تین صفر المظفر روزِ شہادت حضرت زید شہید ہے۔ حضرت زید فرزند امام زین العابدین ہیں۔ آپ نے بھی قیام کیا تھا۔ آپ کے پیروکار زیدیہ کہلاتے ہیں جبکہ آپ کی نسل سے زیدی سادات ہیں، یمن میں بھی آپ کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ یزید کے بعد ہشام بن عبد الملک نے آل محمد پر بہت ظلم کیا تو حضرت زید نے قیام کا اعلان کیا، حضرت زید شہید نے جب قیام کرنا چاہا تو کوفہ میں آپ کے شاگردوں نے عرض کی کہ کوفہ میں آپ کے دادا کے نام لیوا بھی ہزاروں تھے، لیکن قیامِ وقت ان کی تعداد کم ہوگئی تھی۔ آپ کے ساتھ قیام کرنے والوں نے آپ سے شیخین سے بیزاری کا مطالبہ کیا، لیکن آپ نے خاموشی اختیار کی، یوں آپ کا لشکر کم ہوکر رہ گیا۔
تاریخ میں رقم ہے کہ جب دوران جنگ زید بن علی کہ پیشانی پر تیر لگا تو لوگ آپ کو اٹھا کر ایک گھر میں لے گئے، آپ نے فرمایا کہاں ہیں وہ لوگ جو مجھ سے شیخین سے بیزاری کا مطالبہ کرتے تھے۔ جناب زید شہید ہوگئے اور ظالموں نے ان کے سر کو کاٹ کر ہشام کے پاس دمشق بھیج دیا۔ وہاں یہ سر صدر دروازے پر معلق رہا۔ اس کے بعد لاش کو سولی دی گئی اور پھر سولی سے اتار کر در کوفہ پر لٹکا دیا گیا اور چار برس تک مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ لاش کو نذر آتش کر دیا گیا۔ تاریخ ابن الوردی میں ہے کہ عراق کے والی یوسف بن عمر ثقفی نے زید شہید کا دھڑ سولی پر چڑھا دیا، دشمن کا جذبہِ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہونے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو جدا کرکے ہشام بن عبد الملک کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا۔
ایک روایت کے مطابق ہشام نے سر زید شہید کے لئے دس ہزار درہم انعام کے طور پر دیئے اور لاش کو دروازہ کوفہ پر سولی پر آویزاں رکھا گیا۔ تاریخ خمیس میں ہے کہ جب زید شہید کا برہنہ جسم دار پر چڑھایا گیا تو مکڑی نے جالا لگا کر ان کی شرم گاہ کو چھپا دیا۔ اس کے بعد لاش کو سولی سے اتار کر آگ میں جلا دیا گیا اور راکھ کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ دنیا کہتی ہے کہ واقعہ کربلا میں اتنے مظالم نہیں ہوئے، لشکر یزید بھی تو انسان ہی تھا، انسان انسان پر اتنا ظلم نہیں کرسکتا، لیکن میں کہوں گا کہ کربلا کی بات تو چھوڑیئے۔ یہ کربلا کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب سارے عالم اسلام کے احتجاج کے بعد اتنا بڑا ظلم ہوسکتا ہے تو پوری دنیائے اسلام کی بیعت کے بعد کیا نہیں ہوسکتا۔