اہل بیت علیہم السلام میں باب الحوائج کا لقب پانے والوں میں سب سے کم عمر شخصیت حضرت علی اصغر بن حسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی ہے۔ آپ خاندانِ نبوت و رسالت کے چشم و چراغ ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کے خاندان کی ہر فرد منابع نور اور معرفت کا مخزن ہیں، اس عظیم المرتبت خاندان سے تعلق رکھنے والی ہر شخصیت خواہ وہ کمسن ہویا بزرگ اپنی جگہ خورشید عصمت و طہارت، تقویٰ ، شجاعت، شہامت اور قیامت تک مخلوق خدا کے لئے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ بے شک کرب وبلا ایک ایسا سفینہ ہے جس میں ہر عمر سے تعلق رکھنے والوں کے لئے نمونہ عمل موجود ہے اور اس سفینہ نجات کے مالک و سردار حضرت حسین ابن علی علیہما السلام ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:" اِنَّ الْحُسین مِصباحُ الْهُدی وَ سَفینَهُ الْنِّجاة ۔" (1)
حضرت علی اصغر علیہ السلام کے والد ماجد حضرت حسین بن علی بن ابوطالب بن عبد المطلب علیہم السلام ہیں۔ آپ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: "حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ" (2)آپ کی والدہ ماجدہ جناب رباب بنت امرءالقیس بن عدی بن اوس بن جابر بن کعب بن علیم بن جناب بن کلب ہیں۔ (3) امرء القیس دوستداران اہل بیت میں سے تھےاور جانتے تھے کہ بقاء انسان اس بات میں مضمر ہے کہ وقت کےامام کی معرفت اور پہچان حاصل کی جائے اور کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز نہ کیا جائے۔
تاریخ اسلام کے معروف مورخ ہشام کلبی لکھتے ہیں: " و کانت الرباب من خیار النساء و افضلھن۔" جناب رباب سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین عورتوں میں سے تھیں اور ان کے والد ماجد عرب کے عظیم خاندان کے اشراف میں سے تھے کہ جن کی قدر و منزلت امام علیہ السلام کے نزدیک بھی ثابت تھی ۔( 4)حضرت امام حسین علیہ السلام جناب رباب سلام اللہ علیہا سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور امام علیہ السلام کا یہ شعر اس پر دلالت کرتا ہے:
لعمرک اننی لاحب داراً تکون بھا سکینۃ والرباب
" مجھے تیری عمر کی قسم !میں اس گھر سے محبت کرتا ہوں جس میں سکینہ اور رباب ہوں۔"(5) جب جناب رباب سلام اللہ علیہا اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتیں تو حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کو اپنے ہمراہ لے جاتیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام ان دونوں کی مفارقت سے اداس ہو جاتے اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
کان اللیل موصول بلیلا ذا زارث سکینۃ و الرباب
" جب سکینہ اور رباب کسی عزیز سے ملنے جاتی ہیں تو راتیں متصل یعنی طویل ہو جاتی ہیں۔"(6)
۲۸رجب المرجب سنہ ساٹھ ہجری کو حضرت امام حسین علیہ السلام نے بقاء اسلام اور اسلام کی حیات کے لئے سفر کا آغاز کیا اس سفر عظیم میں جہاں خاندان عصمت و طہارت کے دیگر افراد شامل تھے اسی کاروان حریت اسلام میں جناب علی اصغر علیہ السلام بھی شامل تھے جب کہ آپ اس وقت صرف اٹھارہ دن کے تھے۔ یہ سفینہ نجات اپنی منازل طے کرتے ہوئے کربلا جیسے صحرا کی تقدیر بدلنے کے لئے دو محرم الحرام سنہ اکسٹھ ہجری کووارد کرب و بلا ہوا۔ بقاء اسلام، حیات اسلام اور تاریخ اسلام میں اس معصوم شہزادے کا خصوصی حصہ ہے جہاں پر بھی اسلام کی بات ہوگی اس معصوم کا ذکر ضرور ہو گا۔
باب الحوائج حضرت علی اصغر علیہ السلام واقعہ کربلا کے نمایاں ترین شہداء میں سے ہیں جنہوں نے تمام شہداء کی قربانیوں پر مہرتصدیق ثبت کر دی۔آپ کی شہادت کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ہم ان میں سے چند کا ذکرکررہے ہیں۔جب امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب ،عزیزو اقارب درجہ شہادت پر فائز ہو گئے اورمیدان کر ب و بلا میں امام حسین علیہ السلام کی ذات تنہا رہ گئی کوئی بھی یاور ، ناصر و مددگار باقی نہ رہا اس وقت زمانے کے شہنشاہ نے استغاثہ بلند کیا اور یہ بات بیا ن کردوں کہ امام کا استغاثہ بلند کرنے کا مقصدکسی دنیا دارسے مدد طلب کرنا نہیں تھا بلکہ کریم ور ؤف امام کا حالت غربت میں بھی کرامت کا در کھلا تھا اور لوگوں کو صدا دے رہے تھے کہ کوئی ہے جو اپنے مقدر کو مثل حر بدلنا چاہتا ہے ، جو اس سفینہ نجات پر سوار ہونا چاہتا ہے، جو اپنا خون راہ خدا میں دے کر حیات جاوداں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ھل من ناصر ینصرنا؟ هَلْ مِنْ ذابٍّ يَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولِ اللّهِ؟ هَلْ مِنْ مُوَحِّد يَخافُ اللّهَ فينا؟ هَلْ مِنْ مُغيث يَرْجُوا اللّهَ فِي إِغاثَتِنا؟ هَلْ مِنْ مُعين يَرْجُوا ما عِنْدَاللّهِ فِي إِعانَتِنا ؟ (7)نواسہ رسول میدان کربلا کے تپتے صحرا ، اصحاب و عزیز و اقارب کی لاشوں کے درمیان کھڑے ہو کر فرما رہے ہیں ،ہے کوئی جو حرم رسول کا دفاع کرے؟ ہے کوئی خدا پرست کہ ہمارے بارے میں خدا سے ڈرے؟ہے کوئی دادرس کہ خدا سے صلہ کی امید میں ہماری مدد کرے؟ ہے کوئی مددگا ر جو اس امید پر ہمارا ساتھ دے کہ ہم خدا کے حضور اس کی شفاعت کریں؟مخدرات عصمت نے حضرت کی صدائے استغاثہ سنی تو صدائے گریہ بلند کیا ۔ امام علیہ السلام خیام کی طرف تشریف لائےاور اپنی بہن عقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیہاسےفر مایا:" ناوِلُوني عَلِيّاً اِبْني الطِّفْلَ حَتّى اُوَدِّعَهُ "(8)میرے کمسن بچہ کو لاؤ تاکہ میں اس سے وداع کر سکوں ۔آپ نے بچے کو لیا اور بوسہ دیا اور میدان کارزار میں لے کر آئے تو حرملہ بن کاہل اسدی نے بچے کو تیر کا نشانہ بنایا، وہ تیر شہزادے کے گلوئے اقدس میں پیوست ہو گیا اور شہزادے کو ذبح کر گیا ۔ جب آپ لشکر اشقیا ء سے احتجاج کر رہے تھے تو آپ کی نظر طفل صغیر پہ پڑی جو پیاس کی شدت اور گرمی کی حدت سے رو رہا تھا ۔ امام علیہ السلام نے بچے کو ہاتھوں پہ لیا اور فرمایا:" يا قَوْمِ، إِنْ لَمْ تَرْحَمُوني فَارْحَمُوا هذَا الطِّفْلَ"پس فوج اشقیا ءمیں سے حرملہ نے اس بچے کی طرف تیر چلایا اور اسے ذبح کر دیا امام مظلوم نے گریہ کیا اور کہا:" اَللّهُمَّ احْكُمْ بَيْنَنا وَ بَيْنَ قَوْم دَعَوْنٰا لِيَنْصُرُونٰا فَقَتَلُونا " " خدایا! ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما کہ جنہوں نے ہمیں اس لئے بلایا کہ ہم آ پ کا ساتھ دیں گے اور اب اس کے بدلے ہمیں قتل کر رہے ہیں ۔ امام علیہ السلام کلام ختم ہوا کہ ندائے غیب آئی: " فنوی من الھواء دعہ یاحسین فان لہ مرضعاً فی الجنۃ " اے حسین! اس بچے کو ہماری طرف بھیج دو کہ اس کے لئے بہشت میں دایہ موجود ہے(9)بعض مورخین نے اس طرح نقل کیا ہے کہ امام مظلوم بچے کو لے کر لشکر کے سامنے آئے اور اپنے ہاتھوں پہ بلند کر کے فرمایا:" ا قَوْمِ قَدْ قَتَلْتُمْ أَخي وَ أَوْلادي وَ أَنْصارِي وَ ما بَقِي غَيْرُ هذَا الطِّفْلِ، وَ هُوَ يَتَلَظّى عَطَشَاً مِنْ غَيْرِ ذَنْب اَتاهُ إِلَيْكُمْ، فَاسْقُوهُ شَرْبَةً مِنَ الْماءِ " کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ بچہ پیاس کی شدت سے کس طرح تڑپ رہا ہے اسے پانی دے دولشکر اشقیاء کے بعض افراد ایک دوسرے کو سر زنش کرنے لگے اورکہنے لگے کہ کیا ہو جائے گا اگر ہم اس بچے کو پانی دے دیں؟ بچے تو بچے ہوتے ہیں بچوں کا کیا قصور ہے پس لشکر کے درمیان ایک ہلچل سی مچ گئی۔ عمر سعد ملعون نے جب یہ دیکھا کہ قریب ہے کہ لشکر بغاوت کر دے تو اس نے حرملہ ملعون سے کہا : " اقطع کلام الحسین" یہ ملعون گھوڑے کے ساتھ ایک بلند مقام پہ آیا اور گھوڑے سے اتر کر اس نےبچے کی طرف تیر چلایا جس سے بچے نے مرغ بسمل کی طرح تڑپتے ہوئے جان دےدی۔ (10)" فذبح الطفل من الاذن الی الاذن" امام مظلوم نے خون علی اصغر علیہ السلام چلو میں لے کر آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا :"ثم رجع بالطفل مذبوحاً و دمہ یجری علی صدر الحسین" اے خدا ! اس قوم پہ گواہ رہنا گویا انہوں نے نذر مان رکھی ہے کہ خاندان وحی کے ایک فرد کو بھی باقی نہ چھوڑا جائےاس کے بعد آپ اس مقتول بچے کو لئے واپس چلے آئے اس حالت میں کہ بچے کے گلوئے اقدس کا خون آپ کے سینہ مبارک پر بہہ رہا تھا(11)
ایک روایت میں یوں بھی ملتا ہے کہ آپ معصوم بچےکو اپنے ہاتھوں میں لے کر لشکر اعداء کے سامنے آئے تو فرمایا:اے لوگو! تم نے میرے شیعوں اور میرے اہل بیت کو قتل کر دیا اور میرےساتھ کئے ہوئے وعدا بیعت کو توڑ دیا ۔ مجھ سے ہاتھ اٹھا لو تاکہ میں اپنے جد کے حرم مطہر کی طرف چلا جاؤں یا کم از کم مجھے پانی دے دو اب میرے سوا ان عورتوں اور بچوں کا کوئی نہیں رہا جو نیزہ و تلوا ر چلا سکے۔" ویلکم اسقوا ھذا الر ضیع اما ترونہ کیف یتلظی عطشا من غیرذنب اتاہ الیکم"۔ " وائے ہو تم پر اس بچے کو پانی دے دو کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ مچھلی کی طرح تڑپ رہا ہے باوجود اس کے کہ اس نے تمہارا کوئی گناہ نہیں کیا۔" امام کا کلام ابھی ختم ہی ہواتھا کہ ناگاہ حرملہ بن کاہل اسدی ملعون نے امام مظلوم کی طرف تیرچلایا ، یہ تیر بچے کے گلوئے اقدس پر لگا۔(12) مشہور مورخ خوازمی اس طرح لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام گھوڑے سےاترے اور بچے کو دفن کرنے کے لئے زمین کو کھودا اور بچے کے بدن کو دفن کر دیا۔(13)علامہ شہیرشوشتری علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ بعض روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے شیر خوار بچے کے لئے قبر کھودی اور اسے دفن کر دیا شاید اس راز کی چند وجوہات ہوں۔۱۔ ممکن ہے تنہائی کی وجہ سے بچے کو سپرد خاک کر دیا ہو۔۲۔ دوسرے شہیدوں کی طرح بچے کا سر بدن سے جدانہ ہو۔۳۔ دوسرے شہداء کی طرح تین روز تک زمین پر برہنہ و عریاں نہ پڑارہے۔۴۔ گھوڑوں کے سموں کے نیچے پامال نہ ہو۔۵۔ امام علیہ السلام اور اہل حرم اتنی قوت و تحمل نہیں رکھتے تھے کہ اس بچے کے بدن کودوسری بار اس حالت میں دیکھیں۔(14)لیکن افسوس مسلمانوں نے امام مظلوم کی اس خواہش کو بھی پورا نہیں ہونے دیا ۔ ابو خلیق سے جب جناب مختارثقفی نے پوچھا ! ملعون میدان کربلا میں تیرا دل میرے آقا حسین علیہ السلام پر نہیں دکھا؟ تو اس نے کہا ۔ ہاں ایک موقع ایسا آیا کہ میں نے خدا سے اپنی موت مانگی تاکہ حضرت کی یہ حالت نہ دیکھ سکوں ۔ جناب مختار ثقفی نے پوچھا کہ وہ کونسی حالت تھی؟ اس ملعون نے جناب علی اصغر علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ بیان کیا اور امام مظلوم کے بچے کو دفن کرنے کا تذکرہ بھی کیا ۔ پھر کہتا ہے کہ ان ظالموں نے نے اس بچے کے بدن کو پھر بھی سلامت نہ چھوڑا۔ گیارہ محرم الحرام کو جب تمام شہداء کے سر فخر و مباہات کے اظہار کے لئے نیزوں پر بلند کئے گئے اور انعام کے حصول کے لئے ابن زیاد کے پاس لائے گئےتو ابو ایوب غنوی جوبیلداروں کا سرکردہ تھا اس کوشہداء میں سے ایک کا سر نہ ملا تو اس نے بیلداروں کو حکم دیا کہ زمین کربلا کو کھودو اور اس بچے کی لاش تلاش کرو جب لاش جناب علی اصغر علیہ السلام برآمد ہوئی تو ان ظالموں نے سر کو کاٹا اور نیزے پہ سوار کر کے کوفہ لےآئے۔ (15)
کربلا کے ننھے مجاہدکی قربانی اولوالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا تسلسل ہے، اگر کوئی سوال کرے کہ حضرت اسماعیل اور علی اصغر علیہما السلام کی قربانی میں کیا فرق ہے تو یہی جواب دیا جائے گا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان گاہ میں لے جانے سے پہلےحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کی رضا معلوم کی تھی جب کہ حضرت علی اصغر علیہ السلام نے گلے پر تیر کھانے کے بعد ایک مسکراہٹ سے اپنی رضا کا اعلان کیا تھا۔ حضرت علی اصغر علیہ السلام کے قتلِ ناحق پر شاعرانقلاب جناب قاسم شبیر نقوی نصیر آبادی نے عالمِ انسانی سے بڑا پُر درد سوال کیا ہے:
حشر تک سوچ عدلِ انسانی! صرف اصغر کا خوں بہا کیا ہے؟
حضرت علی اصغر علیہ السلام کی شہادت ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نزدیک کربلا کی سب سے زیادہ سوزناک اور دلگداز شہادت ہے۔ منہال بن عمرو کوفی کہتے ہیں:میں مدینے میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے پوچھا: حرملہ کا کیا ہوا؟ میں نےعرض کیا:اے مولا جب میں کوفہ سے نکلا تھا تو وہ زندہ تھا امام علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور تین بار دعا کی: " اللّهمّ أذقـه حرَّ الحدید، اللّهمّ أذقه حرّ الحدید، اللّهمّ أذقه حرّ النّار ۔" خدایا اسے لوہے کی گرمی کا مزہ چکھا دے۔
جناب عقبہ بن بشیر اسدی کہتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ہم تم قبیلہ بنی اسد سے خون کے طلبگار ہیں۔ اور اس کے بعد جناب علی اصغر کی شہادت کا واقعہ سنایا۔یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ ننھے مجاہدحضرت علی اصغر علیہ السلام کی مصیبت کا زخم اہل بیت علیہم السلام کے سینے پر کس قدر شدید تھا۔
حوالے :
1- فرہنگ عاشورہ منقول ازسفینۃ البحارج1 ص257
2- بحارالانوار،ج43 ص 228
3- مقاتل الطالبین ص 89
4- قمقام زخارج2 ص654
5- مقاتل الطالبین ص94
6- منتخب التواریخ ص2431
7- اللہوف ص 116
8- مقتل الحسين خوارزمى ج 2ص 32 و بحارالانوار ج 45 ص 46
9- سبط ابن جوزی،تذکرۃ الخواص ص143، نفس المہموم ص350
10- مقتل ابی مخنف ص 130
11- ریاض القدس،ج2 ص110
12- مہیج الاحزان ص243
13- مقتل الحسین خوارزمی،ج2ص32
14- الخصائص الحسینیہ،ص29باب الجنائز
15- ریاض القدس،ج2ص104