کربلا میں امام حسینؑ کی جنگ ہر طرح کی باطل طاقتوں سے تھی۔ جو لوگ جنگ کربلا کو تلواروں میں دیکھتے ہیں وہ دو بادشاہوں کی جنگ کہتے ہیں اور جو صاحبان نظر اس جنگ کو اقدار و غیر اقدار سے تعبیر کرتے ہیں وہ حق کی باطل کے خلاف جنگ کہتے ہیں۔ امام حسینؑ کی جنگ ظلم، نا انصافی، طبقاتی نظام، استحصال، بے شعوری، عیارانہ سیاست اور مکر و فریب کے خلاف تھی اور ثبات قدمی، استقلال، مہمان نوازی، رشتوں کا پاس و لحاظ، احساس غلامی کا خاتمہ، طبقاتی نظام کی تدفین، عبادت کا جلوہ ،شہادت کی تمنا و نظام توحید پر ایثار و قربانی کا جذبہ جیسے اقدار کو زندہ کرنے کے لئے تھی، جنہیں اقدار عاشورہ کے عنوان سے یاد کیا جا سکتا ہے۔
اب ہر انسان کو خود تجزیہ کرنا ہوگا کہ وہ کس سمت کھڑا ہے کیونکہ اپنے نفس کا بہترین محاسبہ کرنے والا وہ خود ہے ۔اگر اقدار عاشورہ کا پاسدار ہے تو سچا حسینی ہے ورنہ امام حسینؑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ خواہ وہ دن بھر حسینیت کی تسبیح کیوں نہ پڑھتا رہے۔ خارجی گریہ و زاری کے ساتھ عبادت کرتے تھے مگر امام علیؑ نے انہیں ان کے صحیح انجام تک پہونچایاکیونکہ وہ اپنے نفس کے بھی ظالم تھے اور غیروں پر بھی ظلم کرنے والے تھے۔کربلا میں آپ نے ’’ہل من ناصر‘‘ کی صدابلند کی تھی جبکہ تمام انصار شہید ہو چکے تھے ۔یہ آواز زندوںکے لئے اقدار کی حفاظت کے خاطر تھی کہ ہم نے اپنے خون نا حق سے ان اقدار کو زندہ کیا ہے تم آنسوؤں کے پانی سے ان کی حفاظت کرنا۔
عزاداری ظلم کے خلاف احتجاج اور عدل و انصاف کی آواز ہے یعنی عزاداری کا تعلق تولّا اور تبرّا سے ہے جو فروع دین کا جزو ہے اور فروع میں تقلید لازم ہے۔ لہٰذا ہمارے مراجع کرام جس طرح عزاداری کرنے کا حکم دیں عزاداری اسی طرح کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ محبت و عقیدت کا مسئلہ ہے لہٰذا ہم کسی کی نہیں سنیںگے۔ ایسی فکر خام خیالی اور نادان دوستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
امام رضاؑ نے نیشاپور میں حدیث سلسلۃ الذہب ارشادفرمائی تھی جس کو ہزاروں راویوں نے رقم کیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’لَا الہ الّا اللہ‘‘ ایک قلعہ ہے جو اس میں داخل ہوا وہ امان میں ہے اور پھر فرمایا کہ شرطِھَا و شروطِھَا و اَنَا مِن شروطِھَا یعنی بحیثیت امامؑ میں ایک شرط ہوں۔ اب جتنی چیزیں امامؑ کے حوالہ سے فرض کی گئ ہیں ان سب پر عمل ایک توحید پرست کی ذمہ داری ہے خواہ وہ مسئلہ ولایت ہو یا محبت۔ ہم ان سے محبت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمارے امامؑ ہیں اور ان کے غلاموں سے محبت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمارے امامؑ کے غلام ہیں۔
ہماری شہدائے کربلا سے محبت نصرت امامؑ میں فداکاری کی بنا پر ہے۔ امام حسینؑ نے مصائب کی زمین پر اقدار کا فرش بچھایا ہے تاکہ اس فرش پر آنے والا حسینیت کا سچاپاسدار ہوسکے۔ وہ اخلاق کا مجسمہ ہو، بروں سے بیزاری اور اچھوں سے والہانہ محبت کرنے والا ہو۔ اس کا ہر لقمہ خمس سے پاک کیا ہو۔ مجالس کا اہتمام اور تبرک کا انتظام مال حرام سے نہ کرتاہو۔ مشترکہ فتویٰ ہے کہ وضو کا پانی، وضو کا برتن اور وہ جگہ جہاں وضو کر رہے ہیں مباح ہو مگر وضو کا پانی کسی ایسی جگہ پر گر رہا ہو جس کی اجازت نہ ہو یا غصبی جگہ ہو تو وضو باطل ہو جاتا ہے۔
ہمارے امام حسینؑ کی مظلومیت کا عالم یہ ہے کہ بعض نادان اور مقصد اما م علیہ السلام سے ناآشنا افراد مال حرام کے ذریعہ ، غصبی جگہوںپر، عیارانہ طاقت کے بل بوتے زمینیں ہڑپ کر اور مومنین کے ہی پلاٹوں کو ہتھیا کر کے وہاں نام حسینؑ پر کھانا بنواتے ہیں اور تبرک کے نام پر بانٹتے ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو حقائق کو جانتے ہیں وہ ’’الحمد للہ‘‘ کی ڈکاروں کے ساتھ لقمے اضافی شکموں کی زینت بنا لیتے ہیں۔کربلا میں امام حسینؑ نے اجرت ادا کر کے قبیلۂ بنی اسد سے زمین خریدی جبکہ بنی اسد آقا حسینؑ کو وہ زمین ہبہ کرنے کو تیار تھے ،ہمارا بس وہ عمل جو ایمان اور طہارت کے ساتھ ہو وہی قابل قبول ہے مگر امامتؑ اس میں شرط ہے۔
مقصد عزاداری کو سمجھ لینے کے بعد ہمارا پہلا فرض ہے کہ ہم اصلاح نفس کریں۔ امام حسینؑ کی ایک ملاقات نے زہیر قین کی اصلاح نفس کر دی جو زہیر آپؑ سے دوری بناکر چل رہے تھے اصلاح نفس کے ذریعہ امام حسین ؑ سےایسا پیوست ہو گئے کہ حق پرستوں کے لئے مشعل راہ بن گئے۔
کورونہ (Corona) جیسی وباء کے چلتے ہمارے پاس عزاداری کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم گھر میں اپنے امامباڑوں کے سامنے بیٹھ کر اپنے کو امام حسینؑ کے سامنے حاضر جانیں اور غور کریں ’’مقصد امام حسینؑ اور اپنی زندگی کے گزرے دنوں پر ‘‘کہ ہم کتنا راہ امام حسینؑ پر چلے اور کتنا ان کے اقداری راستہ سے دور رہے۔ اب ہمارا عہد کیا ہونا چاہئے۔ اصلاح نفس کے لئے کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد لوگوں اور محبان اہلبیتؑ پر ہدف امام حسینؑ کو واضح کریں۔
اگر ہم اپنے آئمہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہر امامؑ کی احادیث کسی خاص زاویہ سے تعلق رکھتی ہیں مولائے کائناتؑ اور امام رضاؑ نے سب سے زیادہ توحید پر کلام کیا ہے۔ امام محمدؑ باقرؑ نے علم کے حوالے سے فصیح و بلیغ بیان شعورکے دریا بہادیے ہیں۔ امام جعفر صادقؑ نے علوم کے پھیلانے کا وسیع کام کیا ہے۔ امام سجادؑ نے دعاؤں کے ذریعہ مقصد دین اور آنسوؤں کے ذریعہ قربانیامام حسینؑ کو تازہ رکھنے کا کام کیا ہے۔یعنی ہر امامؑ نے تقاضائے وقت کے تحت اپنے فرائض انجام دیئے ہیں۔
آج زمانۂ عزاء میں کورونہ جیسی وباء سے ہر انسان جوجھ رہا ہے ۔ضرورت ہے اس وقت ہم ان چیزوں کو بعنوان تبرک عزاداروں تک پہنچائیں جس کی سخت ضرورت ہے مثلا اشیاء خرد و نوش، راشن یا پیسہ وغیرہ۔ آج ہاٹ پاٹ یا برتن بانٹے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ امام حسینؑ کے نام پر ضرورتمندوں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو امام حسینؑ کے عزاداروں کا اصلی کردار کیاہے ۔
چہلم یا دیگر موقعوں پر پانی کی بوتلیںتقسیم کریں تاکہ تمام عزادار محفوظ رہیں Physical Distance اور لباس کا خاص خیال رکھیں۔ چہرا اور ہاتھ۔پیر بار بار دھوتے رہیں۔ مقدسات کی زیارت دور سے کریں اور وہیں سے بوسہ دیں۔ ماسک اور داستانوں کو پہنے رہیں۔ مصافحہ مقصد امام حسینؑ سے کریں۔ علماء اور خطباء سے مصافحہ نہ کریں۔ مختصر اجتماعی پروگراموں میں بھی بچوں اور بزرگوں کو نہ لے جائیں۔
پروگرام کی زیارت کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ گھر کو عزا سے رونق دیں اور عزاخانہ کو ہی زمین کربلا خیال کرتے ہوئے بارگاہ امامؑ میں آنسوؤں کے ساتھ نذرانۂ عقیدت پیش کریں۔وقتاً فوقتاً علماء، حکومت اور ڈاکٹروں کی جانب سے آنے والی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔
خدا پوری دنیا کو اس وباء سے پاک کرے۔ عالم انسانی کو محفوظ رکھے۔ اور جلد از جلد ہم آزادانہ طریقہ سے گزشتہ سالوں کی طرح عزاداری کے فرائض انجام دے سکیں۔