دنیا میں یوں تو نہ جانے کتنے انقلابات وجود میں آئے اور پھر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گئے ،کچھ ہی ایسی تحریکیں ہیں جنہیں نہ کبھی مٹایا جا سکتا ہے نہ انکے رنگ کو ہلکا کیا جا سکتا ہے ، کربلا ایسی ہی تحریک اورایسے انقلاب سے عبارت ہے جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مزید استحکام کے ساتھ نکھر کر سامنے آ رہی ہیں نہ جانے کتنی تحریکیں ہیں جنکی روح کربلا ہے نہ جانے کتنے انقلابات ہیں جنکی کامیابی کربلا کی رہین منت ہے ، اسلامی انقلاب کے معمار و بانی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا یہ کہنا کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے محرم و صفر کی وجہ ہے سے اس بات کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس انقلاب کی روح حقیقت میں کربلا ہی ہے ۔اگر ہم کربلا کی انقلاب آفرینیوں کو دیکھیں تو کسی ایک قوم و مذہب تک بات محدود نہیں رہے گی جو بھی کربلا سے نزدیک ہوا جس نے بھی کربلا کو سمجھنے کی کوشش کی کربلا اور امام حسین (ع )کی شخصیت نے اسے راست طور پر متاثر کیا ہے ، اگر واقعہ کربلا سے لیکر اب تک فہرست بنائی جائے تو ہمیں نہ جانے کتنے ہی حر ملیں گے جنہیں امام حسین علیہ السلا م نے کیا سے کیا بنا دیا ، ایک بڑا دائرۃ المعارف ایک انسائکللو پیڈیا لکھا جا سکتا ہے اس بارے میں کہ کربلا نے کتنے انسانوں کو متاثر کیا ، اور مختلف معاشروں میں اس کے کیا اثرات رہے ۔
آپ مراقش کے ادریس حسینی کو لے لیں یہ کون شخصیت ہے ؟ ایسی شخصیت جو واضح طور پر بیان کر رہی ہے شیعتنی الحسین ، میں حسین ع کی وجہ سے شیعہ ہوا ، یہ وہ کتاب ہے جس سے جہان اردو چاہے بے خبر ہو لیکن دیگر زبانوں میں اسکا ترجمہ ہو چکا ہے آپ اس شخصیت کے انداز کو دیکھیں یہ کہتے ہیں : ’’ میں نے تاریخ میں دیکھا ہر چیز کو بدلا جا سکتا ہے ، مثلا غدیر میں مولا کے معنی کو دوستی کے معنی میں بیان کرکے سب کچھ ختم کیا جا سکتا ہے ، سقیفہ میں اصحاب رسول ص کے جم گھٹے کو اسلام کے مستقبل کے تئیں ان کی فکر مندی کا جواز دیا جا سکتا ہے ، تاریخ کی ہر چیز کی توجیہ ممکن ہے ہر چیز کو گھما پھرا کر پیش کیا جا سکتا ہے ہر ایک چیز کو من کے مطابق ڈھال کر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ہم کربلا کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ، آخر کیوں کر ممکن ہے رحلت پیغمبر ص کے پچاس سال میں لوگ اتنے بدل جائیں کہ نواسہ رسول ص کے قتل کے درپے ہو جائیں ، آخر ایسا کیا ہوا کہ پیغمبر ص کی وفات کے پچاس سال کے عرصے میں لوگ اتنے تبدیل ہو گئے کہ انہوں نے پیغمبر ص کے ہی فرزند کو شہید کر دیا ؟ یہی وہ چیز ہے جو میرے اندر تبدیلی کا سبب بنی اور میں شیعہ ہو گیا ۔
انسان کے وجود میں تبدیلی اور انسان کا اختیار :
شک نہیں کہ جو انسان بھی بدلنا چاہے وہ بدل سکتا ہے ، ہر طرح کا انقلاب انسان کے لئے ممکن ہے ہر طرح کی تبدیلی ہو سکتی ہے بس انسان کوخود کو آمادہ و تیار کرنا ہوگا ۔ جب انسان بدل سکتا ہے تو یقینا معاشرہ بھی بدل سکتا ہے ایک انسان کے اندر انقلاب آ سکتا ہے تو پورے معاشرے میں بھی آ سکتا ہے ، یہ انسان کے اختیار و اسکے شعور پر ہے کہ وہ کتنا تبدیلی کو قبول کرتا ہے اور اس کی کتنی صلاحیت ہے لیکن اتنا طے ہے جب تک انسان نہ چاہے کچھ نہیں ہو سکتا ، ایک انسان کے بدلنے میں بیرونی عوامل سے زیادہ داخلی طور پر انسان کے وجود میں تبدیلی کی خواہش و تمنا اور لگن ضروری ہے ، اور یہ تبھی ہوگا جب انسان اپنے وجود کے اندر کسی نقص کا احساس کرے ،ہم بغیر کسی لگن کے نہ کسی انسان کو بدل سکتے ہیں اور نہ معاشرےمیں ہی کچھ تبدیلی لا سکتےہیں
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ، جب تک کوئی قوم خود نہ بدلنا چاہے جب تک اس کے لوگوں میں تبدیلی نہ آئے کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے اور کہیں کہیں معاشرے کی حالت اسی لئے بری ہو جاتی ہیں کہ وہ عذاب میں مبتلا ہو جاتاہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ جہاں ہے وہیں رہنا چاہتا ہے بدلنا نہیں چاہتا ہے ، جہاں تک سماج اور معاشرے کی بات ہے تو یہ کوئی دیوار در تو نہیں ، ہم اور آپ سب سے مل کر ہی ایک سماج بنتا ہے
ہم دعاء میں پڑھتے ہیں بعض گناہ نعمتوں کے تبدیل ہو جانے کا سبب ہیں کوئی نعمت بھی معاشرے میں تبدیل نہیں ہوتی مگر اسکا سبب لوگوں کے گناہ ہیں ، اسی لے جگہ جگہ اپنی ذات میں تبدیلی لانے کی بات کو دعاء کی صورت بیان کیا گیا ہے ، بہت سی ایسی بڑی شخصیتں جو آج بڑی ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں اسی بنا پر بڑی ہیں کہ انہوں نے وقت رہتے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور جرات مندی کے ساتھ اپنے موقف پر ثابت قدم رہے
ان شخصیتوں میں ایک بڑا نام جناب حر کا ہے ، جناب زہیر قین بھی انہیں شخصیتوں میں ہیں وہب کلبی بھی انہیں لوگوں میں ہیں۔
جب انسان کے وجود کے اندر حق جوئی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے تو وہ تبدیل ہو جاتا ہے ضرورت ہے اس جذبہ کو بیدار رکھنے کی آپ کے سامنے فرعون اور اس کے جادوگروں کی مثال ہے ، یہ جادو گر کون تھے جو فرعون سے ہی تنخواہ لیتے تھے ، اسی سے اپنے اخراجات لیتے تھے ، مدت تک ایسا ہی رہا یہ وہ لوگ تھے جو قسم کھا کھا کر کہتے کہ فرعون کی عزت کی قسم ہم موسی ع کو کہیں کا نہ چھوڑیں گے لیکن جناب موسی ع کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تو سب کچھ بدل گیا اب یہ نہ صرف پلٹ گئے بلکہ ببانگ دہل اعلان کرتے گئے کہ ہم اپنے رب کی جانب پلٹ چکے ہیں ، کیا یہ سوال نہیں ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ جو ایک مدت تک فرعون کی روٹی کھا رہے ہو ں ایک ملاقات میں بدل جائیں اور فرعون سے اظہار بیزاری کریں ، یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان کے دل میں ٹیڑھ پن نہ ہو اور حقیقت کی تلاش اس کے وجود کا حصہ ہو ، یہ تو فرعون کے زمانے کی بات تھی آپ اپنے ہی دور میں آ جائیں ایک شخصیت ہے روژہ گارودی ، جو ۹۹ سال کے سن میں اس دنیا سے رخصت ہوئی فرانس کے ایک مشہور اسکالر ، جو اپنی زندگی میں قم بھی آئے اور انہوں نے رہبر انقلاب سے بھی ملاقات کی انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’’ اسلام آنے والے کل کادین ‘‘ یہ ایک عیسائی فیلسوف تھے لیکن کتاب میں لکھتے ہیں دنیا میں مستقبل اسلام کا ہے ، یہ وہ شخصیت ہے جو ہلوکاسٹ کی مخالف تھی جسکی وجہ سے انہیں بڑی پریشانی اٹھانی پڑی ، وہابیت کے خلاف کھل کر بولتے تھے ان کے لئے ملتا ہے کہ ان سے ایک دن کسی جوان لڑکی نے سوال کیا ، اس بات کو انہوں نے اپنی ایک کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ایک لڑکی نے ان سے کہا آپ سالوں سال عیسائی رہے پھر کیسے اب آپ نے مذہب تبدیل کر لیا تو یہ لکھتے ہیں میں نے جواب دیا : بیٹی میں تم سے نہیں کہتا کہ تم تاریخ اسلام کو پڑھو نہیں کہتا کہ نہج البلاغہ اور قرآن کو پڑھو بس تم سے اتنا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک شخصیت ہے جس کا نام ہے علی ع یہ وہ شخصیت ہے جسے ۱۹ رمضان کو سر پر ضربت مار کر شہید کر دیا گیا تم جاو صرف ۴۸ گھنٹے میں اس شخصیت سے جو باتیں بیان ہوئی ہیں انہیں پڑھ لو دیکھو اس شخصیت نے کیا کہا ہے ؟ دیکھو ایسا انسان جس کے پیشانی سے خون جاری ہو جس کا فرق شگافتہ ہو کیا باتیں کرتا ہے درد میں لوٹتا ہے یا پھر یتیموں کے لئے فکر مند رہتا ہے ، اسی باتوں کو دیکھو وہ کیا کہہ رہا ہے ؟
بس تم اسی بات کو پڑھ لو پھر بتاو تمہارا خیال کیا ہے ؟ ۔
یہ روژہ گارودی کی شخصیت تھی ایسی ہی ایک اور شخصیت ہے پروفیسر لنگہاوزن یہ پہلے کیتھولک عیسائی تھے پھر دھیرے دھیرے تبدیل ہو گئے ، امریکہ کے ٹکزاس میں ایک ایرانی طالب علم پڑھتے تھے جنکا نام تھا اکبری ، یہ کہتے ہیں میں نے اکبری کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں کچھ سمجھ نہیں آیا تو پوچھا تم کیا کر رہے ہو کہا اللہ کی عبادت ، میں نے کہا یہ کیا ہے کہا میں مسلمان ہوں تو مجھ پر فرض ہے ایک مالک کی اطاعت کروں بس یہی وہ چیز تھی جو میرے اندر تبدیلی کا سبب بنی یہاں تک کے اسکے بعد یہ شخصیت جب آیت اللہ مصباح کے ساتھ ہو جاتی ہے اور حج کا موقع ملتا تو کہتے ہیں میری زندگی میں سب سے زیادہ جو چیز تبدیلی کا سبب بنی وہ حج ہے
اسی طرح ایک اور شخصیت ہے آنھتوان بارا انکا تعلق شام سے ہے کویت میں رہتے ہیں سات مرتبہ کربلا کا سفر کیا اربعین میں پیدل نجف سے کربلا تک چلے انہوں نے دو کتابیں بھی لکھیں ایک جناب امام حسین علیہ السلام کے لئے ایک جناب زینب سلام اللہ علیہا کے سلسلہ سے کتاب کے نام بھی دلچسب ہے ، ’’حسین عیسائی فکر کے آئینے میں‘‘ جناب زینب کے سلسلہ سے لکھی جانے والی کتاب کا نام ہے’’ زینب ایک مکمل فریاد‘‘ عجیب بات ہے کہ کہ حسین عیسائی فکر کے آئینے میں وہ کتاب ہے جس کے بارے میں خود کہتے ہیں ’’اس کتاب کی ایک ایک عبارت کو میں نے آنسووں کے ساتھ لکھا ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام نے دنیا پر کیا اثر چھوڑا ، جوانوں میں کربلا کی تحریک کا کیا اثر ہوا ، اقتصاد پر کیا اثر ہوا ، سیاست پر کیا ہوا ؟ ۔
ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
ہم نے جن شخصیتوں کا تذکرہ کیا یہ وہ ہیں جنکا تعلق نہ کربلا سے ہے نہ فکر حسینی سے اور نہ ہی ان کے گھر کا پس منظر ایسا ہے کہ ذکر و فکر حسینی سے پہلے سے آشنا ہوں ان کے وجود کے اندر ایک تشنگی تھی جو انہیں یہاں تک لائی کہ تحقیق کرتے کرتے مذہب حق سے نزدیک ہو گئے اب ہم سوچیں کہ ہر سال ہم ذکر کربلا کرتے ہیں ، کہنے کو خاندانی شیعہ بھی ہیں لیکن سوچیں کہ ہم کہاں ہیں کربلا سے ہم نے کیا حاصل کیا ہے ؟ کیا ہر سال بس ایک غم ہی مناتے ہیں یا پھر اس سے بڑھ کر کربلا کے تعیلمات کی روشنی میں کچھ معاشرے کی تعمیر کے بارے میں بھی فکر مند ہیں ۔
آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ ملک کے حالات سے با خبر رہتے ہوئے اس بات پر توجہ دیں کہ کربلا کا حقیقی پیغام کیا ہے ؟ اپنے فریضہ کو سمجھیں اپنی ذمہ داری کو ادا کریں کربلا کا ہم سے یہی مطالبہ ہے رہبر انقلاب اسلامی اپنے ایک بیان میں اسی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ کربلا کے تعیمات کا اہم نکتہ یہ ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام ، تاریخ اسلام کے ایک حساس دور میں مختلف فرائض میں اصلی فریضہ کی شناخت کی اور اس پر عمل در آمد کیا - انہوں اس چیز کی شناخت میں جس کی اس دور میں ضرورت تھی کسی قسم کا وہم و تذبذب نہيں کیا جبکہ یہ چیز مختلف زمانوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کا ایک کمزور پہلو ہے یعنی یہ کہ عالم اسلام کے عوام اور ان کے اہم رہنما کسی خاص دور میں اصل فریضے کے بارے میں غلطی کریں اور انہيں یہ نہ پتہ ہو کہ کون سا کام اصل ہے اور اسے کرنا چاہئے اور دوسرے کاموں کو اگر ضرورت ہو تو اس پر قربان کر دیا جائے ‘‘ رہبر انقلاب اسلامی کے اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کربلا کے آفاقی تعیلمات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی ترجیحات کی تعیین کرنا ہوگی ورنہ ہم نقصان پر نقصان اٹھاتے رہیں گے اور روز بروز ہماری مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا ۔
دشمن کی صحیح شناخت کربلا کا اہم مطالبہ :
آج ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے درمیان ایسے ضمیر فروش لوگ گھس آئے ہیں جو نہ فکر حسینیت سے آشنا ہیں نہ ہی انہیں کربلا کی آفاقیت کا علم ہے اور نہ امام حسین ع کی قربانیوں کی عظمت کو وہ سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ وہ حسین حسین ع بھی کرتے ہیں اور یزیدان وقت کے ساتھ حشر و نشر بھی جبکہ امام حسین علیہ السلام نے واضح طور پر اعلان کیا تھا ، کہ ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے اگر کوئی خاموش رہا تو اسکا حشر بھی ظالم کا سا ہوگا امام حسین ع کے واضح پیغام کے بعد کیا یہ زیب دیتا ہے حسینیوں کو کہ وہ کسی ظالم کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ اس کی چاپلوسی پر اتر آئیں کیا یہی کربلا کا درس ہے ؟ کیا یہ روح کربلا کی پامالی نہیں ہے ؟ کیا یہ پیغام امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے ؟ اگر ہے تو ہم سب کو ایسے لوگوں کو معاشرے کے متن سے نکال کر کنارے لگانا ہوگا جو اپنے عزت کے ساتھ تو کھلواڑ کر ہی رہیں ان کی وجہ سے مکتب کربلا پر حرف آ رہا ہے ۔