سن 60 ہجری میں معاویہ کے انتقال کی خبر کوفہ پہنچی تو سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں ایک سیاسی جلسہ منعقد ہوا ،یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب امام حسین (ع) یزید کی بیعت سے انکارکرکے مکہ کی جانب ہجرت فرماچکے ہیں اور یہ جلسہ کرنے والے امام حسین(ع) کے اس اقدام سے باخبر ہوچکے ہیں۔
اس جلسے میں طے کیا جاتا ہے کہ سب مل کر امام حسین (ع) کی مدد کریں گے، انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے اور اپنی جانیں بھی اُن پر قربان کردیں گے اور پھر جلسہ منعقد کرنے والوں نے مل بیٹھ کر امام حسین (ع) کو خط لکھا جس میں آپ (ع) کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔
اِس خط پر سلیمان بن صرد خزاعی ، مسیب بن نجبۃ، رفاعہ بن شداد اورحبیب ابن مظاہر کے دستخط تھے اور یہ لوگ امام علی(ع) کے شیعہ تھے۔
یہ خط امام حسین (ع) کی خدمت میں 10رمضان 60 ہجری کو پہنچا جب آپ (ع) مکہ میں مقیم تھے اور یہ اہل کوفہ کی جانب سے پہلا خط تھا۔
اس خط کی اطلاع جب کوفہ میں عام ہوئی تو دوسرے کوفیوں نے بھی امام حسین(ع) کو خط لکھنا شروع کئے تاکہ کوفہ پر امام حسین(ع) کی حکومت قائم ہوجانے کی صورت میں انہیں بھی اقتدار میں کوئی حصہ مل جائے۔
یہ لوگ امام علی (ع) کے شیعہ نہیں تھے بلکہ منفعت طلب خارجی لوگ تھے لہٰذا جب حالات بدلے اور کوفہ پر ابن زیاد مسلط ہوگیا تو یہی لوگ کربلا میں موجود یزیدی لشکر میں شامل ہو گئے اور امام حسین(ع) کے خلاف تلواریں اٹھالیں، تاریخ نویسوں نے اِن کے نام شیث بن ربعی، حجاربن ابجر، یزید بن الحارث ، یزید بن رویم، عزرہ بن قیس، عمرو بن الحجاج زبیدی اور محمد بن عمیر تمیمی لکھے ہیں۔
اِن لوگوں نے امام (ع) کو لکھا تھا: "ماحول سازگار ہے، پھل تیار ہیں، تیز رفتار گھوڑے بھی تیار ہیں، بس اگر آپ (ع) ارادہ کرلیں تو تشریف لے آئیں، ایک تیار لشکر آپ (ع) کے لئے موجود ہوگا"
خط کا مضمون بتا رہا ہے کہ لکھنے والے شیعہ نہیں ہیں کیونکہ شیعوں نے امام حسین (ع) کو جو خط لکھا تھا اُس میں بنی امیہ بالخصوص یزید کی حکومت تسلیم نہ کرنے کا ذکر ہے اور آپ (ع) کو بطور حاکم و امام قبول کرنے کی طرف اشارہ ہے اور کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا تذکرہ بھی موجود ہے، جب کہ شیث بن ربعی وغیرہ کے خط میں کہیں سے کہیں تک ایسا مفہوم موجود نہیں ہے اور پھر روز عاشور امام حسین (ع) نے شیث بن ربعی اور اس کے ساتھیوں کو نام بنام بلند آواز سے پکارا تھا اور یہ پوچھا تھا کہ کیا تم نے مجھے خط نہیں لکھا تھا ؟ اور کوفہ آنے کی دعوت نہیں دی تھی (تو اب کیوں میرے خلاف تلواریں کھینچ لیں ؟)
اس کے علاوہ اور بھی خطوط کوفہ سے آپ (ع) کی خدمت میں پہنچے۔
دوسری جانب مکہ میں آپ (ع) کا محاصرہ شروع ہوچکا تھا اور پوری مملکت اسلامی میں کسی بھی شہر والوں نے آپ (ع) کی حمایت کا اعلان نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی نے آپ (ع) کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی تھی۔
ان حالات میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوفہ والے آپ (ع) کو دشمن کے حوالے کردیں گے، کوفہ میں جو پہلا رد عمل یزید کے خلاف سامنے آچکا تھا اُسے امام حسین (ع) نظر انداز نہیں کرسکتے تھے با وجودیکہ آپ (ع) اس کے انجام سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
ایک بیدار اور با صلاحیت قائد و رہبر کی حیثیت سے جو بات آپ پر لازم بنتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ (ع) کوفہ کی جانب فوری طور پر اپنا نمائندہ روانہ کردیں اور اس اقدام میں کسی قسم کی تاخیر نہ فرمائیں۔
کوفہ میں یزیدی حکومت کے خلاف جو عوامی لہر اٹھی تھی اُسے آپ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے بلکہ جس قدر بھی ممکن تھا امام حسین (ع) نے اُسے اپنے حق میں استعمال کیا اور انقلابی سوچ میں یہ بات درست بھی نہیں تھی کہ کوفہ کا جو سماج تبدیلی کا خواہاں تھا اُسے وعدہ خلافی کے ڈر سے اہمیت نہ دی جائے۔
لہٰذا امام حسین (ع) نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم ابن عقیل کو کوفہ روانہ کردیا۔
امام حسین (ع) کا کوفہ والوں کے مطالبہ پر اپنی جانب سے نمائندہ خاص روانہ کرنا اور خود تشریف نہ لے جانا یہ ان تمام اعتراض کرنے والوں کے لئے جواب ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) کو کوفہ والوں کی ذہنیت کا علم نہ تھا اور یہ کہ آپ (ع) اس تحریک کے انجام سے بے خبر تھے۔
بہرحال! امام حسین (ع) نے حضرت مسلم ابن عقیل کو کوفہ روانہ کیا اور خط کے ذریعہ کوفہ والوں کو آپ کا اس طرح تعارف کرایا کہ: وہ (مسلم بن عقیل) میرے چچازاد بھائی ہیں، وہ میرے اہل بیت(ع) سے ہیں اور میرے معتمد ہیں
امام حسین(ع) کے یہ جملے حضرت مسلم کی عظمت کو واضح کرتے ہیں۔
حضرت مسلم بن عقیل رسول اللہ (ص) سے بہت مشابہ تھے، اس بات کو ابن حجر نے صحیح بخاری کی شرح میں بھی بیان کیا ہے اور بہت سے افراد نے حضرت مسلم سے روایتیں نقل کی ہیں۔
بخاری کا قول ہے کہ صفوان بن موھب نے مسلم بن عقیل سے خود سنا اور صفوان سے عمرو بن دینار اور عطاء نے روایت کی ہے۔
حضرت مسلم بن عقیل کی ولادت 7 یا 8 ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی آپ (ع) کے والد ماجد حضرت عقیل ہیں جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) کے برادر بزرگ تھے، حضرت مسلم کی والدہ ٔ ماجدہ جناب سیدہ خلیلہ تھیں جن کا تعلق کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک آبادی سے تھا اور خاندانی طور پر آپ قبیلۂ بنی نبط سے تعلق رکھتی تھیں جن کے بارے میں حضرت علی (ع) سے روایت ہے کہ یہ نبی اللہ حضرت ابراہیم (ع) کی قوم ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ قریش کی اصل و بنیاد ہیں، لہٰذا یہ قصہ بے بنیاد ہے کہ : "حضرت عقیل نے معاویہ سے ایک کنیز کی درخواست کی تھی اور یہ کہا تھا کہ میں اس سے شادی کروں گا اور اس سے ایک بیٹا پیدا ہوگا جو تیرے بیٹے کے خلاف لڑے گا "
اس قصہ کا جھوٹ اتنا واضح ہے جس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب صفر 37 ہجری میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی فوج کو صفین کے لئے تیاری کا حکم دیا تو اپنی فوج کے میمنہ پر امام حسن (ع)، امام حسین(ع)، عبداللہ بن جعفر اور مسلم بن عقیل ؑکو قرار دیا۔
اب جو لوگ معاویہ کی کنیز سے جناب مسلم کو متولد بتاتے ہیں اُن کے حساب سے جناب مسلم کی عمر شہادت کے وقت 30 سال سے کم ہوتی ہے، اور آپ کی شہادت 60 ہجری میں ہوئی ہے تو صفین کے وقت آپ کی عمر 10 سال سے کم ہی رہے گی جب کہ امام علی (ع) 10سال سے کم عمر کے بچے کو میمنہ سپرد نہیں فرما سکتے اور پھر بنی ہاشم کے دوسرے جوان جنہیں امام علی (ع) نے صفین میں میمنہ سپرد فرمایا تھا اُن کی عمریں بھی 30 سال سے زیادہ تھیں اور اس موقع پر جناب مسلم کی عمر بھی تقریباً 30 برس تھی اور شہادت کے وقت 53 یا52 سال۔
جس طرح حضرت ابوالفضل العباس (ع) کی والدہ کے انتخاب میں کربلا کا خاص خیال رکھا گیا تھا اور اس میں حضرت عقیل (ع) نے حضرت علی (ع) کی مدد کی تھی اسی طرح، کیا خود حضرت عقیل (ع) نے حضرت مسلم کی والدہ کے انتخاب میں اس بات کا لحاظ نہ رکھا ہوگا ؟
یقینا حضرت عقیل (ع) کے پیش نظر وہ کارنامہ ضرور رہا ہوگا جسے حضرت مسلم نے کوفہ میں انجام دیا اور پھر یہی احتمال حضرت عقیل (ع) کی اُن دوسری اولادوں کے بارے میں کیوں نہیں دیا جا سکتا جنہوں نے کربلا میں اپنی قیمتی جانیں راہ حق میں قربان کردیں؟
لہٰذا حضرت مسلم کی والدہ کے انتخاب میں تمام عقلی اور اخلاقی پہلوؤں اور صفات کا ضرور خیال رکھا گیا ہوگا جو اپنے بچوں میں شوق شہادت، ایثار، فداکاری اور راہ حق میں قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردے اور یہ صفات و جذبات معاویہ کے دربار کی پروردہ کسی بھی کنیز سے بعید ہیں۔
دوسرے یہ کہ 60 ہجری میں کوفہ کے سیاسی حالات دھماکہ خیز تھے ان بحرانی حالات میں امام حسین (ع) نے مسلم بن عقیل جیسے پختہ سیاسی بصیرت رکھنے والے نہایت تجربہ کار شخص کا انتخاب فرمایا۔
جب ہم کوفہ میں حضرت مسلم کی موجودگی کے زمانے کا تجزیہ کرتے ہیں تو حضرت مسلم بن عقیل کو ایک جنگ آزمودہ، سیاسی بصیرت رکھنے والا اور ایسے حالات میں بہترین منصوبہ بندی کرنے والے کے طور پر پاتے ہیں۔
کوفہ میں انقلاب کی صورت حال تھی، حالات بہت خراب تھے، ان حالات میں ایک ناتجربہ کار جوان کو امام حسین (ع) کی جانب سے بھیجاجانا صحیح معلوم نہیں ہوتا اور پھر جو کچھ حضرت مسلم نے اقدامات کئے ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور تجربہ کار دلاور تھے، نہ کہ نا تجربہ کار جوان!
حضرت مسلم نے اسلامی فتوحات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا مورخ واقدی نے اپنی کتاب ’’فتوح الشام ‘‘میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
بہر حال! حضرت مسلم 5 شوال 60 ہجری کوفہ میں داخل ہوئے اور امام حسین (ع) کی نصیحت کے مطابق کوفہ میں سب سے زیادہ معتمد شخص کے گھر میں اترے۔
شیخ مفید نے یہ گھرجناب مختار ثقفی کا لکھا ہے اور مسعودی، ابن حجر اور شیخ عباس قمی نے ’’عوسجہ‘‘ کا لکھا ہے جن کے بیٹے ’’مسلم‘‘ کربلا میں شہید ہوئے۔
حضرت مسلم کوفہ میں مخفیانہ طور پر وارد ہوئے اور رازداری کے ساتھ حضرت امام حسین(ع) کے لئے بیعت اور حمایت لینے کا عمل شروع کیا اور 12 سے 40 ہزار تک لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔
جناب مسلم نے یہ تمام حالات امام حسین (ع) کو لکھ بھیجے اور کوفہ آنے کی درخواست کی، امام حسین (ع) 8 ذی الحجہ 60 ہجری مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے لیکن آپ (ع) سے پہلے یزید کا بھیجا ہوا ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوگیا، ابن زیاد نے نقاب ڈال رکھی تھی اور لوگوں کو حجازی سلام کررہاتھا جس سے لوگوں نے یہ دھوکہ کھایا کہ یہ امام حسین (ع) ہیں۔
ابن زیاد نے لالچ، دھوکہ، دھونس، دھمکی کے ذریعہ اپنا تسلط کوفہ پر برقرار کرلیا اور جناب مسلم کے مددگاروں کو گرفتار کرنا شروع کردیا، جناب مسلم تنہا و بے یاور و مددگار رہ گئے، حضرت مسلم کوفے کی گلیوں میں اس طرح تنہا اور بے سہارا پھر رہے تھے کہ انہیں راستہ بتانے والا بھی کوئی نہیں تھا، رات کی تاریکی میں حیران و پریشان جدھر رُخ ہوتا اُدھر چل پڑتے یہاں تک کہ آپ محلہ کندہ میں پہنچ گئے، وہاں آپ نے دیکھا کہ ایک عورت دروازہ پر کھڑی اپنے بیٹے کا انتظار کررہی ہے، طوعہ نام کی اس خاتون نے آپ کو پناہ دی اور اپنے گھر کے اندر لے گئی اور پھر اُس کے بیٹے نے مسلم کو اپنے گھر میں دیکھ کر انعام کے لالچ میں ابن زیاد کو خبر کردی۔
ابن زیاد نے محمد ابن اشعث ابن قیس کندی کی سربراہی میں لشکر بھیج کر حضرت مسلم کو امان دینے کے بعد گرفتار کرالیا۔
جب تک آپ زخموں سے چور نہ ہوگئے کسی کی ہمت نہ ہوسکی کہ آپ کے نزدیک آجاتا۔
آپ کو امان دینے کے بعد ابن زیاد نے9 ذی الحجہ 60 ہجری نہایت بے دردی سے دارالامارہ سے نیچھے گروادیا اور پھر پہلے بنی ہاشم کا سر تن سے جدا کرکے لاش کو کوفہ کے گلی کوچوں میں رسی باندھ کر گھسیٹا گیا اور اس طرح بنی امیہ نے بنی ہاشم کی ایک اور شخصیت کے خون سے اپنے دامن کو آلودہ کرلیا۔
جناب مسلم کی اس قربانی کے نتیجے میں تقریباً 60 کوفیوں نے کوفی ایمان سے برائت کا اعلان کیا اور وہ سید الشہدا ٔ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوگئے اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ کوفہ پر چھائی ہوئی فضا کا تعلق کوفہ اور عراق کے جغرافیہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک بیماری سے ہے اس بیماری میں ہروہ انسان مبتلا ہوسکتا ہے جس میں قوت مدافعت اور طاقت موجود نہ ہو، وہ بیماری ہے ایمان کا ضعف و کمزوری اور دنیاوی لالچ! اس وجہ سے ہر وہ انسان اس بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کا ایمان ضعیف ہو چاہے اس کا تعلق کسی بھی علاقہ سے ہو۔