واقعہ فدک یہ ہے کہ فدک حجاز کا ایک قریہ ہے اور مدینہ کے قریب ہے ۔ مدتوں وہاں یہودی آباد تھے اور وہاں کی زمین بڑی زرخیزتھی۔وہاں یہود کھیتی باڑی کرتے تھے ۔
سال 8 میں اہل فدک نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رعب ودبدبہ سے مرعوب ہوکر فدک کی زمین ان کے حوالہ کردی تھی اور فدک خالص رسول خدا کی جاگیر تھی کیوں کہ سورہ حشر میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ومآ آفاء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولارکاب ولکنّ اللہ یسلّط رسلہ علی من یشاء ۔
ان میں سے اللہ جو رسول کو عطا کردے جس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط کردے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
پیغمبر اکرم ص نے سر زمین فدک میں اپنے ہاتھ سے گیارہ کھجوریں بھی کاشت فرمائی تھیں چونکہ یہ زمین لڑائی کے بغیر حاصل ہوگئی تھی تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو یہ جاگیر عطافرمادی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھروں کا ، ازواج کا اور خاندان کا خرچہ اسی سے چلاتے تھے، اگر یہ امت کے بیت المال کی ملکیت ہوتا تو پیغمبر کا اس پر حق نہ ہوتا ، أموال زکوة و صدقات کی طرح پیغمبراکرم اسے کبھی استعمال نہ کرتے، اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم مہمانوں اور دیگر ضرورت مندوں پر بھی اس زمین کی آمدن سے خرچ کرتے تھے، سخاوت آپ کی عادت شریفہ تھی، مکہ میں آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجة الکبری نہایت ہی مالدار خاتون تھیں ، ان کاسارا مال آخر کہاں گیا؟
کبھی اس پر کسی نے غور کیا ہے؟
یہ سارا مال انہوں نے رسول اکرم کے حوالے کیا اور آپ نے ضرورت مندوں پر اور کمزور مسلمانوں پر خرچ کرڈالا۔
خیبر کی یہ زمین تو آپ کی ملکیت تھی اس کی آمدن میں سے اگر آپ غریب مسلمانوں، مسافروں اور مہمانوں پر خرچ کرتے تھے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ وہ زمین نبی اکرم کی ملکیت نہیں تھی؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو پیغمبر اپنی امت کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھو کہ کہیں تم سارا مال ہی اللہ کے راستہ میں لُٹا دو اور تمہارے بعد تمہارے بچے دوسروں کے محتاج ہوجائیں۔
امت کو یہ وصیت کرنے والاپیغمبر اپنی بیٹی اور اپنے وارثوں کے لیے کیاچھوڑ کرگیا؟
اگر یہ روایت درست ہے کہ ہم جوکچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، تو پھر نبی اکرم نے سارا کچھ صدقہ کرکے اپنے وارثوں کے لیے کیاچھوڑا؟
اور انہیں کیونکر دوسروں کا محتاج اور دست نگر بناگئے، کہ ان کو کوئی دے گا تو کھاتے رہیں ورنہ بھوکے مرتے رہیں۔
ہم نہیں سمجھتے کہ جو پیغمبر وراثت کے معاملے میں صحابہ کو یہ حکم دے رہاہو کہ اللہ کے راستہ میں بھی دو اور اپنے وارثوں کا بھی خیال رکھو کہ کہیں تمہارے بعد وہ دوسروں کے محتاج نہ ہوجائیں وہ نبی آخر خود ہی اپنی بات کے خلاف کرکے کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہمارا سب کچھ صدقہ ہے، اب وارث جانیں اور ان کاکام جانے، ہم یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ص نے جو تعلیم امت کودی اس پر خود بھی عمل کیا ، ایساکبھی نہیں ہوا کہ آپ دوسروں کوکچھ کہیں اور خود اس کے برعکس کریں، آپ کو جو مال فئے اللہ نے خیبرمیں دیاتھا اس میں سے آپ اللہ کی راہ میں غریبوں، محتاجوں ، مسافروں اور مہمانوں کو بھی دیتے تھے اور اپنی ضروریات بھی اور خاندان کی ضروریات بھی اسی سے پوری کرتے تھے ۔
آپ ص کی وفات کے بعد یہ آپ کی وراثت تھی جو آپ کے ورثاء کا حق تھا لیکن جب حضور اکرم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک کو سرکاری تحویل میں لے لیا ۔
وفات کے وقت فدک خاندان نبی کے تصرف میں تھا ۔ اس قبضہ اور تصرف کا ثبوت حضرت علی ع کے اس خط سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے والی بصرہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو تحریر کیا تھا ۔اس خط کے ضمن میں آپ نے یہ الفاظ تحریر کئے:
بلی قد کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلتہ السمآء فشحت بھا نفوس قوم وسخت عنھا نفوس آخرین ۔
اس آسمان کے سائے تلے لے دے کے ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا اس پر بھی لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروانہ کی اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے ۔
حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ہی شرعی لحاظ سے اس جاگیر کی وارث تھیں ۔خلیفہ کافرض تھا کہ وراثتِ رسول کو اصلی حالت پر رہنے دیتے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرتے اور اگر بالفرض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پر کوئی قانونی اعتراض تھا تو بھی قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مقدمے کے تصفیہ ہونے تک فدک کو حضرت سیدہ س کے تصرف میں رہنے دیا جاتا ۔
پھر اس مقدمے کا عجیب ترین پہلو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ موقف تھاکہ فدک کی جاگیر حضرت سیدہ کی نہیں ہے بلکہ عامۃ المسلمین کی ہے اور یہ قومی ملکیت ہے اسی لئے اس جاگیر پر انہوں نے بزور حکومت قبضہ کیا۔
حضرت سیدہ س نے اپنا قبضہ واپس لینے کا مطالبہ حضرت ابو بکر رض سے کیا ۔تو اب صورت حال یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمی مدعیہ تھیں اور اس مقدمے میں حضرت ابوبکر مدعی علیہ تھے ۔ اس مقدمے میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جو فریق مدعی علیہ تھا وہی منصف بھی تھا ۔ حالانکہ سیدھی سی بات تھی کہ مقدمہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف تھا یا کم ازکم عوام الناس کے خلاف تھا جن کے سربراہ حضرت ابو بکر رض تھے تو ان دونوں صورتوں میں مقدمہ حضرت ابوبکر رض کے ہی خلاف تھا اب انہیں قانونی سطح پر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور نہ ہی انہیں اس مقدمہ میں منصفی کرنی چاہیے تھی ۔
انہیں یہ کیس کسی دوسرے قاضی کے پاس بھیجنا چاہیے تھا، دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جو فریق مدعی علیہ ہو وہی قاضی یا جج بھی ہو، نہ اس کیس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کیس کے بعد کبھی ایسا ہوا، سرزمین فدک کا کیس دنیا کا واحد مقدمہ ہے جس میں مدعی علیہ خود ہی جج ہے، اور یہ اصول انصاف کے خلاف ہے۔
فدک مختلف ہاتھوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقدمہ فدک کی تفصیل سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرات شیخین کے دور اقتدار میں فدک قومی ملکیت میں رہا۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان کے دور میں فدک کی پوری جاگیر مروان بن حکم کو عطا کی گئی – اگر بقول شیخین فدک کی جاگیر صدقہ اور سب مسلمانوں کی ملکیت تھی تو....
حضرت عثمان نے یہ ساری جاگیر مروان بن حکم کو کیوں دی ؟
خدا را یہ بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل صحیح تھا یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا طرز عمل صحیح تھا ؟
ہمارے علمائے اہل سنت اس مقام پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان سے درخواست ہے کہ حضرت عثمان نے تو اس مسئلہ میں ان کے طرز عمل سے انحراف کیاتھا ۔
اب ان دونوں خلفاء میں سے کون صحیح تھا اور کون غلط تھا ؟ اگر حضرت ابوبکر رض کا فیصلہ حق تھا تو حضرت عثمان رض کا فیصلہ باطل اور غصب تھا، یا آپ یہاں بھی یہی تاویل کریں گے کہ جس طرح امیر شام معاویہ بن ابی سفیان نے خلیفہ راشد کی بغاوت بھی کی اور امت کو قیامت تک کے لیے تقسیم بھی کرکے رکھ دیا لیکن بعد والوں نے ان کی اس بغاوت کو اجتہاد بناڈالا، کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت عثمان نے بھی اسی طرح کااجتہاد کیا ہواور جو وراثت وارثین رسول ص کو نہیں دی گئی وہ مروان کو دے دی؟
حالانکہ نص کے مقابلے میں اجتہاد باطل ہے ، حضرت ابو بکر رض نے جو لانورث والی روایت پیش کی اگر آپ کے نزدیک یہ نص ہے اور اس کی بنا پر ہی سیدہ فاطمہ س کو محروم کیا گیا تو پھر اس نص کے مقابلے میں حضرت عثمان رض اجتہاد کیسے کر سکتے تھے ؟
اور اگر حضرت عثمان کا فیصلہ درست ہے تو شیخین کا فیصلہ غلط ٹھہرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ نص بھی رد ہوجاتی ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ کی لختِ جگر کو ان کے باپ کی وراثت سے محروم کیاگیا، بہر کیف فیصلہ آپ پر ہے کہ دونوں میں سے کون غلط تھا اور کون صحیح ؟
فدک بنت رسول ص کو دینا تو درست نہ تھا لیکن مروان کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس وقت امت اسلامیہ کیوں خاموش ہوگئی ؟
جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہہ چکے تھے کہ فدک کسی فرد واحد کی نہیں پوری امت اسلامیہ کی ملکیت ہے ؟
پھر جب معاویہ بن ابو سفیان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے فدک کی جاگیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔
ایک تہائی مروان بن حکم طرید رسول کے پاس رہنے دی ۔ایک تہائی حضرت عثمان کے فرزند عمروبن عثمان بن عفان کو عطا کی گئی ۔ایک تہائی اپنے بیٹے یزید بن معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے کی گئی ۔
امیر شام جناب معاویہ کا یہ فیصلہ کس نص پر مبنی ہے اس کی وضاحت فرمادیں ؟
اور جب یزید کے بعد مروان کو حکومت ملی تو اس نے خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل کو حجت قراردیتے ہوئے اپنے دونوں شریکوں کو بے دخل کردیا اور خود سارے فدک پر قابض ہوگیا ۔ یہ کس حدیث یا آیت کی بنا پر تھا؟
بعد ازاں یہی فدک مروان کے بیٹے عبد العزیز کی ملکیت بنا اور جب عبدا لعزیز کا بیٹا حضرت عمر بن عبد العزیز بر سر اقتدار آیا تو انہوں نے فدک سےاپنے خاندان کو بے دخل کرکے اولاد فاطمہ س کے حوالے کردیا ، حضرت عمربن عبالعزیز کو ہمارے ہاں خلیفہ راشد تسلیم کیا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جوکیا وہ رُشد تھا یا حضرت عمر بن عبد العزیز نے جوکیا وہ رُشد تھا یا جو حضرت عثمان نے کیا وہ رُشد تھا؟
تینوں میں سے ایک کا فیصلہ ہی رُشد ہوسکتا ہے باقی دو کا خلافِ رُشد ہوگا اور وہ خلافت راشدہ کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہوگا ۔
پھر جب حضرت عمربن عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو بنو امیہ میں سے یزید بر سر اقتدار آیا ۔اس نے اولاد فاطمہ س سے فدک چھین کر اولاد مروان کے حوالے کردیا ۔بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ تک فدک اولاد مروان کے پاس رہا ۔
اور جب بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کا اقتدار شروع ہوا تو ابو العباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہ س کے حوالے کیا ۔
منصور دوانیقی نے بنی فاطمہ سے چھین لیا ۔بعد از اں اس کے بیٹے مہدی نے فدک بنی فاطمہ کے حوالہ کیا ۔جسے ہادی اور رشید نے پھر واپس لے لیا ۔مامون الرشید عباسی نے فدک واپس کیا تھا جسے بعد میں معتصم نے واپس چھین لیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے متعلق مورخین خاموش ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حکام کے ہاتھ میں فدک ایک ایسا کھلونا تھا جسے جب چاہتے وارثوں کو دے دیتے تھے اور جب چاہتے اپنے قبضے میں لے لیا کرتے تھے ۔
مامون الرشید عباسی نے فدک کی واپسی کے لئے جو تحریری احکام روانہ کیے تھے وہ انتہائی علمی قدروقیمت کے حامل ہیں ۔جس میں اس نے پوری تفصیل ووضاحت کے ساتھ وارثان فدک کی نشاندہی کی تھی ۔
مامون کی واپسی فدک
مامون الرشید عباسی کے خط کو مورخ بلاذری نے نقل کیا ہے ۔
سن 210 ہجری میں مامون الرشید نے فدک کی واپسی کے احکام جاری کیے اور اس نے مدینہ کے عامل قثم بن جعفر کو خط تحریر کیا:
اما بعد ، فانّ امیرالمومنین بمکانۃ من دین اللہ وخلافۃ رسولہ والقرابۃ بہ اولی من ستنّ سنتہ ونفذ امرہ و سلّم لمن منحہ منحۃ وتصدّق علیہ بصدقۃ منحتہ و صدقتہ ۔وقد کان رسول اللہ اعطی فاطمۃ بنت رسول اللہ فدک وتصدّق بھا علیھا وکان امرا ظاھرا معروفا لا اختلاف فیہ فرای امیرالمومنین ان یردھا الی ورثتھا و یسلمھا الیھم تقرّبا الی اللہ باقامۃ حقہ وعدلہ والی رسول اللہ بتنقیذ امرہ وصدقتہ ,ا لخ ۔
امیر المومنین کو اللہ کے دین میں جو مقام حاصل ہے اور انہیں رسالت مآب کی جانشینی اور جو قرابت حاصل ہے ، ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوں اور نبی اکرم کے فرامین کو نفاذ میں لائیں اور رسول خدا نے جسے جو کچھ عطا کیا تھا اس عطا کو اس تک پہنچائیں ۔ جناب رسول خدا نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کو فدک عطا کیا تھا ۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی لئے امیر االمومنین کی یہ رائے ہے کہ فدک اس کے وارثوں کو واپس کردیا جائے اور اس عمل کے ذریعہ سے امیر المومنین اللہ کی قربت کے خواہش مند ہیں اور عدل وانصاف کی وجہ سے رسول خدا کی سنت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔”
بعداز اں مامون الرشید نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ سرکاری ریکارڈ میں اس بات کو لکھا جائے ۔رسول خدا کی وفات کے بعد سے ہمیشہ ایام حج میں یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ رسول خدا نے جس کسی کو کوئی صدقہ یاجاگیر عطا کی ہو تو وہ آکر وصول کرے اس کی بات کو قبول کیا جائیگا ۔اس کے باوجود آخر رسول خدا کی بیٹی کو ان کے حق سے محروم رکھنے کا کیا جواز ہے؟
مامون الرشید نے اپنے غلام خاص مبارک طبری کو خط لکھا کہ فدک کی مکمل جاگیر کو جملہ حدود کے ساتھ اولاد فاطمہ کو واپس کیاجائے اور اس کام کی تکمیل کے لئے محمد بن یحیی بن زیدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب اور محمد بن یحیی اور محمد بن عبد اللہ سے مدد حاصل کی جائے اور فدک کے لئے ایسے انتظامات کیے جائیں جس کی وجہ سے وہاں زیادہ پیدا وار ہوسکے ۔ درج بالا خط ذی الحجہ 210 ھ میں لکھا گیا ۔
اس قضیہ فدک میں یہ حیران کُن اور افسوسناک بات ہے کہ مروان بن حکم جو ایک نہایت مالدار شخص تھا وہ اسے لے سکتا ہے، اور خود خلیفہ نے اس کو دیا۔
حضرت عثمان کا بیٹا جو کہ ایک غنی باپ کا بیٹاتھا وہ فدک لے سکتا ہے اور اس کے لیے جائز ہے ، خود حکمران وقت نے اسے دیا۔
اسی طرح ایک امیر کبیر باپ کا بیٹا یزید بن معاویہ اسے لے سکتا ہے جو خود امیر بھی تھا اور خاندان رسول ص سے اس کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔
یزید کے بعد دوبارہ مروان اسے حاصل کرتا ہے اور پھر اپنی أولاد کو منتقل کردیتا ہے، یہ سارا کچھ ہوتا رہا ، خلفاء خود یہ کام کرتے رہے ، ان سب کے لیے یہ جائز تھا لیکن ایک رسول کی بیٹی کے لیے ہی یہ ناجائز ہوگیاتھا ۔
کہاں گیا حَسبنا کتاب اللہ ؟
کیونکہ کتاب اللہ میں تو کوئی آیت نہیں کہ رسول کی وراثت نہیں ہوتی، رسول کے ورثاء کو محروم کرنے کے لیے حسبنا کتاب اللہ کے بجائے ایک ایسی روایت کاسہارا لیاگیا جو قرآن کے بھی خلاف ہے اور اصولِ درایت کے بھی خلاف ہے ، اور خبر واحد بھی ہے۔
فدک کے سلسلے میں کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ رسول اکرم نے اپنی زندگی میں ہی یہ زمین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ س کو ہبہ کردی تھی ، ذیل میں ہم اسے اس انداز سے بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محاکمہ فدک:
صبّت علیّ مصائب لوانھا ۔ صبّت علی الایام صرن لیالیا
مجھ پر اتنے مصائب آئے اگر وہ دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے [ماخوذ از مرثیہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا]
فدک اور ہبہ
ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فدک کی زمین رسول اکرم کی چھوڑی ہوئی وراثت تھی، قرآن نے وراثت کا قانون بیان کردیا ہے سورہ نساء میں ، یہ قانون پیغمبر اور امت سب کے لیے ہے، قانون وراثت میں نبی کا کوئی استثناء ثابت نہیں، اور خبر واحد کے ذریعہ قرآن میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی بلکہ کسی بھی قسم کی حدیث کا یہ پایا نہیں کہ وہ قرآن کے بیان کردہ کسی قانون کو بدل سکے ۔
تاہم ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فدک کی زمین پیغمبر اکرم نے بیٹی کو ہبہ کردی تھی رسول خدا کی حیات مبارکہ میں جناب فاطمہ س اس جاگیر پر تصرف مالکانہ رکھتی تھیں اورجب جناب رسول خدا کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ کے ملازمین کو فدک سے بے دخل کیااور اسے بحق سرکار قبضہ میں لیا سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ اپنے حق کی بازیابی کے لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئیں اور اپنے حق کا مطالبہ کیا ۔
جس کے جواب میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث پیش کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
- نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ ۔
ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے ۔ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔
قرآن کے مقابلے میں حدیث
اس حدیث کے متعلق عرض ہے کہ اس حدیث کے واحد راوی حضرت ابوبکر رض ہیں اسی حدیث کی طرح حضرت ابو بکر رض سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے کہ جس وقت رسول خدا کی وفات ہوئی اور مسلمانوں میں اختلاف ہوا کہ حضور اکرم ص کو کہاں دفن کیا جائے تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جناب رسول خدا کا فرمان ہے:
“ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض ”
جہاں کسی نبی کی وفات ہوئی وہ اسی جگہ ہی دفن ہوا ۔
جب کہ طبری اور دیگر مؤرخین ہمیں بتاتے ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام اپنی جائے وفات کے علاوہ دوسرے مقامات پر دفن ہوئے ہیں ۔
جلالین والے نے سورہ مؤمن میں لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے وصیت کی تھی کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلیں تو میری میت کو بھی یہاں سے نکال کرلے جائیں، انہوں نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ موسی علیہ السلام ان کی میت یہاں سے نکال لے گئے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون یہی ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے تو اس کی وہیں تدفین ہوتی ہے تو پھر ان دو جلیل القدر نبیوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کیسے کی ؟
ایک نبی اس قانون کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ میری میت کو یہاں سے نکال لے جانا۔ دوسرانبی جو رسول بھی ہے وہ عملا یہ کام کرتے ہیں کہ دفن شدہ نبی کی قبر کھولتے ہیں اور جو کچھ ملا اسے ساتھ لے جاتے ہیں، جوکچھ کا لفظ ہم نے اس لیے لکھا کہ صاحب جلالین فرماتے ہیں کہ وہاں سے صرف ہڈیاں نکلی تھیں، یہاں سے ایک اور روایت کی تردید ہوتی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ انّ اللہ حرّم علی الارضِ اّن تأکل أجساد الانبیاء کہ اللہ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے ۔
اب اگر یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں تو ایک دوسرے کے متضاد ہیں، یا دونوں ہی جھوٹی ہیں ، یاپھر ایک جھوٹی اور ایک صحیح ہے۔
اگر حضرت یوسف کے متعلق روایت صحیح ہے تو انّ اللہ حرم علی الأرض کے راوی نے جھوٹ بولا اور ایک من گھڑت روایت پیش کردی جس پر بہت سے لوگوں نے اپنے عقیدہ کی عمارتیں بھی تعمیر کررکھی ہیں، اور اگر یہ روایت صحیح ہے کہ انبیاء کے جسموں کوزمین نہیں کھاتی تو پھر مفسر جلال الدین نے جھوٹ بولا ہے کہ قرآن کی ایک آیت کی تفسیر میں ایک جھوٹی روایت پیش کردی ۔
بہر حال رویات کا گورکھ دھندہ توایسا ہی ہے الایہ کہ کوئی روایت اصولوں کے مطابق درست ثابت ہوجائے جن میں سے پہلااصول کسی بھی روایت کو قرآن پرپیش کرنا ہے، محدثین کا اتفاق ہے کہ اگر روایت قرآن کے خلاف ہوگی تواسے رد کردیاجائے گا، اس أصول پر ؛ لانورث ؛ ولی روایت جو حضرت ابوبکر رض نے پیش کی قرآن کے خلاف ہے ۔
یہ حدیث ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض بھی واقعات اور حقائق کے خلاف ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سےانبیاء اپنی جائے وفات سے مختلف جگہوں پر دفن ہوئے تو اس صورت میں یہ حدیث کیسے صحیح ہو سکتی ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس حدیث: نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اگر انبیاء کی میراث ان کی اولاد کو نہیں ملتی تھی تو حق تو یہ بنتا تھا کہ رسول خدا خود اپنی بیٹی سے کہہ دیتے کہ میری میراث تمہیں نہیں ملے گی ۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ جس شخصیت کو میراث ملنی تھی اسے نہیں کہا اور چپکے سے یہ بات ایک ایسے شخص کے کان میں کہہ دی گئی جو قانونا وارث نہیں تھا۔
پھر یہ حدیث حضرت علی ع نے بھی نہیں سنی تھی کیوں کہ اگر انہوں نے سنی ہوتی تو اپنی زوجہ کو حق میراث کے مطالبے کی کبھی اجازت نہ دیتے ۔
علاوہ ازایں اتنی اہم بات حضور اکرم نے صرف حضرت ابو بکر کو ہی کیوں بتائی دوسرے مسلمانوں کو اس سے بے خبر کیوں رکھا ؟
اس حدیث کی رسول اللہ کے چچا عباس بن عبد المطلب کو بھی کوئی خبر نہ تھی ورنہ وہ بھی وراثت کے مسئلہ میں سیدہ فاطمہ س کے ساتھ مدعی بن کر کھڑے نہ ہوتے ۔یہ “حدیث “قرآن کے منافی ہے۔
مذکورہ حدیث کے متعلق حضرت فاطمہ س کا موقف بڑا واضح اور ٹھوس تھا ۔ انہوں نے اس حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے ۔
1:- قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین
” اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ۔بیٹے کو بیٹی کی بہ نسبت دوحصے ملیں گے ۔ اس آیت میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے ۔
2:-اللہ تعالی نے ہر شخص کی میراث کےمتعلق واضح ترین الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے :
“ولکلّ جعلنا موالی ممّا ترک الوالدان و الاقربون”
اور ہر کسی کے ہم نے وارث ٹھہرا دئیے اس مال میں جو ماں باپ اور قرابتدارچھوڑ جائیں ۔
ہماری گذارش ہے کہ لفظ “ولکلّ” پر اچھی طرح سے غور فرمائیں اس آیت کریمہ میں بڑی وضاحت سے سب کی میراث کا اعلان کیا گیا ۔
میراث سے تعلق رکھنے والی جملہ آیات کی تلاوت کریں آپ کو کسی بھی جگہ یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ نے فرمایا ہو کہ ہر کسی کے وارث ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے نہیں ہوتے ۔
میراث انبیاء کی اگر قرآن مجید میں کسی جگہ نفی وارد ہوئی ہے تو اس آیت کوبحوالہ سورت بیان کیا جائے اور قیامت تک تمام دنیا کو ہمارا یہ چیلنج ہے کہ اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو پیش کریں ۔
اس حدیث کے تین اجزاء ہیں
1:-انبیاء خودکسی کے وارث نہیں ہوتے
2:- انبیاء کی اولاد وغیرہ کوئی بھی وارث نہیں ہوتا 3:- انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔قرآن مجید مذکورہ بالا تینوں اجزا کی نفی کرتا ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشادفرمایا: وورث سلیمان داؤد ۔ سلیمان علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام کے وارث بنے ۔
اگر نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا تو سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت داؤد کے وارث کیوں بنے ؟ معلوم ہوا کہ اس حدیث کا پہلا جز صحیح نہیں ہے ۔علاوہ ازیں مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سلیمان داؤد کے وارث بنے ۔
اب جس کے سلیمان وارث بنے وہ بھی تو نبی تھے ۔ اگر اس حدیث کا دوسرا جز صحیح ہوتا یعنی نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو داؤد کی میراث کا اجراء کیوں ہوا ۔ اور ان کی میراث کو صدقہ کیوں نہ قراردیا گیا ۔
اس سے بعض لوگوں کا وراثتِ نبوت مراد لینا درست نہیں کیونکہ نبوت نہ تو وراثت میں ملتی ہے اور نہ ہی کسی کی ڈیمانڈ پر ملتی ہے، کیا نبی کو یہی معلوم نہیں کہ نبوت وراثتی چیز نہیں ہے ؟
بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے نبی و رسول منتخب کرتا ہے ۔ بعض لوگ یہاں دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ موسی علیہ السلام کے کہنے پر ان کے بھائی ہارون کو نبی بنادیاگیا، یہ بات دراصل علمی یا لفظی دھوکہ ہے کیونکہ موسی علیہ السلام نے نہ تو وارث مانگا اور نہ ہی اپنے بھائی کو نبی بنانے کی درخواست کی ، اس لیے کہ وہ خود رسول تھے اور وہ جانتے تھے کہ کسی کی درخواست پر نبوت نہیں ملتی، اللہ تعالی اپنی مرضی سے کسی فرد کو اس کام کے لیے منتخب کرتا ہے، اس لیے انہوں نے ایک مددگار کی درخواست کی اور یوں کہا:
اِجْعَلْ لِی وَزِیْرا مِنْ اَھْلِی (۲۹)۔اور میرے لیے میرے کُنبے میں سے ایک معاون(وزیر) بنادے ۔
ھِارُوْنَ اَخِیْ (۳۰ ) ۔ ہارون کو جو میرابھائی ہے۔
اشْدُدْ بِہٖ اَزْرِیْ (۳۱)۔ اس سے میری کمر مضبوط کردے ۔
وَاَشْرِکْہُ فِیْ امْرِیْ (۳۲)۔ اور اسےمیرے کام میں شریک کردے ۔
کَیْ نُسبِّحُکَ کَثِیْرا (۳۳) ۔ تاکہ ہم تیری ذات کی تسبیح ( پاکیزگی) بیان کریں ۔
وَ نَذْکُرَکَ کَثِیْرا ( ۳۴) ۔ اور تیرا بہت زیادہ ذکر کریں ۔اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرا (۳۵) ۔ بے شک تو ہمیں اچھی طرح دیکھتا ہے ۔
ان آیات سے واضح ہے کہ موسی علیہ السلام نے اپنے کام میں معاون و مدگار مانگاتھا وارث نہیں، تو گویا یہ ایک آیت اس حدیث کے تینوں اجزا کو غلط ثابت کرتی ہے ۔
وراثت کسبی چیزوں میں ہوتی ہے وہبی چیزوں میں نہیں، نبوّت وہبی ہوتی ہے کسبی نہیں ، دنیاکا مال و متاع کسبی ہوتا ہے وراثت بھی دنیا کی ان ہی چیزوں میں ہوتی ہے، علم و فضل بھی نبی کے لیے کسبی نہیں وہبی ہے، عام آدمی علم و فیض کو کسب کرتا ہے، محنت سے علم کو حاصل کرتا ہے جبکہ نبی دنیا میں کسی کاشاگرد نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی استاد اور پیرومرشد سے کسب فیض کے لیے جاتا ہے بلکہ اسے اللہ تعالی براہ راست خود ہی علم بھی اور فیض و فضل بھی عطاکرتا ہے ، تلک الرُّسُلُ فَضَّلنا بعضھم علی بعض ۔
لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام کی وراثت نبوت و علم و فضل تھی جو سلیمان علیہ السلام کو اپنے والد سے ملی ، تووہ لوگ مجازی معنی اختیار کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، داؤد علیہ السلام کی وراثت ان کا مال و متاع تھا جو ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو ملا، اس کے ساتھ داؤد علیہ السلام کی بادشاہت تھی جو بیٹے کو ملی ۔
موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خاندان میں سے کسی کو بھی اپنا معاون بنانے کی درخواست کی، پھراسی دوران اپنے بھائی کا خیال آیا تو ان کانام لیکر درخواست کردی کہ خاندان کے لوگوں میں سے بیٹا یا بھائی ہی زیادہ موزوں ہوتا ہے، بیٹاان کا تھا نہیں، سو بھائی کی درخواست کردی ، نبی علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی کو ہی اپنا معاون بنایا ، سگا بھائی نہیں تھا تو چچازاد بھائی کو اپنانائب و معاون بنایا:
اس حدیث سے دو باتیں بالکل واضح ہیں کہ جس طرح ھارون علیہ السلام کارِ نبوت میں موسی علیہ السلام کے معاون اور وزیرتھے اسی طرح علی بن ابی طالب بھی کار نبوت میں نبی اکرم کے معاون و وزیر ہیں، اگر موسی کے بعد ہارون زندہ ہوتے تو کوئی دوسرا صحابی جانشین نہیں بن سکتاتھا اسی طرح نبی اکرم نے اپنے چچازاد اور داماد کو جو بمنزلہ بیٹے کے ہوتا ہے اپنا معاون، جانشین اور وزیر قرار دیا ، تو نبی کے علم و فضل کےعلی بن ابی طالب سلام اللہ علیہ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا کیسے جانشین بن سکتا ہے، لہذا اگر یہاں وراثت کا معنی علم و فضل کیا جائے گا تو خلافت ابی بکر ناجائز ٹھہرتی ہے کیونکہ باب مدینة العلم تو علی ع ہیں۔
دوسری بات یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اس لیے کہ نبوت ختم ہوچکی ، لہذا اے علی تم نبی نہیں ہوسکتے البتہ میرے نائب ہو ۔حضرت ہارون موسیٰ کے وارث نہیں وزیرتھے، انہوں نے رب سے مانگا بھی وزیر ہی تھا، اب اس آیت کو لیکر اگر کوئی یہ معانی پہناتا ہے کہ موسی ٰ نے نبوت میں اپناوارث مانگاتھا جوان کو دے دیاگیا تو یہ معنی لغت اور اصطلاح دونوں کی رو سے غلط بھی ہے اور قرآن کی معنوی تحریف بھی کیونکہ حقیقی معنی جب متعذر نہ ہوتو مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ، جبکہ یہاں حقیقی معنی متعذر نہیں ہے ۔حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قرآن مجید میں مذکور ہے :
-قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شيبا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً (٤) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً (٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّاً (٦) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيّاً ۔
زکریا نے کہا میرے رب میری ہڈیاں کمزورہوگئیں اور سربڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوچکا اور اے رب میں تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں ہوا اور میں اپنے پیچھے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کی جو میراث مجھے ملی ہے اس کا بھی وارث ہو اے میرے رب اسے نیک بنانا ۔
اللہ تعالی نے کہا : اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحیی ہے اس سے پہلے ہم نے کسی کا یہ نام نہیں رکھا۔
درج بالا آیت کو مکرر پڑھیں ،حضرت زکریا نے اللہ سے اپنا وارث مانگا اور اللہ نے انہیں وارث بھی دیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز فرمایا ۔
انی خفت الموالی کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ نبوت کا وارث مراد نہیں کیونکہ حضرت زکریا کو اپنے موالی سے یہ خطرہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ زبردستی منصب نبوت پر قابض ہو جائیں گے ، البتہ یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ وہ مال و جائیداد پر قبضہ کر لیں گے اور اسی ڈر کی وجہ سے انہوں نے خدا سے اپنا وارث مانگا۔
اہل علم قرآن کے الفاظ ؛ انی خفت الموالی ؛ پر اگر غور فرمائیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا ، آخر وہ کونسا ڈر تھا جو زکریا علیہ السلام کو لگا ہوا تھا کہ میرے بعد میری وراثت چھن جائے گی، کون چھینے گا؟
وراثت کیا تھی جس کے چھن جانے کاانہیں ڈرتھا؟ اگر نبوت بھی وراثت ہے جیسا کہ بعض کا زعم ہے کہ انہوں نے اپنی نبوت اور علم و فضل کا وارث مانگا تھا تو کیا نبوت یا علم و فضل کو بھی کوئی چھین سکتا ہے ؟” واجعلہ رب رضیا “کا جملہ بتا رہا ہے کہ وہ نبوت کا وارث ” نبی ؛ بیٹا نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا ذاتی وارث مانگ رہے تھے ورنہ وہ اس کے نیک ہونے کی دعا نہ کرتے کیونکہ انہیں کم از کم یہ تو معلوم ہی تھا کہ نبی نیک ہی ہوتا ہے۔
اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے وارث کی درخواست کیوں کی ؟اور اگر بالفرض انہوں نے وارث کے لئے دعا مانگ بھی لی تھی تو اللہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموش کیوں نہ کرا دیا کہ تم تونبی ہو تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ نبی کی تومیراث ہی نہیں ہوتی۔ لہذا تمہیں وارث کی دعا ہی سرے سے نہیں مانگنی چاہیے ؟
اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو اللہ تعالی نے انہیں وارث کیوں عطا فرمایا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیوں کیا؟
حضرت سیدہ فاطمة الزهراء سلام اللہ علیھا نے مذکورہ بالا آیات کی تلاوت کی اور ان آیات سے
“لا نورث ” والی اس حدیث کی تردید فرمائی ۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام آیات اور دلائل سن کربھی حضرت سیدہ فاطمہ کو حق دینے سے انکار کردیا ۔
پھر حضرت سیدہ نے آخر میں فرمایا :
-فدونکھا مخطومۃ مرحومۃ نلقاک یوم حشرک ۔۔۔۔۔۔۔فنعم الحکم اللہ ۔۔۔۔۔والموعد القیامۃ وعند الساعۃ یخسر المبطلون ۔“
اب تم اپنی خلافت کو نکیل ڈال کر اس پر سوار رہو ۔ اب قیامت کے دن تجھ سے ملاقات ہوگی ۔اس وقت فیصلہ کرنے والا اللہ ہوگا اور وعدہ کا مقام قیامت ہے اور قیامت کے روز باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے۔
”یابن ابی قحافۃ افی کتاب اللہ ان ترث اباک ولا ارث ابی لقد جئت شیا فریا افعلی عمد ترکتم کتاب اللہ ونبذتموہ ورآء اظھرکم ؟الم تسمع قولہ تعالی واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ اخصّکم اللہ بایۃ اخرج ابی منھا ؟ ام تقولون اھلی ملّتین لایتوارثان ؟اولست انا وابی من ملّۃ واحدۃ ؟ اانتم اعلم بخصوص القرآن وعمومہ من ابی وابن عمّی ؟
“اے ابو قحافہ کے بیٹے ! کیا اللہ کی کتاب کا یہی فیصلہ ہے کہ تم تو اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ؟
تم ایک عجیب چیز لائے ہو ۔ تو کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پس پشت ڈال دیا ؟
اور کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا کہ : رشتہ دار ہی ایک دوسرے کے اللہ کی کتاب میں وارث ہیں ؟
اور کیا اللہ نے تمہیں میراث کے لئے مخصوص کرنے کے لئے کوئی آیت نازل فرمائی ہے جس سے میرے والد کو مستثنی قرار دیا ہے ؟
یا تم یہ کہتے ہو کہ دو ملت والے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے ؟
تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت سے تعلق نہیں رکھتے ؟
اور کیا تم میرے والد اور میرے چچا زاد کی بہ نسبت قرآن کے عموم وخصوص کو زیادہ جانتے ہو؟
ان دلائل اور آیات قرآنیہ کو پیش کرنے کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ س نے ملاحظہ کیا کہ ان باتوں کا حضرت ابوبکر رض پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا تو ناراض ہو کرروتی ہوئی واپس آئیں ۔
حضرت سیدہ فاطمہ س کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ حضرت ابوبکر انہیں فدک کبھی بھی واپس نہیں کریں گے ۔ لگتا ہے اتمام حجت کے لئے تشریف لے گئی تھیں اور عملی طور پر واضح کردیا کہ جب چند روز پہلے میرے والد وصیت لکھوانا چاہتے تھے تو کہا گیا کہ ہمیں قرآن کافی ہے اور جب حضرت سیدہ فاطمہ نے اپنی میراث کے لیے قرآن پڑھا تو مقابلہ میں حدیث پڑھ کر سیدہ کو محروم کردیا گیا ۔
حدیث اور عقل ونقل کے تقاضے
آئیے اس حدیث کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے والد گرامی حضرت عبداللہ کی میراث لی تھی، اب اگر یہ حدیث درست ہے کہ ہم انبیاء نہ کسی کی وارث ہوتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے تو رسول اکرم نے اپنے والد کی وراثت کیوں لی ؟
جب وراثت لیکر وارث بن چکے تھے تو یہ کیوں کہا کہ ہم وارث نہیں ہوتے؟
اگر ہم اس حدیث کودرست مانتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہمیں نعوذباللہ پیغمبر کی بات کو کذب ماننا پڑے گا کہ جب وارث بن چکے تو پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم وارث نہیں ہوتے۔
یہ وہ صادق و مصدوق پیغمبر ہے جنہیں کافر بھی کاذب نہ کہہ سکے، انہوں نے بھی صادق اور امین مانا جبکہ یہ حدیث ؛ لا نورث ؛ پیغمبر کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرتی ہے، اس لیے درایت کے لحاظ سے بھی یہ روایت صحیح نہیں، محدثین نے أصول حدیث میں پہلا نمبر قرآن کودیا ہے کہ روایت کو قرآن پر پیش کیاجائے اگر وہ خلاف قرآن ہوگی تو مردود ہوگی، ہم پہلے یہ واضح کرچکے ہیں یہ روایت قرآن کے خلاف ہے ۔
دوسرا أصول محدثین نے یہ بتایا ہے کہ درایت کے طریق سے روایت کودیکھا جائے اگر وہ درایت کے خلاف ہوتو بھی اسے رد کیاجائے گا، ہم ابھی ابھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے والد کی وراثت جب لے لی تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کسی کے وارث نہیں؟
پھریہ بات بھی قابل غور ہے کہ رسول خدانے اپنے آپ کو شریعت مطہرہ کے احکام سے کبھی بھی مستثنی نہیں فرمایا ۔
1:- جس طرح سے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہم گروہ انبیاء نہ تو نماز پڑھیں گے اور نہ ہی روزہ رکھیں گے (نعوذ باللہ )مذکورہ فقرہ اس لئے غلط ہے کہ نبی احکام شریعت سے مستثنی نہیں ہوتا ۔ تو جس طرح نبی نماز روزہ اور اسلام کے دیگر احکام سے مستثنی نہیں ہوتا ۔اسی طرح سے وہ اسلام کے احکام میراث سے بھی مستثنی نہیں ہوتا ۔
2:- کیا فدک کا مسئلہ جو کہ خالص شرعی مسئلہ تھا ، اس کے نہ دینے میں کوئی سیاسی اغراض تو کار فرما نہیں تھیں ؟
3:- کیا اس مسئلہ کا تعلق اقتصادیات سے تو نہیں تھا ؟
4 :- اگر یہ حدیث درست ہے تو اس حدیث کا اطلاق صرف پیغمبر اکرم کے لئے ہوگا یا دوسرے انبیاء پر بھی اس کا انطباق ہوگا ؟
5 :-آخر رسول خدا اپنی بیٹی کو محروم وراثت کیوں رکھنا چاہتے تھے ؟
6 :- کیا خدانخواستہ حضور کریم کو یہ اندیشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی بیٹی اور داماد فدک کی کمائی کو غلط مصرف میں خرچ کریں گے ؟
7 :- اگر حضور کریم کو یہی اندیشہ تھا تو انہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنی بیٹی کو جنت کی عورتوں کی سردار کیوں قرار دیا ؟
8 :- اور کیا یہ خدشہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ حضرت سیدہ فاطمہ نے اپنے والد کی حیات طیبہ میں اس جاگیر سے سوء استفادہ کیا تھا ؟
9 :- اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کب اور کیسے ؟
علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی مسئلہ کے متعلق قاضی القضاۃ اور شیعہ عالم سید مرتضی کا ایک خوبصورت مباحثہ نقل کیا ہے ۔قاضی القضاۃ وراثت انبیاء کی نفی کرتے تھے ۔جبکہ سید مرتضی میراث انبیاء کا اثبات کرتے تھے ۔ قاضی القضاۃ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں انبیاء کی میراث کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اس سے علم وفضل کی میراث مراد ہے ۔مالی وراثت مراد نہیں ہے ۔ سید مرتضی کا موقف تھا کہ میراث کا اطلاق پہلے مال ودولت اور زمین پر ہوتا ہے ۔اور یہ اطلاق حقیقی ہوتا ہے ۔
علم وفضل کے لئے مجازی طور پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اصول قرآن یہ ہے کہ مجازی معنی صرف اس وقت درست قرار پاتا ہے جب کہ حقیقی معنی متعذر ومحال ہو ۔ انبیاء اگر مالی میراث حاصل کریں تو اس سے کونسی شرعی اور عقلی قباحت لازم آتی ہے کہ ہم حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔اور اگر قاضی القضاۃ کی بات کو تسلیم بھی کرلیاجائے کہ انبیاء کی میراث مالی کی بجائے معنوی یعنی علم وفضل پر مشتمل ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ بھی ہوگا کہ آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں اور اگر آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں تو ان وارثان علم وفضل کی موجودگی میں حضرت ابو بکر کی خلافت کا جواز کیاتھا ؟
–وراثت انبیاء کا یہی مفہوم آجکل بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وراثت سے مراد علم و فضل کی میراث ہے، اگر یہ مفہوم درست ہے تو علوم و فضل پیغمبر کے وارثوں کی موجودگی میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتیں ناجائز ٹھہرتی ہیں ، وارثان علوم پیغمبر کی موجودگی میں غیر وارثوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
ان آیات کا جو مفہوم بھی مراد لیں بہرحال وہ دو باتوں سے خالی نہیں ، اگر مراد مالی وراثت لیں تو فدک کے معاملہ میں وارثان رسول کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر علم وفضل مراد لیں تو پہلی تینوں خلافتیں ناجائز ٹھہرتی ہیں اس لیے علی بن ابی طالب کے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔ جو صورت بھی مراد لے لیں ظلم و زیادتی بہر حال ثابت ہے ۔
فدک بعنوان ہبہ
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ایک دوسری سوچ یہ بھی ہے کہ جناب سیدہ فاطمہ زہراء نے فدک کا مطالبہ بطور ہبہ بھی کیا تھا جس پر حضرت ابوبکر نے گواہوں کا مطالبہ کیا ۔حضرت سیدہ کی طرف سے حضرت علی ، اور حضرت ام ایمن نے گواہی دی ۔ مگر حضرت ابوبکر نے اس گواہی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نصاب شہادت مکمل نہیں ہے ۔ کیونکہ علی سیدہ کے شوہر ہیں ۔ اور ام ایمن ایک کنیز ہے ۔ حالانکہ شہادت ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھی ، امّ ایمن حضور علیہ االسلام کے والد کی کنیز ضرور رہی ہیں لیکن اب وہ ایک آزاد عورت تھیں، نبی علیہ السلام کی پرورش بھی انہوں نے کی تھی ، جب یہ ایک آزاد عورت تھیں تو کس لحاظ سے ام ایمن کو کنیز و لونڈی قرار دیاجارہا ہے ، اگر آزادی کے بعد بھی عورت لونڈی ہی رہتی تو آزاد کرنے کا پھر کیا مطلب ہے، بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو ان کے حق سے محروم کرنے کے لیے ہر تنکے کا سہارا لیا گیا لیکن اس کے مقابلہ میں دلیل کا ہر شہتیر رد کردیا گیا ۔
حضرت علی علیہ السلام کی گواہی کس قدر مستند ہے ۔اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت کریمہ کی تلاوت مناسب رہے گی :
شہد اللہ انہ لا الہ الا ھو و الملائکۃ و اولو العلم قآئما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم ۔
اللہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ملائکہ اوروہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں کہ اس غالب اور صاحب حکمت اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ۔
اس آیت میں توحید کے گواہوں میں خود اللہ تعالی اور ملائکہ اور عدل پر قائم رہنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا گیا ہےوہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں وہ توحید کے گواہ ہیں ۔اورعدل پر قائم رہنے والے علماء میں علی بن ابی طالب سر فہرست ہیں کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی کے علم کے متعلق رسول اکرم کی مشہور حدیث ہے ۔
”انا مدینۃ العلم وعلی بابھا ” میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔اور جہاں تک عادل ہونے کاتعلق ہے تو علی جیسا عادل چشم فلک نے نہیں دیکھا ۔جب علی ع توحید کے گواہ ہیں تو پھر فدک کے گواہ کیوں نہیں ہوسکتے ؟
عجیب بات ہے کہ توحید کی شہادت کے لئے تو علی کی گواہی مستند مانی جائے اور تھوڑی سی جائیداد کے لئے ان کی گواہی کو ٹھکرا دیا جائے ؟
علی صرف توحید کے گواہ نہیں ہیں وہ رسالت محمدیہ کے بھی گواہ ہیں ۔جیسا کہ سورہ رعد کی آخری آیت میں ارشاد خداوندی ہے :ویقول الذین کفروا لست مرسلا قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب ۔ اور کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے ۔ آپ کہہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا مکمل علم موجود ہے ۔
ایک قول صحیح کے مطابق “من عندہ علم الکتاب “سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ اس آیت کریمہ میں حضرت علی کو رسالت کا گواہ قرار دیا گیا ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو علی بن ابی طالب رسالت محمدیہ کے گواہ ہیں ان کی گواہی کو فدک کے لیے معتبر کیوں نہیں تسلیم کیا جاسکتی ؟
دربار خلافت میں عظیم شخصیات موجود تھیں جن میں سے ایک مدعیہ تھیں سیدہ فاطمہ س جو ایک جائیداد لینے کے لیے جھوٹ نہیں بول سکتی تھیں کہ رسول خدا نے تو فدک ہبہ نہ کیا ہو اور وہ جھوٹا دعویٰ لیکر کھڑی ہو جائیں کہ میرے والد نے یہ جائیداد مجھے دی تھی اور تین شحصیات وہ تھیں جنہیں چادر میں لیکر پیغمبر اکرم نے کہا تھا اللھم ھؤلاء أھل بیتی ؛ یعنی علی، حسن، حسین، ان کے علاوہ ام ایمن تھیں کسی زمانہ میں باندی تھیں لیکن اب وہ ایک آزاد عورت تھیں، اور یہ کس نے کہہ دیا کہ مومنہ باندی کی گواہی قبول نہیں یا عورت کی گواہی نصف ہے ؟
عورت کی آدھی گواہی کا فلسفہ بھی ایک بناوٹی ہے کتاب و سنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، سورہ بقرہ کی آیت قرض والے مضمون کا واقعاتی شہادت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہم پوچھتے ہیں کہ علی ع کی شہادت اس لیے قبول نہیں کہ وہ فاطمہ ع کے شوہر ہیں تو ابوبکر کا فیصلہ کیونکر قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ اس مقدمہ میں مدعی علیہ ہیں؟
علی جیسے شوہر کی گواہی قبول کرنے کے تو پھر بھی دلائل موجود ہیں لیکن ایک مدعی علیہ کے منصف اور جج بننے پر شرعیت اسلامی میں کونسی دلیل ہے ؟
یا دنیا کے ہی کسی قانون میں سے کوئی دلیل دے دیں کہ مدعی علیہ خود ہی اپنے خلاف کیس میں جج بن سکتا ہے ۔اب ان چاروں شخصیات ( علی فاطمہ حسن حسین ) کی گواہی کتنی معتبر ہے ؟ اس کیلئے واقعہ مباہلہ کو مد نظر رکھیں ۔
مباہلہ کی گواہی
جب عیسائی علماء دلائل نبوی سن کر مطمئن نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے آیت مباہلہ نازل کی اور ارشاد فرمایا :-
فمن حاجّک فیہ من بعد ما جآ ء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنا ءنا وابناءکم و نساءنا ونساءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین –
جو علم آنے کے بعد تم سے جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ او ر ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو لائیں اور تو اپنی جانوں کو لاؤ پھر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت علی کے گھر تشریف لائے اور علی و فاطمہ اور حسن وحسین کو اپنی چادر پہنائی اور کہا پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں ۔
رسول اکرم ان عظیم شخصیات کو لے کر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے جب عیسائی علماء نے ان نورانی چہروں کو دیکھا تو جزیہ دینا قبول کیا اور مباہلہ سے معذرت کرلی اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار شخصیات پورے اسلام کی گواہ ہیں اور ان کی گواہی کا عیسائیوں نے بھی احترام کیا تھا ۔
مباہلہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہی چاروں شخصیات دربار خلافت میں گئیں ۔ان میں ایک مدعیہ تھیں اور تین گواہ تھے ۔
انسانی ذہن کو انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو اللہ نے پوری امت اسلامیہ میں سے بطور نمونہ جماعت صادقین بنا کر غیر مسلموں کے مقابلہ میں بھیجا تھا ، ان شخصیات کی گواہی کو خلیفۃ المسلمین نے کیسے رد فرمادیا- خزیمہ بن ثابت اکیلے کی گواہی اس لیے دو آدمیوں کے برابر تسلیم کی گئی کہ انہوں نے ایک کیس میں رسول اکرم کے حق میں بن دیکھے سنے گواہی دی تھی لیکن جن کو رسول اکرم نے جنت کے سرداروحکمران قراردیا ان کی گواہی قبول نہیں ، جن کے باپ کو ان دونوں سے بہتر قرار دیاگیا اس کی گواہی بھی اس لیے رد کی گئی کہ وہ زنان جنت کی سردار فاطمہ س کا شوہر ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حق تھا کہ حضرت سیدہ فاطمہ کے دعوی کو تسلیم کرلیتے۔
تاریخ وحدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ حضورص کے ساتھ ایک اعرابی نے ناقہ کے متعلق تنازعہ کیا ۔ ہردو فریق ناقہ کی ملکیت کے دعویدار تھے ۔اعرابی نے رسول اکرم سے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ بن ثابت نے حضور کے حق کے متعلق گواہی دی اور جب حضرت خزیمہ سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ گواہی بغیر علم کے کیوں دے دی ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم محمد ص کی نبوت اور وحی کی بھی تو گواہی دیتے ہیں جب کہ ہم نے جبریل امین کو اپنی آنکھوں سے اترتے نہیں دیکھا ۔جب ہم نبوت ورسالت جیسے عظیم منصب کی ان دیکھے گواہی دے دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے نبی کے لئے ایک اونٹنی کی گواہی نہیں دیں گے ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خزیمہ کی شہادت کو صحیح قراردیا اور انہیں “ذو الشہادتین ” یعنی دو گواہیوں والا قراردیا ۔
کیا علی ع اور فاطمہ س حضرت خزیمہ سے کمتر تھے؟ کہ ان کی گواہی تسلیم نہیں کی گئی، جبکہ ہزار خزیمہ جناب علی اور فاطمہ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ خلافِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی لحاظ سے بھی غلط تھا اور اپنے نتائج کے اعتبار سے تو نہایت ہی مہلک ثابت ہوا۔
اس فیصلے نے امت کو تقسیم کیا ہے ، یہ چند گز زمین اس کے وارثوں کو دے دینا امت کے اتحاد کے لیے کوئی مہنگا سودا نہیں تھا، اور نہ ہی حضرت ابوبکر رض کی حکومت مالی لحاظ سے دیوالیہ ہونی تھی اگر خیبر کی یہ زمین وارثان رسول کو دے دی جاتی ۔
پھر عجیب تر بات یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جناب سیدہ سے گواہ طلب کرتے ہیں لیکن خود جو روایت پیش کی اس کے کوئی گواہ پیش نہیں کیے اور نہ ہی جناب سیدہ نے گواہ طلب کیے حالانکہ وہ اس روایت کو ایک من گھڑت اور جھوٹی روایت سمجھتی تھیں اور اسے خلاف قرآن کہہ کر دلائل قرآنی کے ساتھ رد کر رہی تھیں۔
وہ کہہ سکتی تھیں کہ جس روایت سے گھر کے لوگوں سمیت پوری امت بے خبر ہے اس پر آپ گواہ پیش کریں۔
بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا جب ان کے دور میں کوئی صحابی حدیث روایت کرتا تو حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اس روایت پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں دُرے ماروں گا، تو جب ایک ایسی روایت پیش کی گئی جس سے رسول خدا کی نہ اولاد آگاہ تھی اور نہ امت کا کوئی فرد آگاہ تھا اور روایت بھی ایسی تھی جو براہ راست قرآن کے بیان کردہ قانون کو توڑ کر پیغمبرص کے خاندان کو وراثت سے محروم کررہی تھی اسے آنکھیں بند کرکے کیوں قبول کیا گیا اور کیوں نہ حضرت ابوبکر سے گواہ مانگے گئے ؟
اگر کہا جائے کہ وہ تو ابوبکر تھے جو صدیق تھے ، گواہوں کی کیا ضرورت تھی ، تو یہاں بھی علی ع اور فاطمہ س تھے کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے ؟
یا حضرت عمر رض جن صحابہ سے روایت کردہ حدیث پر گواہ طلب کرتے تھے کیا وہ جھوٹے تھے یا وہ حدیثیں گھڑ کر بیان کرتے تھے کہ حضرت عمر رض کو گواہوں کی ضرورت پڑتی تھی۔
اگر کہا جائے کہ حضرت عمررض احتیاط کے پہلو سے ایسا کرتے تھے تو ہم کہتے ہیں حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے معاملہ میں احتیاط کہاں چلی گئی ؟
حضرت خزیمہ کی طرح اگر حضرت ابوبکر رض بھی حضرت سیدہ کی روایت ہبہ کو بدون شہود تسلیم کر لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ مناسب تھا ۔اس کے برعکس حضرت ابوبکر کی بیان کردہ اس حدیث کے متعلق جناب سیدہ فاطمہ زہرا نے ان سے گواہ نہیں مانگے تھے ۔جب کہ حضرت سیدہ اس روایت کی صحت سے بھی منکر تھیں ۔
اور حضرت علی بن ابی طالب جیسے صدیق اکبر کی گواہی رد کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا ۔اور ام ایمن جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دایہ تھیں جن کی پوری زندگی اسلام اور رسول اسلام کی خدمت میں گزری تھی ، ان کی گواہی کو رد کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی تھی – لا نورث والی روایت کو قرآن سے بھی اہم اور فائق سمجھنے والے اس پر بھی غور فرمالیں کہ یہ “ام ایمن” بھی باپ کی وراثت سے ہی نبی اکرم کے پاس آئی تھیں ، پیغمبر اکرم نے اپنے والد محترم کی وراثت حاصل کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کسی کے وارث نہیں ۔