حسن عباس فطرت
عنوان کی جدت و دلکشی تسلیم لیکن کوئی اور نہیں میرا اپنا دل کہتا ہے کہ یہ درست بھی ہے یا نہیں؟کربلا منزل بہ منزل یعنی کیا؟ کربلا رہ نوردان عشق وآگہی کی آماجگاہ، کاروان اخلاق و شرافت کی منزل آخر۔ کربلا سرنوشت مسجود ملائک کا پہلا و آخری ورق، عبد و معبود، نازونیاز کا نقطۂ اتصال، زندگی وبندگی کی صدرنگ معنویت کا نگار خانہ ہے۔ کربلا جادہ بھی ہے منزل بھی، راہ بھی راہبر بھی، داستان بھی عنوان بھی۔ یہاں ظرف و مظروف کا فرق مٹ ساگیا ہے نسبت و منسوب میں حد فاصل نہیں رہ گئی ہے۔ کربلا کے معنی ہیں حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام یعنی کربلا۔ دنیا کے عجائب خانے میں بھی ایک نادر ومنفرد تجربہ ہی ہے۔ تو پھر کربلا منزل بہ منزل کا مقصد؟
لیکن مجھے یہاں دونوں میں خط جدائی کھینچنا ہے کیوں کہ موضوع کا تقاضہ ہے اگرچہ یہ ممکن ہے کہ وہ اسی طرح موسوم ہو جیسے خط نصف النہار جو دن کی تصنیف روزانہ ہی کیا کرتا ہے اس بات کو یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ صف امامت کے گوہر بے بہااور شمشیر ولایت کے جوہر آبدار اور دوعالم کی آبروحسین ابن علی علیہ السلام جو خیرالنساء کے پارۂ تن، صاحب لافتیٰ کے لخت جگر اور محبوب خدا کے پروردہ آغوش تھے جن کا مولد حرم ِرسول اور شہر منوّر تھا، جن کی گہوارہ جنبانی روح الامین کرتے تھے ان کی منزل آخر اور مرقد اطہر کی جلالت و شکوہ کاعالم کیا ہونا چاہئے اور اسے وہ رفعت و شان ملی بھی کہ نہیں۔
یہ تو ہم میں سے ہر ایک کو یاد ہے کہ امام عالی مقام نے اس خطۂ ارض پر قدم رکھتے ہی فرمایاتھا کہ’’ یہ کرب اور بلا کی زمین ہے‘‘ لیکن شاید ہم نے اس کا مفہوم و معنی سمجھنے میں کچھ زیادہ عجلت یا سہل انگاری سے کام لیا اور کربلا کو اندوہ ومصیبت کی جگہ مان کر اسے عاشورہ کے پُرالم داستان و واقعات۔۔۔۔۔شہادت کا سرنامہ قرار دے دیا اور اس کا نام لے کر اپنی فغان وفریاد کے لئے شعار بنالیااور بس۔ حالانکہ یہ امت کے ایک الوہی حکیم اور قرآن ناطق کا فقرہ تھا جس کی تہ داری، معنویت، گہرائی و وسعت کی تھاہ لگاپانا ممکن نہیں لیکن معمولی غوروفکر سے کھلتا ہے کہ امامؑ نے اس جملے میں نفسیات انسانی اور بشری ارتقا کی کنجی چھپا کے رکھ دی ہے اور بتایا ہے کہ کرب و غم ہی تو وہ متاع بے بہا ہے جس سے انسان اپنے وجود کی تکمیل کرکے اپنا مقصد حیات پورا کرسکتا ہے۔ غم والم جس کا آفاق میں نہ بدل ہے نہ ہمسرا رنج و بلا کی آنچ میں تپ کر انسان کا تذکیۂ نفس ہوتا ہے اور جوں جوں آزمائش و مصائب کی تپش بڑھتی ہے اس کا مادّی پیکر پگھلنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ جوہر دو مافوق البشر بن کر عالم لاہوت ومقام محمود کا مالک بن جاتا ہے۔
ہاں وہی کربلا غم و الم کی زمین جہاں ۶۱ھ میں ایک مختصر سا قافلہ اترا تھا جس میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد بھی تھی اور اصحاب وتابعین بھی، نووارد بھی تھے اور قدیم حلقہ بگوش اہلبیت بھی، بوڑھے، بچے، مرد، عورت آزاد، غلام، جگری دوست اور جانی دشمن سبھی جمع تھے۔لیکن یہ تمام داخلی وخارجی اختلافات حدود کربلا کے باہر تک تھے مگر جوں ہی اس ارض مقدس سے ان کے پیر مس ہوئے یک لخت سارا افتراق، وحدتِ کاملہ میں بدل گیا اور سب کے سب ایک تن ایک جان ہوگئے۔ شہادت سے کافی پہلے یہ قلب ماہیت ہوئی اور پھر اس کے بعد تو کہنا ہی کیا؟ تب سے آج تک وہ نور امامت کا ہالہ بنے ہوئے ہیں یہ بہتر(۷۲)تن معنوی حیثیت سے ایک پیکر ایک آواز، ایک لگن، ایک ہی دھن، کہ توحید کا پرچم سرنگوں نہ ہونے پائے اللہ کا نام اونچا رہے اس واقعہ کو سیکڑوں برس گزر گئے مگر کربلا اپنا رول آج بھی ادا کرنے پر کمربستہ ہے اسی اثنا میں جب بھی توحید پر آنچ آئی تو ارض کربلا نے ہی تڑپ کرآواز ھل من ناصرہم فرزندان توحید کے کان میں پھونکی اور توحید کا علم بلند کرنے کے لئے سب صف آرا ہوگئے اور آنے والے کل میں کربلا ہی سب کے لئے مرکز امید ہے۔
یہ تو تھی کربلا کی پہلی منزل، آخری منزل کا سراغ اس اہم نکتہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب اس کے قدیم و جدید معنی میں بُعد مشرقین پیدا ہوچکا ہے اور شہادت ومظلومیت اور خون وآنسو کی یہ وادی ایمن رب بشارت، فتح و نصرت کامیابی و کامرانی سے عبارت ہے۔
کربلا اب بے خونی، جگرداری، حریّت، ضمیر، آزادیٔ فکرجہدمسلسل کے گلہائے گوناگوں سے رنگین لالہ زار کا نام ہے جس پر محبوب خدا کی خانہ بربادی، خاتون جنت کی آہ نیم شبی، پیاسے بچوں کی صدائے العطش، ابن زہرا کا خون میں ڈوبا ہوا تن زار اور بہتر لاشے، زینب وام کلثوم کی اسیری سیدسجاد کی بے چارگی، ابررحمت کی طرح سایہ فگن ہے دل گداز ہوش ربا رقت انگیز اور عقیدہ ٔجہاد کی طویل دعوت دیتا اور شجر ایمان کی آبیاری کرتا خزاں کے سامنے سپر بناہوا ہے ظرف و مظروف اور نسبت و منسوب کے لازمی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی واقعات کی روشنی میں بھی کربلا کی بلندی آسمان سے بات کرتی نظر آتی ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف ہمارے امام زمانہ حضرت حجتہ ابن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بخشی ہوئی زیارت وارثہ ہی سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا کی عظمت مستقیم ہوجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ روز ازل ہی سے لوح محفوظ میں ذبح عظیم کا نام شطِ فرات سے جڑا ہوا تھا امام حسین علیہ السلام نے تمام انبیا کرام کی وراثت پائی تو ان کا مقتل بھی تقدس و طہارت، عروج و نورانیت کے تمام اعلیٰ معیاروں کو پار کرگیا۔یہاں تک کہ مٹی جس کا کھانا حرام ہے۔ کربلا کی نسبت پاتے ہی خاک شفا بن گئی۔ امام حسینؑ سردار جوانان جنت ہیں اور کربلا امام علیہ السلام کا پایہ گاہ ہے جو فرق مملکت کے دوسرے علاقوں اور دارالسطنت میں ہوتا ہے اتنا تو جنت سے کربلا کو کم ماننا ہی پڑے گا اگرچہ جنت ہر بلند مقام سے بلند ہے کہ وہ متقین، صالحین، شہداء و صدقین انبیا و اولیا واوصیا سب کی قرارگاہ اور منتہائے آرزو ہے لیکن کربلا اس سے بہتر ہے، شاید اسی لئے اس سرزمین پر جناب آدم، جناب نوح، جناب ابراہیم، جناب موسیٰ، جناب عیسیٰ علیہم السلام اور سبھی بزرگ انبیا تشریف لائے جس کی کئی توجہات ممکن ہیں لیکن بہرحال امام حسین علیہ السلام ان سب کے وارث تھے اس لئے بھی کہ ان کو یہاں آنا تھا آئے تھے اور روایتوں کے مطابق ہر ایک نے کچھ نہ کچھ ایذاپائی، امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا اور ان کے قاتلوں پر لعنت اور جب خاک کربلا وادی شہادت اور حسین کی آخری آرام گاہ کی زیارت کرکے آگے بڑھے تو ان کی بہت سی مشکلات حل ہوگئیں۔ جناب آدم علیہ السلام اور جناب حوّاؑمل گئے۔ کشتی نوح علیہ السلام بھنور سے نکل کر کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کتابوں میں تلاش کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن دل گواہی دیتا ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے بہت پہلے ملائکہ کو اس زمین کے طواف پر مامور کر دیا گیا ہوگا۔
آج سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کا روضہ ایک آراستہ و پیراستہ وسیع وشاندار عمارت ہے سورج کی کرنوں سے اس کے طلائی قبہّ و مینار اسی طرح چمکتے و دمکتے ہیں جیسے صحرا میں ریت کے ذرّے نیچے سرداب ہے اور پختہ و بلند احاطہ ہے جس میں باب قبلہ باب قاضی الحاجاتــ، باب صحن کو چک، باب حر،باب سلطانیہ، باب زینبیہ، نام کے بلند و بالا دروازے نصب ہیںوسط حرم میں روضۂ مقدس ہے روضۂ انوار کے دروازے نقرئی اور بہت دیدہ زیب ہیں تمام عمارت پرچینی کی گل کاری ہے اور قرآنی آیات جابجا بہترین خط میں لکھی ہوئی ہیں اندرونی حصوں میں کاری آئینہ بندی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ علی الخصوص زیر قبہ جہاں مزار مبارک ہے اس کی آرایش دیکھنے ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جس کے لیے بانیٔ اسلامؐ نے فرمایا تھا:ـ ــ ـ ’’دعا تحت قبہ مستحب ہے‘‘
یہاں رات بھر بجلی کے قمقمے جگمگاتے رہتے ہیں اور روضہ بقعۂ نور بنا رہتا ہے پہلے جگہ جگہ برقی پنکھے لگے ہوئے تھے اب ان کو ہٹا کر پوری عمارت کو ایر کنڈیشن کر دیا گیا ہے۔ قیمتی جواہرات اور نادر اشیا جونذر میں چڑھائی گئی ہیں ان کو موقع بہ موقع آویزاں کیا گیا ہے جس سے رونق دوبالا ہو گئی ہے۔ ضریح مبارک چاندی کی ہے اس کے ارد گرد سنگ مرمر کا فرش ہے جس پر قیمتی ودبیز قالین بچھے ہوئے ہیں جس کے بننے میں فن کا کمال رکھاگیا ہے زائرین کا سخت ہجوم یہاںشب و روز رہتا ہے سب ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور شانے سے شانہ چھلتا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ بہت دنوں بعد ہوا ابتدا میں تو بنی اسد کی بنائی ہوئی چند کچّی قبریں ہی تھیں اور پہلے زائر صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب جابر ابن عبداللہ انصاری اور ان کے بعض ساتھی و غلام تھے۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کے کئی سال بعد امیر مختار نے ان قبروں کو پختہ کرایا اور سائبان ڈلوائے مگر بنی مروان نے زیارت پر پابندی عائد کردی۔ عباسیوں کے زمانہ میں پھر روضہ کی آبادی شروع ہوگئی اور زائرین کربلا جانے لگے یہاں تک کہ متوکل ملعون نے تمام روضوں کو تباہ وبرباد اور مسمار کردیا اور زیارت امام حسین علیہ السلام کو لائق گردن زنی جرم قرار دے دیا اس کے قتل کے بعد گوکہ یہ بات نہیں رہی مگر کچھ ایسی شرطیں لگا دی گئیں کہ اسے عوام نہیں پورا کرسکتے تھے اور سالہا سال مجبوری اور بے چارگی کا یہ دور چلتا رہا۔
اس مزار مقدس کا موجودہ عظیم الشان ہیکل آل بویہ کی عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان ہی کے زمانے سے کربلا کی رونق و مستقل آمدنی بڑھنے لگی اور چوتھی صدی ہجری سے لے کر ابھی چند سال قبل تک اس میں اضافہ و توسیع ہی ہوتی رہی۔ آٹھویں صدی میں خدا بندہ شاہ ایران نے پھر دسویں صدی میں شاہ اسماعیل صفوی اور اس کے بعد مختلف سلاطین ایران و ہندوستان وترک کی عالی ہمتی اور خلوص و محبت کے زیراثر کربلا، کاظمین، سامرہ، روضۂ حضرت عباسؑ و حضرت حرؑ و دیگر شہداؑ کے روضے تعمیر ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ خصوصیت کا حامل ہے۔
دکن کے بہمنی حکمرانوں اور اودھ کے آخری تاجداروں نے بھی کربلائے مقدسہ اور اس کے روضۂ ہائے متبرکہ کی تعمیر و تزئین میں نمایاں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ہی سرائے، مساجد، نہر اور حمام بھی ان لوگوں نے تعمیر کرائے۔
امام حسین علیہ السلام کے مزار مبارک کے میناروں اور قبہ کو شاہ عباس اعظم صفوی نے طلائی زینت سے مزین کرایاہے۔ایران کا یہ نامور بادشاہ اکبر کا ہمعصر تھا اس کی متابعت میں نادرشاہ درّانی نے بارہویں صدی ہجری میں دوسرے روضوں خصوصاً نجف و کاظمین کا مطلا کرایا لیکن تمام روضوں کی مرمت آئینہ کاری کاشی کا کام قاجاریوں کے دور میں ہوا۔اور ترک حکمرانوں نے کربلا میں سڑک کی تعمیر، روشنی، پولیس، شفاخانہ اور دیگر ضرورتوںکو پورا کیا اور متوّلیان و خدّام کا نظارہ بنایا اور اس طرح کربلائے معلی ایک شہر مقدس کی شکل اختیار کرگیا جہاں کی آبادی بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد ہوگئی۔
’’کربلا منزل بہ منزل‘‘ کا عنوان ختم ہونے والا نہیں اگرچہ کئی منزلیں کربلا پر گزر چکی ہیں لیکن ابھی نہ جانے کتنی باقی ہیں۔ زمانہ نے پھر کروٹ بدلی ہے پچھے سو سال سے عراق کو بعثی کافروں نے دبوچ لیا تھا ظلم وستم کا بازار گرم کررکھا تھا خون ناحق بہایا جارہا تھا گردنیں کٹ رہی تھیںقیدخانے آباد ہورہے تھے، روضے ویران، ہر طرف شور کہرام برپا تھا۔ بعثی کافر ظالم کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ظلم و بربریت کا دور ختم نہیں ہوا کربلا کی زمین پھر تڑپ کر صدائے ’’ھل من ناصر‘‘ بلند کر رہی ہے لوگ دیوانہ وار منزل شہادت کی طرف منھ کئے بھاگے چلے جارہے ہیں لیکن شاید ابھی صبح عاشور کا طلوع ہے اور عصر کے بعد ہی کربلا کی آئندہ کی سرنوشت کا تعین ہوسکے گا۔ زندہ باد کربلا۔ پائندہ باد شہادت و عزیمت ،دعوت و جہاد کی سرزمین۔
٭٭٭