تحریر: ارشاد حسین ناصر
(یوم شہادت پر خصوصی پیشکش )
حق اور باطل کے درمیان ہمیشہ سے معرکہ آرائی جاری ہے، یہ معرکہ آرائی خدا کی زمین پر کسی ایک جگہ نہیں بلکہ اس کا دائرہ ہر مکان اور زمین و ملک سے ہے، اس کا تعلق ہر دور اور زمانے سے ہے، یہ معرکہ آرائی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک حق کا آخری نمائندہ اور وارث زمانہ تشریف نہیں لے آتے اور باطل اور اس کے فتنوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ نہیں کر دیتے۔ ان کے آنے سے پہلے یہ قیام اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے کی رسم اور روایت باقی رہے گی۔ باطل کے سامنے ٹکرانے والے اور اس کا راستہ روکنے والے یقیناً ان کے نمائندے اور ناصران کہلائیں گے۔ یہ الگ بات کہ بعض ایسے فاسد عقیدہ کے لوگ بھی موجود ہیں، جو آپ کی آمد اور ظہور سے پہلے کسی بھی قسم کے قیام اور خروج کو باطل اور حرام سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ قیام اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونا امام کے مقاصد سے انحراف ہے، مگر ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔ اس لئے کہ ظلم اس قدر واضح اور آشکار ہو رہا ہے کہ ہر ایک کو اس سے نفرت اور اس کے خلاف قیام اور سینہ سپر ہونے کی سوچ پختہ ہو رہی ہے، اسی وجہ سے آج ہر سو اس قیام اور خروج کے داعی باطل کا سامنے کرنے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔
آپ خود سوچیں کہ اگر باطل کے سامنے ٹکرانے کی رسم جو کربلائی راستہ ہے نہ ہوتی تو آج باطل کے طرفداروں اور نمائندوں نے عراق، شام اور دیگر مقدس مقامات پر قبضے کی جو روش اختیار کی تھی، اس کا نفاذ تقریباً پورے مشرق وسطٰی میں ہوچکا ہوتا اور کروڑوں لوگوں کیساتھ ہمارے مقدسات نیست و نابود ہوچکے ہوتے۔ بہرحال اس صدی میں اس کا سہرا انقلاب اسلامی ایران اور اس کے بانی کو جاتا ہے، جنہوں نے تاریخ کا یہ بھولایا جانے والا سبق ہم سب کو یاد کروایا اور بتایا کہ کیسے قیام کرنا ہے، کیسے باطل سے ٹکرانا ہے، کیسے اس کا مقابلہ کرنا ہے، کیسے اسے شکست سے دوچار کرنا ہے۔ صرف ایران تک محدود نہیں رہی بلکہ ان کی یہ سوچ اور نظریہ تمام عالم اسلام میں راسخ ہوا، بالخصوص مکتب تشیع کے حقیقی پیروان علماء و مجتھدین نے اسے اپنے اپنے علاقوں اور ممالک میں روبہ عمل لانے کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا۔
ایران کے ہمسایہ ملک عراق کو سرزمین انبیاء کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، یہ ایک طویل تاریخ کی حامل اسلامی آثار و واقعات و تاریخ پر مشتمل مملکت ہے، یہاں پر بھی مختلف ادوار میں انبیاء، آئمہ، اولیاء، علماء، مجتھدین نے دین خدا کے احیاء کی تاریخی جدوجہد اور اس راہ میں قربانیوں و ایثار کی داستانیں رقم کی ہیں۔ اگر ہم بہت پرانی تاریخ میں نہ جائیں اور گذشتہ صدی کے اواخر میں جھانکیں تو ہمیں اس کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام کے احیاء کیلئے اس قوم و ملت و مکتب کے علماء و مجتھدین نے کس قدر زحمات اٹھائی ہیں اور انہیں کس قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے، بعثی نمائندوں کے اقتدار میں آنے کے بعد اہل عراق پر جو گذری ہے، اس سے کون واقف و آگاہ نہیں ہے، آج اگر عراق میں ایک مضبوط شیعہ حکومت قائم ہے تو اس کے قیام کیلئے ہزاروں علماء و مجتھدین کی ان تھک کاوشیں اور بے مثال جدوجہد تاریخ کے تابندہ ابواب کے طور پر مرقوم ہے۔
عراق میں قربانیاں پیش کرنے والوں میں سب سے نمایاں اور روشن ترین کردار خاندان صدر اور خاندان حکیم کے چنیدہ افراد کا ہی ہے، اس کاروان حق کے سرخیل اور قافلہ سالار، عظیم فلسفی، بے مثال مفکر، ان تھک مبلغ و مبارز آیۃ اللہ سید باقر الصدر شہید ہیں، جنہیں بعثی ظالم حکمران صدام نے 9 اپریل1980ء کے دن ان کی بہن کے ساتھ بدترین تشدد کے بعد شہید کر دیا تھا۔ شہید باقر الصدر اور ان کی عظیم بہن آمنہ بنت الھدیٰ کی تاریخی جدوجہد اور بے مثال قربانی اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے پیغام اور اس کی صحیح تصویر کشی کیلئے ہمارے عظیم مجتھدین و فقہا و نمائندگان اسلام نے کسی بھی قسم کی قربانی سے فرار یا دریغ نہیں کیا۔ آج اہل عراق جس خوش حالی اور آزادی میں سانس لے رہے ہیں، یہ آزادی اور دینی ماحول کے احیاء میں انہی علماء و مجتھدین کا پاک لہو شامل ہے، جس کے قافلہ سالار آیۃ اللہ سید باقر الصدر شہید ہیں، ان کی زندگی اور کردار نیز حالات و واقعات، مشکلات، مصائب، اسارت اور تشدد کی داستان کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ عراق میں جن مقدس مقامات کی زیارات کے ہم ہر وقت مشتاق رہتے تھے اور آج بڑی آزادی کے ساتھ ان کو انجام دیتے ہیں، یہ سب انہی مجتھدین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، ان کاوشوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔ آج جتنی بڑی سازش پر عراق میں عمل ہو رہا ہے، وہ بھی اگر ناکامی سے دوچار ہوئی ہے یا اس کا مقابلہ کیا جا رہا ہے تو ان بزرگان دین مجتھدین و فقہا کی جدوجہد، کاوش اور قربانیوں کی بدولت ناکامی سے دوچار ہوئی ہے اور انہی علماء و مجتھدین نے اس قوم کو یکجا و متحد کیا ہے اور باطل کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، اسکا سر کچلا ہے تو انہی مجتھدین کی کوششیں نظر آتی ہیں، جنہوں نے نوجوانوں کو شہادت کے جذبے سے سرشار کرکے تکفیریت کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان عمل و جہاد میں بھیجا ہے۔
آیۃ اللہ شہید باقر الصدر کی حیات مبارکہ کے بارے جاننا چاہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ بغداد کے علاقے قدیمیہ (کاظمین) میں یکم مارچ 1935ء بمطابق25 ذیقعد 1353ھ کو پیدا ہوئے۔ ان کی عمر جب دو سال تھی تو آپ کے والد معروف مذہبی اسکالر سید حیدر الصدر انتقال فرما گئے، جو معروف علماء میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ سید اسماعیل صدر اپنے زمانے کے معروف و مشہور فقہا میں سے تھے۔ صدر خاندان کے بارے یہ معلومات ملی ہیں کہ یہ بنیادی طور پر لبنان سے آکر آباد ہوا تھا۔ اس خاندان کے ایک چشم و چراغ لبنانی شیعوں کے قائد موسٰی صدر لیبیا کے سفر کے دوران غائب ہوگئے تھے، جو آج تک گم شدہ ہیں۔ یہ وہی شخصیت ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شخصیت نے اہل لبنان کی قسمت بدل دی اور انہیں دنیا کی معزز و مکرم ترین اقوام میں لا کھڑا کیا، دنیا آج حزب اللہ اور امل کے نام سے ڈرتی ہے اور ان کے حقوق کوئی پامال نہیں کرسکتا۔
بات ہو رہی تھی آیۃ اللہ باقر الصدر کی، جنہوں نے کاظمین کے ایک معروف فقیہ کے گھر میں جنم لیا تھا، آپ نے پرائمری کی تعلیم مقامی قدیمیہ کے اسکول سے ہی حاصل کی۔ شہید باقر الصدر اور ان کے اہل خانہ نے 1945ء میں نجف اشرف کا رخ کیا، جہاں انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار دی، انھوں نے نجف اشرف میں حوزہ علمیہ میں داخلہ لیا اور انتہائی سرعت و تیزی کے ساتھ حصول علم کی منازل طے کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر صرف 20 سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ ویسے ان کے مطالعات اور استعداد علمی کو جاننے والے یہ بات کہتے ہیں کہ سن بلوغ تک پہنچنے کیساتھ ہی انہوں نے اجتھاد کا درجہ پا لیا تھا اور صاحب فتویٰ ہوگئے تھے۔ ان کی مرجعیت کا زمانہ آیۃ اللہ محسن الحکیم کی وفات کے بعد شروع ہوتا ہے، جو اس دور میں اہل عراق سمیت دنیائے تشیع کے متفق و محبوب مرجع سمجھے جاتے تھے۔
کہتے ہیں کہ آیۃ اللہ محسن الحکیم بھی اس نوجوان عالم کو نجف کی امید قرار دیتے تھے، یعنی ان کی اعلٰی درجے کی خصوصیات اور علمی استعداد نیز جرات و شجاعت آیۃ اللہ محسن الحکیم پر بھی آشکار و واضح ہوچکا تھا۔ شہید باقر الصدر نے بعثی و کمیونسٹ نظریات کے رد کیلئے اپنے قلم کو ہتھیار بنایا اور آیۃ اللہ محسن الحکیم کی خواہش پر ان کا علمی مقابلہ و محاکمہ کیا اور اس مقصد کیلئے ایک بہت ہی دقیق علمی کتاب “فلسفتنا” یعنی ہمارا فلسفہ، اسلامی اقتصادیات المعروف “اقتصادنا” لکھ کر شائع کروائیں، جنہوں نے فلسفی دنیا میں ہلچل مچا دی اور الحادی و کمیونسٹ نظریات کے بخیے ادھڑ گئے۔ یوں آپ کی شہرت کا ڈنکا بیرونی دنیا میں بھی بجنے لگا اور حوزہ نجف سے الحادی نظریات کا جنازہ نکل گیا۔
آیت اللہ العظمٰی سید باقر الصدر کا شمار بلاشبہ گذری صدی کے عظیم فلسفیوں، مذہبی اسکالرز اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے مظلوموں و محروموں کو نہ صرف متاثر کیا اور حرارت دی، بلکہ آپ نے ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے زیادہ تر اہل تشیع اور پھر اہل سنت تھے، کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرونے اور باہمی اختلافات اور کدورتوں کو ختم کرنے کیلئے موثر آواز بلند کی اور اہم مواقع پر ایسے پیغامات دیئے کہ شیعہ و سنی ملکر استعمار اور اس کے زر خریدوں کے مدمقابل اٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے نہ صرف حکمرانوں کو للکارا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ یہ شہید باقر الصدر ہی تھے، جنہوں نے 1957ء میں عراق کی معروف اسلامی دعوہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
شہید باقر الصدر نے حزب الدعوہ کی بنیاد رکھی، تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں لادینیت و کمیونزم کے فروغ کو روکا جاسکے اور اسلامی افکارات کا احیا کیا جاسکے، ان کے نظریات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ خشک متقی اور جبہ و دستار والے تھے، جو سیاسی جدوجہد کو غلط سمجھتے تھے اور ان کے پاس ایسے سیاسی و باعمل روشن فکر علماء کیلئے دین سے انحراف کے فتوے صادر کرنا بہت آسان حربہ تھا۔ یہ قدامت پسند علماء شہید صدر کی سیاسی فکر اور جدوجہد کی راہ میں بھی ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔ دراصل ان کو حکمران بعثی ٹولہ استعمال کرتا تھا، ان کا رابطہ اخوان المسلمون کی شاخ حزب تحریر سے بھی تھا، جو عراق میں سیاسی جدوجہد کر رہی تھی۔ 70 کی دہائی کے آغاز میں ہی شہید باقر الصدر اس بات کو جان چکے تھے کہ بعثی دہشت گرد عراق کے اسلامی تشخص کے لئے خطرہ ہیں اور خطرے کے باوجود آپ نے اپنی دینی اور تعلیمی سر گرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
بنیادی طور پر یہی وہ سیاسی جماعت اور منظم گروہ تھا، جس نے عراق میں بعد ازاں صدام کے ظالمانہ دور میں مظلوم شیعوں کے حقوق کے لئے پیہم اور مسلسل جدوجہد کی۔ آپ کو امام خمینی کی ذات سے اس قدر عشق تھا کہ اس کی خاطر ہر قسم کا خطرہ مول لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے اور ان کی شہادت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب امام خمینی کو عراق کی بعثی حکومت نے عراق بدر کیا تو اس وقت پولیس کے سخت پہرے اور گھیراؤ کے باوجود آپ امام خمینی کے گھر گئے اور اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ ان کا جرم بن گیا، جسے گرفتاری کے بعد باقاعدہ ان کے سامنے دہرایا گیا۔
کربلا کی فکر کے امین، اپنے جد سردار کربلا، سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے راستے کے راہی اور پیامبر آیۃ اللہ شہید باقر الصدر کو اپنی زندگی کے مختلف ادوار 1971،1974،1977ء اور آخری مرتبہ 1979ء میں بعثی حکمرانوں نے اسیر بھی کیا، سخت ایذائیں بھی دیں اور شہید باقر الصدر کے کئی ساتھیوں اور رفقائے کار سمیت دعوہ پارٹی کے اہم اراکین کو ظالم و جابر صدام ملعون کے حکم پر گرفتار کرکے ان کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔ شہید صدر کو جب آخری دفعہ گرفتار کیا گیا تو ان کی عظیم بہن آمنہ بنت الہدیٰ جو حزب دعوہ خواتین ونگ کی سربراہ تھیں، اس ظلم پر خاموش نہ رہیں اور نجف میں باہر نکل کر لوگوں کو قیام کی دعوت دی۔ اس ظلم اور حکومت کے نجس ارادوں سے آگاہ کیا۔
اس احتجاج کے بعد عارضی طور پر حکومت نے انہیں رہا کر دیا اور دونوں بہن بھائیوں کی نظر بندی کو ختم کر دیا اور انھیں 5 اپریل 1980ء کو رہا کر دیا گیا، لیکن چند دنوں بعد ہی 9 اپریل 1980ء کو ظالم و سفاک بعثیوں نے نجف اشرف شہر کی بجلی منقطع کر دی اور شہید باقر الصدر کے قریبی عزیز سید محمد الصدر کے گھر سکیوریٹی حکام کو بھیج کر ان کے اپنے ہمراہ بعثی یزیدیوں کے ہیڈ کوارٹر بلوا لیا گیا، جہاں یزیدی صفت صدامیوں نے سید محمد الصدر کو شہید باقر الصدر اور شہیدہ آمنہ بنت الہدی کی لاشیں دکھائیں، جو خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور جسم پر بے انتہا تشدد کے نشانات تھے، شہید باقر الصدر اور ان کی بہن کو نجف اشرف میں واقع تاریخی قبرستان وادی السلام میں اسی رات دفن کر دیا گیا۔
آج دنیا بھر میں اسلام حقیقی بالخصوص تشیع کے خلاف عالمی سازشوں کا شکار مسلمانوں اور مکتب جعفری کے پیروان کو دیکھیں اور اس مکتب کی حفاظت و نگہبانی، تبلیغ و اشاعت اور اس کا پرچم سربلند رکھنے اور اسے کسی بھی ظالم کے سامنے جھکنے نہ دینے کی جدوجہد میں علماء مجتھدین، مبارزین کی عظیم قربانیوں کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم تک کس قدر قربانیوں اور زحمات کے بعد یہ دین پہنچا ہے، ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، دین کے نام پر کیسی کیسی بدعات ایجاد کی جا رہی ہیں اور کیسے کیسے کاموں کو دین سے منسوب کیا جا رہا ہے، جو لوگ ایسا کر رہے ہیں، ان کا اس پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوا، ہاں جن کو معتوب ٹھہرایا جاتا ہے، جن کو گالیاں دی جاتی ہیں، جن کو مجالس و محافل اور اجتماعات میں برا بھلا کہا جاتا ہے، ان کا بہت کچھ خرچ ہوا ہے، حتٰی ان لوگوں نے پھانسیاں لی ہیں، گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کے خاندان ختم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، جیلیں ان کے صبر، استقامت اور صداقت کے گواہ ہیں، عقوبت خانے ان کی قربانیوں اور زحمات کی گواہی دیتے نوحہ کناں ہیں۔
میرا خیال ہے کہ آج کی نسل کو جس طرح گمراہ کیا جا رہا ہے، علماء و مجتھدین سے برگشت و بیزار کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ ان بزرگان و محسنین کی قربانیوں کا تذکرہ بار بار کیا جائے اور نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ انہوں نے کس قدر زحمات اٹھائی ہیں۔ اس مکتب کو یہاں تک پہنچانے کیلئے، بالخصوص ان شخصیات کے مخصوص ایام کو شایان شان طریقہ سے برپا کرکے ہم ان مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کی جدوجہد، افکار و کردار اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ کم سے کم حق ہوتا ہے، جسے ہم ادا کرسکتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان میں اس شخصیت کی شہادت پر ہونے والا اجتماع ایک قومی سطح کے اجتماع کی شکل اختیار کرکے پاکستان میں جدوجہد کی علامت اور نشان بن گیا تھا، جسے تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں برپا ہونے والا معرکہ دراصل شہید باقر الصدر کی شہادت کے عنوان سے رکھا جانے والا اجتماع ہی تو تھا، مگر افسوس کہ آج جدوجہد کے اس استعارے، اس عاشق امام خمینی، عظیم فلسفی، بلند فکر مفکر اور علمی و دینی شخصیت کی برسی بڑے آرام اور خاموشی سے گذر جاتی ہے، کسی کو کوئی خبر بھی نہیں ہوتی شائد ان کی شاگردی کا دعویٰ کرنے والے یہاں بھی موجود ہوں، مگر ان کے افکار اور ان کی کتب کو شائع کرکے انہیں اگلی نسلوں تک پہنچانے والے نظر نہیں آتے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)