حضرت رسول خدا(ص) کی عادلانہ طرز زندگی امت کے لئے نمونئہعمل ہے
1320
M.U.H
16/10/2020
0 0
تحریر:تقدیس نقوی
معتبرروایتوں کی مطابق رسول خداختمی مرتبت حضرت محمد مصطفے صل اللہ وعلیہ والہ والسلم تقریبا" 63برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔کتب تاریخ میں وفات کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اک روایت کے مطابق آپکی وفات 28 صفر سنہ 11ھجری بمطابق سنہ632عیسوی کو مدینہ منورہ میں ہوئ ۔ دوسری روایت کے مطابق آپ کی رحلت 12ربیع الاول سنہ 11ھجری کو ہوئی۔دیگر انبیاء و مرسلین کی طویل عمروں کے مقابل حضور ص کیاس مختصر63 سالہ عمر میں بھیآپکو صرف 23 سال ہی دین اسلام کی ظاہری اور مبین تبلیغ کے لئے ملے جس میں بھی اپ نے تقریبا" 13سال مکہ معظمہ میں سخت ترین ماحول میں گذارےجہاں آپکو زیادہ تر وقت کفار قریش کے مظالم اور سختیاں برداشت کرتے ہی گذرا۔ تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں کہ آپ نے تکمیل دین کےلئے اہم ترین فرائض اپنیاخری تقریبا" دس سال کی مدینہ منورہ کی زندگی میں ہی انجام دئے۔آپکی حیات طیبہ کی اس سے زیادہ حیران کن حقیقیت یہ ہے کہ اتنی مختصر تبلیغی زندگی میں وسائل کی قلت اور دشمنان دین کے جانب سے مسلسل پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کے باوجود بھی آپکی حیات طیبہ کا کوئی ایک ادنی سا شعبہ یا پہلو بھی ایسا نہ تھا جسے نامکمل تصور کیا جاسکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ کی پوری حیات طیبہ عدل و انصاف پر مبنی تھی۔اب وہ بعثت سے قبل کی چالیس سالہ زندگی ہو یا اسکے بعد کی تئیس سالہ زندگی تاریخ میں آپ کی حیات کا کوئی اک ادنی سا واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جہاں آپ نے عدل و انصاف سے انحراف کیا ہو۔
کیونکہ اللہ کے بھیجے گئے پیغمبر کی حیثیت سے اپکی زندگی کا نصب العین انسانیت کی ہدایت کاملہ اور معاشرے کی اصلاح کرنا تھا اس لئے آپ کے ہر قول و عمل سے انسانیت کی ہدایت کے انوار منعکس تھے۔گو کہ آپکی تبلیغ دین کے مشن کے مراحل اور ان سے متعلق معرکوں کا آحاطہ کرنا قوت بشری سے باہر ہے مگر حضور نے خود اپنی تبلیغ دین کے مقصد کو نہائیت بلیغ اور مختصر اک جملہ میں بیان فرمادیا۔ آپکا ارشاد ہے : " انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" یعنی " میں اس لئے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں کہ بلند ترین اخلاقی انسانی عمارت کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں"
حضور کی تبلیغ دین کا یہ عظیم مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا تھا جب تک آپ خود اخلاقی کمالات کا سب سے افضل نمونہ نہ ہوتے اور آپکے کردار میں اخلاقی جوہر سب سے اعلی اور ارفع نظر نہ آتے۔ اسی لئے اپکی زندگی کا ہر لمحہ بنی نوع انسانی کے لئے اخلاق کا اک مکمل نمونہ ہے۔ اپکے کردار کی اسی اعلی صفت کی سند خود پروردگار عالم نے اپنے کلام پاک میں عطا فرمائی۔ سورہ القلم میں ارشاد الہی ہے : " و انك لعلى خلق عظيم " یعنی " اور اے رسول بے شک آپ خلق عظیم کے اعلی درجہ پر فائز ہیں "
اعلان رسالت سے قبل مکی زندگی میں آپ نےاپنی عملی زندگی کی ابتداء تجارت سے کی تھی۔ نوجوانی ہی میں آپ اپنے مربّی اور مشفق چچا حضرت ابوطالب ع کے زیر سایہ تجارتی قافلوں میں شرکت کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد جو پہلے ہی سے مکہ میں اک کامیاب تجارت کی مالکہ تھیں کی دعوت پر انکی تجارت کی نگرانی کرنے پر معمور ہوئے۔ کچھ ہی دنوں میں آپ کی دیانت اور حسن اخلاق کے باعث حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی تجارت میں قابل رشک ترقی ہونے لگی۔ اس غیر معمولی ترقی کی وجوہات معلوم کرنے پر یہ انکشاف ہوا کہ آپ نے اپنی تجارت میں دیانتداری اور معاملات میں شفافیت کو فروغ دیا جو اس وقت اس خطئہ عرب میںناپید تھا۔ اسی سبب اس وقت کے تاجروں کا آپ پر اعتماد اور بھروسہ بڑھتا گیا جو اپکی تجارت میں روزافزوں ترقی کا باعث بنا۔ یہی حضور کے وہ اسوہ حسنہ ہیں کہ جن کی پیروی کرتے ہوئے امت مسلمہ اپنے روز مرہ کے معاملات میں آج بھی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
یہ بات بھی سرور کائنات صل اللہ وعلیہ و الہ والسلم کی شخصیت کے معجزانہ قوت ارادی اوربے مثل قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کی تصدیق کرتی ہے کہ اپ کے علاوہ تمام انبیاء اور مرسلین کے محدود تبلیغی مشن کو پورا کرنے کے لئے ملی نسبت طویل مدت کے مقابل اپکے مشکل ترین تبلیغی مشن کی تکمیل کے لئے میسر صرف 23برس کی مدت بظاہر بہت قلیل معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جس خدا نے اپکو خاتم الانبیا اور سیدالا نبیاء و مرسلین کے اعلی مرتبہ پر فائز کرکے اپکو اس مشکل ترین تبلیغی مشن کے لئے منتخب فرمایا اسی نے اپکو ان آعلی صفات حسنہ سے بھی مختص فرمایا جوکائنات کے مشکل ترین مشن کو اس قلیل مدت میں تکمیل کرنے کا ضامن بنیں تاکہ امتاپنے رسول (ص) کی عظمت اور انکی ان بے مثال کاوشوں کا اعتراف کرے جو انھوں نے امت کی ہدایت کی خاطر اتنے قلیل وقت میں انجام دیں۔ ورنہ خالق کائنات کے لئے اس اشرف الکائنات ہستی کو ایک طویل عمرعطا کرنا کیا مشکل تھا۔ساتھ ہی حضور کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اس قلیل مدت میں دین اسلام کی عظیم تبلیغ سے متعلق مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپ نے اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے تمام تقاضوں کو اسی خوش اسلوبی اور تدبرسے پورا کیا جس طرح اپ نے اپنے کارہائے رسالت انجام دئے اور اس طرح آپ نے امت کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں ایک کامیاب' مثالی اور قابل تقلید رول ماڈل پیش کئے۔
عام طور سے انسان اپنی زندگی کے مسائل اور ناکامیابیوں کا ذمہ دار اپنی نا آسودہ ازدوجی اور معاشرتی زندگی کو ٹہراتا ہے جس کی بنیادی وجہ نامسائدمعاشی حالات تصور کئے جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم حضور ص کی ازدواجی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس شعبہ میں بھی حضور کا حسن سلوک اور روابط اعلی درجہ پر فائز نظر آتے ہیں۔حضور ص نے چند کنیزوں کے علاوہ گیارہ نکاح کئے جن میں دو بیویوں کی وفات اپکی زندگی میں ہی ہوگئی تھی اور نو بیویاں اپکی وقت وفات موجود تھیں۔ ان تمام امہات المومنین کے ساتھ حضور کا سلوک یکساں تھا اور آپ بلا تفریق نسل وقبیلہ تمام بیویوں کا برابر کا احترام فرماتے تھے۔شہنشاہ کونین کے یہاں بظاہر دنیاوی آسائش کا کوئی اہتمام نہ تھا مگر اس کے باوجود بھی ہر زوجہ مطمئن اور خوش تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اپکی حیات طیبہ کو دینی اور دنیاوی شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اپکی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر عمل امت کے لئے اللہ کی جانب سے بھیجی گئی ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپکو رحمت آلعالمین ' خیر البشر اور خلق عظیم کے مراتب پر فائز کرکے امت کے لئے اپکی سیرت کا ہر پہلو اپنی شریعت قرار دیا اور ہر امتی پر واجب قرار دیا کہ وہ انکی سنت کی پیروی کرے۔
اس بات کی تصدیق اللہ تعالی نے خود قران پاک میں فرمادی ہے کہ حضور نے دین اسلام کی تبلیغ کو اسی طرح مقررہ وقت میں انجام دیا اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جس طرح اللہ تعالی نے مقرر کیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالی سورہ مائدہ کی آیت نمبر3 میں ارشاد فرما رہا ہے " (ترجمہ) ...اے رسول آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے"
یہ آیہ مبارکہ حضور کے حجتہ آلوداع سے واپسی پر18 ذالحجہ سنہ 10ہجری کو اللہ نے نازل فرمائی کہ جو حضور کی زندگی کے آخری ایام تھے۔مفسرین قران نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ دین کو مکمل کردینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر وعمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولا" یا تفصیلا" موجود ہو اور ہدایت اور رہنمائ حاصل کرنے کے لئے کسی حال میں اس دین سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جس کی تحریری شکل قران کے ذریعہ اورعملی صورت حضور کی سنت کے ذریعہ امت تک پہنچادی گئ ۔اب جس طرح قران امت کے لئے مکمل ہدایت بن کر موجود ہے اسی طرح حضور کی سنت بھی مکمل ہدایت کا ذریعہ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب حضور اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انھوں نے دین سے متعلق تمام کار رسالت مکمل کر دئے تھے اور کوئ کام بھی امت کو طے کرنے کے لئے نہیں چھوڑا تھا۔ اور اگر کوئ کام جس کا تعلق دین سے ہے وہ نامکمل چھوڑ کر چلے جاتے تو وہ اللہ تعالی کی اس سورہ مائدہ میں دی گئی تکمیل دین کی سند کے بر خلاف ہوجاتا جو حضور کبھی بھی نہیں کرسکتےتھے۔اس لئے اپنی عمر کے آخری ایام میں بھی اپکے مسلسل خطبات اور اقوال امت کِی ہدایت کے لئے ان امور کی جانب خصوصی توجہ دلاتے ہیں جن کا تعلق اپکی رحلت کے فورا" بعد ہونے والے واقعات سے تھا اور امت کو ان اہم مسائل میں حضور کی صریحاً ہدایات کی ضرورت تھی تاکہ امت کسی حال میں بھی گمراہ نہ ہو۔ یہی دین کی تکمیل سے مراد ہے۔
اسی لئے حضور نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی امت کی ہدایت کے لئے تاکید فرمایا تھا کہ " میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسرے میری عترت اور اہلیبیت..اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے…"
حضور کو اپکی وصیت کے مطابق امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ہی غسل و کفن دیا اوراپکو اسی حجرے ہی میں دفن کیا جہاں اس وقت اپکا روضہ مقدس ہے جوکہ مسجد نبوی کا ہی حصہ ہے۔