کیا حج کےعلاوہ عیدالاضحی پرقربانی عام مسلم پر فرض ہے؟
1654
M.U.H
28/07/2020
0 0
تقدیس نقوی
سوشل میڈیا کے مرہون منت گذشستہکئ برسوں سےعیدالاضحی سے قبل قربانی سے متعلقکچھ عجیب و غریبسوالات گشت کرتے نظرآتے ہیں۔ ایسے سوالات اٹھانے والوں کو اچانک قوم کے غرباء کے لئے ہمدردی کا جذبہ امنڈنے لگتا ہے اور انہیں اس قربانی پر خرچ کی جانے والی رقم اسراف لگنے لگتی ہے۔اس قربانی کے مقصد اوراس کیغایت پربھی سوالیہ نشان لگائے جاتے ہیں۔ غرضیکہ اس قربانی کی اہمیت سے خود انکار کرنے کے ساتھساتھ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکا جاتا ہے۔ یہ سوالات کچھ اسطرح کے ہوتے ہیں:
" اگرحج کے موقعہ پرجانور کی قربانی کرنا مناسک حج کا حصہ ہے تو حج کے علاوہ عیدالاضحی کے موقعہ پرغیر حجاج کے لئے جانور کی قربانی کرنا کیوں ضروری ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے ؟
کیا عیدالاضحیپرعام مسلمان کے لئے قربانی کروانا سنت رسول کریم ص ہےجبکہ حضور نے اپنی پوری زندگی میں صرف ایک بار حج کیا تھا جب قربانی کرائی تھی؟
حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی سنت ابراہیمی ہے مگرعید کے موقع پر کی جانے والی قربانی سنت رسول ہونے کی کیا سند ہے؟
اسلام مساوات کا مذہب ہے ۔ جہاںغریب مسلمان مہنگی قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا یہ قربانی عدم مساوات کی تبلیغ کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان سوالات کی ذمہ داراگر اک جانب تاریخ اسلام اور قران وحدیثسے لاعلمیقرار دی جاسکتیہے تودوسری جانب وہ حضرات بھی کافی حد تک قصوروار ٹہرائےجاسکتے ہیں جنہوں نے اس مقدس عبادت اور رکن کو اپنی دولت اور ثروت کے ناجائز اظہار کا ذریعہ بنالیا ہے اور رعب جمانے کے لئے اک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خاطر مہنگے ترین جانور خریدکر اسے غریب عوام کی دل آزاری اور خفت کا سبب بناکر رکھ دیا ہے ۔ جبکہ دین اسلام اس طریقہ کی سخت مذمت کرتا ہے۔کوئی بھی عمل جب اعتدال سے ہٹ کر افراط کے پیمانہ پر کیا جاتا ہے تو وہ نہ صرف منفی اثرات پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے بلکہ اس نیک کام کے اصل مقصد کو بھی مسخ کردیتا ہے بس یہی حال ہرسالعیدالضحی کی قربانی کا ہوتا ہے ۔
یوں تو ان سوالات کے جواب دینا لاحاصل ہیں پھر بھی اس قربانی کی غرض و غایت اور تاریخی پس منظر پر کچھ روشنی ڈالنا نوجوان قارئین کے لئے باعث دلچسپی ہوگا۔
اس سے قبل کہ مذکورہ بالا چند سوالات کا تجزیہ کیا جائےابتداء ہی میںیہ واضح کرنا انکے جوابات دینے میں معاون ثابت ہوگا کہ اسلام کے تمام مذاہب میں متفقہ علیہحج کے علاوہ عیدالاضحی کی قربانی واجب یافرض نہیں ہےبلکہ مستحب تاکیدی یا سنت موکدہ ہے[علل الشرائع/جامع ترمذی/ابن ماجہ]۔ اس لئے یہ اعتراض بے معنی ہوجاتا ہے کہ وہ غریب کیا کرے جو قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا کیونکہ قربانی کرنے کے لئے اس کا مستطیع ہونا ضروری ہے۔ عید کے دن قربانی کرنا باعث اجر و ثواب ضرور ہے لیکن واجب نہیں ہے۔ اسی لئے اگر کوئ شخص قربانی کرانے کی مالی حیثیت نہیں رکھتا تواسلام نے اس کا بھی اس طرح خیال رکھا ہے کہ قربانی کے گوشت کا ایک تہائ حصہ غرباء و مساکین کے لئے مخصوص کردیا ہے۔ اس طرح اس قربانی کے توسط سے غرباء اور مساکین کو بھی عید کے مبارک موقع پرگوشت جیسی نعمت کھانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس اہتمام کے تحت صاحب استطاعت مسلمان اپنے غریب بھائ کی اعانت کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔
یہ سوال کہعیدالاضحیپر قربانی کا عام مسلم سےکوئتعلق نہیں ہے کیونکہ اس دن قربانی صرف حج کے لئے مختص کی گئ ہے اپنے آپ میں اس وقت خود مہملہوجاتا ہے جب اس عید کو عیدالاضحیسے یاد کیا جاتا ہے جس میں اضحی کے عربی میں معنی ہی قربانی یاقربانی کے جانور کے ہیں یعنی وہ عید جس میں جانور کی قربانی کی جائے ۔ اس طرح عید الاضحی کی عبادت بغیر قربانی کے کس طرح مکمل قرار دی جائیگیبجز اس کے کہ کوئی شخص اس کو ادا کرنے کیاستطاعت نہ رکھتا ہو۔
اس سوال کا جواب کہ جانور کے ذبیحہ کرنے کا آخر مقصد کیا ہے اور اس سے کیا حاصل ہوتا ہےحضرت امام جعفرصادقعلیہالسلامکے ارشاد سے مل جاتا ہے۔ امام فرماتے ہیں ذبیحہ کے وقت نفسانی خواہشات اور حرص و تمع کا گلا کاٹ دو یعنی قربانی کا جانور ذبح کرنا دراصل نفس امارہ کو کچلنے اور نفسانی خواہشات کو ذبح کرنا ہوتا ہے اور یہ مقصد اس وقت بخوبی حاصل کیا جاسکتا ہے جب کوئی اپنے جانور کیقربانی پیش کرتے ہوئے خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہالسلام کی اس قربانی کو یاد کرے جب انھوں نے حکم الہی کی اطاعت میں اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہالسلام کی قربانی پیش کردی تھی اور انہیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے لگے تھے۔ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہ جذبہ کارفرما رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں اس کی راہ میں کچھ قربان کیا جارہا ہے۔
دین اسلام میں اللہ کی راہ میں دی جانے والی قربانی کا مفہوم حضرت آدم کے وقت سے موجود ہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی سب سے پہلے حضرت آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نےاپنیقربانیآں اللہ کی بارگاہ میں پیش کی تھیں جس کا ذکر قرآن میں سورہالمائدہ ایت نمبر 27 کیا گیا ہے۔اس کے بعد دین اسلام میں سب سے مشہور اور مقبول قربانی خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہالسلام کی تھی جس کی تآسی میں حج کے موقعہ اور عیدالاضحی پر قربانی کی جاتی ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں سورہ الحج آیت نمبر28میں کیا گیا ہے۔
حضرت اسماعیل ع کی قربانی کے بعد مکہ والوں میں اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے کا یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب پدر رسول کریم ص کی ولادت سے قبل کے واقعات سے متعلق اک روایت ملتی ہے کہ آپ کے والد حضرت عبدالمطلب نے اک بار یہ نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے دس بیٹے عطا کریگاتو میں ان میں سے ایک کو راہ خدا میں قربان کردونگا۔ بیٹے پیدا ہونے پر قرعہ نکالا گیا مگر ہر بار یہ قرعہ حضرت عبداللہ کے نام ہی نکلتا رہا۔ لوگوں نے رائے دی کہ حضرت عبداللہ کے مقابل اونٹوں کا قرعہ نکالا جائے مگر یہ قرعہ حضرت عبداللہ کے نام ہی نکلتا رہا جب اوںٹوںکئ تعداد سو تک پہنچ گئ تب قرعہاونٹوں کے نام نکلا اور حضرت عبدالمطلب نے سواونٹ قربان کرائے۔ [ حیات القلوب۔ علامہ مجلسی]
تاریخ میں حج کے علاوہ رسول کریم صل اللہ علیہوسلم کی جانب سے کی جانے والی قربانی کی مثال صلح حدیبیہ کے موقع پر کی جانے والی قربانی سے بھی ملتی ہے۔ سنہ ۶ہجری میں جب آنحضرت عمرہ کی نیت سے مکہ کی جانب چلے توقربانی کے لئے ساتھ میں جانور بھی لئے۔ کیونکہ کفار قریش نے حضور کو اس سال عمرہ کرنے نہیں دیا تھا تو رسول کریم ص نے ان اونٹوں کی قربانی مکہ کے باہر مقام حدیبیہ پر ہی کرادی تھی۔ [کتاب الارشاد/حیات القلوب] حج کے علاوہ حضور کے دست مبارک سے کی جانےوالی قربانی کی اس سے بڑی واضح مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
سنہ ۳ ہجری میں سبط اکبرامام حسن مجتبیعلیہالسلام کی جب ولادت ہوئتوسرورکاينات نے اپنے نواسے کا عقیقہ کرایا جس کے لۓ آپ نے اک دںبہ ذبح کرایا اور یہ دعا پڑھی " اے اللہ اس کی ہڈی مولود کی ہڈی کے عوض اس کا گوشت اس کے گوشت کے عوض اس کا خون اس کے خون کے عوض اور اس کے بال اس کے بال کے عوض قرار دے۔ (مطالب السول/کتاب الارشاد)عقیقہ کی یہ قربانی آج بھی سنت رسول کے طور پر ہی کی جاتی ہے۔ اگر حج کے علاوہ کوي قربانی جايزیا کسی طرح مفید نہ ہوتی تو کیا رسول کریم عقیقہ کی قربانی کی سنت قايم کرتے؟
اللہ کی راہ میں کوئ بھی قربانی دینے سے مراددرآصل اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی نیت سے کسی ایسی چیز کو قربان کرنے سے ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کو نعمت کے طور پرعطا کی ہے۔ جتنا زیادہ کسی نعمت کےملجانے پر شکرکا احساس دل میں پیدا پوگا اتنی ہی اہم اور گرانقدرچیزکی قربانی پیش کرنے کی خواہش دل میں پیدا ہوگی۔ اسی لئے سب سے مقبول ترین قربانی اس چیز کی مانی جایئگی جو قربانی دینے والے کی سب سے زیادہ پسندیدہ شئیہوگی وہ چاہے مال وزر ہو' جنس ہو یا جانورہو جسے غرباءومساکین تک پہنچایا جاسکے۔ حضرت ابراہیم علیہالسلام کی بے مثال قربانی تاقیامتاس لئے یاد کی جاتی رہیگی کیونکہ انہوں نے خواب میں دئےگئے اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کی تھی جس کی مقبولیت کی سند اللہ نے قرآن کریم میں سورہ حج میں بیان کی ہے۔ اور جس کی یاد میں ہم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت میں اک جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اجر وثواب کے مستحق قرار دئے جاتے ہیں۔
قربانی کی قبولیت کے لئے تقوی شرط ہے نا کہ قربانی کی قیمت یا سائز۔ ۔دکھاوے اور ریاکاری کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں ہرگزقابل قبول نہیں ہے۔ اس کی دلیل ہابیل اورقابیل کی دی گئقربابنیاں ہیں۔ اللہ نے قابیل کی قربانی یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ وہ صرف صاحبان تقوی کے اعمال قبول کرتا ہے۔[ سورہ المائدہ آیت 27]
حج کے موقع پر دس ذالحجہ کو مقام منی پر جانور کی قربانی دینا مناسک حج میں شامل ہے اور حج کرنے والے پر واجب ہے جبکہ عیدالاضحی کے دن منی کے علاوہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر یہ قربانی واجب یا فرض قرار نہیں دی گئ اور اسے اللہ اور اللہ کے رسول کے مطابق مستحب تاکیدی قرار دیا گیا یعنی اگر اس کو متعلقہ شروط کے ساتھ انجام دیا گیا تو یہ باعث اجرو ثواب ہوگا۔
حج کے علاوہ عیدالاضحی پر کی جانے والی قربانی سے متعلق ضروری مسائل پر تمام موجودہ اور ماضی کے تمام مراجع کرام کے فتاوہ موجود ہیں مثلا" آیت اللہ عظمی آقائسیستانیدام ظلہ اس قربانی کو مستحب تاکیدی مانتے ہیں۔ مستحبشرعیی اصطلاح میں اس عمل کو کہتے ہیں جس کو انجام دینے پر اجر و ثواب حآصل ہوتا ہے اور نہ کرنے پر کوئ گناہ نہیں ہوتا ۔ آقائ آیت اللہ سیستانی دام ظلہ کا اسی قربانی کے سلسلہ میںکورونا سے متاثر حالات کے تحت قربانی کا جانور نہ ملنے کی صورت میں تازہ ترین فتوی صادر ہوا ہےجس کے مطابق :
" قربانی کرنا مستحب تاکیدی ہے اس شخص کے لئے جس کے لئے ممکن ہو۔ اور وہ شخص جو قربانی کرنے کی قدرت تو رکھتا ہو مگر اسے قربانی کا جانور نہ ملے اس لئے مستحب ہے کہ اس کی قیمت صدقہ میں دے اور چونکہ بازار میں جانوروں کی قیمت مختلف ہوتی ہےتو کم سے کم قیمت ادا کرنے سے مستحب ادا ہوجائیگا۔"
آیت اللہ سیستانی دام ظلہ نے توعیدالاضحیپرکی جانے والی اس قربانی کی اہمیت واضح کرتے ہویےحج کے موقعہ پر منی میں کی جانے والی قربانی اور منی کے علاوہ یعنی یوم عیدالاضحی پر تمام عالم اسلام میں کی جانے والی قربانی کے لئے مختص ایام اور فضیلت کےاوقات کی بھی وضاحت فرمادی ہے۔ آیت اللہ کا قول ہے کہ " قربانی کا افضل و بہترین وقت یوم نحر یعنی قربانی کے روز طلوع شمس کے بعد سے نمازعید کے ادا کرلینے تک ہے جبکہ اسکا آخر وقت ' منی میں چار روز تک اور غیر منی یعنی پوری دنیا میں تین دن تک باقی رہتا ہے۔ اگرچہ احوط و افضل یہ ہے کہ منی میں پہلے تین دنوں میں جبکہ غیر منی میں پہلے دن ہی قربانی کردینیچاہئے۔"
اس طرح موجودہ مراجع کرام اور فقہا کے فتاوہ کی روشنی میں کیا اباس قربانی کو غیر ضروری یاِ اسراف ثابت کرنے لے لئے کسیعذرکی گنجائش باقی رہتی ہے ؟
اس سوال کے جواب میں کہ اللہ تعالی نے جانوروں کی قربانی کیوں رکھی ہے امام جعفر صادق علیہالسلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہحضرت رسول اللہ صل اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالی نے جانوروں کی قربانی اس لئے رکھ دی ہے کہ تم لوگوں کے غریبوں اور مسکینوں کو گوشت ملنے میں آسانی ہولہذا تم لوگ ان کو قربانی کا گوشت کھلاو۔ امام جعفر صادق علیہالسلام سے اک دوسری روایت ہے کہ اک بار راوی نے آپ سے دریافت کیا کہ جانوروں کی قربانی دینے کا کیا سبب ہے تو آپ نے فرمایا اس لئے کہ جانور کی قربانی کے خون کا پہلا قطرہ جونہی زمین پر گرتاہے اللہ تعالی قربانی کرنے والے کی مغفرت فرمادیتا ہے اور اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ غیب سے کون ڈرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے " لن ینال اللہ لحومھاو لا دماوھاولکنینالہالتقویمنکم" سورہالحج آیت نمبر37 [اللہ تعالی تک نہ ان کا گوشت پہنچے گا اور نہ خون ہاں اس تک تمہاری پرہیزگاری ضرور پہنچے گی]پھرفرمایا اللہ تعالی نے ہابیل کی قربانی کیسے قبول کرلی اور قابیل کی قربانی کو رد کردیا۔ [ علل الشرائع ۔ شیخ الصدوقعلیہالرحمہ ۔ جلد دوم ۔ باب 178]
حضرت امام جعفر صادق علیہالسلام سے ہی اک دوسری روایت ہے راوی نے آپ سے قربانی کے گوشت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت علی ابن الحسینعلیہالسلام اور آپ کے فرزند حضرت امام محمد باقر علیہالسلام ایک تہائ گوشت اپنے ہمسایوں پر تقسیم کردیتے' ایک تہائ فقراء اور مساکین کودے دیتے اور ایک تہائی اپنے اہلیبیت کے لئے رکھ لیتے تھے۔
[علل الشرائع۔ شیخ الصدوقعلیہالرحمہ۔ جلد دوم ۔ باب 178]
امام موسی الکاظمعلیہالسلام سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ام المومنینحضرت ام سلمہنے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے قربانی کرنا ہے مگر میرے پاس کچھ نہیں جس سے قربانی کا جانور خریدوں تو کیا قرض لے لوں اور اس سے جانور خرید کرقربانی کروں؟ فرمایا ہاں قرض لےلو یہ قرض ادا ہوجائیگا۔ [ علل الشرائع ۔ شیخ الصدوقعلیہالرحمہ ۔ جلد دوم ۔ باب183]
حضرت علی علیہالسلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ قربانی کرنے کا کیا ثواب ہے تو قرض لے کر قربانی کریں اس لئے کہ قربانی کا پہلا قطرہ خون کا زمین پر گرتے ہی اللہ تعالی قربانی کرنے والے کی مغفرت کردیتا ہے۔ [علل الشرائع ۔ شیخ الصدوقعلیہالرحمہ ۔ جلد دوم ۔ باب 183]
حضرت امام موسی الکاظمعلیہالسلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہوآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم لوگ اپنے قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال کرواس لئے کہ صراط پر یہی تمہاری سواریاں یونگی۔
[علل الشرائع ۔ شیخ الصدوقعلیہالرحمہ ۔ جلد دوم ۔ باب 179]
مندرجہ بالا مستند روایتوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت رسول خدا صل اللہ علیہوآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھمالسلامعیدالاضحی پر قربانی کراتے تھے اور عوام کو بھی یہ نیک عمل کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔