مولانا سید کلب جواد نقوی
’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفلْاَکَ۔‘‘
’’اے رسولؐ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات میں کچھ نہ ہوتا‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں جو خلق ہوا ہے وہ ہمارے رسولؐ کے طفیل میں خلق ہوا ہے۔ یوں عرض کروں کہ یہ آسمان کا جو شامیانہ ہے، وہ چونکہ ہمارے رسولؐ تشریف لانے والے تھے اس لئے لگایا گیا۔ یہ زمین کا فرش ہے، وہ اس لئے بچھایا گیا کیونکہ رسولؐ تشریف لانے والے تھے۔ یہ آفتاب وماہتاب اور ستاروں کے ذریعہ سے جو روشنی کی گئی، وہ اس لئے کی گئی کیونکہ رسولؐ تشریف لانے والے تھے چونکہ ایک معزز مہمان ایک مکرم مہمان آنے والا تھا لہٰذا قدرت نے یہ اہتمام کیا کہ آسمان کا شامیانہ لگایا، زمین کا فرش بچھایا، آفتاب وماہتاب اور ستاروں سے روشنی کا انتظام کیا۔ جب تمام انتظامات ہوچکے تب رسولؐ زمین پر تشریف لائے۔ معلوم ہوا کہ آسمان کا شامیانہ رسولؐ کی وجہ سے، یہ زمین کا فرش رسولؐ کی وجہ سے، یہ آفتاب وماہتاب اور ستاروں کی خلقت رسولؐ کی وجہ سے۔ کیونکہ وہ زمین پر تشریف لانے والے تھے، اس لئے ان تمام چیزوں کا اہتمام کیا گیا۔ تو اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب کوئی معزز مہمان آتا ہے کوئی مکرم مہمان آتا ہے اس کے لئے ہم اہتمام کرتے ہیں شامیانہ لگتا ہے، فرش کا انتظام ہوتا ہے، روشنی کا انتظام ہوتا ہے، کب تک؟ جب تک وہ مہمان موجود رہتا ہے، فرش کا انتظام رہتا ہے، شامیانہ کا انتظام رہتا ہے، روشنی کا انتظام رہتا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے یہ انتظام کیا گیا ہے۔ لیکن ادھر وہ مہمان گیا، ادھر فرش سمیٹ لیا جاتا ہے، شامیانہ اتار لیا جاتا ہے، لائٹیں بجھا دی جاتی ہیں۔ تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ زمین کا فرش اس لئے بچھا کہ رسولؐ آنے والا تھا، یہ آسمان کا شامیانہ اس لئے کہ رسولؐ تشریف لانے والے تھے۔ یہ آفتاب ومہتاب کی روشنیاں اس لئے کہ رسولؐ تشریف لانے والے تھے۔ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ جب رسولؐ تشریف لے گئے، تو زمین کا فرش سمیٹ لیتا، آسمان کا شامیانہ اتر جانا چاہئے تھا، آفتاب ومہتاب کی قندیلیں بجھ جانا چاہئے تھیں۔ ان تمام چیزوں کا اپنی جگہ اسی طرح باقی رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ہو نہ ہو محمدؐ جیسا آج بھی موجود ہے۔
کوئی ہو بہو رسولؐ جیسا آج بھی موجود ہے جس کے طفیل میں یہ زمین بھی قائم ہے یہ آسمان بھی قائم ہے یہ آفتاب وماہتاب بھی قائم ہے۔
اس سے پہلے کی امتوں پر آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں، پتہ نہیں کتنی امتیں ہیں جن پر عذاب نازل ہوا، فنا ہوگئیں، ختم ہوگئیں۔ کبھی زمین کا تختہ پلٹ گیا اور پوری امت فنا ہوئی۔ کبھی کوئی عذاب ہوا، کبھی کوئی عذاب نازل ہوا۔ کبھی بیماریوں کے ذریعہ سے، کبھی وبائوں کے ذریعہ سے اور وہ امت مٹ گئی۔ لیکن آپ یاد رکھیں کہ ویسا عذاب کبھی
مسلمانوں پر نازل نہیں ہوگا جو اس سے پہلے امتوں پر نازل ہوا۔ نہیں! ہوگا کیوں؟ کیونکہ قرآن کا اعلان ہے۔ کسی بھی مسلمان سے پوچھئے آپ کیا جو پچھلی امتوں پر عذاب نازل ہوئے، وہ مسلمانوں پر بھی نازل ہوسکتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ گنہگار، ان سے زیادہ بدکار ہیں۔ آج مسلمان جتنے گناہ کررہے ہیں، اگر عذاب نازل ہونے والا ہوتا تو سو بار ہوچکا ہوتا۔ اتنی گنہگار امت ہے، اتنے بدکار مسلمان ہیں، پھر بھی مطمئن ہیں کہ ہم پر ایسا عذاب نازل نہیں ہوگا کہ جیسا اس سے پہلے کی امتوں پر ہوچکا۔ کیوں نازل نہیں ہوگا؟ مسلمان پکار کر کہے گا کہ اس لئے نازل نہیں ہوگا کہ اللہ قرآن میں وعدہ کرچکا ہے کہ مَا کَانَ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ اے رسولؐ مسلمانوں سے کہہ دیجئے کہ ہم ان پر وہ عذاب نازل نہیں کریںگے جو ان سے پہلے والی امتوں پر ہم نے عذاب نازل کئے تھے اور پوری پوری امتیں تباہ ہوگئیں تھیں مٹ گئیں تھیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ آپ کا وجود درمیان میں ہے۔ یہ وعدہ الٰہی ہے۔ اعلان کردیجئے، یہ اطمینان دلا دیجئے کہ ہم ان پر عذاب نازل نہیں کریںگے جیسا پچھلی امتوں پر نازل ہوا، کیونکہ آپ کا وجود ان میں سے ہے، آپ کی ذات بابرکت موجود ہے، لہٰذا آپ کے وجود کی برکت کی وجہ سے ہم ان پر عذاب نازل نہیں کریںگے۔ تو میں پوچھتا ہوں مسلمانوں! یہ تو رسولؐ کی زندگانی کا واقعہ ہے، یہ اعلان ہورہا ہے، آج تم کیوں مطمئن ہو؟ کیونکہ قرآنی آیت یہ اعلان کررہی ہے کہ کیونکہ آپ کا وجود مسلمانوں کے درمیان ہے، کیونکہ آپ مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں، اس وجہ سے ہم ان پر عذاب نازل نہیں کریںگے۔ تو مجھے بتائو کہ اب رسول کہاں موجود ہیں؟ تواب تو میں مان لوں کہ عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ نہیں! نہیں!! عذاب نازل نہیںہوگا اس لئے کہ اگر پہلامحمدؐ موجود نہیں ہے تو آخری محمدؐموجود ہے۔ تو اگر نہ مانو نہ تسلیم کرو تو آیت کاکوئی فائدہ اب نہیں۔ کیونکہ آپ ان کے درمیان میں موجود ہیں، اس لئے عذاب نازل نہیںکرتا۔ تو آج رسولؐ یہاں موجود نہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہو بہو کوئی رسولؐ جیسا آج بھی موجود ہے کہ جس کی برکت سے عذاب سے ہم محفوظ ہیں۔
آپ دیکھیں کہ ہر نبیؐ سے اقرار لیا گیا کہ دیکھو ہم تمہیں حکمت دے رہے ہیں، کتاب دے رہے ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ (اس کو آیۂ میثاق کہا جاتا ہے)، ہم تم کو نبوت دے رہے ہیں، اس شرط کے ساتھ ہم یہ کتاب وحکمت دے رہے ہیں کہ ایک آنے والا نبیؐ ہے جس پر ایمان لانا ہوگا۔ اگر اس کی رسالت کا اقرار کرو، اگر اس پر ایمان لائو تو پھر تم کو نبوت ملے گی، تم کو رسالت ملے گی۔ ہرنبیؐ نے اقرار کیا کہ ہم اس آنے والے نبیؐ پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر نبیؐ کا ان پر ایمان تھا۔ ہم اس ایمان میں سیرت انبیاء پر عمل کررہے ہیں جس طرح سے ان کو ایک آنے والے پر ایمان تھا اسی طرح ہم کو بھی ایک آنے والے پر ایمان ہے۔ اگر وہ ایک آنے والے کے منتظر تھے تو ہم بھی ایک آنے والے کا انتظار کررہے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے وہ اوّل محمدؐ کے منتظر تھے ہم آخری محمدؑ کے منتظر ہیں۔
ززز
(ماخوذ از ماہنامہ شعاع عمل لکھنؤ اُردو و ہندی، ناشر نور ہدایت فائونڈیشن امام باڑہ غفران مآب ، مولانا کلب حسین روڈ، چوک ، لکھنؤ ۔۳ (یوپی) انڈیا)