امام حسن عسکری علیہ السلام ہمارے گیارہویں امام ہیں۔ آپؑ کے والد ماجد امام علی نقی ہادی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب حُدیث تھیں جن کو سلیل، سوسن، حریبہ، عسفان بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی کنیت ام الحسن تھی ۔ آپؑ با ایمان ، با تقویٰ ، عابدہ، زاہدہ، پاک دامن، عالمہ ، فاضلہ اور با بصیرت خاتون تھیں کہ آپؑ کو امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنا وصی اور مہدی موعود امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے لوگوں سے رابطہ کے لئے آپؑ کو واسطہ قرار دیا تھا اسی سبب ‘‘جدّہ’’ (دادی) کے نام سے مشہور ہوئیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کا نام ‘‘حسن’’، کنیت ‘‘ابو محمد’’ تھی نیز ‘‘ابوالحسن’’، ابوالحُجّہ’’، ‘‘ابوالقائم’’ کنیتیں بھی نقل ہوئی ہیں ۔ آپؑ کے القاب ابن الرضاؑ، ہادی، نقی، زکی، رفیق، خالص تھے اگرچہ آپؑ کی شہرت لقب ‘‘ عسکری’’ سے ہوئی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام 8؍ ربیع الثانی سن 232 ہجری یا 10؍ ربیع الثانی کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 3؍ رجب سن 254 ہجری تک یعنی 22 برس اپنے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام کے زیر نظر اور ان کے دور امامت میں زندگی بسر کی۔ جس میں تقریباً پانچ برس مدینہ منورہ میں بسر کئے اور باقی زندگی سامرا میں گذری۔ والد ماجد کی شہادت کے بعد آپ کے دور امامت کا آغاز ہوا۔
آپؑ کی زوجہ حضرت نرجس سلام اللہ علیہا تھیں اور فرزند ہمارے ولی و وارث امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام بلکہ آخر کے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی پاکیزہ حیات اور ان کو درپیش مشکلات کو سمجھنے کے لئے خلیل اللہ جناب ابراہیم علیہ السلام اور کلیم اللہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے حالات کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ جب مذکورہ دو نبیوں کے زمانے کے ظالم و ستمگر بادشاہوں کو ان کے نجومیوں نے بتایا کہ تمہاری مملکت میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہارے تخت و تاج کو الٹ دے گا تو ان ظالموں نے نہ جانے کتنے گھروں پر چھاپے ڈلوائے، نہ جانے کتنی خواتین کو اذیتیں پہنچائیں، نہ جانے کتنے معصوم اور بے گناہ بچوں کو ان کی ماؤوں کے سامنے ذبح کرا دیا ۔ نمرود نے پوری کوشش کی کہ وہ بچہ پیدا نہ ہو لیکن اللہ نے اپنے خلیل جناب ابراہیم علیہ السلام کو پیدا کیا ، فرعون چاہتا تھا کہ وہ بچہ پیدا نہ ہو لیکن قادر مطلق نے اپنے کلیم جناب موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ نجومیوں نے نہ بچے کا نام بتایا تھا ، نہ بچہ کے والدین کا نام، نہ قبیلہ و خاندان کا نام بتایا تھا ۔ لیکن اسی کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک ہر معصوم نے مہدی موعود ؑ کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک بچہ جو قبیلہ قریش سے ہو گا، خاندان ہاشم سے ہوگا ، عترت رسولؐ ہو گا، ذریت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں ہو گا، نسل حسینؑ سے ہو گا، جس کے والدماجد امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت نرجس خاتون سلام اللہ علیہا ہوں گی۔ جو نہ صرف ایک نمرود ، نہ صرف ایک فرعون بلکہ دنیا کے تمام نمرودوں اور فرعونوں کا تختہ الٹ دے گا ، دنیا کو عدل و انصاف سے ویسے ہی بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے پر ہو گی۔ اب ایسے موقع پر سقیفائیوں، امویوں اور عباسیوں نے نہ جانے کیا کچھ نہ کیا ہو گا کہ مہدی موعودؑ دنیا میں نہ آ سکیں۔ لیکن جس طرح نمردو و فرعون کی تمام تر کوششوں کے مقابل ارادہ پروردگار تھا کہ ابراہیمؑ و موسیٰؑ دنیامیں آئیں اسی طرح اللہ نے ارادہ کر لیا تھا کہ منجی عالم بشریت، خاتم الاوصیاء و الائمہ حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کو بھیجنا ہے تو اس نے سقیفائیوں، امویوں اور عباسیوں کی تمام کوششوں کو کچلتے ہوئے سن 255 ہجری کو ماہ رسول مکرم شعبان المعظم کی پندرہوں تاریخ کو صبح صادق کے ہنگام صادق رسولؐ کے آخری صادق جانشین کو دنیا میں بھیج دیا۔
مذکورہ مطلب سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آخر کے ائمہ علیہم السلام پر بنی عباس نے کیا کچھ ظلم نہیں کیا ہو گا ۔ لہذا بنی عباس نے بر سر اقتدار ہوتے ہی ظلم کی وہ تاریخ رقم کی کہ بنی امیہ کے ظلم کی سیاہی پھیکی پڑ گئی۔ منصور ، ہادی و مہدی نے ظلم کی ابتداء کی ، منصور نے قبر حسین علیہ السلام پر حملہ کرنے کی بدعت ایجاد کی۔ ہارون رشید نے 14 برس امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید خانہ میں رکھا۔ یہاں تک کہ قید خانہ میں آپ کی زہر دغا سے شہادت ہو گئی، ہارون ملعون نے امام حسین علیہ السلام کا روضہ مبارک منہدم کرایا، نہ جانے کتنے سادات کو قتل کرا دیا، اس کے بعد اس کے شطرنجی بیٹے مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کو مرو بلا کر شہید کر دیا، امام علی رضا علیہ السلام کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کو انہیں بنی عباس نے محض 25 برس کی عمر میں شہید کر دیا۔ امام تقی جواد علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت پر بھی بنی عباس کے ظلم کا سلسلہ نہیں رکا امام علی نقی علیہ السلام کو متوکل ملعون نے مدینہ سے سامرا بلایا ، توہین کی ، محفل شراب میں بلا کر بے حرمتی کی ، فوجی چھاؤنی میں قیام کرایا ، آخر معتز عباسی نے امام ہادی علیہ السلام کو زہر دغا دے کر سامرا میں شہید کر دیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا میں اپنے والد ماجد امام علی نقی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور ہر مصیبت میں شریک رہے، متوکل ملعون امیرالمومنین علیہ السلام کا شدید دشمن تھا ۔ اسی بغض علیؑ کے سبب اس نے جناب ابن سکیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو شہید کیا ، امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر چار بار حملہ کیا۔ زیارت پر پابندی لگا دی، زائرین حسینی کو گرفتار کر کے قید خانہ میں ڈلوا دیتا اور انہیں شہید کرا دیتا۔
امام علی نقی علیہ السلام 3؍ رجب المرجب سن 254 ہجری کو سامرا میں شہید ہوئے اور وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح اپنے گھر میں دفن ہوئے جہاں آج روضہ مبارک ہے۔ آپؑ کی شہادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور امامت کا آغاز ہوا ۔ اگرچہ اکثر شیعوں نے امام علی نقی علیہ السلام کے بعد آپؑ کی امامت کا اقرار کیا اور ایمان لائے لیکن کچھ لوگ آپؑ کے بھائی جعفر کی بھی امامت کے قائل ہو گئے ، لیکن بعد میں علم امامت کے سبب جعفر کو چھوڑ دیا اور سب آپؑ کی امامت کے قائل ہو گئے۔ لیکن اس عرصہ میں آپؑ کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوں کہ بعض اوقات نام نہاد چاہنے والوں کی نا فرمانیاں اور بے لطفیاں بھی آپؑ کی مصیبت میں اضافہ کا سبب ہوتی تھیں۔
چھ سالہ دور امامت میں آپؑ کو کئی بار قید بھی کیا گیا تو کبھی نظر بند بھی کیا گیا تا کہ شیعوں سے آپؑ کا کوئی رابطہ نہ ہو سکے، بلکہ حکومت کی جانب سے سختی اتنی زیادہ تھی کہ آپ کو ہفتہ میں دو دن پیر اور جمعرات کو قصر حکومت میں حاضری دینے جانا پڑتا ۔ لیکن اس مختصر سفر میں بھی آپؑ لوگوں کی مشکل کشائی فرماتے تھے۔ المختصر ایسے شدید ماحول میں بھی آپؑ نے فریضہ امامت کو کما حقہ ادا کرتے ہوئے امت کی ہدایت فرمائی اور قیامت تک کے لئے حصول ہدایت کی راہ رہنمائی فرمائی۔
حجت باری خلیفہ الہی ولی رحمٰن عِدلِ قرآن والد حضرت صاحب الزمان ؑامام حسن عسکری علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کا لمحہ بہ لمحہ دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات طیبہ کی طرح خلق خدا کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔ ظاہر ہے مجھ جیسے مبتدی کے لئے کہ جس کے نہ ذہن میں اتنی وسعت ہے اور نہ ہی ظرف قلب اتنا وسیع ہے کہ اس اقیانوس معرفت کا کوئی قطرہ سمو سکوں لہذا جو اجمالا سمجھا ہوں وہ قلم بند کر دیتا ہوں، یہ جملہ مبالغہ یا انکساری نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور نہ صرف مجھ حقیر کے لئے یہ نا ممکن ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بشر میں مجال نہیں جو امامت کا ادراک کر سکے۔ اگر چہ ‘‘یَنْحَدرُ عَنِّی السَّیْلُ وَ لَا یَرْقَی إِلَیَّ الطَّیْرُ’’ (میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔) کا دعویٰ صرف امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا لیکن دلیل بارہ ائمہ علیہم السلام نے دی ہے۔ ذیل میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی گلشن حیات کے چند پھول پیش ہیں ۔
1۔ منجی عالم بشریت ، قطب عالم امکان، لنگر زمین و زمان حضرت صاحب الزمان امام مہدی موعود عجل اللہ فرجہ الشریف کی حفاظت فرمائی اور مخصوص چاہنے والوں کو انکی زیارت بھی کرائی۔ نیز عصر غیبت کے لئے صاحبان ایمان کے اذہان کی تربیت بھی فرمائی تا کہ عصر غیبت میں کوئی گمراہ نہ ہو سکے۔
2۔ تفسیر قرآن : جہاں اپنے بعد کے امام بلکہ آخری امام کا تعارف کرایا وہیں لوگوں کو تفسیر قرآن سے بھی آشنا کیا۔
3۔ عقائد ۔ آپؑ نے عقائد کے سلسلہ میں بھی لوگوں کی رہنمائی فرمائی، چاہے وہ عقیدہ توحید و عدل ہو، یا عقیدہ نبوت و امامت ہو یا پھر عقیدہ قیامت ہو۔ جیسے کچھ لوگ خدا کی جسمانیت کے قائل ہو گئے تو ان کی ہدایت کی۔ اسحاق کندی جیسے لوگ قرآن کریم کے سلسلہ میں گمراہی کا شکار ہوئے تو انکی بھی ہدایت کی۔ المختصر امام عالی مقام نے سماج میں پھیلی بدعتوں اور نقصان دہ رسومات کی کھل کر مخالفت کی ۔
4۔ لوگوں کو احکام شرعی کی جانب رہنمائی کی اور انہیں عمل کی ہدایت فرمائی۔
اگر ہم امام حسن عسکری علیہ السلام کے چھ سالہ دور امامت میں غور کریں تو کبھی ہم تصویر حیرت بن جائیں گے تو کبھی حسرت کا شکار ہوں گے اور ہمیں اللہ کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ملے گا۔ ظاہر ہے اتنی مختصر مدت میں ، وہ بھی ایسے سخت حالات میں کہ جہاں حکومت آپؑ کے خلاف ہو، دشمنان خدا و رسولؐ آپؑ کے خلاف صف آرا ہوں ، دشمنان امامت و ولایت موقع کی تلاش میں ہوں ، نہ صرف غیروں کی دشمنی بلکہ اپنے بھی دشمنی میں کبھی پیچھے نہ رہے ہوں تو ایسے عالم میں کہ جب عام انسان کا ذہن مفلوج اور فکر لنگ ہو جائے ،امام حسن عسکری علیہ السلام نے فریضہ امامت کماحقہ ادا کیا۔ آخر عباسی حاکم معتمد ملعون نے آپؑ کو زہر دلا دیا اور 8؍ ربیع الاول سن 260 ہجری کو سامرا میں شہید ہو گئے اور اپنے گھر میں اپنے والد امام علی نقی علیہ السلام کے پہلو میں دفن ہوئے۔
حقیقت ہے عام انسان اتنے مختصر اور ایسے سخت حالات میں کوئی کام انجام نہیں دے سکتا بلکہ سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اگر امام حسن عسکری علیہ السلام بلکہ چودہ معصومین علیہم السلام کی زندگی ہمارے پیش نظر رہے تو ہمارے لئے سخت حالات میں مقصد و منزل کی جانب گامزن ہونا آسان ہو گا۔ مقصد ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ ہمارا مقصد کیا ہے؟ کیوں کہ مشکل اس وقت بڑھ جاتی ہے جب انسان مشکلات سے گھبرا کر مقصد سے ہٹ جاتا ہے ۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ اللہ نے حرام میں نہ شفاء رکھی ہے اور نہ ہی اصلاح لہذا باطل کی سیڑھیوں سے حق کی بلندی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ سود اور رشوت پر انفاق فی سبیل اللہ نہیں ہو سکتا، دل اگر محبت دنیا سے پُر ہو تو دین کو وہاں جگہ نہیں مل سکتی۔ استعمار کے بنائے ایپس(apps) سے سستی شہرت تو مل سکتی ہے لیکن مقصد میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ جیسا کہ خود امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘إیّاکَ وَ الاْذاعَهَ وَ طَلَبَ الرِّئاسَهِ، فَإنَّهُما یَدْعُوانِ إلَی الْهَلَکَهِ’’ شہرت اور عہدہ و منصب کے حصول سے بچو! کیوں کہ یہ دونوں انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں ۔ (بحارالانوار، جلد 50، صفحہ 296) نیز فرمایا: ‘‘ما تَرَکَ الْحَقَّ عَزیزٌ إلاّ ذَلَّ، وَلا أخَذَ بِهِ ذَلیلٌ إلاّ عَزَّ’’ کسی صاحب عزت نے حق کو نہیں چھوڑا مگر یہ کہ وہ ذلیل ہو گیا اور کسی پست نے حق کا دامن نہیں تھاما مگر یہ کہ وہ عزیز(عزت دار ) ہو گیا۔ (تحف العقول، صفحہ 489) نیز ادائیگی فریضہ کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘لا یَشْغَلُکَ رِزْقٌ مَضْمُونٌ عَنْ عَمَل مَفْرُوض ’’ خیال رہے کہ رزق و روزی کا ضامن پروردگار ہے لہذا اس کا حصول تمہیں واجبات کی ادائیگی سے نہ روکے۔ (تحف العقول، صفحہ 489)
خدا ہمیں اپنی، اپنے رسولؐ، اپنی حجت امام حسن عسکری علیہ السلام ، ان کے آباء طاہرین اور فرزند ارجمند کی معرفت اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔