ماہِ محرم، اسلامی سال کا پہلا مہینہ، اہل بیت (ع) اور آپ کے شیعوں کے لیے انتہائی حزن و غم کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں امام حسین (ع) کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، جو اسلام کی تاریخ کا ایک اہم اور دردناک باب ہے۔اسی تناظر میں اسلامی مہینوں میں ماہِ محرم کو عبادات میں خاص مقام حاصل ہے۔ مگر خاص طور پر دسویں محرم (عاشورا) کے روزے کے حوالے سے اہل بیت (ع) کی تعلیمات میں احتیاط، ممانعت اور مخصوص حکمتیں بیان کی گئی ہیں، جنہیں اس مقالے میں بیان کیا جائے گا۔
ماہِ محرم: غم کا مہینہ اہل بیت (ع) اور شیعوں کے لیے
شیخ عباس قمی (رح) فرماتے ہیں: إعلم أن هذا الشهر هو شهر حزن أهل البيت عليهمالسلام وشيعتهم. وعن الرضا عليهالسلام قال : كان أبي صلوات الله عليه إذا دخل شهر المحرم لم يُر ضاحكا وكانت كآبته تغلب عليه حتى يمضي منه عشرة أيام ، فإذا كان اليوم العاشر كان ذلك اليوم يوم مصيبته وحزنه وبكائه ويقول : هذا اليوم الذي قتل فيه الحسين عليهالسلام.
"جان لو کہ یہ مہینہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کے لیے غم و اندوہ کا مہینہ ہے۔ امام رضا (ع) سے روایت ہے کہ میرے والد (امام موسیٰ کاظم (ع)) جب بھی ماہِ محرم میں داخل ہوتے تو ان کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ان کی غمگینی غالب رہتی تھی یہاں تک کہ دس دن گزر جاتے۔ اور جب دسواں دن آتا تو وہ دن ان کے لیے بہت بڑی مصیبت، غم اور رونے کا دن ہوتا اور فرماتے: "یہ وہ دن ہے جس دن حسین (ع) شہید ہوئے۔"[1]
شیخ عباس قمی نے امام محمد باقر (ع) کی روایت سے بیان کیا ہے کہ محرم کی پہلی رات میں چند خاص نمازیں ادا کی جاتی ہیں:
پہلی نماز: 100 رکعت، ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور توحید کی تلاوت۔
دوسری نماز: دو رکعت، پہلی میں فاتحہ اور سورۃ الانعام، دوسری میں فاتحہ اور سورۃ یٰس۔
تیسری نماز: دو رکعت، ہر رکعت میں فاتحہ اور 11 مرتبہ "قل هو الله احد" کی تلاوت۔
مزید برآں، نبی اکرم (ص) سے مروی ہے: من أدى هذه الصلاة في هذه الليلة وصام صبيحتها وهو أول يوم من السنة فهو كمن يدوم على الخير سنة ولا يزال محفوظا من السنة إلى قابل فان مات قبل ذلك صار إلى الجنة.
"جو شخص اس رات یہ نماز پڑھے اور اس کے بعد صبح کا روزہ رکھے جو سال کا پہلا دن ہو، اس کے لیے ایسا ہے جیسے وہ ایک سال تک نیکیوں پر قائم رہے اور اس کی حفاظت کی جائے۔ اگر اس سے پہلے مر جائے تو جنت میں داخل ہوگا۔"[2]
ماہِ محرم میں روزے کی فضیلت
روزہ اور دعائیں روزِ اول محرم
امام رضا (ع) سے روایت ہے: من صام هذا اليوم ودعا الله استجاب الله دعاءه كما استجاب لزكريا عليهالسلام. "جو شخص محرم کے پہلے دن روزہ رکھے اور دعا کرے تو اللہ اس کی دعا قبول فرمائے گا، جیسے حضرت زکریا (ع) کی دعا قبول ہوئی۔"
امام رضا (ع) سے ایک خاص دعا بھی منقول ہے جو وہ محرم کے پہلے دن نماز کے بعد تین مرتبہ پڑھتے تھے:
اللَّهُمَّ أَنْتَ الاِلهُ القَدِيمُ وَهذِهِ سَنَةٌ جَدِيدَةٌ فَأَسْأَلُكَ فِيها العِصْمَةَ مِنَ الشَّيْطانِ وَالقُوَّةَ عَلى هذِهِ النَّفْسِ الاَمَّارَةِ بالسُّوءِ وَالاشْتِغالَ بِما يُقَرِّبُنِي إِلَيْكَ ...
(مکمل دعا مفاتیح الجنان جلد 1 صفحہ 372 پر موجود ہے۔)
اس مہینے کے روزوں کی فضیلت اور خاص دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں کہ پورے مہینے کا روزہ رکھنے سے بندہ تمام برائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔[3]
عاشورا کے دن روزے سے ممانعت
جبکہ ماہِ محرم کے عمومی دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے، اہل بیت (ع) نے روزِ عاشورا (10 محرم) کو روزہ رکھنے سے نہ صرف اجتناب کیا بلکہ اس کی صراحتاً ممانعت فرمائی۔ علامہ شیخ الطوسی فرماتے ہیں کہ محرم کے ابتدائی نو دنوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور عاشورہ کے دن (دسواں محرم) فاقہ رکھ کر اس دن بعد عصر تک ترتبت امام حسین (ع) فاقہ شکنی کرے۔[4]
محرم کا دسویں دن، جو عاشورہ کہلاتا ہے، امام حسین (ع) کی شہادت کا دن ہے اور اہل بیت (ع) اور آپ کے شیعوں کے لیے انتہائی غم و حزن کا دن۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: في هذا اليوم يجب التفرغ للبكاء والنياح على مصيبة الحسين عليه السلام وإقامة المآتم وأن لا يدخر فيه شيئا للمتاع الدنيوي وأن لا يضحك ولا يقبل على اللهو واللعب.
"اس دن شیعوں کو چاہیے کہ وہ غم میں مبتلا ہوں، ماتم کریں، دنیوی کاموں کو ترک کریں، ہنسی مذاق اور کھیل کود سے پرہیز کریں۔"[5]
بنی امیہ نے امام حسین (ع) کی شہادت کو چھپانے اور اسے معمولی واقعہ ثابت کرنے کے لیے عاشورا کے دن کو "یومِ برکت" قرار دے کر روزہ رکھنے کو رواج دیا۔ اہل بیت (ع) نے اس سیاسی و مذہبی بدعت کا مقابلہ کیا اور مومنین کو اس سے باز رہنے کی تلقین کی۔
عاشوراء کے روزے کی حقیقت
عاشوراء (10 محرم) کے روزے کو بعض اہلِ سنت کتب میں سنت قرار دیا گیا ہے، جب کہ اہل بیت (ع) کی تعلیمات میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ائمہ اہل بیت (ع) نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام رضا (ع) سے پوچھا گیا کہ کیا عاشوراء کا روزہ رکھا جائے؟ آپ نے فرمایا: "عن صوم ابن مرجانة تسألني؟" "کیا تم ابن مرجانہ کے روزے کے بارے میں مجھ سے سوال کرتے ہو؟"[6]
امام صادق (ع) نے فرمایا: "ما هو إلا يوم حزن ومصيبة... ويوم فرح وسرور لابن مرجانة وآل زياد" "یہ دن غم و مصیبت کا دن ہے، اور آل زیاد کے لیے خوشی و جشن کا دن۔"[7]
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت (ع) نے اس روزے کو یزیدی سازش اور تشیع کے خلاف پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔
یوم عاشوراء کا روزہ امویوں کی بدعتوں میں سے ہے، جسے انہوں نے سنت میں شامل کیا اور اس پر جھوٹی احادیث گھڑیں۔ تاہم احتجاج کے مقام پر اُن کے خلاف صحیح مسلم کی روایت پیش کی جا سکتی ہے: "قد كان يصام ـ يوم عاشوراء ـ قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل ترك" "عاشوراء کا روزہ رمضان کے فرض ہونے سے پہلے رکھا جاتا تھا، پھر جب رمضان نازل ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا۔"[8]
یہ معروف ہے کہ بنو امیہ نے خلافت پر قبضہ کرنے کے بعد اسے موروثی اور جابرانہ بادشاہت میں بدل دیا، اور اہل بیت (ع) کے خلاف جعلی احادیث گھڑیں، ان کی شخصیت کو مجروح کیا اور ان کی مناسبتوں کو مسخ کیا۔ عاشوراء کے روزے کے سلسلے میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ اسی سازش کا ایک حصہ ہے۔
اہل بیت (ع) نے عاشورہ کے دن کو روزہ رکھنے کی بجائے فاقہ یعنی دن کے کچھ حصے تک کچھ نہ کھانے، مگر مکمل روزہ نہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عاشورہ کے دن کو صرف خوشی یا عام روزہ کے طور پر نہ لیا جائے بلکہ اسے ایک مصیبت اور غم کا دن سمجھا جائے۔
روزِ عاشورہ کے فاقے کی حکمت
1.مصیبت اور رنج کی یاد دہانی: امام حسین (ع) اور آپ کے اصحاب نے ماہِ محرم میں کربلا کے میدان میں انتہائی شدید بھوک، پیاس، اور تکلیف برداشت کی۔ عاشورہ کے دن فاقہ رکھنے سے مومنین امام (ع) کے مصائب کو یاد رکھتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ جسمانی تکلیف روحانی یاد کے ساتھ جُڑی ہوتی ہے، جو محبت اور عقیدت کی علامت ہے۔
2.روضہ رکھنے سے امتیاز: اہل بیت (ع) نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ دن غم، رنج، اور ماتم کا دن ہے، نہ کہ خوشی کا۔ فاقہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مومنین روزہ کی سنت سے الگ عمل کریں اور دکھ کی شدت کو ظاہر کریں، تاکہ یہ دن عام روزے سے مختلف رہے اور اس دن کی خصوصی حیثیت واضح ہو۔
3.جسمانی طاقت کی حفاظت: مکمل روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری آ سکتی ہے، خاص طور پر جب مومنین اس دن ماتم و سوگواری میں مشغول ہوتے ہیں، مجالس اور عزاداری میں شرکت کرتے ہیں، یا زیارتوں پر جاتے ہیں۔ فاقہ رکھنے کا مطلب ہے کہ دن کے وقت کچھ نہ کھایا جائے، مگر شام کو افطار کر کے جسمانی طاقت برقرار رکھی جائے تاکہ مومنین روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے امام حسین (ع) کی یاد میں مشغول رہ سکیں۔
4.روحانی شرکت: فاقہ رکھنے سے روحانی شرکت اور عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ جسمانی قربانی کا ذریعہ بنتا ہے، جس سے دل اور جان امام حسین (ع) کے مصائب سے جُڑی رہتی ہے۔ اس عمل سے مومن کے دل میں صبر، استقامت، اور قربانی کی روح پھلتی پھولتی ہے۔
5. بدعتوں سے بچاؤ: فاقہ کی حکمت ایک طریقہ ہے اہل بیت (ع) کی تعلیمات کے مطابق بنی امیہ اور بعض دیگر فرقوں کی اس دن روزہ رکھنے کی بدعت سے بچنے کا۔ چونکہ یہ لوگ عاشورہ کو خوشی اور جشن کا دن بنانا چاہتے تھے، اہل بیت (ع) نے اس کو غم و ماتم کا دن اور فاقہ رکھنے کا دن قرار دیا تاکہ اصل حقیقت کو زندہ رکھا جا سکے۔
6. انفرادی اور اجتماعی ادب: فاقہ رکھنے کا یہ عمل نہ صرف فرد کی قربانی ہے بلکہ اجتماعی سطح پر اہل بیت (ع) کی یاد میں ایک تربیتی اور تعلیمی قدم بھی ہے، جو ایک خاص انداز میں سوگ و عزا کی فضا کو قائم رکھتا ہے اور ظلم و ستم کے خلاف بیداری پیدا کرتا ہے۔
محرم میں روزِ عاشورہ کا فاقہ صرف بھوکا رہنے کا نام نہیں بلکہ یہ عقیدت، احترام، صبر، اور یاد کا ایک مقدس عمل ہے۔ اس سے مومنین امام حسین (ع) کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں ان کی رہنمائی اور ثابت قدمی کو زندہ رکھتے ہیں۔ فاقہ کے ذریعے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ عاشورہ خوشی یا عام روزہ نہیں بلکہ غم اور قربانی کا دن ہے۔
نتیجہ
ماہِ محرم میں عبادت، ذکر، دعا اور روزہ مستحب عمل ہے، مگر روز عاشورا؛ روزہ رکھنا اہل بیت (ع) کی سیرت کے خلاف ہے۔ امام حسین (ع) کی شہادت کو بنی امیہ نے خوشی کا دن قرار دیا، مگر اہل بیت (ع) نے اسے غم، حزن اور فاقے کا دن قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم عاشورا کو عبادت اور رنج و غم کے ساتھ منائیں، فاقہ کر کے امام حسین (ع) کے مصائب میں شریک ہوں، اور ہر ایسی بدعت سے دور رہیں جو ظلم و ستم کے چہرے کو چھپانے کی کوشش کرے۔
حوالہ جات
[1] عباس قمی، مفاتيح الجنان، ج1، ص372۔
[2] عباس قمی، مفاتيح الجنان، ج1، ص372۔
[3] ابن طاووس، الاقبال ج3، ص44۔
[4] عباس قمی، مفاتيح الجنان، ج1، ص373۔
[5] عباس قمی، مفاتيح الجنان، ج1، ص374۔
[6]حرّ عاملی، وسائل الشيعہ، ج10، ص460۔
[7] کلینی، الكافی،ج 4، ص147۔
[8] مسلم، صحيح مسلم، ج2، ص794۔
فہرست منابع
1.ابن طاووس، على بن موسى، الإقبال بالأعمال الحسنہ، قم، دفتر تبليغات اسلامى، 1376ش۔
2. حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ إلى تحصیل مسائل الشریعہ، لبنان، دار احياء التراث العربي بيروت، ۱۴۰۹ھ۔
3. عباس قمی، شیخ، مفاتیح الجنان، قم، مجمع إحياء الثقافۃ الإسلاميّہ، ۱۴۲۴ھ۔
4. کلینی، محمد بن یعقوب، تہران: دارالکتب الإسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
5.مسلم بن حجّاج نیشابوری. صحیح مسلم، بیروت: دار إحیاء التراث العربی، بیتا۔