دنیا آوازوں سے بھری ہے، مگر خاموش؛ تصویروں سے لبریز ہے، مگر چہروں سے خالی۔ ہم ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں "رابطہ" کا مطلب صرف "انٹرنیٹ کنکشن" رہ گیا ہے اور دل، ہر روز ایک دوسرے سے کچھ اور دُور ہو رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی اس لیے آئی تھی کہ ہمیں قریب کرے، مگر ان ٹھنڈی اسکرینوں کے سکوت میں، انسانی موجودگی کی گرمی کہیں کھو گئی۔
ایک دن میں اپنے بوڑھے والد کے ساتھ بینک میں بیٹھا تھا۔ وہ پُرسکون تھے، لبوں پر مسکراہٹ تھی،
اس قطار میں جو مجھے محض "وقت کا ضیاع" لگ رہی تھی۔
میں نے جوش سے کہا: "ابا! آن لائن بینکنگ کیجیے، چند لمحوں میں سب کام ہو جائے گا!"
انہوں نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا اور نرم لہجے میں بولے: "بیٹا، میں ان چھوٹی چھوٹی ملاقاتوں سے زندہ ہوں۔
سلام و دعا، بینک کے ملازم کی مسکراہٹ، گلی کے پھل فروش کی خیرسگالی... اگر سب کچھ ایک کلک سے ہو جائے تو پھر میں انسانوں کو کہاں دیکھوں گا؟"
اُس لمحے میں خاموش ہو گیا۔
اور سمجھ گیا کہ زندگی اصل میں کاموں کی فہرست نہیں، بلکہ انسانی رشتوں کا نازک جال ہے۔
انسان اپنی موجودگی سے معنی پاتا ہے، نہ کہ پیغام رسان ایپس سے۔ ڈیٹا مشینوں کے درمیان گردش کرتا ہے، مگر دلوں کی زبان صرف لمس، نظر اور ہمدردی سے زندہ رہتی ہے۔
ٹیکنالوجی ایک بڑی نعمت ہے، لیکن اگر وہ ہمیں "حضور" سے محروم کر دے تو وہ نعمت نہیں، ایک خاموش قید بن جاتی ہے۔
اسکرین چمکتی ہے، مگر محسوس نہیں کرتی۔
مصنوعی ذہانت جواب دیتی ہے، مگر دل نہیں رکھتی اور ایک ایسی دنیا جو لمس اور مسکراہٹ سے خالی ہو وہ محبت سے بھی خالی ہو جاتی ہے۔
پدرِ بزرگ نے کہا: "مشین آسانی دیتی ہے، مگر رفاقت تمہیں خود بنانی پڑتی ہے۔"
تب میں نے جانا کہ آنے والا زمانہ ٹیکنالوجی کی کمی سے نہیں، بلکہ محبت، لمس اور نظر کی کمی سے رنج اٹھائے گا۔
آئیں، اسکرینوں کو کچھ دیر کے لیے خاموش رہنے دو اور ہم دوبارہ گلیوں کی طرف لوٹیں — کسی اجنبی کی مسکراہٹ،کسی دوست کے ہاتھ کی گرمی اور زندگی کی اصلی آواز کی طرف، کیونکہ کوئی الگورتھم، کوئی سرور، محبت کے درجۂ حرارت کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔