اسلام کی بقا اور سر بلندی کے لیے لڑی گئی جنگِ کربلاصرف ان بہتّر شہدا کی قربانیوں کا نتیجہ نہیں کہ جو کربلا میں امام حسین کے ساتھ موجود تھے ۔حق و باطل کی اس جنگ میں کئی کردار ایسے بھی ہیں کہ جو کربلا میں نہیں تھے لیکن جن کا contributionکربلا میں موجود حسین ؑکے جاں نثاروں اورمدد گاروں سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ایسی شخصیات میں نمایاں ترین نام مادر عباس حضرت امّ البنین کا ہے کہ جنھوں نے اپنے چار بیٹوں کی تربیت اس طرح کی کہ روز عاشورہ یہ سب امام حسین ؑ پر قربان ہو گئے۔ فوج حسینی کے سپہ سالار حضرت عبّاس علمدار ام البنین کے ہی لخت جگر تھے اور چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔
امّ البنین کی خانہء اہلبیت میں آمد ہی دراصل اس مقصد کے تحت ہوئی تھی کہ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کو حضرت فاطمہؐ کی شہادت کے بعد ایک ایسی خاتون کی بطور شریک حیات ضرورت تھی کہ جس کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کربلا میں امام حسین ؑ کی نصرت کر سکیں۔تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ام البنین نے مولائے کائنات کے اس مقصد پر لبیک کہتے ہوئے اپنے بیٹوں کی تربیت اس طرح کی کہ آج ذکرِ کربلا ام البنین کے بیٹوں اور خصوصاً حضرت عبّاسؑ کے ذکر کے بغیر مکّمل ہو ہی نہیں سکتا۔ظاہر ہے جب ان جاں نثار بیٹوں کی عظیم قربانیوں کا ذکر ہوگا توایثار و وفا کی پیکر اس ماں کا بھی ذکر ہوگا کہ جس نے اطاعت گزاری اور وفا کی علامت بن چکے عبّاس سمیت چار ایسے بیٹوں کو جنم دیا کہ جنھوں نے کربلا میں اپنی قربانیوں سے اپنی عظیم ماں کے خون کا حق ادا کر دیا۔
ام البنین ؑکا اصل نام فاطمہ بنت حزام بن خالد بن ربیعہ بن عامر الاکلابی تھا۔ام البنین آپ کا لقب تھا جس کے معنی ہیں ’’بیٹوں کی ماں‘‘ ۔چار بیٹوں کی ماں ہونے کی بنا پر انھیں یہ لقب ملا۔ ام البنین کے مولائے کائنات سے عقد کے تعلق سے یہ واقعہ متفقہ طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ مولا نے اپنے نسب شناس بھائی عقیل سے فرمایا کہ آپ کو اپنے بیٹے حسینؑ کی نصرت کے لیے ایک جری اور بہادر بیٹے کی ضرورت ہے جو کربلا میں حسینؑ کی مدد کر سکے۔لہذاٰ عرب کے کسی ایسے شجاع گھرانے کی لڑکی تلاش کریں کہ جس کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا کربلا میںحسین کے لیے قوّت بازو بن سکے۔جناب عقیل نے حضرت فاطمہ کلابیہ یعنی ام البنین کا نام پیش کیا کہ جن کا گھرانہ عظمت،تقدس،تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ شجاعت کے لیے بھی پورے عرب میں مشہور تھا۔اس طرح ام البنین مولائے کائنات کے عقد میں آگئیں۔اس تعلق سے تاریخ کی کتابوں میں جو تفصیلات ملتی ہیں،اس کے مطابق حضرت علیؑ نے جناب ام البنین سے اپنا رشتہ کرنے کے لیے اپنے بھائی جناب عقیل کو ہی ان کے گھر بھیجا۔اس زمانے میں عرب میں رسم تھی کہ کسی مہمان کی آمد پر پہلے تین روز تک اس کی مہمان نوازی کی جاتی اور اس کے بعد ہی آنے کا مقصد دریافت کیا جاتا تھا۔چنانچہ حضرت عقیل کی آمد کے چوتھے روز فاطمہ کلابیہ یعنی ام البنین کے والد حزام نے جب ان سے آمد کا مقصد دریافت کیا تو آپ نے حضرت علیؑ کے فاطمہ کلابیہ سے رشتہ ازدواج کی خواہش ظاہر کی۔اس پر حزام نے اپنے خاندان کے مقابلے میں خاندان رسالت کی عظمت کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ فاطمہ کلابیہ کی ماں اور خود فاطمہ سے اس بارے میں بات کر کے جواب دینگے۔عقیل نے انھیں بتایا کہ علیؑ تمام حقائق سے واقف ہیں اور فاطمہ سے عقد کے خواہاں ہیں۔چنانچہ ام البنین کے والد نے اپنی اہلیہ ثمامہ بنت سہیل سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ثمامہ نے جواب میں کہا کہ ،’’اے حزامـ!خدا کی قسم میں نے اسکی(ام البنین)بہتر صورت میں تربیت کی اور اللہ سے دعا کی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں سعادتمند ہوجائے اور میرے مولا امیر المومنین ؑ کی خدمت کے لائق اور صالح ہو،پس آپ اسے میرے مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے نکاح میں قرار دے دیجیے۔‘‘اس کے بعد حضرت عقیل نے ہی دونوں کا عقد پڑھایا۔ ام البنین کی والدہ کا اپنی بیٹی کے مولائے کائنات سے رشتے کے تعلق سے رد عمل اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گھرانہ خاندان رسالت اور اہلبیت کی عظمت سے واقف تھا اور ان کی معرفت رکھتا تھا۔
بہرحال نکاح کے بعد ام البنین حضرت علی کی زوجہ کی حیثیت سے بیت الشرف میں آ گئیں،لیکن گھر میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے فرمایا کہ،’’جب تک فاطمہ زہرہؐ کی بڑی بیٹی مجھے اس مقدس گھر میں داخل ہو نے کی اجازت نہ دیں تو میں اس وقت تک اس گھر میں قدم نہ رکھونگی۔حتیٰ کہ روز اوّل سے ہی آپ کا جناب فاطمہ زہرہؐ کے جگر پاروں یعنی مام حسنؑ اور امام حسین کے لیے کیسا رویّہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیت الشرف میں آپ کی آمد پر جب اما م حسن و حسینؑ تعظیماً کھڑے ہوئے تو آپ نے دست بستہ ہوکر فرمایا کہ ’’شہزادو میں ماں بن کر نہیں بلکہ کنیزبن کر آئی ہوں۔‘‘روز اوّل کہی گئی اس بات پر یہ عظیم ماں ہمیشہ قائم رہی ،حتیٰ کہ آپ کے چاروں بیٹے کربلا میں امام حسینؑ پر قربان ہو گئے۔شہید ثانی و عبد الزاق مقّرم آپ کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ،’’ام البنین نے اپنے آپ کو خاندان رسالتؐکی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔اسی بنا پر اہلبیت بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔‘‘آپ کے بطن سے چار بیٹے پیدا ہوئے جن میں سب سے بڑے حضرت عبّاسؑ،دوسرے عبد اللہ،تیسرے جعفر اور چوتھے عثمان تھے۔لیکن خاتون جناں یعنی جناب فاطمہ زہرہؐ کی اولاد سے آپ کی وابستگی کا یہ حال تھا کہ اپنے بیٹوں پر ہمیشہ امام حسنؑ،امام حسینؑ اور جناب زینب وغیرہ کو ترجیح دی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ جب امام حسینؑ نے مدینہ چھوڑنے کا قصد کیا تو جناب ام البنین نے اپنے چار بیٹوں میں سے کسی کو بھی اپنے پاس روکنے کی کوشش نہ کی اور سب کو امام حسینؑ کی مدد و نصرت کے لیے امام کے ساتھ روانہ کر دیا۔یہ چاروں بیٹے کربلا میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور ان میں سے صرف حضرت عبّاس کے بیٹے سے ام البنین کی بھی نسل چلی۔روایات میں ہے کہ جب امام حسینؑ کا قافلہ مدینہ سے کربلا کے لیے روانہ ہوا تو آپ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ،’’میرے نور چشم اما م حسینؑ کی فرما برداری کرنا۔‘‘اپنی عظیم ماں کے عظیم بیٹوں نے اس ہدایت پر صدق دلی سے عمل کیا۔حضرت عبّاس کی اسلام اور امام حسینؑ کے تعلق سے جو عظیم قربانی ہے وہ اس وقت موضوع گفتگو نہیں،لیکن حضرت ام البنین کی ہدایات کی روشنی میں فاتح فرات کے کردار پر امام جعفر صادق ؑ کے اس قول کا ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ،’’خدا ہمارے عبّاس پر رحمت نازل فرمائے،کتنا بہتر امتحان دیا،جاں نثاری کی اور شدید ترین امتحانات پاس کیے۔ہمارے چچا عبّاس کے لیے خدا کے پاس ایک ایسا مقام ہے کہ تمام شہداء اس پر رشک کرتے ہیں۔‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حضرت عبّاسؑ کو شہدائے کربلا میں ملے اس مقام کے پس پشت ان کی والدہ گرامی جناب ام البنین کی تربیت کا سب سے اہم رول تھا کہ جنھوںنے بچپن سے ہی بار بار انھیں یہ یہ یاد دلایا کہ ان کی پیدائش کا مقصد ہی نصرت امام حسینؑ ہے ۔یہی سبب ہے کہ جب شب عاشور کربلا میں شمر حضرت عبّاس کے پاس ان سے اپنی ننیہالی عزیز داری کے سبب امان نامہ لیکر آیا تو آپ نے اس پر اپنے سخت رد عمل میں فرمایا کہ ،’’خدا تجھے اور اس امان نامے کو تیرے ہاتھ میں دینے والے پر لعنت کرے ،تو نے مجھے کیا سمجھا ہے ؟میرے بارے میں کیا خیال ہے؟کیا تو نے یہ سمجھا ہے کہ میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنی جان بچانے کے لیے ،اپنے امام حسینؑ کو تنہا چھوڑ کر تیرے پیچھے آئے گا؟ جس دامن میں ہم نے پرورش پائی ہے،اور جس ماں کا دودھ ہم نے پیا ہے اس نے ہمیں اس طرح کی تربیت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے امام اور بھائی کے ساتھ بے وفائی کریں۔‘‘حضرت عبّاس کا شمر کو دیا گیا یہ تاریخی جواب ام البنین کی عظمت اور ان کی اپنے بیٹوں کو دی گئی تربیت کی گواہی کے لیے کافی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کربلا کے لرزہ خیز واقعے کے بعد جب اہل حرم کا قافلہ کوفہ و شام کی سعوبتیں اور قید و بند کی مصیبتیں برداشت کرنے کے بعد واپس مدینہ پہنچا تو چوتھے امام حضرت زین العابدین ؑ نے شہر میں داخل ہونے سے قبل اس قافلے کی آمد کی خبر دینے کے لیے بشیر کو بھیجا۔بشیر نے ام البنین کو ان کے چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر سناتے ہوئے کہا کہ ،’’خدا آپ کو صبر دے ،آپ کے عبّاس سمیت چاروں بیٹے شہید کر دیے گئے۔‘‘ ام البنین نے اس پر فوری کوئی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے بشیر سے سوال کیا کہ،’’مجھے اباعبد اللہ(امام حسینؑ)کی خبر دو۔‘‘آپ نے فرمایا کہ،’’میرے بیٹے اور جو کچھ اس آسمان کے نیچے ہے ابا عبد اللہ پر قربان ہو۔‘‘جب بشیر نے انھیں اما م حسین کو شہید کیے جانے کی خبر سنائی تو آپ نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے فرمایا کہ،’’اے بشیر تونے میرے دل کی رگ رگ کو پارہ پارہ کر دیا۔‘‘شہادت امام مظلوم کی خبرپر آپ دیر تک گریہ کرتی رہیں۔جب اہلبیت کا یہ قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تو حضرت زینب ؐ نے سب سے پہلے حضرت ام البنین کو ان کے بیٹوں کی شہادت کے لیے پرسہ پیش کیا۔
واقعہ کربلا کے بعد ام البنین روز ہی جنت البقیع حاضری دیتیں اور اپنے بیٹوں کو یاد کرکے گریہ کرتیں۔
آپ کیونکہ شاعرہ بھی تھیں لہٰذا اپنے بیٹوں کے مصائب پر آپ نے اشعار بھی کہے،جن کا مفہوم اس طرح تھا،’’اے وہ جس نے میرے کڑیل جوان بیٹے کو اپنے باپ کی مانند دشمنوں پر حملہ کرتے ہوئے ،آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔علی کے بیٹے سب کے سب کچھار کے شیروں کی مانند شجاع اور بہادر ہیں۔میں نے سنا ہے کہ میرے عبّاس پر آہنی گرز سے وار کیا گیا ،حالانکہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے گئے تھے۔اگر میرے بیٹے کے بدن پر ہاتھ ہوتے تو کون اس کے پاس آکر جنگ کرنے کی جرات کرتا؟امام محمد باقرؑ فرماتے ہیںکہ،’’وہ(ام البنین) بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دل سوز گریہ کرتی تھیں کہ مروان اپنی سنگ دلی کے باوجود گریہ کرتا تھا۔‘‘ اپ کے یہ اشعار بھی تاریخ میں ملتے ہیں،’’مجھے ام البنین نہ کہو ،مجھے اپنے دلاور شیر یاد آتے ہیں۔میرے کئی بیٹے تھے،جن کی وجہ سے مجھے ام البنین کہا جاتا تھا،لیکن آج میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔میرے چار بیٹے شکاری بازوں کی طرح تھے،وہ سب شہید ہوئے۔‘‘(ترجمہ)
بہرحال ام البنین اسلامی تاریخ کا ایسا لا فانی کردار ہیں اور ایسی عظیم ماں ہیں کہ جب جب کربلا والوں کی قربانیوں کا ذکر ہوگا،جب جب خواتین کربلا کی عظمت و ایثار کی داستانیں دوہرائی جایئنگی تو ام البنین کا نام اس فہرست میں صف اوّل میں شامل ہوگا۔