اجتہاد و تقلید سے متعلق شبہات کی رد
علامہ عقیل الغروی
سوال:تقلید کیا ہے اور کب سے شروع ہوئی؟
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: تقلید ایک فطری عمل ہے اور اسے عقل کی تا ئید بھی حاصل ہے۔ یعنی تقلید کی حقیقت فطری بھی ہے اور عقلی بھی ہے۔ انسان جب سے پیدا ہوتا ہے کسی نہ کسی کی تقلید کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف مسائل میں ، زندگی کے مختلف اسالیب میں ، ماں باپ کی تقلید کرتا ہے، اساتذہ کی تقلید کرتا ہے۔ مختلف آئیڈیلس زندگی میں آتے ہیں اور انسان ان آئیڈیلس کی پیروی کرتا ہے یعنی تقلید کرتا ہے۔ چنانچہ تقلید ایک فطری امر ہے اور اسے عقل کی تائید بھی حاصل ہے ۔ مذہب کی اصطلاح میں تقلید کے معنی یہ ہیں کہ کسی ماہر قانون اسلامی ، کسی عالم دین کہ جو واقعی عالم دین ہو، یعنی دین کے احکام حلال و حرام، واجب و مستحب ، مباح ومکروہ ،ان احکام کو ان کے دلائل سے ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، بلکہ مکمل ملکہ رکھتا ہو، بالفعل قدرت رکھتا ہو ، واقعی ایسا ماہر فن ہو جس کو اعلم کہا جائے ، اس کی رائے کے مطابق عمل کرنا تقلید ہے ۔ اور یہ تعریف بھی اس پہلے معنی سے ہم آہنگ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مختلف مسائل میںکسی نہ کسی ماہر فن کی پیروی کرتا ہے۔ بہت عام اور مشہور مثال اس کی یہ ہے کہ اگر انسان بیمارہوتا ہے تو کسی نہ کسی طبیب یا ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اپنا علاج کرتا ہے ۔ طبیب اور ڈاکٹر سے وہ اس وقت دلیل نہیں پوچھتا کہ آپ نے یہ دوا کیوں لکھی ہے ۔ہاں مریض کو یہ یقین ضرور ہونا چاہئے کہ یہ شخص واقعاً طبیب ہے۔ ڈاکٹر ہے اور مستند ڈاکٹر ہے، ماہر ہے اور اپنے فن کا وفادار بھی ہے ۔جب مریض کو ان تمام امور کا اچھی طرح اطمینان حاصل ہوجاتا ہے تو اس کے نسخہ پر عمل کرتا ہے ۔ یہی نسخہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔
ایک مثال اور اچھی طرح سے پیش نظر رہے تو یہ اور بھی روشن ہو سکتا ہے ۔ یہ مثال یہ ہے کہ اگر آپ کوئی گھر بنانا چاہتے ہیں، زمین خریدتے ہیں ، آپ کا پیسہ، آپ کا گھر، آپ کی زمین ،لیکن آپ پہلے کسی سول انجینئر سے، کسی ماہر اور مستند آرکیٹکٹ سے، نقشہ بنواتے ہیں ، اور اس کے بنائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہی اپنا مکان بنواتے ہیں ۔کیوں؟ اس لئے کہ اس نے وہ فن حاصل کیا ہے ، وہ عالم ہے اس فن کا۔ اسی لئے آپ اس کے نقشہ کو جوں کا توں لیکر قبول کرتے ہیں اور اسے نافذ کرتے ہیں۔ اسی پر عمل کرتے ہیں ۔ اسی طرح دین کا معاملہ ہے ۔دین کے مسائل پر بھی ماہر دین کی رائے کے مطابق عمل کرنا پڑتاہے اور یہی تقلید ہے ۔ یہ امر انسان کی فطرت سے بھی ہم آہنگ ہے اور عقل سے بھی ۔فطرت یہی راہ اختیار کرتی ہے اور عقل یہی راہ سجھاتی ہے ، کہ اگر تم کوئی فن نہیں جانتے ہو تو جو اہل فن ہیں ان کی رائے کے مطابق عمل کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ عقلی بھی ہے اور فطری بھی ہے۔
س:ابھی چند سال سے توضیح المسائل میں باب تقلید شامل ہوا ہے ۔ اس سے پیش تر یہ باب نہیں ہوا کرتا تھا۔ تو یہ کب سے داخل کیا گیا اور کیا اس سے پہلے اس طرح کی تقلید کی ضرورت نہیں تھی؟
ج:یہ سب محض شکوک و شبہات ہیں ۔آپ کہہ رہے ہیں کہ ابھی چند سال سے توضیح المسائل میں باب تقلید شامل ہوا ہے ،خود توضیح المسائل ہی کا وجود اس شکل میں پہلے کہاں تھا؟ ہر علم وفن میں مسلسل ترقی کا سلسلہ رہتاہے ۔احکام شریعت کا علم بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے ۔میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ شریعت مکمل نہیں تھی ۔شریعت مکمل تھی اور ہے ۔ہمارا علم مکمل نہیں ہے وہ مسلسل ترقی کا سفر طے کررہاہے ۔شریعت کی تشریح اور توضیح کا عمل جاری ہے ۔ چونکہ معاملات اور مسائل کی تحقیق ،تبیین،تنقیح، تشریح اور توضیح کا عمل جاری ہے اسی لیے کتابوں کی طرح طرح سے ترتیب ،تنظیم ،تدوین،تالیف اور تصنیف کا عمل بھی جاری ہے ۔بالکل ابتدائی کتابوں میں مطالب اس ترتیب سے نہیں ہواکرتے تھے جس ترتیب سے اب ہوتے ہیں ،یہ زمانے کے ساتھ علم وفن کی ترقی کا لازمہ ہے۔ تقلید کا معاملہ اور مسئلہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے ہے۔ ہر مسلمان براہ راست رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوپاتا تھا۔ تو مختلف مقامات پر حضورؐ نے مختلف صحابہ کو مقرر کیا تھا کہ ان سے علم حاصل کرو، ان سے فتویٰ حاصل کرو اور اس پر عمل کرو۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کے دور میں بھی یہ سلسلہ رہا ۔ ائمہ علیہم السلام کا قیام مدینہ ، کوفہ یا سامرہ میں ہوتا تھا۔ امام معصوم کسی ایک مقام پر ہی ہوتے تھے۔ تو یہ بتایئے کہ قم میں جو شیعہ تھے وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے؟ رَے میں جو شیعہ تھے وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے؟ کلین میں جو شیعہ تھے وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے؟نیشاپور میں جو شیعہ تھے وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے ؟۔ امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا تھا کہ آقا ہر شیعہ ہر مسلمان آپ کے پاس حاضر نہیں ہوسکتا ۔توآپ اپنے صحابہ میں سے جو قابل اعتماد ہوتے تھے ان کی طرف رہنمائی فرمادیا کرتے تھے ۔کہتے تھے کہ تم اپنے مسائل فلاں سے پوچھا لیا کرو۔یہی پوچھ کر عمل کرنا تو تقلید ہے۔
آج وہ صحابہ نہیں ہیں، آج مجتہدین ہیں، علماء ہیں،فقہا ہیں ۔ یہ علماء یا فقہا اور مجتہدین کیا ہیں؟ یہ قرآن اور احادیث معصومین علیہم السلام کی روشنی میں آپ کو حکم بتاتے ہیں۔ تو عمل وہی ہے جو دور پیغمبرؐ یا زمانہ معصومینؐ سے مسلسل چلا آرہا ہے ۔ لفظ کا فرق ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کو لفظ تقلید سے چڑ ہے تو آپ اس عنوان کو ،اس لفظ کو ،اس اصطلاح کو بدل سکتے ہیں ۔لیکن حقیقت امر ، جوہر مسئلہ یا اصل معاملہ تو نہیں بدل سکتا وہ تو وہی ہے کہ جو متن زندگی میں ہے ۔ حقیقت عمل وہی ہے۔ آ پ چا ہیں تو نام تبدیل کردیں۔ آپ اسے پیروی کہہ لیں ، آپ اسے استفسار کہہ لیں ۔ آپ اسے تقلیدکے بجائے تعلیم کہہ لیں ۔ حالانکہ فقہا نے یہ اصطلاح اختیار کی ہے تو اس کی بھی کوئی علمی بنیاد ہے ۔ خود زبان معصوم پر لفظ تقلید آئی ہے ۔ ایک زمانہ میں میں نے اجتہاد و تقلیدکے سلسلے سے کچھ لکھا تھا تو عنوان بحث کے طور پر کتاب التقلید کے بجائے کتا ب التعلیم لکھا تھا ۔ اسی طرح کے مواقع پر کہتے ہیں : لا مشاحۃ فی الاصطلاح ۔ آپ نام یا عنوان کچھ بھی رکھ لیں۔ جو ہر معنی وہی رہے گا۔
س:ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام دین عقل ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ حلال و حرام اور اپنے مسائل کو حل کرسکے۔ لہٰذا اس میں اسے تقلید کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تقلید کی مذمت قرآن میں بھی کی گئی ہے، لہٰذا اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔
ج:یہ سوال بھی ایک مغالطہ پر مبنی ہے۔ اگر یہ جان لیا جائے کہ اسلام دین عقل ہے ، دین فطرت ہے، اور اللہ نے ہر ایک کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ حلال و حرام سمجھ سکتا ہے تو پھر نبوت ہی کی ضرورت نہیں رہ جائے گی۔ پھر نبی کیوں بھیجے اللہ نے؟! ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے براہمہ کہتے ہیں کہ نبوت کی ضرورت نہیں ،وہ سرے سے اصل نبوت کے منکر ہیں۔ ویدانت کا جو فلسفہ ہے وہ یہی ہے کہ ہر انسان فطری طور پر اچھائی اور برائی کا شعور رکھتا ہے ۔ خدا سے جڑا ہوا ہے ہر انسان خود اپنی جگہ خدا کے وجود پر ایک دلیل ہے اور اس لئے ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
میں نے ابھی آپ کے پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا ہے کہ تقلید خود فطری امر ہے اور اسے عقل کی پوری تائید حاصل ہے ۔ خود ہماری عقل ہی کہتی ہے کہ تقلید کرو۔ یعنی عقل ہی یہ کہتی ہے کہ اگر تمہیں کچھ نہیں معلوم ہے تو اس سے معلوم کرو جسے معلوم ہے۔ اسی حکم عقل کو قرآن مجید نے بعنوان امر ارشادی اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ :
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون ۔ اگر تم علم نہیںرکھتے ہو تو جو علم رکھتے ہیں، جو اہل ذکر ہیں اُن سے پوچھو۔ جو علم نہیں رکھتے ہیں ان کا اہل علم سے پوچھنا یہی تعلیم ہے یہی تقلید ہے۔ اس لئے یہ فطری بھی ہے عقلی بھی ہے اور شرعی بھی ہے۔
س:تقلید کی شروعات کب سے ہوئی، کس سنہ میں ہوئی؟
ج: میں نے آپ کے سامنے دو باتیں عرض کیں :اولاً یہ کہ انسان اپنی پیدائش کے ساتھ ہی تقلید شروع کردیتا ہے ، دوسرے یہ کہ تقلید دور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے چلی آرہی ہے۔ کیا اس کے بعد بھی اس سوال کی گنجائش رہ جاتی ہے ؟
س:ہم لوگ اس وقت جو کسی عالم یا کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہیں،کیا اسی انداز میں پہلے بھی تقلید کی جاتی تھی۔ ائمہ معصومینؑ کے بعد جو غیبت کا دور شروع ہوا اس دور میں؟
ج:تقلید ہمیشہ سے بالکل اسی انداز میں ہوتی چلی آرہی ہے۔جاہل کا عالم سے رجوع کرنا فطری ہے ،عقلی ہے ،شرعی ہے اور ہمیشہ سے ہے اور جب تک ہم عالم تکلیف میں ہیں یہ سلسلہ اسی طرح سے رہے گا ۔ ایک ماہر قرآن و حدیث سے حکم دریافت کرنا اور اس حکم کے مطابق عمل کرنا ہی تقلید ہے ،پہلے بھی بالکل یہی نظام تھا، یہی سسٹم تھا۔ ظاہر ہے کہ زندگی ترقی یافتہ ہورہی ہے، پہلے لکھ کے کتابیں تقسیم ہوتی تھیں۔ اب چھپ کے تقسیم ہورہی ہیں۔ جس زندگی کے دوسرے تمام شعبے ترقی کررہے ہیں ۔ اب یہ نظام بھی ترقی یافتہ ہوگیا ہے۔
س: عالم جب انتقال کر جاتا ہے،جب علماء دنیا سے گذر جاتے ہیں تو ان کے بعد ان کی تقلید نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ مردہ کی تقلید نہیں کی جاتی ۔ لیکن پھر بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ علماء یہ اجازت دیتے ہیں کہ جومرگیا ہے، اگر وہ اعلم تھا تو اس کی تقلید پر باقی رہ سکتے ہیں۔
ج:دیکھئے جب ایک مجتہد اجازت دیتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ پھر مردہ کی تقلید نہیں ہورہی ہے وہ زندہ ہی کی تقلید ہورہی ہے ۔ اس کی مثال آپ کو دے دوں کہ جیسے کوئی بہت ماہر ڈاکٹر ہو آپ نے اس سے کوئی نسخہ لیا اور علاج کیا فائدہ ہوا اس کے بعد وہ ڈاکٹر انتقال کرگیا دوبارہ آپ کو وہی بیماری ہوئی تو دوبارہ آپ اسی نسخہ کو استعمال نہیں کریں گے البتہ اس نسخہ کو لیکر کسی زندہ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے اگر یہ زندہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ ہاں ٹھیک ہے آپ یہی نسخہ استعمال کریں۔ تو اب یہ نسخہ اس مرنے والے ڈاکٹر کا نہیں رہا بلکہ اس زندہ ڈاکٹر کا ہوگیا۔ نسخہ وہی ہے لیکن زندہ ڈاکٹر نے اسے تجویز کیا تو اسی طرح اگر کوئی زندہ مجتہد کسی مردہ مجتہد کی تقلید کو جائز قرار دے تو یہ عمل زندہ مجتہد کی تقلید کے برابر ہے ۔ ایک انسان جو غیر مجتہد ہے وہ خود سے فیصلہ نہیں کرسکتا۔ جیسے ایک عام مریض خود سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اسی نسخہ کو استعمال کرلوں کافی ہے۔ ایسے میں نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
س:ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں جیسے ابھی آپ نے مثال دی ڈاکٹر کی تو جیسے ہم یہ کہتے ہیںکہ ہم بھی کچھ دواؤں کے بار ے میں علم رکھتے ہیں کہ دو ا مریض کو فائدہ کرسکتی ہے؟
ج: وہ مثل آپ نے سنی ہوگی نیم حکیم خطرۂ جان یہیں آنے پر عقل کہتی ہے کہ تقلید کرو رنہ زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ہاں وہ مسائل جنہیں ضروریات دین یا ضروریات مذ ہب کہا جا تا ہے ظاہر ہے کہ اس میں تقلید نہیں ہے ۔
س:لیکن کچھ دوائیں ایسی ہیںکہ ہم کو یقین کامل ہے کہ یہ دوا لیں تو فلاں مرض میں فائدہ کرسکتی ہے اس کے لئے ہم رجوع نہیں کرتے۔
ج:اگر علم نہیں رکھتے تو ضرور رجوع کیجئے۔ ورنہ خطرہ میں پڑنے کا پورا پورا امکان ہے ۔ہاں ،جیسا کہ ابھی میں نے عرض کیا ضروریات دن یا ضروریات مذہب کی بات علیحدہ ہے ۔اور وہ قطع کے احکام بھی الگ ہیں۔ کبھی شریعت کہتی ہے کہ اگر یقین حاصل ہے، قطع حاصل ہے، تو آپ اپنے یقین و قطع کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے شرائط ہیں، اس کے حالات ہیں۔ ایک جاہل انسان بلا وجہ یہ یقین پیدا کرلے کہ فلاں جڑی بوٹی سے مجھے فائدہ ہوگا۔ لیکن چونکہ وہ انسان جاہل ہے ،طبیب نہیں ہے اس لیے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے وہ جڑی وہ بوٹی نقصان کرجائے اس لئے ایک جاہل انسان اس طرح کا قطع یا یقین پیدا کرے تو وہ مدار حکم نہیں بن سکتا ۔
س: قبلہ یہ وضاحت کیجئے کہ ایک زمانے تک جو تعارض چلتا رہا ہے اخباریت میں اور اُصولیت میں تو یہ اخباریت اور اُصولیت آخر اس میں ہے کیا؟
ج:ایک بات میں یہ عرض کردوں کہ دین خود اصول و قواعد و ضوابط کا نام ہے۔ تو جو دینی ہوگا وہ اصولی ہوگا۔ بے اصولی ہونا دین دار ہونانہیں ہے۔ دین خود کہتا ہے کہ اصولی رہو یعنی اصول کے پابند رہو۔ البتہ یہ اصول فقہ کی نسبت سے جو لوگ اصولی کہلاتے ہیں یعنی وہ اجتہاد و تقلید کے قائل ہیں جو ان کے مقابلہ میں اخباری ہیں وہ گویا اجتہاد و تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اس میں مغالطے ہیں۔ جو واقعی اخباری بزرگ علماء گزرے ہیں آپ ان کی کتابیں اٹھاکے دیکھیں، میں مثال میں عرض کرتا ہوں صاحب حدائق نے کتاب حدائق کے مقدمہ میں تقریباً وہ تمام باتیں لکھی ہیں جو ایک اصولی مجتہد لکھتا ہے اکثر و بیشتر صرف لفظوں کا اختلاف ہے۔ اس لفظی اختلاف کا سبب ضرور تھا کہ لفظ اجتہاد کو سب سے پہلے معصومین علیہم السلام کے مقابلہ نبی و رسول کے مقابلہ میں مکتب سقیفہ یا مکتب خلفاء نے استعمال کیا۔ مکتب اہل سنت والجماعت نے استعمال کیا۔ اور اجتہاد کو بہانہ بنایا خدا اور معصومین کے مقابلہ میں اپنی رائے پیش کرنے کا ۔ ظاہر ہے کہ وہ اجتہاد باطل ہے۔ اسے کوئی قبول نہیں کرتا جو ہمارے اصولی ہیں وہ بھی قبول نہیں کرتے۔ غالبؔ کا مشہور سلام ہے ایک ہی سلام ہے جو ان کے دیوان میں ہے جس کا مطلع غالباً یہ ہے کہ :
سلام اسے کہ اگر بادشاہ کہیں اس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اس سے سوا کہیں اس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامس آل عباؑ کہیں اس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں
علیؑ سے جنگ کرے اور خطا کہیں اس کو
یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
برا نہ مانئے گر ہم برا کہیں اس کو
تو وہ اجتہاد جو قول خدا ، قول نبی یا قول امام ، قول معصوم کے مقابلہ میں ہو وہ باطل ہے۔ ہمارے یہاں جو اجتہاد ہے وہ ہرگز قول خدا اور قول نبی کے مقابلہ پر نہیں ہے۔ یہ وہ اجتہاد ہے جوقول خدا قول نبی اور قول امام کی روشنی میں ہے۔ در پیش مسائل کے نامعلوم احکام کو قول خدا ،قول نبی یا قول امام کی روشنی میں دریافت کرنے کا نام ہمارے یہاں اجتہاد یا تفقہ ہے۔ ظاہر ہے قرآن مجید نے صرف قرآن کی آیتیں رٹنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ قرآن مجید نے صاف صاف تفقہ کا حکم دیا ہے: فلولا نفر من کل فرقۃٍ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین
’’کیوں نہیں ہر گروہ سے ایک نمائند ہ جماعت نکلتی جو کہ دین کی سمجھ پید اکرے‘‘
صرف آیتیں رٹ نہ لے ۔ آیتوں کے اندر جو منطوق ہے، جو مفہوم ہے، جو مغز ہے، جو حکم ہے ، وہ کشف کرے۔
یہ تفقہ ہے ۔اور یہی ہماری آج کی اصطلاح میں اجتہاد ہے ۔اب جیسے میں نے تقلید کے لئے کہا تھا کہ لفظ تقلید سے اگر کسی کو اختلاف ہے، نام بدل دے، عنوان بدل دے لفظ اجتہاد سے اگر اختلاف ہے۔ فقاہت نام رکھ لیجئے۔ لیکن لفظ اجتہاد بھی زبان پیغمبرؐ پر بھی آیا ہے۔ زبان معصومینؑ پر بھی آیا ہے۔ اس لیے اس لفظ میں کوئی برائی نہیں ہے ۔جنہوں نے اس لفظ کا غلط استعمال کیا وہ اپنے عمل کے لیے خود جواب دہ ہوں گے ۔جس طرح کسی بھی لفظ ،کسی بھی اصطلاح یا کسی بھی حکم سے غلط استفادہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح اس لفظ سے بھی غلط استفادہ کیا گیا وہ الگ بحث ہے ۔ورنہ لفظ اجتہاد بھی زبان معصوم پر آیاہے ۔لفظ تقلید بھی ۔لفظ فقہ و تفقہ بھی اور لفظ مجتہد ولفظ فقیہ بھی ۔ امیر المومنین ؑ حضرت علی ابن ابی طالبؑ نے نہج البلاغہ میں کئی مقامات پر مجتہد ین کا ذکر کیا ہے: لایودی حقّہ المجتہدون پہلے ہی خطبہ میں ہے لفظ مجتہدون ہے یا نہیں ہے؟۔ یہ ضرور ہے کہ وہ مجتہدون جس معنی میں ہے وہ لغوی معنی ہے۔ یعنی اپنی صلاحیتوں کو ، کوششوں کو،پوری طرح سے بروئے کار لانا۔ پوری پوری کوشش کرنا، لیکن جو اصطلاح وضع کی گئی ہے وہ بھی اسی لغوی معنی کی رعایت ہی سے تو وضع کی گئی ہے ۔کوشش اگر اصول دین کو سمجھنے کیلئے کی جائے تو وہ اصول دین میں اجتہاد ہے۔ اگر فروع دین کو سمجھنے کے لئے کی جائے فروع دین میں اجتہاد ہے اگر تزکیہ نفس کیلئے کہا جائے تو سیروسلوک کی راہ میں اجتہاد ہے ،ہے وہ بہر حال اجتہاد۔
سوال: جو لوگ اجتہاد کو لیکر تقلید کو لیکر نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں آپ ان کیلئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے کوئی میسج دینا چاہیں گے؟
ج:ایک ہی پیغام ہے جو پیغام حق ہے۔اور پیغام حضرت حق جل و علا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ بغیر علم کے کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ اس حکم ربانی پر عمل کے لیے یا انسان خود علم کے اس درجہ پر ہو جہاں ہرعمل یقینی طور پر انجام دے سکے ۔یعنی جو عمل انجام دے وہ علم کی روشنی میں انجام پذیرہو ۔یا پھر کسی عالم کے بتائے ہوئے طریقۂ عمل کے مطابق عمل انجام دے تاکہ عمل کے مطابق علم ہونے کی فطری ،عقلی ،شرعی یا الہی شرط پوری ہوجائے ۔بہت ہی عام فہم تعبیر اختیار کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر انسان کوئی تاریک اور پر خطر راستہ طے کرے تو یا تو خود اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہونا چاہیے یا پھر جس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو اس کے پیچھے پیچھے چلنا چاہیے ۔ کوئی تیسری راہ نہیں ہے۔ اگر نہ خود ٹارچ رکھتا ہو اور کسی ایسے شخص کے ساتھ بھی نہ ہو جس کے پاس ٹارچ ہو تو پھر تاریکی ہوگی۔ راستہ کے نشیب و فراز ہوں گے ، ٹھوکر یں لگیں گی، سفر پر خطر ہوجائے گا۔
س:قبلہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مجتہدین ایک محدود مقام پر رہتے ہیں۔ مثلاً ایران میں عراق میں یا لبنان وغیرہ میں اور پوری دنیا میں جو انکا رابطہ ہے وہ اس طرح سے نہیں ہے کہ کوئی براہ راست ان سے رابطہ کرسکے۔
ج:الحمد اللہ ایسا نہیں ہے۔ اس دور میں رابطے کے ذرائع اتنے زیادہ ہیں کہ گویا ہر مکلف پر حجت تمام ہو گئی ہے ۔عام مکلفین پر بھی اور خود مجتہدین پر بھی ۔
س:لیکن پھر بھی کچھ مسائل ایسے ہوتے جو وطن اور جگہوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوتے ہیں کہ وہاں کے مسائل کچھ اور ہیں اور یہاں کے مسائل کچھ اور ہیں تو ایسی صورت میں کیا کریں؟
ج:اس کا حل صرف ایک ہے کہ آپ خود مجتہد پیدا کیجئے۔ ہندوستان میں مجتہد ہونا چاہئے۔ پاکستان میں مجتہد ہونا چاہئے۔ انگلستان میں مجتہد ہونا چاہئے امریکہ میں مجتہد ہونے چاہئیں ، جو وہاں کے مسائل کو سمجھیںاور حل کریں ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف ایران اور عراق کے مجتہد ین کی تقلید کریں۔ لیکن واقعاً مجتہد ہونا چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ مجتہد نہ ہو اور اس کی تقلید ہور ہی ہو۔اجتھاد واجب کفائی ہے ۔بحد اجتہاد جو پہنچ چکا ہو وہ آئے اپنے وطن میں اپنے لوگوں میں اور وہاں کے مسائل کو سمجھے اور اس کو حل کرے ۔یہی واحد حل ہے۔ اور یہ واجب کفائی ہے ۔
قرآن مجید میں کہا گیاہے: فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذرواقومہم اذارجعواالیہم لعلہم یحذرون ۔
کیوں نہیں ہر فرقہ سے،ظاہر ہے یہاں فرقہ سے مراد وہ فرقے اور تفرقے نہیں ہیں جو آج ہمارے درمیان پائے جاتے ہیں ،مراد یہ ہے کہ ہر ہر قوم سے ، ایک ایک جماعت کیوں نہیں نکلتی، جو تفقہ پیدا کرے ، علم دین حاصل کرے اور واپس آکراپنی قوم کے لوگوں کو خدا کی نافرمانی کی پاداش سے ڈرائے اور لوگ اس کی بات سے متاثر ہوں۔ غور کیجیے تو اسی آیت میں تقلید کا حکم بھی موجود ہے کہ یہ چند لوگ جو علم حاصل کرکے آئیں گے اگر ان کی تقلید نہیں ہو گی تو پھر اس کا فائدہ کیا ہوگا؟اس سے حاصل کیا ہوگا؟ کیا خدا نعوذ باللہ ایک عبث عمل کا حکم دے رہا ہے یہ چند لوگ جائیں گے واپس آئیں گے اور باقی تمام لوگوں کو ڈرائیں گے احکام سکھائیں گے۔ تو ان کی کہی ہوئی بات کوئی مانے گا یا نہیں مانے گا۔ مانے گا تب تو ڈرے گا مانے گاتب تو عمل کرے گا۔
س:اچھا ایک بات یہ بتائیں کہ تقلید ہر ایک کے اوپر واجب ہے یا کچھ لوگ اس سے مستثنیٰ بھی ہیں؟
ج:جو اس مرتبہ تک خود پہنچ چکا ہو کہ قرآن و حدیث سے حکم خدا حاصل کرسکے اس کے اوپر تقلید حرام ہے۔ جو خود مجتہد ہے اس کے لئے تقلید نہیں ہے۔ جو مجتہد نہیں ہے اس کے لئے تقلید ہے ،یا احتیاط ہے ۔جس کے ہاتھ میں خود ٹارچ ہے آپ اسے پابند نہیں کرسکتے کہ وہ دوسرے کی ٹارچ کی روشنی میں چلے ۔یہ غیر عقلی بات ہوگی ۔ لیکن جس کے ہاتھ میں ٹارچ نہیں ہے وہ پابند ہے کہ دوسرے کی ٹارچ کی روشنی میں چلے۔(انٹرویو)