ماہ مبارک رمضان تزکیہ و مغفرت کا مہینہ ہے ، تعمیر ذات و تطہیر روح کا مہینہ ہے ، اس مہینے میں جتنا زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی ہے کہ پورا معاشرہ اپنے معنوی خدوو خال کو سنبھالے اور سماج کی فرد فرد راہ عبودیت پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر یوں آگے بڑھے کہ دنیا کی زرق برق اور شیطانی وسوسے خود بخود ہی انکے عزم و ہمت کو دیکھ پیچھے ہٹ جائیں کہ انہیں راہ کمال سے ہٹانا ممکن ، راہ بندگی پر پڑتے ہوئے انکے قدموں میں لغزش ممکن نہیں اتنا ہی ہمارے سماج میں اس مہینے کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا نظرآتا ہے جتنا اس مہینہ کی حرمت ہے اتنا ہی ہمارے معاشرہ میں اس مہینہ کو لیکر کچھ ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ لگتا ہی نہیں اس مہینہ کا کو ئی تعلق تزکیہ نفوس سے بھی ہو سکتا ہے ؟ راتوں کو جاگنا اور جاگ کر سڑکوں اور گلیوں کوآباد کرنا ، دن کو تادیر سونا اور یہ کہنا کہ کیا کیا جائے بھئی ماہ رمضان چل رہا ہے شیڈول الٹ پلٹ ہو گیا ہے ، یہ سب کے سب توہین ماہ مبارک رمضان ہے ایسے مہینہ کی توہین ہے جس کا نام اگرتک تنہا لیا جائے اور لفظ ’’مبارک‘‘ نہ لگایا جائے تو خلاف ادب ہے اسی لئے روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اگر تہیں ’’رمضان ’’کہنا بھی ہو تو ’’مبارک‘‘ کا لفظ پہلے لے آ ءو جس مہینہ کے نام کا اتنا احترام ہے اس مہینہ کا خود کتنا احترام ہوگا لہذا ہمیں متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو غفلت میں ہم ایک ایسے مہینہ کو محض کھانے پینے اور شور شرابے کا مہینہ بنا ڈالیں جو مہینہ ہماری طہارت و پاکیزگی کا مہینہ ہے ۔
ماہ مبارک رمضان طہارت روح اور تزکیہ کا مہینہ :
یہ وہ مہینہ جس میں انسان اپنی روحی آلودگیوں کو دور کر سکتا ہے خود کو پاکیزہ بنا سکتا ہے ، اپنے آپ کو پاکیزہ بنانے کی کوشش معمولی کوشش نہیں ہے طہارت نفس کے لئے کوشاں ہونا معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو انبیا الہی کا ہدف و مقصد رہا ہے قرآن کریم نے تعلیم و تزکیہ کو ہدف انبیا کے طور پر پیش کیا ہے تعلیم و تزکیہ انبیا الہی کا وہ ہدف ہے جس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب تزکیہ کی ضرورت نہیں رہی ہے یا پھر کل تزکیہ مشکل تھا آج آسان ہو گیا ہے مثلا مقامات مقدسہ کی زیات ہی کو لے لیں جس کی تزکیہ کے اندر اہم حیثیت ہے اور یہی زیارت پہلے مشکل سے ہوتی تھی سفر کی مشکلیں اتنی تھیں کہ ہر ایک کے بس میں نہ خانہ خدا کی زیارت تھی نہ ہی دیگر مقامات مقدسہ کی لیکن اب الحمد للہ سب آسان ہو گیا ہے کتابیں اور قرآن کریم انسان کےساتھ ہر وقت موبائل میں موجود ہیں انسان موبائل میں پورا کتابخانہ لئے گھومتا ہے جبکہ پہلے حالت ِ سفر وغیرہ میں یوں کتابوں سے استفادہ ممکن نہیں تھا ، ٹھیک ہے کہ یہ آسانیاں ہوئی ہیں لیکن گناہوں کے وسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے اور تزکیہ کا راستہ مزید سخت ہو گیا ہے اور جیسے جیسے انسانی زندگی آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے انسان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ان مشکلات کے درمیان حقیقی کامیابی کا تصور بھی بدل کر رہ گیا ہے قرآن کریم نے انسان کی حقیقی کامیابی کو تزکیہ کے طور پر بیان کیا ہے جبکہ انسان مادیت کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور حیف تو اس وقت ہے جب تزکیہ و طہارت نفس کے مہینے میں بھی انسان تزکیہ نفس سے غفلت برتے ۔
تزکیہ کیا ہے ؟ ۔
ممکن ہے کوئی سوال کرے یہ تزکیہ ہے کیا ؟ تو ہم سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں تزکیہ یعنی اپنے درونی صلاحیتوں کو نکھار کر راہ بندگی میں استعمال کرنا ، رشد و کما ل کی راہ پر چلنا ۔
اگرچہ اس لفظ کا استعمال درختوں کی کانٹ چھانٹ کے سلسلہ سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ، جب ایک باغبان کسی درخت کی دیکھ بھال کرتا ہے تو پہلے تو کوشش کرتا ہے ضروری مقدار میں پانی نور اور ہوا کی رسائی کو درخت کے لئے فراہم کرے یہاں پر باغبان دو باتوں کا خیال رکھتا ہے ایک تو یہ کہ پانی ہوا کے ساتھ درخت کی جڑ میں کیڑے نہ لگے اسکا دھیان رکھتا ہے ، روشنی پہنچتی ہرے اسکا دھیان رکھتا ہے دوسری طرف بے ڈھپ نکل آنے والی شاخوں کو کاٹتا اور چھانٹتا ہے ۔انسان کے لئے بھی تزکیہ اسی معنی میں ہے اور ایجابی و سلبی پہلووں کا حامل ہے کچھ چیزوں سے خود کو بچانا پڑتا ہے اور کچھ چیزوں کو اپنے اندر جذب کرنا پڑتا ہے اس مہینہ میں خاص کر جب ساری چیزیں بندگی کے پھولوں کے کھلنے کے لئے بالکل آمادہ ہیں تو ہمیں کچھ چیزوں سے بچنا ہے اور کچھ چیزوں کو اپنے وجود میں اتارنے کے لئے کوششیں کرنا ہے اگرچہ تزکیہ کی ظاہری کیفیت چمن اور درختوں کی کیفیت سے مشابہہ ہے لیکن حقیقت میں ایک بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ درختوں یا چمن کو خود کوئی اختیار نہیں ہے جیسا باغبان چاہے بنا دے لیکن انسان کا تزکیہ ایسا نہیں ہے یہ خود اپنے لئے ماحول فراہم کر سکتا ہے اور ایسی فضا بنا سکتا ہے جس میں بہتر طور پر تزکیہ ہو سکے سلبی چیزوں سے خود کو اپنے اختیار سے بچا سکتا ہے اور ایجابی چیزوں کو اپنے وجود میں اتار سکتا ہے اسکے علاوہ ایک بڑی چیز اس کے وجود میں یہ ہے کہ اپنے تزکیہ کے امکانات کو خود فراہم کر سکتا ہے ، ایک درخت اپنے رشد و نمو کے لئے فضا فراہم نہیں کر سکتا اسے ہر حال میں اپنے باغبان کا انتظار کرنا ہے وہ جیسا چاہے بنا دے لیکن انسان اپنا تزکیہ خود بھی کر سکتا ہے اور کسی صاحب نفس باغبان کے حوالے بھی کر سکتا ہے کسی معلم اخلاق کے حوالے بھی خود کو کر سکتا ہے اس ماہ مبارک رمضان میں بحمد اللہ اسکی معنویت و برکت کی بنیاد پر ہر طرف آپکو ایسے باغبان عالمان دینی کی صورت نظر آ ئین گے جو ہماری اصلاح کر کے سماج و معاشرے کو ایک رخ اور ایک ڈھب دے سکتے ہیں تقوی کی پھلواری میں سبکو سجا سکتے ہیں اور یہ اختیار بھی ہمیں دیا گیا ہے کہ ہم ان کے پاس کس طرح جائین اور کتنا استفادہ کریں ایسے ماحول میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے اس طرح استفادہ کریں کہ تیس دن گزار جانے کے بعد ہمیں اپنی روحانی بالیدگی کا احساس ہو سکے اب اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ان کیڑوں کو دور رکھیں جن سے ایک باغبان اپنے چمن کو دور رکھتا ہے اور چمن و درخت کی کیڑوں سے حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں کھاد بھی فراہم کرتا ہے جو انکے لئے ویٹامن کی حیثت رکھتی ہیں اور رشد و نمو میں تیزی لاتی ہیں خدائے سبحان نے ہمارے لئے ان تیس دنوں میں دعاوں کی صورت تلاوت قرآن کی صورت یہ کھاد فراہم کر دی ہے لیکن یہ تب کام کرے گی جب ہم ان سماجی کیڑوں سے خود کو بچائیں جو تیزی کے ساتھ ہماری روح کے درخت کو کھا رہے ہیں اور ہمیں ایسی جگہ لے جانا چاہتے ہیں جہاں ہم قابل تزکیہ نہ رہ جائیں ، سماج و معاشرہ میں ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں بعض شہروں میں ٹورنمنٹ کا انعقاد ، قرآنی کلاسز ک ی جگہ کیرم ، بیڈ منٹن اور کرکٹ کے میچوں کا انعقاد اور جوان نسل کی اس میں بھرپور توجہ صاحبان فہم و فراست سے مطالبہ کر رہی ہے کہ سماج کی اصلاح کے لئے ایک باغبان کی صور ت آگے آئیں تاکہ ہم سب چمن اہلبیت اطہار علیھم السلام کے پھول بن کر دنیا بھر کو معطر کر سکیں ۔