیہ بھی کرسکتا تھا۔
آپ حضرات کو معلوم ہے کہ شام وہ ملک ہے جس کی خشت اول عداوت اہلبیتؑ پر رکھی گئی تھی۔ یہ تاریخ اسلام کے خبیث ترین حکمرانوں کا ملک تھا۔ یہاں کے منبروں پر اہلبیت رسولؐ پر سب وشتم ہوتا تھا اور اس میں کتنی شدت تھی، اس کا اندازہ آپ اس تاریخی واقعہ سے کرسکتے ہیں۔
حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس شام تشریف لے گئے۔ امیر شام ابن عباس کو اپنا عظیم الشان خزانہ دکھانے لے گئے جو سونے چاندی کے سکّوں، زروجواہر اور بیش قیمت چیزوں سے پٹا پڑا تھا۔ امیرشام نے علیؑ کے شاگرد کو خریدنا چاہا اور کہا: ’’اس میں جو پسند آئے اٹھالو وہ تمہارا ہے۔‘‘ ابن عباس نے اس حرام مال میں ہاتھ بھی لگانا پسند نہ کیا۔ تو امیرشام نے کہا: ’’تم جو چاہو میں تمہیں دے دوںگا۔ تمہیں میری سخاوت کا اندازہ نہیں ہے۔‘‘
ابن عباس نے کہا: ’’جو مانگوںدے دوگے؟‘‘ امیرشام نے اقرار کیا تو کہا: ’’میں تم سے ایک چیز مانگتا ہوں۔ مجھے زروجواہر نہیں چاہئے۔ منبروں سے علیؑ پر تبرہ نہ کرو۔‘‘ امیر کا چہرہ سرخ ہوگیا اور کہا: ’’یہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تو میرے دین کا جزو ہے۔‘‘
آپ غورکریں! وہ دین کیسا دین ہوگا جس میں ’’کل ایمان‘‘ پر سب وشتم ایمان کا جزو بنادیا ہے۔ بنی امیہ کے ان خبیث بادشاہوں کے بعد شام بنی عباس کے زیرحکومت آگیا جو عداوت اہلبیتؑ میں بنی امیہ سے بھی آگے نکل گئے تھے۔ مختصر یہ کہ شام وہی ہے جہاں سیکڑوں برس مسلسل وہ حکومتیں رہیں، عداوت اہلبیتؑ جن کے ایمان کا جزو تھا۔
مگر یہ زینبؑ کی مظلومانہ شجاعت کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ساری دنیا میں گھومنے والے اس گدائے در اہلبیتؑ نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ اس وقت جب کہ ساری دنیا میں نجدیت، وہابیت اور سعودیت کے اثرات نمایاں ہیں اور خاص طور پر کوئی نام نہاد مسلم ملک (سوائے ایران) ایسا نہیں بچا ہے جہاں وہابیت کی کالی گھٹائیں نہ چھائی ہوں۔ شام وہی شام جس کی بنیاد ہی عداوت اہلبیتؑ پر رکھی گئی تھی۔ صرف یہی ایک شام وہ ملک ہے جہاں دور وہابیت کا نام ونشان نہیں ہے اکثریت یہاں کی بھی سنّی ہے لیکن سنی ہے وہابی نہیں۔ یہ سُنی بھی اہلبیتؑ کے متوالے اور دیوانے ہیں۔ پورے ملک میں کوئی اذان ایسی نہیں ہوتی جس کا خاتمہ رسولؐ اور اہلبیتؑ رسولؐ پر درود وسلام کے بغیر ہوجائے۔ وہ شام جہاں زینبؑ علیا مقام سربرہنہ اور رسن بستہ تھی۔ اسی شام میں دمشق کے قریب ایک پورا ٹائون شپ آباد ہے جس کا نام ہی ’’السیدہ زینبؑ‘‘ ہے۔ اللہ اکبر جس شام میں یہ کائنات کی شاہزادی (معاذ اللہ) کنیز کی طرح لائی گئی تھی، آج اُسی شام میں زینبؑ، السیدہ کے نام سے جانی مانی جاتی ہے اور یقینا ساری دنیامیں یہ اکیلا روضہ ہے جہاں اتحاد اسلامی کا یہ روح پرور منظر دکھائی دیتا ہے کہ اس کے ایک مینار سے برادران اہلسنت کی اذان ہوتی ہے تو دوسرے مینار سے شیعہ حضرات کی اذان ہوتی ہے۔ جہاں روضہ کے کامپلکس کے ایک طرف سنّی حضرات کی نماز جماعت ہوتی ہے اور دوسری طرف شیعہ حضرات کی نماز جماعت ہوتی ہے۔ روضہ کے اندر سُنی اور شیعہ زائرین کا ہجوم ہوتا ہے۔ روضہ میں جلال وجمال کی جو آمیزش ہے، وہ دیکھنے کے لائق ہے۔
شروع میں میں نے حمزۃ الحسین کا ذکر کیا تھا اس لئے مختصر سا تذکرہ اس کا بھی کردوں۔ دمشق سے تین سو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مشہور شہر حلب واقع ہے۔ بڑا خوبصورت اور حسین شہر ہے اس میں شاندار مسجد، مسجد الحسین کے نام سے معروف ہے۔
ایک روایت کی بنا پر جس وقت سرکار سیدالشہداء کا سراقدس اس شہر میں پہنچا تو کسی شخص (غالباً ایک راہب نے) کسی نہ کسی صورت اس سر کو حاصل کرلیا۔ عزت واحترام سے اسے لایا۔ مظلوم کے سربریدہ پر نوحہ وماتم کیا۔ پھر ایک پتھر پر اس سر کو غسل کردیا اور خون وغیرہ صاف کیا۔ جس پتھر پر اس سر مقدس کو غسل دیا گیا تھا، اس پتھر نے اس خون کو اپنے دامن میں اس طرح محفوظ کرلیا جیسے اس مظلوم کے جدمحترم حضرت ابراہیمؑ کے نشان قدم کو تعمیر کعبہ کے وقت ’’مقام ابراہیم‘‘ نے محفوظ کرلیا تھا۔ یہ پتھر تقریباً سوا دو فیٹ چوڑا اور کم وبیش ایک فیٹ موٹا ہوگا۔ اوپر کی سطح پر آدھا حصہ کچھ بلند ہے اور آدھا حصہ کچھ پست ہے۔ اس پست حصہ میں آج تک اس خون کا رنگ محفوظ ہے۔ خون کا رنگ گہرا سرخ نہیں ہے، بلکہ ویسا ہی ہے جیسا کہ پانی میں خون کا رنگ ہوتاہے۔ کون پتھر دل انسان ہوگا جس کا دل اس پتھر کو دیکھ کر پانی نہ ہوجائے۔ خداوندکریم آپ حضرات کو بھی مقام مقدس کی زیارت کا شرف کرامت فرمائے۔
بہرحال آج کا شام اموی اور عباسی شام سے قطعی مختلف ہے۔ امیرشام ویزید کی قبریں گمنام ہیں۔ دراصل ان قبروں کے نشان بھی فرضی ہیں، اس لئے کہ مسلمہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ بنی عباس کے انقلاب کے ساتھ ہی تمام اموی بادشاہوں کی قبروں کو کھود ڈالا گیا تھا اور جو کچھ ہڈیاں ملی تھیں اُن کو آگ میں جلاکر خاکستر کردیا گیا تھا۔
مگر اسی شام میں حضرت رقیہ بنت الحسینؑ کا شاندار روضہ، حضرت سکینہ بنت الحسینؑ کا روضہ، حضرت ام کلثومؑ بنت علیؑ کا روضہ، اہلبیت کے فدائی اور موذن رسولؐ حضرت بلال حبشی کا روضہ، دمشق سے تھوڑے فاصلے پر مرج عذرد میں شہید مودت حضرت حجرؓ بن عدی کا روضہ، پھر رقہ میں حضرت عمار بن یاسر وغیرہم کا شاندار روضہ۔ یہ روضے اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ اب شام پر اہلبیتؑ کی حکومت ہے یا اہلبیتؑ کے مخلصین اصحاب اور شہداء مودت کی۔ یہ وہ فتح حسینی ہے جو شریکۃ الحسین حضرت زینب علیا مقام کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ زینبؑ نے راہ خدا میں اپنی عزت وحرمت تک (بہ ظاہر) قربان کردی تھی تو اللہ اس عزت وحرمت کا قیامت تک کے لئے محافظ بن گیا۔ وہ شاہزادی جو بازار شام میں معصوم بچوں کے لئے ایک ایک سے پانی مانگ رہی تھی، اس شہزادی کے دربار میں سربراہان مملکت بھکاریوں کی طرح دامن پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔
بہن کے بعد اب چند الفاظ بھائی سے متعلق۔ بہ نص قرآن اللہ نے منصب ہدایت کے لئے نسلوں کو منتخب کیا، اسی طرح مولائے کائنات حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ نے اپنے فرزند کی نصرت بلکہ اسلام کی نصرت کے لئے بھی نسل کو دیکھا اور حضرت ام البنین کو منتخب کیا۔
اس ام البنین کا فرزند عباسؑ ابن علیؑ تاجدار وفا، سقاء سکینہ، سیدانیوں کا سہارا، علمدار لشکر اسلام حسینؑ کے لئے وہی حیثیت رکھتا تھا جو رسولؐ کے لئے علیؑ رکھتے تھے۔
قمربنی ہاشم کے حرم مقدس میں کبھی کبھی یہ بات میرے کانوں تک پہنچتی کہ تہہ خانہ میں جہاں قبر مطہر ہے اس کے پائین یا بالکل قریب نہرفرات ابھی تک بہہ رہی ہے لیکن میں نے بدقسمتی سے کبھی اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا تھا۔
لیکن اس سال میں نے ایک ویڈیو فلم کے ذریعہ سے یہ حیرتناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک اسلامی ملک کی ایسی شخصیت کی فرمائش پر جو اس وقت وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز تھی اس سرداب (تہہ خانہ) کا دروازہ کھولا گیا تھا جہاں سقاء سکینہ کی قبر مبارک ہے۔
اس ویڈیو فلم کے ذریعہ یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نہرفرات سقاء سکینہ کے قدموں سے بالکل متصل تیزی سے بہہ رہی ہے۔ پانی کی گہرائی تو شاید ایک گز سے زائد نہ ہو مگر بہائو بہت تیز تھا، اس لئے جو لوگ اس نہر کو عبور کرنے کی ہمت کرسکے وہ بھی اوپر سے لٹکتے ہوئے رسّوں کے سہارے نہر کو عبور کرکے قبر مقدس تک پہنچے۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ علمدار لشکر حسینی تو لشکر ابن زیاد کو ڈھکیلتا ہوا نہر سے خاصہ دور چلا گیا تھا۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکار وفا کو امام چہارم نے وہیں پر دفن کیا جہاں لاش ملی تھی۔ جب یہ دونوں باتیں مسلم ہیں تو قبر نہر کے بالکل ہی کنارے آج کیسے دکھائی دے رہی ہے۔
میری سمجھ میں تو اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ قبر تو نہر سے دور بنی تھی مگر نہرفرات نے شرمندگی کے سبب خود اپنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابن علیؑ کے قدموں میں لاکر ڈال دیا ہے۔