سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں انسانی عطوفت اور مہربانی کے مظاہر
1963
m.u.h
04/04/2019
0 0
{حصہ اول }
آیت اللہ محمد علی تسخیری
ترجمہ و تلخیص : سید نجیب الحسن زیدی
شک نہیں کہ جذبہ عطوفت ، مہربانی اور ہمدردی انسانی شخصیت کا اہم حصہ ہیں ،اس انسانی ہمدردی و محبت سے جڑے مفاہیم کو اپنے اعلی ترین انداز میں جس شخصیت نے پیش کیا ہے وہ رسول اکرم (ص) کی ذات با برکت ہے. پیش نظر تحریر میں پیغمبر اسلام(ص) کی سیرت سے ایسے متعدد نمونے پیش کیے گئے ہیں جومختلف شرائط کے تحت لوگوں کے ساتھ آپکی زندگی کے خصوصی اور عمومی تعلق خاطر کو بیان کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ آپکی زندگی میں دوسروں کی جگہ کیا تھی اور آپ کس قدر انسانوں سے محبت کر تے تھے . لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ان نمونوں کو بیان کرنے سے قبل چند نکات کی طرف توجہ مبذول کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ :
عطوفت انسانی شخصیت کا ایک اہم عنصر ہے حضرت علی علیہ السلام انسانی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر یعنی عقل ، فکر ، عطوفت ، حواس ، کے درمیان پائے جانے والے نظم و ہم آہنگی کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تعقل ،تفکر کے لئے رہبرو راہنما ہے اور تفکر، دل کے لئے، دل حوا س کے لئے اور حواس انسانی اعضا کے لئے ۔انسانی تربیت کے لئے ان تمام مراحل میں اسلام ہر طرح سے کوشاں ہے چنانچہ عقلانیت کے ساتھ حسب ذیل انداز میں انسان کے جذبہ مہربانی کو باورور بناتا ہے ۔
الف) انسان کے اندجبلی تعقل کے عنصر کو پرورش کرتا ہے اور اسے تامل ، تدبر اور استدلال کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔
ب) تعقل کی ارتقائی سیر اور منطقی روش کی نشاندہی کرتاہے اور ہر اس روش سے پرہیز کرنے کا حکم دیتا ہے جس پر عمل ایک سلجھی ہوئی گفتگو کے نتائج کو توڑ مروڑکر پیش کرنے کا باعث ہو
ج)جذبہ عطوفت کی پرورش کرتا ہے اور اسے سب سے عظیم محبوب( یعنی خدا وند متعال جو مطلق کمال ہے ) کے خالص عشق سے جوڑتاہے اورعطوفت کے جذبہ کو اپنے اس عمل کے ذریعہ اسکی معراج پر پہونچاتا ہے ۔
د) اپنی مقدس شریعت کو ایسے خالص جبلی پیکر میں ڈھال کر پیش کرتا ہے جوانسان کے کردار کو سنوارنے کا کام کرتی ہے اور انسان کی کامیابی و فلاح کے خطوط ترسیم کرتی ہے ۔
ھ) شعور خود آگاہی کے ساتھ انسان کی قوت ارادی کومضبوط بناتا ہے .جو انسان کے ہر بھڑکے ہوئے جذبات سے ماورا ہو کر انسان کو مطمئن کرتی ہے کہ اسکے احساسات کی سمت صحیح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ شعور انسانی کردارکی تعمیر میں اپنی آزادی کو محفوظ رکھتا ہے اوراسی آزادی سے ذمہ داری جنم لیتی ہے .انسانی احساسات اور جذبہ عطوفت انسان کے کردار اسکی رفتار اور اسکے ارادہ کی تعمیر میں ایک موثر رول ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مختلف اسالیب کوبروے کار لاتے ہوئے انہیں بیان کیا ہے ۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر چیز کو بہت سادہ انداز میں بیان کرتا ہے جیسے اس انسان کے عاشقانہ اور دوستانہ رابطہ کو پہلے مصلحت کی بنیاد پر دیکھتا ہے اور پھر اسکو ارتقا بخشتے ہوئے انسان کے وجود کا ایک جز بنا دیتا ہے اور ایک درونی محرک کی صورت میں انسان کی چال ڈھال کو کنٹرول کرتا ہے پھر اسے انسانی مسئلہ سے جوڑتے ہوئے اسکے مفاد تک لے آتاہے چنانچہ اسلامی تعلیمات مومنین کے درمیان ایک دوسرے کے لئے والہانہ جذبہ کو بیان کر رہی ہیں '' یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجة مما اوتو...'' اور جن لوگوں نے دار ہجرت کو ایمان سے پہلے اختیار کیا تھا وہ ہجرت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں اور اپنے دل میں جوکچھ انہیں دیا گیا ہے اسکی حاجت نہیں رکھتے( حشر ٩) اتنا ہی نہیں جذبہ عطوفت اگر کمال پر ہو تو جمادات کے درمیان بھی یہ یک قلبی رابطہ دیکھنے کو ملتا ہے پیغمبر (ص) سے نقل ہوا ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر جب آپ مدینہ پہونچنے کے قریب تھے تو آپ نے فرمایا '' یہ ''طابہ '' ہے اور یہ کوہ ''احد'' جو ہمیں دوست رکھتا ہے اور ہم بھی اسے دوست رکھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک اور مقام پر انسان تو کیا زمین و وطن سے محبت کی بات کی ہے چنانچہ فرماتے ہیں ''وطن سے دوستی اور عشق ایمان کی نشانی ہے ( میزان الحکمة جلد ١٠ ، ص ٥٢٢ )
یہ جذبہ عشق و محبت ہر جگہ کارفرما ہے یہاں تک کے جب ہم عشق کے عظیم الشان حلقہ تک پہونچتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ قرآن کریم عشق و محبت کو رسالت کی مزدوری کے طور پر بیان کرتا ہے ایک ایسے حلقہ سے محبت کا حکم دیتا ہے جو ہمارے جذبہ عطوفت کو معراج بخشے کہ درحقیقت یہی وہ گھرانہ ہے جو امت کے لئے کشتی نجات ہونے ساتھ ساتھ پورے عالم کے لئے ساحل امان بھی ہے '' قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودّة فی القربی '' ائے رسول ان سے کہہ دو اس رسالت کا تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا سوائے اسکے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو ''(شوری ٢٣) اس مودت و محبت کے حلقہ کے بعد آخر میں ہم سب سے چھوٹے دائرہ تک پہونچتے ہیں یعنی شوہر اور زوجہ کے درمیان کی محبت اور انکے مابین پایا جانے والا جذبہ دوستی'' وجعل بینکم مودة و رحمة'' ... تمہارے درمیان پائدار محبت کو قرار دیا ( روم ٢١) احادیث و روایات میں ایسے مقامات بھِی ہیں جہاں خدا اور ان بندوں کے درمیان رشتہ محبت کے ٹوٹ جانے کا تذکرہ ہے جو حکم پروردگار کی خلاف ورزی کرتے ہیں ،جیسے حد سے گزر جانے والے ، کافر، ستم کار، خود پسند ، اپنے آپ کو سراہنے والے ، خائن ، گناہ گار، مفسد ، متکبر ، خود میں مست رہنے والے، تو دوسرے مقام پر خدا وند متعال کی اطاعت کرنیوالوں کے ان لوگوں سے رشتہ محبت کے ٹوٹ جانے کو بیان کرتا ہے جنہیں شیطان بہکا کر کفر کے راستہ پر لے جاتا ہے '' لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ '' (مجادلہ ٢٢) آپ کبھی یہ نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور اسکے رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں ۔
جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :
''مسلمان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ ایسی دنیا میں زندگی گزار رہاہے جو باہمی عشق و دوستی کے سے عبارت ہے ۔''
یہ اعتقاد و یقین انسان کے دل میں امید کی کرنیں جگانے میں بہت موثر ہے ، ایسی امید جو تعمیر ، سعادت اور نیک بختی کی طرف ہدایت کرنے والی ہے ۔اب اگر ہم دوسرے مرحلہ میں منتقل ہوں تو یہ دیکھیں گے کہ'' بسم اللہ الرحمن الرحیم '' کے اندر بھی اسلامی عقائد کی روح نظر آتی ہے ۔ اس لئے کہ یہاں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ پہلے مرحلہ میں اس جہان ہستی میں جو کچھ بھی ہے وہ خدا وندمتعال کے نام سے ہے اور آخری مرحلہ میں جو بھی کچھ بیان کیا گیا اس میں پہلے مرحلہ ہی کی بازگشت ہے اس لئے کہ آخری مرحلہ کا سرچشمہ بھی پہلا ہی مرحلہ ہے ۔ ہر چیز کی بنیاد اور ہر چیز کا سرچشمہ '' بسم اللہ '' اور اسی سبب سے ناتمام ہونے والی رحمتوں کا تسلسل بھی ہے . ہم اس حقیقت کو بھی قرآن کریم کے دیگر مقامات سے ہم آہنگ دیکھتے ہیں جو ذات پروردگار میں کمال کے مظاہر کو بیان کرتے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اس بات پرمبنی ایک پایدار عقیدہ کو تشکیل دیتے ہیں کہ اس کمال کا ظہور بھی رحمت الہی کے سرچشمہ سے سیراب ہو رہا ہے اور یہ جو کچھ ہے وہ جہان رحمت ہی کی طرف بڑھ رہا ہے ،اسی دامن رحمت کی حمایت کی وجہ سے کائنات میں بہت سی چیزوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور بخشش و در گزر سے کام لیا جاتا ہے ۔چنانچہ یہ کمال کے مظاہر بھی اسی کی رحمت کے سایہ میں حرکت کر رہے ہیں ۔ائمہ علیھم السلام سے نقل ہونے والی دعائوں کے آثارسے پتہ چلتا ہے کہ ایسی دعائیں ہمارے ائمہ سے نقل ہوئی ہیں جو اس رحمت کے پہلو کو عقیدتی اور تربیتی اسالیب میں پیش کر تی ہیں.
قرآن کریم میں بھی بہت سی ایسی آیتیں ہیں جو خدا وند متعال کی صفت عزت اور کبریائی کو رحمت و عطوفت میں ضم کر تی ہیں ۔ اور ان عبارتوں پر جا کر ختم ہو تی ہیں '' انہ ھوا العزیز الرحیم '' وہی ہے جوغالب اور بخشنے والا ہے ( دخان ٤٢)
''خیر الراحمین'' ۔ بہتر ین رحم والا
''کتب علی نفسہ الرحمہ'' اپنے نفس پر اسنے بخشش کو لازم کر لیا ہے
( انعام ١٢)
''و ربک الغنی ذو الرحمة'' اور تمہارا پروردگار بے نیاز ہے اور بخشنے والا ہے ۔
( انعام ١٣٣)
''فقد جاء کم بینة من ربکم و ھدی و رحمة '' باالیقین تمہارے پروردگار کی طرف سے تم تک برہان و دلیل اور ہدایت و بخشش پہونچ گئی ہے ۔
( انعام ١٥٧)
''ان رحمة اللہ قریب من المحسنین ، '' رحمت پروردگار احسان کرنے والوں سے نزدیک ہے ۔
( اعراف٥٦)
''فانظر الیٰ آثار رحمت اللہ کیف یحیی الارض بعد موتھا'' ، رحمت خداوندی کے آثار کو دیکھو کہ کس طرح وہ زمین کو موت کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ( روم ٥٠)
''قل یا عبادی الذین اسرفو ا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمة اللہ'' ، میرے ان بندوں سے کہہ دو جنہوں نے خود پرزیادتی کی خدا وند متعال کی رحمت سے مایوس نہ ہوں
( زمر ٥٣)
''الرحمن علی ٰ العرش استوی ، وہ رحمن عر ش پر اختیار و اقتدار رکھنے والا ہے
( طہ ٥)
حتی سخت ترین خوف و ہراس کے مقامات پر بھی بخشش و رحمت کی صفت بیان ہوتی ہے '' و خشعت الاصوات للرحمن فلا تسمع الا ھمسا ...'' اور ساری آوازیں رحمان کی آواز کے سامنے دب جائیں گی اور تم سوائے گنگناہٹ کے کچھ اور نہ سن سکوگے
( طہ ١٠٨)
ان تمام آیات سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات میں رحمت و مہربانی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور قرآن و روایات اس پر دلیل ہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات عطوفت و مہربانی کی سب سے بڑی تجلی گاہ:
اگر ہم پیغمبر اسلام ( ص) کی حیات طیبہ پر ایک نظر ڈالیں تو واضح طور پر ہمیں حق ، عدالت ، عشق ، رحمت ، جیسی حقیقتوںکے جلوے نظر آئیںگے اور ہم آپ کو مکارم اخلاق کو پایہ تکمیل تک پہونچانے والا اور ایسی رحمت کا مالک پائیں گے جو پوری انسانیت کو تحفہ میں عطا کیا گیا ہے ۔ چنانچہ امام علی علیہ السلام آپکے خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ایک حاذق اور تجربہ کارطبیب جس نے اپنے مرہم کو خود ہی تیار کیا اور اپنے دیگر آلات طبابت کو اس طرح تیار کیا جس کے ذریعہ دل کے اندھوں بہروں اور گونگوں کو شفامل گئی ( نہج البلاغہ صبحی صالح ، ١٥٦)
'' اور محمد( ص) بیشک خدا کی طرف سے بھیجے گئے رسول اور اسکے پاک و صاف بندہ ہیں، انکے فضل اور انکی بزرگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انکے فقدان کوکوئی چیز پورا نہیں کر سکتی ہے ، یہ دنیا گمراہی اور ضلالت کے بعد انہیںکے پرتو سے روشن ہوئی اورجہل و جفا کاری و ظلم و انحطاط اس سرزمین سے انہیں کے وجود کی بنا پر ختم ہوا ۔ ( ایضا ص٢١٠)
''آپ زمین پر بیٹھتے تھے اور ایک بندہ کی طرح کھاتے تھے ، دو زانو ہو کر زمین پر بیٹھتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی جوتیاںٹانکتے تھے۔ اپنے پھٹے ہوئے لباس کو خود ہی سیتے تھے ، برہنہ و بغیر پالان کی سواری پر سوار ہوتے تھے اور کسی اور کو بھی اپنے پیچھے بٹھاتے تھے ۔ (ایضا ٢٢٩) آپکی زندگی میں پائی جانے والی رحمت و عطوفت کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں :
۔ ابن مسعود سے نقل ہے '' ہم پیغمبر( ص) کو دیکھتے ہیں کہ آپ کسی پیغمبر کی داستان کو بیان کرتے تھے کہ جنکی قوم نے انہیں اذیت دی اور ستایا اور وہ اس حال میں کہ خون اپنے چہرے سے صاف کر رہے ہوتے تھے کہتے تھے '' پروردگار ! میری قوم کو بخش دے کہ یہ لوگ جاہل اور نا سمجھ ہیں '' ( ابن حنبل ، وہی مدرک ،جلد ١ ص ٤٤١ ،و مسلم ، جلد ٣ ، ص ١٩١٧ ، و ج ١٧٩٢) یہ پیغمبر ( ص) کی وہی رحمت و عطوفت ہے جو اپنی حد سے گزر جانے والے کافروں کو بھی شامل ہے۔
۔ جابر بن سمرة سے روایت ہے '' میں رسول اللہۖ کے ساتھ پہلی نماز کو بجا لایا، بعد نماز آپ ۖ اپنے گھر والوں کے پاس گئے، میں بھی آپ کے ساتھ ہو لیا ، دو فرزندوں نے آپکا بڑھ کر استقبال کیا ، آپ نے دونوں بچوں کے رخساروں پر جس طرح شفقت سے ہاتھ پھیرا میرے بھی رخساروں پر ویسے ہی ہاتھ پھیرا اور میں نے آنحضرت ۖ کے ہاتھوں میں ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ نے ان ہاتھوں کو ابھی کسی عطر کے چرمی تھیلے سے باہر نکالا ہو ( مسلم ِ جلد ٤، ص ١٨١٤ ۔ح٨٠)
۔ آنحضرت ( ص) نے فرمایا : مومنوں کو دیکھتے ہو کہ یہ ایک دوسرے سے مہر ومحبت میں ایک جسم کی مانند ہیں کہ اگر جسم کے کسی ایک حصہ میں درد ہو تو دوسرے حصہ کو بھی قرار نہیں رہتاہے ۔ ( مسلم ، وہی مدرک ، ص ١٩٩٩ح ٦٦و مجلسی ، ج، ٧٤، ص ٢٧٤) اور اس طرح مومنین کے مابین محبت آمیز اور پائدار تعلق قائم رہتا ہے ۔
۔ اور دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں : اگر کوئی لوگوںکو نماز پڑھائے ( امامت کرے) تو اتنا طول نہ دے کہ نمازیوں کے درمیان اگر کوئی ناتوان اور بوڑھا یا بیمار شخص پایا جاتاہو تو اسے دقت ہو، اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو جس قدر چاہے نماز کو اپنی مرضی کے مطابق طول دے سکتا ہے ( مسلم ، ج ، ١، ص ٣٤١، ح ١٨٥، و تہذیب الاحکام ، ج، ٣، ص ٢٨٣، ح ، ١١٣٩) .
۔ ''مالک بن الحویرث '' نے روایت کی ہے کہ '' ہم چند ہم سن جوان پیغمبر ( ص) کی خد مت میں حاضر ہوئے اور بیس شب حضور کی خدمت میں رہے آنحضرتۖ کو یہ گمان ہوا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کی یاد آ رہی ہے ،انہوں نے ہمارے گھر والوں کے بارے میں ہر ایک سے الگ الگ سوال کیا اور ہم میں سے سب نے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتایا۔ آپ بہت مہر و محبت کرنے والے تھے آپ نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے پاس واپس جائو اور انہیں اسلامی تعلیمات سکھائو اور جس طرح تم نے مجھے نماز کی حالت میں دیکھا ہے ویسے ہی نماز پڑھو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک اذان کے لئے کھڑا ہو جائے پھر جو تم میں سب سے بڑا ہے وہ نماز کی امامت کرے ( مسلم ،گزشتہ حوالہ ص ٤٦٥،ح ٤٦٦ و علل الشرائع ، ص ٣٢٦ ،ح ٢ )
۔ اسیروں کو آنحضرت( ص) کی خدمت میں لے کر آئے ان کے درمیان ایک ایسی عورت بھی تھی جس کاسینہ ودھ سے بھراتھا جب بھی وہ کسی بچے کو دیکھتی تو اپنے سینہ سے چمٹا لیتی اور دودھ پلانا شروع کر دیتی پیغمبر( ص) نے فرمایا : کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس عورت نے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دیا ہے اصحاب نے کہا نہیں ، وہ یہ کام نہیں کر سکتی ، حضرت ۖ نے فرمایا خدا وند متعال اپنے بندوں پر اس عورت کی اپنے فرزند کے لئے مہربانی سے زیادہ مہربان ہے ( مسلم ، ج، ٤، ص ٢١٠٩، ح ٢٢، المعجم الصغیر ، ج ، ١، ص ٩٨ )
۔ احد کے واقعہ کے دوران فرشتوں نے آنحضرتۖ کو پیغام دیا کہ اگر آپ چاہیں تو دشمنوں کے لئے نفرین وبد دعا کار ساز ہو سکتی ہے ، حضرت( ص) نے فرمایا : نہیں میں ایسا نہیں کرنا چاہتا میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ خدا انکے درمیان ایسے لوگوں کو دنیا میں پیدا کرے جو خدائے واحد کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں ( شرح السنہ البغوی ، جلد ١٣ ص ٣٣٣، ٢١٤ )
۔ رسول خدا ( ص) نے فرمایا : ایک کتا جو پیاس کی شدت سے مر رہا تھا ، بنی اسرائیل کے ایک دیہاتی نے اسکی حالت پر ترس کھا کر اسے پانی پلایااور اسکی جان بچا لی اور وہ دیہاتی اسی کام کی وجہ سے بخش دیا گیا ( بخاری ، ج، ٣ ، ص ١٢٧٩ ، ح ٥٢ ، ص ١٧٦١، ح ١٥٥)
۔ اسامہ بن زید نے روایت کی ہے '' پیغمبر خداۖ مجھے ایک زانو پر بٹھاتے تھے اور حسن ابن علی کو دوسرے پر پھر ہم دونوں کوقریب کر کے فرماتے تھے '' پروردگار ان پر اپنی رحمتیں نازل کر میں بھی ان کے ساتھ مہربان ہوں ( بخاری ، جل ، ٥، ص ٢٢٣٦، و شیخ صدوق ، ص ٣٤ ، ح ١٥٣)
۔ آنحضرت( ص) نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور فرمایا : خدایا اس کو بخش دے اور اس پر اپنی رحمتیں نازل کر ( مسلم ، ج، ٢، ٦٦٢،ح ٨٥، فقہ الرضا ، ص ١٩، عوالی اللئالی ، ج، ٢ )
۔ حضرت (ص) نے فرمایا: ''میں محمد احمد .لوگوں کو جمع کرنے والا پیغمبر توبہ اور پیغمبر رحمت ہوں ( مسلم، ج، ٤، ص ١٨٢٨، ح، ١، ص ١٢٨، ح٢، مجلسی ، ج، ١٠٣، ص ١٠٤)
۔ ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا : خداوند سبحان اس پر رحم نہیں کرتاہے جو لوگوں پر رحم نہ کرے ( بیھقی ، ج، ٩ ، ص ٤١، ری شہری ، ج، ٤، ص ١٤١٦)
۔ آنحضرت( ص) سے کہا گیا '' ائے رسول خدا مشرکین کے لئے بد دعا کر دیں آپ نے فرمایا میں بد دعا کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ میں دونوں عالم کے لئے رسول رحمت ہوں ( مسلم ، ج، ٤، ص ٢٠٠٦ ، ح ٨٧، ری شہری ، ج ، ٩ ص ٣٦٨٤ ، ح ١٨٢٣٤)
نتیجہ گفتگو :
یہ وہ چند ایک نمونے تھے جن پر ہم غور کریں گے تو بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر ہماری خوشیاں منانے کا انداز ہی دوسرا ہو جائے گا ہم بعثت کی محفلوں میں ایک دوسرے سے تبرک یا دیگر چیزوں میں مادی طور پر بازی مار لے جانے کی تگ و دو میں رہ رہ کر سوچیں گے کہ ہم کیا کریں کہ اخلاق حسنہ اور مہربانی و عطوفت میں دوسروں سے بازی لے جائیں ، یقینا بعثت کے اس پر مسرت موقع پر ہمارے سامنے اگر اسلامی جمہوریہ ایران کے سیلاب سے متاثرین کی تصویر سامنے ہو گی تو ہمیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہم فورا اقدام کریں گے کہ یہی ہمارے وجود کی مہربانی اور ہماری عطوفت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے برادران ایمانی کے مشکل وقت میں انکے کام آئیں ۔
منابع و مآخذ ۔
١۔ ابن ابی جمھور ، عوالی اللئالی ، تحقیق : مجتبی عراقی ، مطبعة سید الشہداء .قم ، چاپ اوال ، جلد ٢، ٣، ١٤ .
٢۔ ابن حنبل ، احمد ، مسند، دار صادر ، بیروت ، جلد ٢.
٣۔ ابن ہشام ، السیرة النبویہ ِ دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ سوم ، جلد ٣ ، ١٤٢١
٤۔ ابو دائود ، السنن ، تحقیق : محمد محی الدین عب الحمید ، دار الفکر ، بیروت ، جلد ٤ .
٥۔ بخاری ، صحیح ، بخاری ، تحقیق، قاسم الشعاعی ، دارلقلم ، بیروت ، چاپ اول ، ج، ١،٢،٣،٥، ١٤٠٧.
٦۔ بغوی ، شرح السنة ، تحقیق: سعید اللحام ، دار الفکر ، بیروت، جلد ١٣، ١٤١٩
٧۔ بیھقی ، ابوبکر، سنن بیہقی ، دار المعرفة ، بیروت جلد ٦
٨۔ بیہقی ، ابوبکر ، سنن بیہقی ، دار المعرفة ، بیروت جلد ٨،و٩
٩ ۔ ثواب الاعمال جلد ١
١٠ ۔ حاکم نیشابوری ، مستدرک الھاکم ، تحقیق، مصطفی عبد القادر عطاء دار الکتب العلمیہ، بیروت ، چاپ اول ، ج، ١،و ٤، ١٤١١۔
١١۔ رازی ، تفسیر ابی الفتوح الرازی ، شرکت بہ نشر ، مشہد چاپ سوم جلد ٢ ، ١٣٨١
١٢۔ راغب اصفہانی ، مفردات ، تحقیق: حقوان دائودی ، نشر ذوی القربی ، قم
١٣۔ ری شہری ، محمد ، میزان الحکمہ ، دار الحدیث ، قم ، چاپ اول ،جلد ٩، ١٠، ١٤٢٢ھ
١٤۔ زیلعی ، نصب الرایہ ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ سوم ، جلد ٣، ١٤٠٧
١٥۔ شیخ صدوق ، الخصال ، تحقیق : ولی اکبر غفاری ، موسسہ النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین ، قم ، جلد ٢،٣ .١٤٠
١٦۔ ثواب الاعمال ، موسسہ الاعلمی ، بیروت ، چاپ چہارم ، جلد ٢ ، ١٤١٠
١٧۔ شیخ صدوق ، علل الشرائع ، مکتبة الداوودی ، قم جلد ١
١٨۔ شیخ طوسی ، تہذیب الاحکام ، دارالکتب الاسلامیہ ، تھران ، چاپ چہارم ، جلد ٣ ، ١٣٦٥
١٩۔ صبحی صالح ، نھج البلاغہ ، دار الکتب اللبنانی ، بیروت
٢٠۔ طبرانی ، معجم الصغیر ، المکتبة السلفیہ ، مدینة منورہ جلد ١
٢١۔ فقہ الرضا ، الموئتمر العالمی لامام الرضا ، مشہد ، چاپ اول ، جلد ١٩ ، ١٤٠٦
٢٢۔ قاضی نعمان، دعائم الاسلام ، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیض ، دارالمعارف ، قاہرہ ، چاپ دوم ،
جلد ١،و ٢،١٣٨٥،ق
٢٣۔ کلینی ، الکافی ، تحقیق: علی اکبر غفاری ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، چاپ سوم ، جلد ٢
٢٤۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، موسسہ الوفاء بیروت ، چاپ ، دوم ، جلد ١ ،١١،٦١، ٢٠، و ١٠٣،١٤٠٣.
٢٥۔ مسلم ، صحیح مسلم ، تحقیق: محمد فواد عبد الباقر ، دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ دوم ، جلد ١، ٢، ٣، ٤، ١٩٧٢،م
٢٦۔ نوری مستدرک الوسائل ، موسسہ آل البین لاحیاء التراث ، بیروت ، چاپ اول ، جلد ٨، ١٢، ١٨، ١٤٠٨.
٢٧۔ واقدی ، المغازی ، تحقیق، دمارمدن ، جونس ، مرکز النشر فی مکتب اعلام الاسلامی ، ایران ، جلد ١،و٢، ١٤١٤.
٢٨۔ ورام ، تنبیہ الخواطر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران،چاپ دوم جلد١ ١٣٦٨۔
سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں انسانی عطوفت اور مہربانی کے مظاہر
{آخری حصہ }
آیت اللہ محمد علی تسخیری
ترجمہ و تلخیص : سید نجیب الحسن زیدی
گزشتہ تحریر میں ہم نے انسانی عطوفت و مہربانی کے اسلامی اور قرآنی تصور کو واضح کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت سے انسانی عطوفت اور مہربانی کے کچھ نمونوں کو پیش کیا تھا پیش نظر تحریر میں انشاء اللہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی سے مزید کچھ احسان و رحمت کے نمونوں کو پیش کریں گے تاکہ بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک موقع پر حضور سرورکائنات کی زندگی کے ان عملی نمونوں کے پیش نظر ہم بین الاقوامی سطح پر اپنی ذمہ داری کو سمجھ سکیں کہ بعثت کے موقعہ پر صرف مبارکباد کے ایس ام ایس بھیج دینا یا واٹس پر پر امیج بنا کر بھیج دینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ۲۷ رجب المرجب کو جو نبی مبعوث بہ رسالت ہوا اسکی عملی زندگی کیا تھی اور اسکی عملی زندگی اور ہماری عملی زندگی میں کتنا فاصلہ ہے جتنا ہم حضور سرورکائنات کی زندگی سے اپنی زندگی کے فاصلہ کو کم کر لیں گے اتنا ہی ہدف بعثت پیغمر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نزدیک ہو جائیں گے اتنا ہی ہماری خوشیاں با معنی ہو نگی ، ورنہ ہماری خوشیاں کھوکھلی ہونگی ہمارے نعرے بے روح ہونگے آئیے دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں انسانی عطوفت و مہربانی کے جلوے ہم سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
روایات و احادیث میں احسان و ایثار اور سیرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت اور سیرت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ احسان و ایثار بھی رحمت اور عطوفت ہی کی طرح وسیع مفاہیم کا حامل ہے ذیل میں آنے والی احادیث سے یہ بات مزید روشن ہو جاتی ہے ۔
١۔ ''ہر انسان یا زندہ حیوان کے ساتھ نیکی کرنے کا اجر رکھا گیا ہے '' امام زین العابدین نے اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے ''حروریہ '' نامی خوارج کے ایک گروہ کو جو اہلبیت کے سخت دشمن تھے کھانا کھلانے کو صحیح اور جائز جانا ہے ( ابن حنبل ، ج، ٢ ص ٧٣٥، بیہقی، ج، ٤، ص ١٨٦، ج، ٨ ، ص ١٤، ر.ک : صدر ، ص ١٦٠)
٢۔ ہر نیک کام ایک صدقہ ہے ۔ ( مسلم ، ج ، ٢، ص ٦٩٧،ح ٥٢، مستدرک الوسائل ، ج ١٢ ، ص ٣٤٣، ح ، ٢٠)
٣۔ کسی بھی نیک کام کو کم مت سمجھو چاہے اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات ہی ہو کیوں نہ ہو ( مسلم م ج، ٤، ص ٢٠٢٦، ح ١٤٤ و ثواب الاعمال ، ج، ٢ ص ١٢٤٠ ، ح ٧ )
٤۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا ہے، اسے اسکے حال پر نہیں چھوڑتا ہے، جو بھی اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے خدا اسکی حاجت اور ضرورت پوری کر دیتا ہے ۔
جو کوئی بھی کسی ایک مسلمان کی کسی کوئی مشکل حل کرتا ہے خدا وند عالم روز قیامت اسکی مشکل کو برطرف کرتا ہے اگر کوئی کسی مسلمان کو اپنی پناہ میں لے تو خدا وند قیامت کے دن اسے اپنی پناہ میں لے لیگا ۔ ( مسلم ، ج، ٤، ص ١٩٩٦، ح ٥٨)
٥۔ مومن مومن کا آئینہ ہے مومن مومن کا بھائی ہے مومن مومن کی فکر میں رہتا ہے اوراسکی عدم موجودگی میں اپنے بھائی کا دفاع کرتا ہے ۔( ابو دائود ، ج، ٤، ص ٢٨٠، ح ٤٩١٨ ، اھوازی ، ص ٤١)
٦۔ اشعری '' قبیلہ کے لوگوں میں جب کبھی انکی عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں یا انکے گھر میں آذوقہ کم ہو جاتا ہے تو جس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے سب ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور پھر ایک ہی پیمانہ سے سب کے درمیان برابر برابر سے تقسیم کر دیتے ہیں وہ اس امر میں مجھ سے ہیں میں ان سے ہوں ( مسلم ، ج، ٤ ، ص ١٩٥٥ ، ب ٣٩)
٧۔ دو لوگوں کا کھانا تین لوگوں اور تین لوگوںکا چار لوگوںکے لئے کافی ہے ( بخاری ، ج، ٥، ص ٢٠٦١، ح ٥٠٧٧ و دعائم الاسلام ، ج، ٢ ِ ص ١٦
٨۔چالیس خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی انہیں ثواب کی خاطر انجام دے تو خداوند متعال اسے بہشت میں جگہ دے گا ان میں سب سے بڑا اور بہترین کام کسی کو بکری تحفہ میں دینا ہے ( اسکے دودھ سے استفادہ کے لئے ) ، صدوق، الخصال ، ج، ٢ ص ١٥٤٣ ، ح ١ ۔
٩۔ بیوہ عورتوں اور محتاجوں کے کام آنے اور انکی مددکرنے والے لوگ راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہیں ( بخاری ، ج، ٥، ص ٣٠٤٧) ،ح٥٠٣٨، و مسلم ، ج، ١ )
١٠۔ تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں ( بخاری ، ج، ١، ص ٢٠، ح ، ٣٠، مسلم ج، ٣ص ١٣٨٢ ، ح ٢٨ ، تنبیہ االخواطر ، ج، ١ ص ٥٧)
١١۔ جو شخص یہ چاہتاہے کہ خدا وند روز قیامت اسکی مدد کرے اسے چاہیے کہ کسی کے کام آئے ( مسلم ، ج، ٣ ، ص ١١٩٦ ، ح ، ٣٢ ، ثواب الاعمال ، جلد ١ ص ١٧٩ ،ح ١ )
احادیث مذکورہ کے پیش نظر عاشق و پیروِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذمہ داری :
ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیرو مسلمان ایک ایسے نیک انسان کی صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو ہر انسان یا ہر جاندار کے ساتھ نیکی کرتا ہے ہر طرح کے اچھے کام انجام دیتاہے چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، اپنے بھائی کے اچھے اور برے وقت میں اسکے ساتھ رہتا ہے اور اسے اپنے آئینہ کی صورت سے دیکھتاہے ''اشعریوں'' کی طرح اپنی روٹی بھی دوسروں کے ساتھ تقسیم کرتا ہے ۔ بیوہ عورتوں اور ضرورت مندوں کی فریاد رسی کرتاہے ۔
لوگوں کا احترام ، بخشش ، اچھی باتیں ، رواداری کا سلوک ، اور حسن ظن :
یہ تمام صفات جو ذکر ہوئے سب کے سب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مہر و محبت کے جلوے ہیں ذیل کی احادیث انکی ترجمانی کر رہی ہیں ۔
١۔ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرفہ میں لوگوں سے خطاب کے دوران فرمایا : تمہارا خون اورتمہارا مال اس دن ، اس جگہ اور اس مہینہ کی حرمت کی طرح تم پر حرام ہے ( مسلم ، ج، ٢، ص ٨٨٩، ح ١٤٧، دعائم الاعلام ، ج، ٢، ص ٤١٣ ، ح ٤١٠ و مستدرک الوسائل ، ج، ١٨، ص ٢٠٦)
٢۔ اپنی عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو تم نے انہیں خدا کی امانت کے طور پرحاصل کیاہے اور وہ خدا ہی کے نام پر تمہارے اوپر حلال ہوئی ہیں
( دعائم الاسلام ، ج ، ٢ ، ص ٢١٤ ، ح ٧٨٩ )
٣۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش کرو ( بخاری ، ج، ٣، ص ١٢١٢، ح ٣١٥٤)
٤۔ جو بھی کسی ایسے شخص کو قتل کر دے جس کے ساتھ کوئی پیمان باندھا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا جبکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جا سکتی ہے ۔
٥۔ آپ مجاہدین کو یہ نصیحت کرتے تھے '' لڑو لیکن خیانت نہ کرو ، زیادہ روری نہ کرو مقتو لین ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو
( نصب الرایہ ج، ٣، ص ٣٨٠ ، و دعائم الالسلام ، ج، ١ ص ٣٦٩ )
٦۔ سلام واضح اور آشکار طور پر کرو، اپنی باتوں کے لئے نرم لہجہ اختیار کرو ، صلہ کرو رات کو جب لوگ سو رہے ہیں اس وقت نماز بجا لائو تاکہ جنت میں داخل ہو جائو ۔ ( ابن حنبل ، ج، ٢، ص ٤٩٣، رازی ، ج، ٢ ،ص ١٧ ، مستدرک الوسائل ، ج، ٨ ، ص ٣٦٤)
٧۔ نرم و ملائم لہجہ میں گفتگو صدقہ ہے ( ابن حنبل ، وہی مدرک ، ص ٢١٣ ، کافی ج، ٢ ص ١٠٣ ، ح ٢)
٨۔ہم کچھ لوگوں کے سامنے خنداں پیشانی سے ملتے ہیں جب کہ دل میں ان پر لعنت بھیجتے ہیں ( یعنی انکے برے کردار سے دور رہتے ہیں لیکن ان سے بد کلامی نہیں کرتے )
٩۔ لوگوں کے ساتھ رواداری کا سلوک صدقہ ہے ( ابن حبان ، ج، ٢، ص ٢١٦ و ری شہری ، ج، ٢٧ ، ص ١١٥٤، ح ٥٤٩٦)
ان تمام چیزوں کو دیکھ کر یہ بات ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر انسان کے احترام کی دعوت دیتے ہوئے مومنین کرام کے درمیان ایک دوسرے کے لحاظ اور ایک دوسر ے کو گزند نہ پہچانے کی تلقین ، عورتوں کے سلسلہ میں حسن سلوک نیز عھد و پیمان کی رعایت اور جنگ کی صورت میں انسانی آداب کی رعایت کا حکم دے رہے ہیں ۔
صلح و محبت ، اچھی باتیں ، صلہ رحم اور خدا کے حضور خضوع و خشوع کے ساتھ رات کی تاریکی میں نماز ، ملائم گفتگو، جنکے لئے دل میں کوئی نفرت یا کینہ پایاجاتا ہے ان سے بھی رواداری سے ملنا ملانا یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں آنحضرتۖ اسلامی سماج میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ چیزیں ہیں جنکے آج ہم ہر دور سے زیادہ محتاج ہیں ۔
دشوار ترین لمحات میں انسانی عواطف کا خیال:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور آپکے کردار پر اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی مہر محبت اور عطوفت سے سرشار ہونے کے ساتھ لوگوں کی انکے کاموں میں مدد انکے اندر جذبہ عمل ،جوش اور نشاط کو جگانے سے عبارت ہے ۔
اس طرح کہ لوگ پیغمبر اسلام ( ص) کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر راستہ کی سختیوں اور دشواریوں کو فراموش کر دیتے تھے اور خود بہ خود فداکار ی و ایثار کی طرف کھنچے چلے آتے تھے خلیفہ سوم ''عثمان بن عفان سے نقل ہے '' خدا کی قسم جب بھی ہم سفر یا حضر میں پیغمبرۖ کے ساتھ ہوتے تو آپ ہمارے مریضوں کی عیادت کرتے ،اگر کوئی مر جاتا تو تشیع جنازہ میں شرکت کرتے ، جنگوں میں ہمارے ساتھ شریک رہتے ، ہماری تنگی و وسعت کے ساتھ نبھاتے اور اس میں بھی شریک رہتے
( ابن حنبل ، ج ١، ص ٧٠، و رضی خطبہ ١٠٠)
امام صادق سے ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ '' محتاج اور بے نوا لوگ راتوں کو مسجد میں ٹہر جاتے تھے ، ایک شب آنحضرت (ص) نے مسجد میں منبر کے نزدیک سب کے ساتھ مخصوص ظرف میں افطار کیا اور تیس عدد لوگوں نے اسکے بعد اسی ظرف میں افطار کیا پھر آپ اس ظرف کو لیکر اپنی زوجات کے پاس چلے گئے اور وہ بھی اسی سے سیر ہوگئیں ( مجلسی ، ج، ١٦، ص ٢١٩)
آپ اپنے اصحاب کے ساتھ خندق کھودنیکے دوران بھی سخت کاموں کو انجام دیتے تھے اسکے باوجود بھوکے رہتے تھے ۔ امام رضا نے اپنے اجداد سے انہوں نے امیرالمومنین سے یہ روایت نقل کی ہے کہ '' ہم خندق کھودنے میں پیغمبر ۖ کے ساتھ تھے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا روٹی لیکر حاضر ہوئیں اور اسے پیغمبرۖ کو دیا آنحضرتۖ نے پوچھا یہ روٹی کس کے لئے ہے جناب فاطمہ نے جواب دیا ایک روٹی حسن کے لئے دوسری حسین کے لئے پکائی تھی اور یہ آپ کے لئے لائی ہوں پیغمبر ( ص) نے جواب دیا ائے فاطمہ ! تین دن کے بعد یہ پہلی غذا ہے جو تمہارے بابا کے پیٹ میں گئی ہے
( مجلسی ، ج،١٦، ص ٢٢٥، طبقات ابن سعد ، جلد ، ٢ ص ١١٤)
آپکے کردار کا عظیم پہلو یہ تھا کہ حساس موقعوں پر عقیدتی اور عطوفتی طرز سلوک سے سب کو وجد میں لے آتے تھے اور دلوں میں ایک کیف پیداکر دیتے تھے اور فداکاری و ایثار کی طرف عملی دعوت دیتے تھے ۔
حضرت علی فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ (کہ خدا کی رحمتیں ان پر اور انکے اہل پرہوں) میدان کارزار میں قدم رکھتے تھے اور راہ حق میں اپنے چچائوں ،بھائیوں کو قتل کرتے تھے ۔ ہمارا یہ طرز عمل ہمارے ایمان میں پائداری اور ہماری فرماں برداری کو اور بھی واضح کرتا تھا ظالموں اور بے دینوں سے جہاد کے دوران پڑنے والی مصیبتوں اور اس راہ کے کٹھن لمحوں میں ہماری بردباری میں اضافہ کا سبب بنتا تھا ۔
ہم میں سے ہر ایک مردانہ وار میں اپنے مد مقابل پر حملہ آور ہو جاتا تھا اور دلیرانہ طور پر گمراہوں سے جنگ کرتا تھا اور کوشش کرتا تھا اس پر حاوی ہو جائے اور جام موت سے اسے سیراب کر دے ۔ اس لڑائی میں کبھی ہم مد مقابل کا کام تمام کر دیتے تھے تو کبھی شکست بھی نصیب ہوتی تھی ، جب پروردگار نے ہماری استقامت کو آزما لیا تو ہمارے دشمن کو خوار کر دیا اور ہمیں اس پر کامیابی دی ( نھج البلاغہ ( ٩٢)
ذیل میں آپکی زندگی کے دوبہت ہی دلچسپ نمونہ ملاحظہ ہوں :
اول : ''حمراء الاسد ''
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ قریش نے جنگ احد میں جب کافی قتل وغارت کے بعد لشکر اسلا م کو شکست دے دی کر دیا تو کامیابی سے مست ہو کر میدان جنگ کو چھوڑ دیا جب ''الروحائ'' نامی جگہ پر پہنچے تو متوجہ ہوئے ( در حقیقت بعض شیاطین نے یہ بات انکے دل میں ڈالی کہ اس کامیابی سے جتنا فائدہ انہیں اٹھانا چاہیے یہ اس پر قادر نہیں ہیں ) چنانچہ اپنے سردار لشکر ''ابوسفیان کے بقول انہوں نے مدینہ واپسی کا فیصلہ کیا اور یہ طےکیا کہ وہاں مسلمانوںکا قتل عام کر دیا جائے ۔
یہ خبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہونچی اب آپنے مسلمانوں کو اکھٹا کرنا اور جنگ کے لئے تیار کرنا شروع کیا آپ نیشدت جذبات کا سہارا لیتے ہوئے انکے دلوںمیں دینی احساس پیدا کر دیا اور خود بھی انکے ساتھ ہو لئے مسلمان بھی ان سے ضرب کھانے اور زخموں کے باوجود زخمی شیروں کی طرح آپ کے ساتھ ہو لئے اور ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جسے حمرا ء الاسد '' کہا جاتا ہے ۔
مسلمان ہر طرح کی فداکاری اور اپنے عقیدہ کی راہ میں ہر قسم کی جاںنثاری لے لئے تیار تھے ''ابوسفیان'' کوپتا چلا کہ ہم اس بپھرے ہوئے فدائی لشکر کو شکست نہیں دے سکتے ہیں جب ابو سفیان نے '' معبد خزاعی '' کو دیکھا تو کہا تمہارے پیچھے کیا ہے ؟تم کیا دیکھ کر آ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا '' خدا کی قسم میں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکے ساتھیوںکو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ وہ تم سے جنگ کرنے کی آگ میں جل رہے تھے ، سیرہ ابن ہشام میں معبد الخزاعی کا جواب اس طرح آیا ہے '' محمدۖور انکے ساتھی تم سے جنگ کرنے کی آگ میں جل رہے ہیں تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ لوگ جنہوں نے احد کے دن پیغمبر (ص) سے منھ موڑ لیا تھا آج وہ اپنے کئے پر پشیمان ہیں اور انکے دلوں میں اس قدر نفرت ہے کہ میں نے ہرگز اس سے قبل ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا
( ابن ہشام ، ج، ٣ ، ١٠٨ و مجلسی ، ج، ٢٠، ص٩٩)
اس طرح خوف و وحشت ابوسفیان کے دل میں بیٹھ گئی اور اس نے ''عبد القیس '' کے ذریعہ ایک خط پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بھیجا اور یہ اطلاع دی کہ وہ اپنے ارادہ اور فیصلہ سے پلٹ گیا ہے۔ پیغمبر ۖنے فرمایا : اس خدا کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے میں نے اس طرح لشکر تیار کیا تھا کہ اگر وہ لوگ اپنے فیصلہ سے پیچھے نہیں ہٹتے تو انکا حال گزرے ہوئے کل کی طرح ہو جاتا ۔ اس وقت '' حسبنا اللہ و نعم الوکیل '' کی آیت پڑھی ۔ اس طرح سورہ انعام اور دیگر دسیوں آییتوں کے ذریعہ ''احد '' کی جنگ کے بعد مسلمانوں کو سبق دیا اور انہیں جرائت و جذبہ جہاد بخشنے کے ساتھ قیمتی مفاہیم میں گہرائی کی دعوت دیتے ہوئے انکا ساتھ دیا ۔
انہیں آیات کریمہ میں سے ایک یہ آیت ہے ۔
'' الذین قال لھم ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا وا قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل . یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے عظیم لشکر اکھٹا کر لیا ہے تو انکے ایمان میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے خد اکافی ہے اور وہی ہمارا ذمہ دار ہے ۔(آل عمران ١٧٣)
فانقلبوا بنعمة من اللہ و فضل لم یمسسھم سوء واتبعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظیم ، پس یہ مجاہدین اللہ کے فضل و کرم سے یوں پلٹ آئے کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہونچی اور انہوں ے رضائے الہی کا اتباع کیا اور اللہ صاحب فضل عظیم ہے ۔
(آل عمران ١٧٤ ۔)
ان آیات اور ان سے ملنے والے درس نے مسلمانوں کو اس طرح پروان چڑھایا اور انکی پرورش کی کہ وہ اسکی روشنی میں خدا کی مد دسے اس پر توکل کرتے ہوئے خطروں اور دھمکیوں کو بھی اپنے لئے فرصت اور تدبیر سمجھنے لگے ۔
تاریخ کے صفحات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھیوں کی دلیریوں کی منظر نگاری و تصویر کشی کی بہت ہی تزک و احتشام کے ساتھ مل جائے گی جیسے'' ضمیرة بن سعید '' اپنی دادی سے نقل کرتے ہوئے جو خود جنگ احد میں مجاہدوں کو پانی پلاتی تھیں کہتے ہیں : میں نے رسول خدا ۖسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا '' نسیبہ بنت کعب '' فلاں شخص کے مقام و مرتبہ سے بڑی منزل پر فائز ہے ۔ میری دادی نے خود اس خاتون کو جنگ کے سخت ترین ایام میں دیکھا ہے کہ کس طرح وہ اپنی کمر کس کر سخت ترین لڑائی میں شریک تھی اور سر انجا م تیرہ زخم انکے بدن پر لگے جب یہ خاتون بستر مرگ پر تھیں تو خود میں ہی انہیں نہلاتی دھلاتی تھی اور انکے زخموں کو دھوتی تھی میں نے ایک ایک کر کے شمار کیا تو ١٣ زخم پائے وہ خود کہتی تھی کہ میں '' ابن قمیئہ '' کو دیکھ رہی ہوں جو شانہ پر زخم لگا رہا ہے اور سب سے سخت زخم بھی یہی تھا کہ جسکا ایک سال تک علاج چلتا رہا ۔ یہاں تک کے منادی پیغمبر ( ص) نے یہ ندا دی کہ '' حمرا ء الاسد '' کی طرف دوڑو اور اس وقت زخمی حالت میں بھی اس خاتون نے اپنے پیرہن کو اپنے زخموں سے باندھا اور جانے کا ارادہ کیا لیکن خون زیادہ نکل جانے کی وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھیوں کی مدد کو نہ جا سکی ۔ (واقدی جلد ١ ص ٢٧٠)
اس واقعہ کا ایک عظیم الشان حصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منادی کو حکم دیا کہ ندا دے '' رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے تمہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے دشمن کو ڈھونڈ نکالو اور ان سے پیکار کے لئے تیار ہو جائوہمارے ساتھ وہی اس جنگ میں شریک ہوں گے جو کل کی جنگ میں شریک تھے ۔
اس فرمان کے جواب میں '' سعد بن خضیر کے جن کے بدن پر سات زخم تھے اور انکا علاج ہو رہا تھا نے کہا سمعا و طاعة ً للہ و رسولہ اور اسلحہ ہاتھ میں اٹھا کر چل پڑے زخموں کے مندمل ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا ۔
دوم : جنگ ہوازن کے بعد :
یہاں پر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحا ب کے ضعف اور انکے جذبات کے ٹھنڈے پڑ جانے اور سستی پیدا ہو جانے کے واقعہ پر کچھ تامل کریں گے جو بنی ہوازن کے تقسیم اموال کے دوران پیش آیا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مال غنیمت کا زیادہ تر حصہ مکہ والوں کو دیا جو کہ خود آغاز میں پیغمبر ۖکے خلاف نبر آزما رہے جبکہ خود انمیں سے بعض کفار کے بڑے سردار تھے ،اسکے باوجود وہ کفار سے لڑے پیغمبر ۖکی یہ سخاوت مندانہ بخشش در حقیقت اجتماعی ، سیاسی ، پہلووں کی حامل تھی آپ یہ چاہتے تھے کہ ان کفار کو اپنی طرف کھینچ سکیں اور انکو جاہلی زندگی اور اسلام کی عزت مندانہ زندگی کا فرق سمجھا سکیں ۔
منافقوں نے انصار کے درمیان یہ بات مشہور کر دی کہ پیغمبرۖ نے اپنے خاندان والوں کو دیکھ لیا اور انہیں کے فائدہ میں یہ کام کیا ہے اس افواہ نے انصار ( مدینہ کے مسلمانوں ) کے درمیان ایک ضعف کی حالت پیدا کر دی کہ جسمیں سوالات اور غصہ کی لہر بھی شامل تھی ۔
اس سماج میں جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود تعمیر کر رہے ہوں اور اپنی رسالت کو انہیں کے بل پر دنیا تک مضبوط عقائد کے ساتھ پہونچانا چاہتے ہوں یہ صورت حال ایسے افراد کے درمیان پیش آئی تو پیغمبر ۖ کو بہت شاق گزرا چنانچہ آپ نے سب کو جمع کیا اور گفتگو کا آغازکیا ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ائے گروہ انصار یہ !میں تم سے کیا سن رہا ہوں ؟ یہ کیا ہے جسے تم نے دل پر لیا ہے ؟ مگر کیا تم گمراہ نہیں تھے کہ خدا نے تمہاری ہدایت کی ؟ کیا تم ضرورت مند نہیں تھے اور خدا نے تمہیں بے نیاز کیا ؟ کیا تم ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے اور خدا نے تمہیں ایک دوسرے سے قریب کیا ؟ انصار نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہۖ ، جو آپ نے فرماہا وہ درست ہے آپ کو جو کرنا ہے انجام دیں ، جسکو بخشنا چاہیں بخشیں آپ نے فرمایا :تم میرا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انصار نے جواب دیا :کیا جواب دیں ائے رسول خداۖ خدا اور اسکا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کرے وہی بہتر ہے ۔
حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم اگر تم کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو تم سچ کہو گے مجھے تمہاری بات پر یقین ہے اگر تم یہ کہو کہ جب سب آپکو جھوٹا کہہ رہے تھے تو ہم نے آپکی بات کو مانا ، جب سب نے آپ کو چھوڑ دیا تھا تو ہم نے آپکی نصرت کی جب آپ ضرورت مند تھے تو ہم آگے بڑھے ....
اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ائے گروہ انصار ! تم نے دو کوڑی کے مال دنیا پر نظریں جمائی ہوئی ہیں اور ایک گروہ نے اپنے اسلام کو اسی سے باندھ رکھا ہے جبکہ میں اسلام کو تمہارے لئے ہدیہ کے طور پر لایا ہوں ۔ کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ گوسفند اور اونٹ تمہیں مل جائیں لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جو عھد باندھا تھا اس سے پھر جائو ؟ قسم اس ذات کی کہ جسکے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک
فرد ہوتا اگر تمام لوگ کسی دوسرے راستہ پر چلے جائیں اور انصار دوسرے راستہ پر ہوں تو بھی میں انصار کے ہی راستہ کو انتخاب کروں گا ۔
پروردگار ! انصار اور انکے فرزندوں اور انکے فرزندوں کے فرزندوں پر رحمت نازل کر ۔ اس مقام پر انصار بہت متاثر ہوئے اور انکے احساسات کے دریا میں ہلچل مچ گئی انہوں نے روتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے تقسیم کئے گئے مال غنیمت پر راضی ہیں ( ابن ہشام ص ١٤٢) اس طرح کے مسائل جب سامنے آئیں تو ان سے نپٹنے کے لئے دو حل ہیں : ایک طویل مدت جو اس بات سے عبارت ہے کہ عقیدہ کو کھنگالا جائے اور انسانی نفس کے ہر شائبہ اور شبہ کو دور کیا جائے دوسرا حل وقتی اور مقامی ہے جسکا زیادہ تر تکیہ عطوفتی وجذباتی پہلوئوں پر ہے اس لئے کہ آنحضرت ۖ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں '' ائے گروہ انصار کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ لوگ اپنے گوسفندوں اور اونٹوں کو لے کر چلتے بنیں اور تم بھی رسول 'ۖکو چھوڑ کر اپنے اونٹوں کے پاس پہنچ جائو؟ اور اس سے قبل آپ نے انصار اور رسالت کو لیکر انکے موقف کی تعریف کی تھی اس طرح انکے دینی موقف کو بیان کیا تھالہذا انکے احساس و جذبات مچلے بنا نہ رہ سکے اور وہ آپ کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ روتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے مال غنیمت کی تقسیم پراضی ہیں ۔
نتیجہ گفتگو :
اب تک جو کچھ بیان کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ۲۷ رجب المرجب کوئی عام تاریخ نہیں ہے ایک ایسی شخصیت کی بعثت سے متعلق ہے جس نے انسانی عواطف، انسانی جذبات اور انسان کے جذبہ ہمدردی کو نکھار کر ایسی معراج بخشی کہ دنیا آج تک انسانیت کو اسلامی اصولوں میں تلاش کر رہی ہے
آج ہم سے یہی اسلامی اصول اور سیرت پیغمر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مطالبہ کر رہی ہے کہ ایسے وقت میں جب ایک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہی کلمہ پڑھنے والے انہیں کی شریعت کے اصولوں کے مطابق آئین پر چلنے والے ملک پر مصیبت کی گھڑی ہے اور وہاں کے عوام اسلام دشمن عناصر کے کینوں کا نشانہ بن رہے ہیں اس طرح کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سیلاب سے متاثرین کو فراہم ہونے والی امداد پر بھی پابندی ہے تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے میں آگے بڑھیں اور سیرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر چلتے ہوئے ان لوگوں کا ہاتھ تھامیں جنہوں نے اسلام کی تباہی کی طرف بڑھنے والے ہر اس ہاتھ کو کاٹ دیا جس نے تعلیمات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مٹانا چاہا، اور شاید اسی جرم کی سزا ہے کہ آج وہاں کے عوام پر امداد رسانی کے ذرائع بند ہے وہ اکاونٹس بند ہیں جنکے ذریعہ بیرون ملک سے رقم ٹرانسفر ہو سکتی ہے ، ایسے میں ہم سب کے لئے ضروری ہے ایران کے ۱۶ صوبوں میں آئے سیلاب سے متاثرین کے لئے جس سے جو بن پڑتا ہے انجام دے یہ بعثت سرورکائنات کا مطالبہ تو ہے ہی انسانیت کا تقاضا بھی ہے
منابع و مآخذ ۔
١۔ ابن ابی جمھور ، عوالی اللئالی ، تحقیق : مجتبی عراقی ، مطبعة سید الشہداء .قم ، چاپ اوال ، جلد ٢، ٣، ١٤ .
٢۔ ابن حنبل ، احمد ، مسند، دار صادر ، بیروت ، جلد ٢.
٣۔ ابن ہشام ، السیرة النبویہ ِ دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ سوم ، جلد ٣ ، ١٤٢١
٤۔ ابو دائود ، السنن ، تحقیق : محمد محی الدین عب الحمید ، دار الفکر ، بیروت ، جلد ٤ .
٥۔ بخاری ، صحیح ، بخاری ، تحقیق، قاسم الشعاعی ، دارلقلم ، بیروت ، چاپ اول ، ج، ١،٢،٣،٥، ١٤٠٧.
٦۔ بغوی ، شرح السنة ، تحقیق: سعید اللحام ، دار الفکر ، بیروت، جلد ١٣، ١٤١٩
٧۔ بیھقی ، ابوبکر، سنن بیہقی ، دار المعرفة ، بیروت جلد ٦
٨۔ بیہقی ، ابوبکر ، سنن بیہقی ، دار المعرفة ، بیروت جلد ٨،و٩
٩ ۔ ثواب الاعمال جلد ١
١٠ ۔ حاکم نیشابوری ، مستدرک الھاکم ، تحقیق، مصطفی عبد القادر عطاء دار الکتب العلمیہ، بیروت ، چاپ اول ، ج، ١،و ٤، ١٤١١۔
١١۔ رازی ، تفسیر ابی الفتوح الرازی ، شرکت بہ نشر ، مشہد چاپ سوم جلد ٢ ، ١٣٨١
١٢۔ راغب اصفہانی ، مفردات ، تحقیق: حقوان دائودی ، نشر ذوی القربی ، قم
١٣۔ ری شہری ، محمد ، میزان الحکمہ ، دار الحدیث ، قم ، چاپ اول ،جلد ٩، ١٠، ١٤٢٢ھ
١٤۔ زیلعی ، نصب الرایہ ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ سوم ، جلد ٣، ١٤٠٧
١٥۔ شیخ صدوق ، الخصال ، تحقیق : ولی اکبر غفاری ، موسسہ النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین ، قم ، جلد ٢،٣ .١٤٠
١٦۔ ثواب الاعمال ، موسسہ الاعلمی ، بیروت ، چاپ چہارم ، جلد ٢ ، ١٤١٠
١٧۔ شیخ صدوق ، علل الشرائع ، مکتبة الداوودی ، قم جلد ١
١٨۔ شیخ طوسی ، تہذیب الاحکام ، دارالکتب الاسلامیہ ، تھران ، چاپ چہارم ، جلد ٣ ، ١٣٦٥
١٩۔ صبحی صالح ، نھج البلاغہ ، دار الکتب اللبنانی ، بیروت
٢٠۔ طبرانی ، معجم الصغیر ، المکتبة السلفیہ ، مدینة منورہ جلد ١
٢١۔ فقہ الرضا ، الموئتمر العالمی لامام الرضا ، مشہد ، چاپ اول ، جلد ١٩ ، ١٤٠٦
٢٢۔ قاضی نعمان، دعائم الاسلام ، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیض ، دارالمعارف ، قاہرہ ، چاپ دوم ،
جلد ١،و ٢،١٣٨٥،ق
٢٣۔ کلینی ، الکافی ، تحقیق: علی اکبر غفاری ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، چاپ سوم ، جلد ٢
٢٤۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، موسسہ الوفاء بیروت ، چاپ ، دوم ، جلد ١ ،١١،٦١، ٢٠، و ١٠٣،١٤٠٣.
٢٥۔ مسلم ، صحیح مسلم ، تحقیق: محمد فواد عبد الباقر ، دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، چاپ دوم ، جلد ١، ٢، ٣، ٤، ١٩٧٢،م
٢٦۔ نوری مستدرک الوسائل ، موسسہ آل البین لاحیاء التراث ، بیروت ، چاپ اول ، جلد ٨، ١٢، ١٨، ١٤٠٨.
٢٧۔ واقدی ، المغازی ، تحقیق، دمارمدن ، جونس ، مرکز النشر فی مکتب اعلام الاسلامی ، ایران ، جلد ١،و٢، ١٤١٤.
٢٨۔ ورام ، تنبیہ الخواطر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران،چاپ دوم جلد١ ١٣٦٨۔