شروع اللہ کے پاک نام سے جس نے ہمیں وہ سب کچھ سکھایا، جس کو ہم نہیں جانتے تھے اور شکر ہے اس کریم پروردگار کا، جس نے اپنے بندوں کو بے پناہ رحمتیں اور برکتوں سے نوازا ہے۔ انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ ہمیں علی ابن ابی طالب کے پیروکاروں میں قرار دیا اور ولایت علی پر قائم رکھا۔ ولایت علی کا اعلان حجۃ الودع 18 ذوالحج کو رسول خدا ﷺ نے اپنی مبارک زندگی کے آخری حج کے موقعے پر غدیر خم کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان بحکم خداوند متعال ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا۔ جسے خطبہ غدیر بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں آپﷺ نے اپنی تیئس سال کی تبلیغی زحمتوں کا ماحاصل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی کشتی کو ایک ایسے ناخدا کے حوالہ کیا، جس نے اس کشتی کو بنانے، اسے سجانے سنوارنے اور کفر و نفاق کے سمندر میں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے میں قدم بہ قدم رسول اکرمﷺ کا ساتھ دیا۔
میدان غدیر میں تپتی دھوپ کے باجود رسول خداﷺ نے حاجیوں کے درمیان اعلان کروایا، جو آگے گئے ہیں وہ پیچھے آجائیں، جو پیچھے رہ گئے ہیں، وہ آگے آجائیں اور رسولﷺ نے حکم دیا کہ اونٹوں کے پلانوں سے ممبر بنایا جائے اور رسول خدا نے ممبر پر کھڑے ہو کر خدا کی حمد و ثناء کے بعد ایک اہم پیغام خداوندی بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا اعلان کیا اور کہا خداوند متعال نے مجھ پر وحی کی ہے، اگر میں نے اس پیٖغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی ؑکے متعلق نازل کیا ہے تو اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لیے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی ضمانت لی ہے۔ حکم خدا وندی ہے: "اے رسول جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوچکا ہے، اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے کار رسالت انجام نہ دیا، خدا آپ کو لوگوں کو شر سے محفوظ رکھے گا۔"(سورہ مائد ۶۷)
رسول اکرم نے امام علی کو اپنا بھائی، وصی، جانشین قرار دیا اور کہا کہ میرے بعد یہ امام ہیں اور مزید فرمایا کہ علی ؑ کی مثال میرے لیے ویسی ہے جیسے موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی، فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور کہا جان لو اس سلسلے میں خبردار رہو کہ علی ؑ کو تمہارا ولی اور امام بنا دیا ہے، ان کی اطاعت تمام انصار اور مہاجرین، شہری و دیہاتی، عربی و عجمی، غلام و آقا اور سیاہ و سفید سب پر واجب ہے اور فرمایا حلال وہی ہے، جس کو اللہ، رسول اور اس کے ولی نے کیا اور حرام وہی ہے، جس کو اللہ، رسول اور اس کے ولی نے قرار دیا اور خدا نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجھے علم دیا ہے، سب میں نے علی ؑکے حوالہ کر دیا۔
رسول خدا نے طویل خطبہ کے بعد کہا خدا کی قسم قرآن کے باطن اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ کوئی واضح نہیں کرسکے گا، جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں یہ بتا دیا (جس جس کا میں مولا ہوں، اس اس کا علی مولا) ہے۔ اے لوگوں علی ؑاور ان کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد نقل اصغر ہیں اور قرآن نقل اکبر، ان میں سے ہر ایک دوسر ے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ ہونا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ غدیر کے دن صرف ولایت علی کا اعلان نہیں ہوا بلکہ دین کامل ہوا، نعمتیں پوری کر دیں۔ سورہ مائدہ آیت نمبر ۳(آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کرچکا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا)۔
رسول اکرمﷺ نے خداوند کو گواہ قرار دیدیا اور کہا میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی امامت اور ولایت پر زور دیا، دین کی تکمیل علی کی ولایت سے ہے، بالآخر کہا خدایا جو کچھ میں نے کہنا ہے اور پہنچانا ہے، جس کا تم نے حکم دیا ہے، اس لیے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین پر اپنا غضب نازل فرما اور ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو عالمین کا پالنے والا ہے۔ خطبہ غدیر اہل تشیع اور اہل سنت کی اکثر کتابوں میں نقل ہوا ہے، اہل تشیع کے بزرگ علامہ صدوق، علامہ مفید، علامہ سید مرتضیٰ، علامہ مجلسی وغیرہ۔ اہل تسننس کی مشہور تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے، جیسے تاریخ الخلفاء، تاریخ بغداد اور اس کے علاوہ سنن ترمذی ہیں۔ حاکم نیشا پوری کی کتاب میں تفسیر رازی وغیرہ۔
یوں رسول خداﷺ نے ولایت علی کا اعلان غدیر خم کے میدان پر کیا۔ وہ تپتی دھوپ صحرا اور حاجیوں کے درمیان اور اُونٹوں کے پلانوں کا ممبر بنوایا ہے۔ حاجیوں کے درمیان اعلان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب حاجی اپنے گھروں میں جائیں گے تو سب سے پہلے سوال یہ ہوگا کہ کیوں دیر کر دی تو پہلا جواب یہی آئے گا کہ یہ واقعہ پیش آیا تھا تو سب تک یہ پیغام پہنچ جائے، کوئی بھی باقی نہ رہ جائے۔ آپﷺ نے فرمایا غدیر کے پیغام کو جو یہاں موجود ہیں، وہ ان تک پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں، یعنی غدیر کے پیغام کو امہ تک پہنچانے کا حکم رسولﷺ دے رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیئے کہ پیغام غدیر کو عام کریں، کیونکہ پیغام غدیر میں ہی امت کی نجات ہے اور امت کی تمام مسائل اور موجودہ دنیا کے تمام مسائل کا حل خطبہ غدیر میں ہے۔ کاش ہم غدیر کو مضبوطی سے تھام لیتے تو آج امت ٹکڑوں میں نہیں بٹتی۔ خدا ہمیں حقیقی معنوں میں غدیری قرار دے، آمین۔