اے دنیا والو! شایدیہ میرا آخری پیغام ہو ۔
میں آپ کو یہ پیغام آگ اور بمباری کے نیچے سے دے رہا ہوں۔
ہم شاطی کیمپ میں ہیں، شاید یہ آپ کے لئے یہ میرا آخری پیغام ہو۔
اے دنیا والو، ہمارا یہ پیغام دنیا والوں تک پہنچادو اور انہیں یہ بتادو کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری خواتین اور بچے روزانہ مارے جا رہے ہیں۔ ہماری پشت پر بمباری ہورہی ہے لیکن خدا کی قسم ہم اس بمباری سے نہیں ڈرتے۔ ہم مارے جاتے ہیں لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ ہم خداوندعالم کی پناہ چاہتے ہیں، بموں سے نہیں بلکہ آپ کی۔ اے دنیا والوں میرے یہ آنسو خوف کے آنسو نہیں ہیں بلکہ شرم و حیا کے آنسو ہیں، یہ شرمندگي تمہاری کمزوری کی وجہ سے ہے اور یہ امت اسلامیہ کی کمزوری کے آنسو ہیں۔ ہم تمہاری بے توجہی سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ آج بے توجہی خیانت کے مترادف ہے۔ ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے، ہم تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے بے شک ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ وہ ہمارے لئے بہترین سہارا ہے۔ "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اور ہم کبھی بھی ذلت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔
اے دنیا والو تاریخ ضرور لکھے گی کہ
غزہ تنہا لڑا جب کہ پچاس عرب اور اسلامی ملکوں نے ان مناظر کو دیکھا لیکن کچھ نہیں کیا۔
یقینا تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ ۔
غزہ کے لوگوں کے پاس خوراک، پانی یا دوا نہ تھی لیکن دنیا نے اپنی ابرو نہیں جھکائیں اور عرب ممالک خوف کی وجہ سے انہیں انسانی امداد بھیجنے کے قابل نہیں رہے۔
بے شک تاریخ یہ ضرور لکھے گی کہ ۔
عرب حکومتوں کے سربراہان اسرائیل کی مجرمانہ حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی جدوجہد کر رہے تھے جب کہ غزہ کے بچے ملبے تلے سانس نہیں لے پارہے تھے، وہ رات کو بھوکے سوتے تھے اور ان کے پاس رہنے کے لئے گھر بھی نہیں تھا۔
اے دنیا والوں یقين رکھو تاریخ ضرور لکھے گی کہ۔
غزہ، ایک چھوٹی سی سرزمین کہ جو سترہ برسوں سے زائد عرصے تک مکمل محاصرے میں تھی، ایک ایسی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جس سے اکیس عرب فوجیں بہت زيادہ خوفزدہ تھیں ۔
یقینا تاریخ لکھے گی کہ غزہ نے امت اسلامیہ کے راستے کو معین کیا اور اپنے موقف پر سختی کے ساتھ ڈٹا رہا اور قابض دشمن اور اس کے اتحادیوں کے سامنے تسلیم نہیں ہوا ۔
ستر برسوں سے زیادہ عرصے سے عرب حکومتوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمیں ان اندھی آنکھوں کے کھلنے کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔ تم لوگوں نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا لیکن ہم تمہارے لئے دعا کرتے ہیں کہ خداوندعالم تمہاری آنکھوں کو شفا دے اور تمہارے پتھر دلوں کو موم کر دے۔
وہ نیند جو تمہاری آنکھوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور ایسی سنگين ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا جرم بھی اسے بیدار نہیں کرسکتا۔ چوہتر برسوں سے صیہونی امریکہ اور انگلستان کی مدد سے جنایتیں کر رہے ہیں انہوں نے ہمارے گھر اجاڑ دیئے ، ہمیں مادر وطن سے نکال باہر کیا ،ہمارے لڑکوں ، لڑکیوں، بوڑھوں اور جوانوں کو قید کر لیا گیا یا قتل کر دیا گیا ۔ انہوں نے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر بھی رحم نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ کریں گے۔ چوہتر برس پہلے جب انہوں نے یروشلم کے گاؤں دیر یاسین پر تینوں طرف سے حملہ کیا اور اس کے تمام باشندوں کو سرد خون میں گولی مار کر ان کے جسموں کو جلایا تو تم سب سو رہے تھے۔ چالیس برس پہلے جب صبرا اور شتیلا کیمپوں میں دو ہزار افراد پر مشتمل بے گناہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا، تب بھی تمہاری آنکھیں بند تھیں۔ تم اس وقت بھی سو رہے تھے جب چھوٹے چھوٹے بچوں کو گولی ماری جا رہی تھی۔ تم اس وقت بھی سوئے ہوئے تھے کہ جب صہیونیوں اور ان کے اتحادیوں نے حاملہ ماؤں کے پیٹ پھاڑ کر ان کے جنین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے اپنے تمام خاندانوں کو کھو دیا، جب ہم ابھی بچے تھے اور مگر انہیں دوبارہ کبھی بھی نہیں دیکھا، اس وقت بھی تم سو رہے تھے جب انہوں نے لاشوں کے نیچے بارودی سرنگیں بچھائیں تاکہ کوئی لاشیں اٹھانے کی جرأت نہ کرسکے، تب بھی تم سو رہے تھے... اب تم یہ کیسے توقع کرسکتے ہو کہ غزہ پر بمباری کے چند دن بعد تمہاری نیندیں اڑ جائیں گی۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ غزہ کے ان دنوں کی کہانی تمہارے لئے بار بار کی کہانی ہے، جو تمہیں نیند سے بیدار کرنے سے زیادہ گہری نیند سلاسکتی ہے۔
اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جس دن یہی آفتیں تم پر نازل ہوں گی تو کیا تم اس وقت بھی سوتے رہو گے؟
صیہونی پوری دنیا میں موجود ہر چیز کو، چاہے وہ جاندار ہوں یا بے جان دونوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ایسی ملکیت کہ جو تمہیں چند دنوں کے لئے بطور قرض دی گئی ہو ۔ وہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تم سے جو قرض دیا ہے وہ جب چاہیں اور جس طریقے سے چاہیں واپس لے لیں گے ۔
وہ بھی تمہارے بارے میں ایک ہی خیال رکھتے ہیں۔تم یا جو کوئی بھی صیہونی نسل سے نہیں ہے، بنیادی طور پر انسان نہیں ہے بلکہ انسان کی شکل میں ایک جانور ہے جسے صرف یہودی کی خدمت کرنی چاہیے۔ صیہونیوں کی نظر میں تم سب غلام ہو جو یہودی نجات دہندہ کے ظہور کے بعد اپنے اصل مقام یعنی یہودیوں کی غلامی پر واپس آجاؤگے صدیوں سے، وہ اپنی تحریف شدہ بائبل سے ایسے افکار پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں۔
آج ہم تمہیں گولیوں اور آگ کی بارش میں خبردار کر رہے ہیں: اگر تم بیدار نہ ہوئے، اگر غزہ کی آج کی کہانی تمہارے دلوں کو نہیں پگھلاتی اور تمہاری آنکھوں سے نیند کو نہیں اڑاتی، اگر تم نے آج غزہ کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا تو بلاشبہ کل تمہاری باری آنے والی ہے ۔
کون یقین کرسکتا ہے کہ یہ خونخوار اور بچوں کو مارنے والی قوم خدا وندعالم کے انبیاء میں سے ایک پیغمبر کے امتی ہیں؟! وہ خدا جو رحم کرنے والا اور اپنے بندوں پر ماں سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہے اور وہ نبی جس نے اپنے دس مشہور احکام میں بیان کیا ہے کہ شرک نہ کرو، اپنے والدین کی عزت کرو، قتل نہ کرو، زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو۔ چوری نہ کرو اور اپنے پڑوسی کے مال اور عزت و ناموس کو نقصان نہ پہنچاؤ۔
جان لو کہ یہودی اپنے نبی کے مشن کے ابتدائی دنوں سے ہی انحرافات اور خیانت کا شکار ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو چالیس دن تک ترک کردیا اور خدا کے حکم سے کوہ طور پر عبادت کرتے رہے لیکن ان چالیس دنوں میں یہودی خدا اور اس کے نبی کی تمام تعلیمات کو بھول گئے اور بچھڑے کی پوجا کرنے لگے۔ اب جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کو تقریباً تین ہزار برس گزر چکے ہیں تو ہم واقعا اب کیا توقع کر سکتے ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ صرف اپنی نسل کو انسان سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا اور اس میں موجود ہر چیز ان کے آباء و اجداد کی میراث ہے، کیا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے والے ہیں ؟ کیا وہ قوم جو قتل و غارت گری، ڈاکہ زنی اور جرائم کو دنیا پر قابض ہونے دیتی ہے وہ ایسے نبی کی پیروکار ہو سکتی ہے ؟ جنہوں فرمایا تھا کہ اپنے پڑوسی کی جائیداد اور عزت و ناموس کے حریص نہ بنو ؟
نہیں ہرگز نہیں، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ نہ خدا کو جانتے ہیں اور نہ ہی اس کے رسول کو۔ یہاں تک کہ صہیونیوں نے انسانیت سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ نہیں جانتے کہ اخلاق کیا ہے اور ان کے اندر کوئی جذبہ الفت و محبت بھی نہیں پایا جاتا ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوندعالم نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ چار ٹانگوں والے جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی بد تر ہیں۔
غزہ، اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی سرزمین ہے جس کا حجم صرف تین سو ساٹھ مربع کلومیٹر ہے اور سترہ برس سے اس کا محاصرہ ہے لیکن یہ اس منحرف اور خونخوار قوم کی زیادتیوں کے مقابلے میں کبھی بھی ناکام نہیں ہوگا۔ غزہ اس اژدھے کے خلاف بالکل یک و تنہا کھڑا ہے جو پوری دنیا کو نگلنا چاہتا ہے۔
آج غزہ کا پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا ہے لیکن جب تم قریب سے دیکھوگے تو تمہیں اس کے باشندوں میں جوش، حوصلہ، غیرت اور بہادری کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ہمارے بچے ہر روز چھوٹے فرشتوں کی طرح آسمان پر اڑتے ہیں، زندگی کا مزہ چکھنے سے پہلے وہ موت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ یہ تمہاری نیند بھری آنکھوں کا معاوضہ ہے۔ ہم تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے ہاں ہم تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے۔ ہم تمہاری شکایت صرف اللہ سے کریں گے جو سب سے زیادہ انصاف کرنے والا ہے اور خدا ہی ہمارے لئے کافی ہے۔
جانتے ہو تاریخ ضرور لکھے گی کہ غزہ نے اکیلے جنگ کی
تاریخ لکھے گی کہ غزہ نے نہ صرف اپنے آپ کو بچانے بلکہ دنیا کو بچانے کے لئے اس وقت جنگ لڑی جب دنیا سو رہی تھی۔
بے شک تاریخ لکھے گی کہ غزہ ایک ایسی فوج لے کر آیا جس کا سامنا کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔
یقینا تاریخ لکھے گی کہ فلسطین کو ایسے لوگوں نے آزاد کرایا جن کے پاس اپنے مرنے والوں کو ڈھانپنے کے لئے کچھ نہیں تھا، نہ پانی، نہ کھانا اور نہ ہی کپڑا۔
خدایا سرزمین انبیاء فلسطین کی حفاظت فرما اور دشمنان اسلام بالخصوص اسرائيل کو صفحہ ہستی سے نابود فرما ۔آمین