امام حسن عسکری ؑآٹھ ربیع الثانی ۲۳۲ھ کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے آپ کے والد ماجد امام علی نقی عليه السلام ؑتھے اور والدہ ماجدہ کا نام حدیثہ یا سوسن تھا۔
آپ کی کنیت ابو محمد اورالقاب صامت ہادی رفیق ذکی نقی خالص او رعسکری تھے۔
۸ ربیع الاول ۲۶۰ھ کو سرمن رأی میں شہید ہوئے اور آپ کا جسد اطہر وہیں آپ کے والد بزرگوار کی قبر مبارک کے پاس دفن کیا گیا۔
اس وقت آپ کی عمر مبارک اٹھائیس سال تھی آپ کی امامت کا زمانہ چھ سال تھا۔ (۱)
امامت کی دلیلیں
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ امامت کی دلیلوں کو دو قسموں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ عام دلیلیں جو ہر امام کی امامت کے لئے قائم کی جاسکتی ہیں اور اس قسم کے بارے میں تفصیل پہلے بیان کی جا چکی ہے۔
۲۔ خاص دلیلیں جو ہر امام کی امامت پر الگ الگ قائم ہوئی ہیں۔
جیسے وہ احادیث جو ہر امام کے ذریعہ اپنے بعد والے امام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ہم
یہاں چند نمونے ذکر کریں گے۔
عبد العظیم حسنی بیان کرتے ہیں:
ایک دن میں امام علی ابن محمد ؑکی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا: مرحباً اے ابو القاسم تم ہمارے حقیقی چاہنے والے ہو۔
میں نے عرض کیا: اے فرزند رسولؐ میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے اپنا دین پیش کروں اگر آپ کی نظر میں صحیح ہو تو میں موت کے وقت تک اس پر باقی رہوں۔
امامؑ نے مجھ سے فرمایا: بیان کرو اے ابو القاسم!
میں نے عرض کیا: میں کہتا ہوں خدا ایک ہے اور اس کے جیسا کوئی نہیں ہے یہاں تک کہ میں نے عرض کیا محمد ؐاللہ کے بندے اس کے رسول اور خاتم النبیین ہیں پیغمبر اسلاؐم کے بعد علی ابن ابیطالب ؑان کے بعد امام حسن ؑان کے بعد امام حسین ؑان کے بعد امام علی ابن الحسین ؑان کے بعد محمد ابن علی ؑ ان کے بعد جعفر ابن محمد ؑان کے بعد موسیٰ ابن جعفرؑ ان کے بعد علی ابن موسیٰؑ ان کے بعد محمد ابن علی ؑ اور ان کے بعد آپ امام ہیں۔
علی ابن محمد ؑنے فرمایا: میرے بعد میرا بیٹا حسن امام ہوگا اور لوگ ان کے خلیفہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے۔
میں نے عرض کیا : کیسا برتاؤ کریں گے؟
آپ نے فرمایا: کہ وہ خود دکھائی نہیں دیں گے ان کا نام لینا حرام ہوگا یہاں تک کہ ظہور کریں اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں۔
اس کے بعد امام علی ابن محمد ؑنے فرمایا: اے ابو القاسم خدا کی قسم یہ وہ دین الٰہی ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے اختیار فرمایا ہے۔ جو کچھ تم نے بیان کیا اس پر ثابت قدم رہو خدادنیا و آخرت دونوں میں تمہیں اس عقیدہ پر ثابت قدم رکھے۔ (۲)
ابو ہاشم داؤد ابن جعفری کا بیان ہے میں نے ابو الحسن امام علی نقی ؑسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: میرا جانشین میرا بیٹا حسن ہوگا لیکن اس کے جانشین کے بارے میں تمہارا رویہ کیسا ہوگا؟
میںنے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں ایسا کیوں فرما رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا: اس لئے کہ ان کو کوئی نہیں دیکھے گا اور ان کا نام لینا بھی تم لوگوں کے لئے منع ہوگا۔
میں نے عرض کیا: پھر ہم ان کو کیسے یاد کریں گے ؟
آپ نے فرمایا: حجت ابن حجت کہہ کر یاد کرنا۔ (۳)
صقر ابن ابی دلف کا بیان ہے: جب متوکل نے ہمارے آقا حضرت ابو الحسن ؑکو بغداد بلا لیا، میں آپ کی خیریت معلوم کرنے کے لئے بغداد گیا۔
متوکل نے میری طرف دیکھ کر کہا: کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟
میں نے عرض کیا: اے استاد میں نیت خیر سے آیا ہوں۔
اس نے کہا: بیٹھ جاؤ۔
مجھے مختلف افکار نے گھیر لیا اور میں سوچنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی بیکار یہاں آ گیا۔
متوکل نے لوگوں کو اشارہ کیا: کہ باہر چلے جائیں اس کے بعد مجھ سے کہا: تم کیوں یہاں آئے ہو۔
میں نے عرض کیا: میں خیر کے قصد سے آیا تھا۔
اس نے کہا: تم شاید اپنے مولا و آقا کی زیارت کے لئے آئے ہو۔
میں نے عرض کیا: میرا مولا کون ہے؟
اس نے کہا: خاموش رہو تمہارے مولا حق پر ہیں خوف زدہ نہ ہو۔
میںبھی تمہارا ہم خیال ہوں۔
میں نے عرض کیا: الحمد للہ ۔
اس نے کہا: تم اپنے مولا سے ملاقات کرنا چاہتے ہو، بیٹھے رہو یہ نامہ بر چلا جائے۔
جب نامہ بر باہر چلا گیا تو اس نے اپنے غلام سے کہا: صقر کا ہاتھ پکڑ اس کمرہ میں لیجاؤ جہاں وہ علوی قید ہے ان دونوں کو تنہا چھوڑ کر واپس آجانا۔
صقر کا بیان ہے : کہ اس غلام نے مجھے ایک کمرہ میں پہونچا دیا اور خود باہر چلا گیا ۔
میں نے امام ابو الحسن ؑکو دیکھا کہ آپ چٹائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کے برابر میں ایک قبر کھدی ہوئی ہے ۔
میں نے آپ کو سلام کیا اور بیٹھ گیا ۔
آپ نے فرمایا: اے صقر یہاں کیوں آئے ہو ؟
میں نے عرض کیا: آپ کی خیریت معلوم کرنے اس کے بعد میں نے قبر کی طرف دیکھا اور رونے لگا آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: پریشان نہ ہو مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچے گا ۔
میں نے الحمد للہ کہا اس کے بعد میں نے عرض کیا مولا پیغمبر اسلاؐم کی ایک حدیث میںنے سنی ہے جس کے معنی میری سمجھ میں نہیں آتے ۔
آپ نے پوچھا کون سی حدیث۔
میں نے عرض کیا: پیغمبر اسلاؐم نے فرمایا: ’’لاتعادو الایام فتعادیکم‘‘ دنوں سے دشمنی نہ کرو ورنہ وہ تمہارے دشمن ہوجائیں گے اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
آپ نے فرمایا: زمین و آسمان ہمارے وجود کی برکت سے قائم ہیں سبت (سنیچر) پیغمبر اسلاؐم کا نام ہے ۔ احد (اتوار) امیر المومنین ؑاور اثنین (پیر) امام حسن ؑاور امام حسین ؑہیں ثلاثاء (منگل) علی ابن الحسین ؑ، محمد ابن علی ؑ، اور جعفر ابن محمد ؑہیں ۔ اربعاء (بدھ) موسیٰ ابن جعفر ؑ، علی ابن موسیٰ ؑمحمد ابن علی ؑاور میں ہوں۔ خمیس (جمعرات) میرا بیٹا حسن ؑاور جمعہ میرے بیٹے کا بیٹا ہے حق کے طلبگار اس کے گرد جمع ہوں گے اور وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا یہ ہیں ایام کے معنی ان ایام سے دشمنی نہ کرنا ورنہ قیامت میں یہ تمہارے دشمن ہوں گے اس کے بعد آپ نے فرمایا: اب یہاں سے چلے جاؤ اس لئے کہ تم امان میں نہیں ہو۔ (۴)
صقر ابن ابی دلف نے بیان کیا ہے: میں نے امام علی ابن محمد ؑسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد میرا بیٹا حسن امام ہوگا اور حسن کے بعد ان کا بیٹا قائم آئے گا جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ (۵)
یحییٰ ابن یسار کا بیان ہے: امام ابو الحسن علی ابن محمد ؑنے اپنی شہادت سے چار مہینے پہلے اپنے بیٹے حسن کے لئے وصیت کی اور ارشارد فرمایا: وہ میرے بعد امام ہوں گے اور اپنے کچھ قریبی افراد کو اس پر گواہ بنایا۔ (۶)
علی ابن عمر نوفلی کا بیان ہے : میں امام ابو الحسن ؑکے گھر آپ کی خدمت میں تھا کہ آپ کے بیٹے محمد ہمارے پاس سے گذرے۔
میں نے عرض کیا: کہ میں آپ پر قربان جاؤں آپ کے بعد یہ امام ہوں گے؟
آپ نے فرمایا: نہیں میرے بعد امام حسن ؑتمہارے امام ہوں گے۔ (۷)
عبد اللہ ابن محمد اصفہانی کا بیان ہے: حضرت ابو الحسن ؑنے مجھ سے فرمایا: کہ میرے بعد تمہارا امام وہ ہوگا جو میرے جنازہ پر نماز پڑھے گا۔ (۸)
علی ابن جعفرؑ نے بیان کیا کہ میں حضرت ابو الحسن ؑکے پاس تھا آپ کے بیٹے محمد کا انتقال ہوگیا آپ نے اپنے بیٹے حسن سے فرمایا حسن خدا کا شکر ادا کر اس لئے کہ خداوند عالم نے امر امامت تمہاری ذات میں قرار دیا ہے۔ (۹)
احمد ابن محمد ابن عبد اللہ ابن مروان نے کہا ہے: کہ میں ابو جعفر محمد ابن علی نقی ؑ کی وفات کے وقت موجود تھا حضرت امام علی نقی ؑ وہاں تشریف لائے ان کے لئے کرسی رکھی گئی وہ اس پر بیٹھ گئے آپ کے اہلبیت ؑبھی وہاں جمع تھے ان کے فرزند ابو محمد (امام حسن عسکری ؑ)بھی ایک کونے میں کھڑے تھے امام علی نقی ؑ نے ابو جعفر کے تجہیز و تکفین سے فارغ ہونے کے بعد ابو محمدؑ کی طرف دیکھ کر فرمایا: بیٹا خدا کا شکر ادا کرو خداوند عالم نے امر امامت تمہاری ذات میں قرار دیا ہے۔ (۱۰)
علی ابن مہزیار سے روایت ہے: میں نے حضرت ابو الحسن ؑسے عرض کیا اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں؟
آپ نے فرمایا: میرا عہد میرے بڑے بیٹے حسن کے ذمہ ہوگا۔ (۱۱)
علی ابن عمرو عطار کا بیان ہے: کہ میں امام ابو الحسن ؑکی خدمت میں حاضر ہوا جب ان کے
فرزند ابو جعفر زندہ تھے اور ہم یہ سمجھ رہے تھے یہی اپنے والد کے جانشین ہوں گے۔
میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں ان میں سے کس پر آپ کی خاص نظر ہے۔
امام ؑنے فرمایا: کسی پر بھی خاص نظر نہ رکھو جب تک ہمارا امر تم تک نہ پہونچے علی ابن عمرو کا بیان ہے کہ میں نے بعد میں آپ کے پاس خط لکھا اور عرض کیا کہ آپ کے بعد کون امام ہوگا امام نے میرے جواب میں لکھا کہ میرا بڑا بیٹا اور ابو محمدامام حسن عسکری ؑ ابو جعفر (سید محمد) سے بڑے تھے۔ (۱۲)
سعد ابن عبد اللہ نے بعض بنی ہاشم منجملہ حسن ابن حسین افطس سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ محمد ابن علی ابن محمد ؑکی وفات کے بعد ابو الحسن ؑکے گھر میں جمع تھے گھر کے آگن میں ایک فرش بچھایا گیا تھا اور لوگ آپ کے پاس بیٹھے تھے ہمارا گمان تھا کہ وہاں موجود غلاموں اور دوسرے افراد کے علاوہ صرف بنی عباس اور اولاد ابو طالب کے تقریباً ۱۵۰ افراد ہوں گے۔
اس وقت حسن ابن علی ؑ جن کا گریبان چاک تھا وہاں تشریف لائے اور اپنے والد کے دا ہنی طرف کھڑے ہوگئے امام ابوالحسن ؑنے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: بیٹا خدا کا شکر ادا کرو اس لئے کہ خداوند عالم نے امر امامت تمہاری ذات میں قرار دیا ہے۔
یہ سن کر حسنؑ پر گریہ طاری ہوگیا اورآپ نے کلمۂ استرجاع کہا اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’الحمد للہ رب العالمین و ایاہ اسأل تمام فہمہ علینا انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ ہم نے پوچھا یہ کون ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کے بیٹے حسن ہیں اس وقت آپ کی عمر تقریبا۲۰ سال تھی۔
ہم نے ان کو پہچان لیا اور سمجھ گئے کہ ابو الحسن ؑنے اپنے بعد امامت کے لئے انہیں معین کیا ہے۔ (۱۳)
محمد ابن یحییٰ کا بیان ہے: ابو جعفر (سید محمد)کی وفات کے بعد میں ابو الحسن امام علی نقی ؑکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے بیٹے کے انتقال پر تعزیت پیش کی اس وقت ابو محمدامام حسن عسکری ؑ آپ کے پاس موجود تھے اور رو رہے تھے امام ابو الحسن ؑنے ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: خدا نے تمہیں ان کی جگہ پر معین کر دیا لہٰذا خداوند عالم کا شکر ادا کرو۔ (۱۴)
شاھویہ ابن عبد اللہ کا بیان ہے حضرت ابو الحسن ؑنے مجھے لکھا ابو جعفر کی وفات کے بعد تم میرے جانشین کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے اور تمہیں اس کی فکر تھی تم پریشان نہ ہو اس لئے خداوند عالم نے جس کی ہدایت کردی ہے اسے گمراہی میں نہیں چھوڑتا تمہارے امام ابو محمد ہوں گے۔
لوگوں کی ضرورت کے تمام علوم ان کے پاس موجود ہیں خدا جس کو چاہتا ہے مقدم یا موخر کرتا ہے۔
{ما ننسخ من آیۃ او ننسہا نات بخیر منہا او مثلہا} (۱۵)
فضائل و کمالات
شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر کیا ہے: امام ابوالحسن علی ابن محمد ؑکے بعد ان کے بیٹے ابو محمد حسن ابن علی ؑ امام ہوئے اس لئے کہ تمام فضائل ان کی ذات میں جمع تھے امامت اور قیادت کے لئے ضروری امور جیسے علم، زہد، کمال، عقل، عصمت، شجاعت، کرم، اور کثرت عبادت میں اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے افضل تھے۔
اس کے علاوہ آپ کے والد نے بھی اس منصب کے لئے آپ کو معین کیا تھا ۔ (۱۶)
حسین ابن محمد اشعری اور محمد ابن یحییٰ وغیرہ کا بیان ہے احمد ابن عبید اللہ ابن خاقان قم میں حکومتی املاک کی حفاظت اور خراج لینے پر مامور تھا اور وہ دشمن اہل بیت ؑتھا ایک دن اس کے سامنے علویوں اور ان کے مذہب کا تذکرہ نکل آیا اس نے کہا کہ میںنے سر من رأی میں کردار، عظمت، وقار، عفت، بخشش اور جلالت میں تمام اہلبیتؑ اور بنی ہاشم میں حسن ابن علی ابن محمد ؑجیسا کسی اور کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ بوڑھے اور بزرگ افراد، فوج کے کمانڈر اور وزراء بھی ان کو خود مقدم کرتے تھے۔
احمد ابن عبید اللہ کا کہنا ہے کہ ایک دن میرے باپ نے ایک عمومی جلسہ کیا میں وہاں کھڑا تھا اچانک دربانوں نے آکر خبر دی ابو محمد ابن الرضاؑ تشریف لائے ہیں میرے والد نے بلند آواز سے کہا انہیں اندر آنے دو میں نے دربانوں کی اس جسارت پر تعجب کیا کہ کس طرح انھوں نے میرے والد کے سامنے کسی کو کنیت سے یاد کیا اس لئے کہ میرے والد کے سامنے صرف خلیفہ یا ولی عہد کو کنیت سے یاد کیا جاتا تھا اس وقت ایک کمسن بہترین قد و قامت کا مالک خوبصورت جوان مخصوص ہیبت و جلالت کے ساتھ اندر داخل ہوا جب میرے والد نے ان کو دیکھا تو اپنی جگہ سے اٹھ کر چند قدم ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھے میں نے کسی اور کے لئے کبھی اپنے والد کا یہ عمل نہیں دیکھا تھا میرے والد نے ان کو آغوش میں لیا ان کے چہرہ کا بوسہ لیا اور اپنی جگہ پر بٹھایا اور ان کے برابر میں بیٹھ کر ان سے گفتگو کرنے لگے گفتگو کے دوران بار بار کہتے تھے میں آپ پر قربان جاؤں۔
میں اپنے باپ کے اس رویہ پر حیرت زدہ تھا تھوڑی دیر میں دربان آیا اور اس نے کہا: موفق ابن متوکل عباسی اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے میرے والد کی رسم یہ تھی کہ جب کبھی موفق آتا تھا تو دربان اور فوج کے کمانڈر دونوں طرف صف باندھ کر کھڑے ہو جاتے تھے ان کے درمیان سے موفق آتا جاتا تھا اس وقت میرے والد نے حاضرین سے کہا کہ ابو محمد کو صف کے پیچے سے لیجاؤ تاکہ موفق ان کو نہ دیکھ سکے ۔
موفق داخل ہوا میرے والد اس سے گلے ملے اور باہر چلے گئے میں نے اپنے والد کے دربانوں سے پوچھا یہ کون تھا جس کے ساتھ تم لوگوں نے ایسا برتاؤ کیا اور میرے والد نے اس طرح ان کا احترام کیا ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایک علوی ہیں جن کا نام حسن ابن علی ؑہے اور وہ ابن الرضاؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
یہ سن کر میری حیرت اور بڑھ گئی جب میرے والد نے عشاء کی نماز پڑھ لی اوردفتری امور کی انجام دہی کے لئے تنہائی میں بیٹھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا انھوں نے کہا احمد تمہاری کوئی حاجت ہے میں نے کہا: ہاں اگر آپ اجازت دیں؟
وہ شخص جو صبح آپ کے پاس آیا تھا اور آپ نے اس کا بہت احترام کیا تھا وہ کون تھا میرے والد نے کہا: وہ رافضیوں کے امام حسن ابن علی ؑ تھے جو ابن الرضاؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
اس کے بعد کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا بیٹا اگر خلافت بنی عباس سے لے لی جائے تو بنی ہاشم میں ان کے علاوہ کسی اور کا حق نہیں ہے اس لئے کہ فضیلت، عفت، کردار، اپنے اوپر کنٹرول، زہد، عبادت اور حسن اخلاق میں ان کے جیسا کوئی اور نہیں ہے کاش تم نے ان کے والد کو دیکھا ہوتا ، وہ بہت سخی اور صاحب فضیلت تھے۔
احمد کا بیان ہے کہ مجھے اپنے والد کے اس رویہ سے غصہ آیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں ابن الرضاؑ کے بارے میں تحقیق کروں گا اس سلسلہ میں میں نے بنی ہاشم، فوج کے کمانڈروں، اپنی حکومت کے دفاتر میں کام کرنے والوں، قاضیوں، سب سے گفتگو کی سب ان کا احترام کرتے تھے ان کی تعریف کرتے اور ان کو دوسروں سے بہتر سمجھتے تھے لہٰذا اس طرح میں بھی ان کی عظمت و جلالت کا لوہا مان گیا۔ (۱۷)
محمد ابن اسماعیل علوی کا بیان ہے کہ ابومحمد امام حسن عسکری ؑکو علی ابن اوتاشی کے قید خانہ میں قید کیا گیا جو اہلبیت ؑاور اولاد ابو طالب کا سخت دشمن تھا اس سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ سخت برتاؤ کرنا کچھ ہی دنوں میں وہ آپ کی عظمت و جلالت کا قائل اور آپ کا عقیدتمند ہوگیا آپ کی تعریف اور احترام کرنے لگا۔ (۱۸)
محمد ابن اسماعیل ابن موسیٰ ابن جعفر کا بیان ہے: کچھ بنی عباس ابو محمد امام حسن عسکری ؑکے زندان بان صالح ابن وصیف کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ قید خانہ میں ابو محمد پر سختی کرو اس نے پوچھا کہ کیا کروں میں نے دو انتہائی خراب لوگوں کو ان پر مامور کیا لیکن تھوڑی ہی مدت میں وہ عبادت، نماز اور روزہ کے اعتبار سے انتہائی اعلی درجہ پر پہونچ گئے۔
اس نے ان دونوں افراد کو بلایا اور ان سے کہا کہ تم کیوں اس قیدی پر سختی نہیں کرتے ان لوگوں نے کہا ہم اس شخص کے بارے میں کیا کہیںجو دن میں روزہ رکھتا ہو اور رات کو عبادت اور نمازوں میں بسر کرتا ہو وہ کسی سے بات نہیں کرتے اور عبادت کے علاوہ ان کی کوئی اور مصروفیت نہیں ہے جب وہ ہماری طرف دیکھتے ہیں تو ہمارے بدن کانپ جاتے ہیں اور ہم پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ ہمیں اپنا ہوش نہیں رہتا جب ان لوگوں نے یہ باتیں سنیں تو نا امید ہو کر واپس چلے گئے۔ (۱۹)
ابو ہاشم جعفری کا بیان ہے: میں نے امام ابو محمد ؑکے پاس خط لکھا اور زندگی اور اس کی مشکلات نیز طوق و سلاسل کی اذیتوں کی شکایت کی ۔ امام ؑنے جواب میں تحریر فرمایا: کہ آج ظہر کی نماز اپنے گھر میں ادا کرو گے اتفاق سے میں اسی روز قید خانہ سے آزاد ہوگیا اور ظہر کی نماز اپنے گھر میں پڑھی۔
میں زندگی کے دوسرے لوازمات کے اعتبار سے بھی مصیبتوں میں مبتلا تھا اور اسی خط میں اس کا تذکرہ کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے شرم لگی جب میں اپنے گھر پہونچا تو آپ نے میرے لئے سو دینار بھی بھیجے اور لکھا کہ جب کوئی ضرورت ہو تو شرمانا نہیں مجھ سے طلب کر لینا انشاء اللہ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی۔ (۲۰)
محمد ابن ابی زعفران نے ابو محمد امام حسن عسکری ؑکی مادر گرامی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ایک دن ابو محمد ؑنے مجھ سے کہا کہ ۲۶۰ھ میں میں سخت مشکلات میں گرفتار ہوں گا مجھے خوف ہے کہ کوئی مصیبت مجھ پر نازل ہوگی۔
میں یہ سن کر پریشان ہوئی اور رونے لگی اس وقت آپ نے فرمایا: اس سے چھٹکارا نہیں ہے جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا لہٰذا بے صبری اور گریہ و زاری نہ کیجئے۔
۲۶۰ھ کے صفر کے مہینہ میں ام ابو محمد ؑپر عجیب اضطراب کی کیفیت طاری ہوئی وہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد مدینہ سے باہر جاتی تھیں شاید امام حسن عسکری ؑ کی کچھ خبر مل سکے آپ کو خبر ملی کہ معتمد نے ابو محمد ؑا ور ان کے بھائی جعفر کو گرفتار کر کے قید کر دیا ہے معتمد برابر ان کے زندان بان علی ابن جریر سے ان کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا وہ جواب میں کہتا تھا ابو محمد ؑدن میں روزہ رکھتے ہیں اور راتوں کو نمازیں پڑھتے ہیں۔
ایک دن معتمد نے زندان سے آپ کا حال دریافت کیا تو اس نے پھر وہی بیان کیا۔ معتمد نے زندان بان سے کہا جاؤ اور ابھی جاکر ان کو آزاد کردو اور ان کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر جائیں میں گیا دیکھا کہ آپ اپنا مخصوص لباس اور جوتا پہنے ہوئے قید خانہ سے نکلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا اٹھ کر کھڑے ہوگئے میں نے انھیں آزادی کا مژدہ سنایا۔
آپ قید خانہ سے باہر نکلے اور اپنی سواری پر سوار ہوگئے لیکن اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھے میںنے پوچھا جاتے کیوں نہیں؟
انھوں نے فرمایا: جب تک میرے بھائی جعفر آزاد نہ ہوں گے میں نہیں جاؤں گا جاکر معتمد سے کہہ دو کہ ہم اور جعفر ایک ساتھ گھر سے باہر نکلے تھے لہٰذا اگر ساتھ میں واپس نہ گئے تو مشکل ہوجائے گی زندان بان نے آپ کا پیغام معتمد تک پہونچایا معتمد نے کہا جعفر کو بھی تمہاری وجہ سے آزاد کر دیا جب کہ ان کو خود اپنے نفس اور تم پر ظلم کرنے کی سزا میں قید خانہ بھیجا تھا اس نے جعفر کو بھی آزاد کر دیا اور دونوں ساتھ ساتھ گھر واپس ہوگئے۔ (۲۱)
بیان کیا گیا ہے کہ بہلول نے بچپنے میں امام حسن عسکری ؑکو دیکھا کہ بچوں کا کھیل دیکھ رہے ہیں اور گریہ کر رہے ہیں بہلول نے سوچا ان کے پاس کھلونے نہیں ہیں اسی لئے رورہے ہیں بہلول آپ کے پاس گئے اور کہا کہ روؤ مت میں تمہارے لئے کھلونے خرید دوں گا۔
آپ نے فرمایا: ہمیں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہے۔
بہلول نے عرض کیا: پھر ہمیں کس لئے پیدا کیا گیا ہے۔
آپ نے فرمایا: علم اور عبادت کے لئے ۔
بہلول نے عرض کیا: اس کی دلیل کیا ہے۔
آپ نے فرمایا: خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ {أفحسبتم انما خلقنا کم عبثاً و انکم الینا لا ترجعون} کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ بیکار پیدا کئے گئے ہو او رتمہیں پلٹ کر ہماری بارگاہ میں نہیں آنا ہے۔
اس کے بعد بہلول نے آپ سے موعظہ کی درخواست کی آپ نے جواب میں کچھ اشعار
پڑھے اور بے ہوش ہوگئے جب آپ کو ہوش آیا بہلول نے عرض کیا آپ تو ابھی بچے ہیں اور آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے پھر کیوں ڈر رہے ہیں؟
آپ نے فرمایا: میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا ہے کہ پہلے چھوٹی لکڑیوں کو جلاتی ہیں پھر ان کے ذریعہ بڑی بڑی لکڑیوں میں آگ لگاتی ہیں میں اس بات سے ڈرتا ہو کہ کہیں جہنم کی چھوٹی لکڑیاں نہ بن جاؤں۔ (۲۲)
محمد ابن علی ابن ابراہیم ابن موسیٰ ابن جعفرؑ بیان کرتے ہیں: ہمارے لئے زندگی میں کچھ مشکلات پیدا ہوگئیں اور زندگی گذارنا سخت ہوگیا ۔ میرے والد نے مجھ سے کہا آؤ ان (ابو محمدامام حسن عسکری ؑ) کے پاس چلیں ان کی سخاوت اور بخشش کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے میں نے اپنے والد سے کہا کیا آپ ان کو پہچانتے ہیں؟
انھوں نے کہا: نہیں ۔ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں ہے۔
ہم اپنے والد کے ساتھ ان کے گھر کی طرف چلے راستہ میں میرے والد نے مجھ سے کہا: مجھے پاینچ سو درہم کی ضرورت ہے دو سو درہم لباس کے لئے دو سو درہم قرض ادا کرنے کے لئے اور سو درہم زندگی کی ضروریات کے لئے میں نے بھی اپنے دل میں سو چا کاش تین سو درہم مجھے بھی دیدیتے، سو درہم سواری کا گدھا خریدنے کے لئے، سو درہم زندگی کی ضروریات مہیا کرنے کے لئے اورسو درہم لباس کے لئے تاکہ اس کے بعد جبل کی طرف چلا جاؤں۔
محمد کا بیان ہے: جب ہم اپنی والد کے ہمراہ آپ کے گھر کے دروازے پر پہونچے تو ایک غلام باہر نکلا اور اس نے کہا کہ علی ابن ابراہیم اور ان کے بیٹے محمد اندر آجائیں۔
جب ہم آپ کی خدمت میں پہونچے اور سلام کیا تو آپ نے میرے والد سے فرمایا:اے علی
کیوں اب تک ہمارے پاس نہیں آئے میرے والد نے عرض کیا مجھے شرم لگی کہ اس حالت میں آپ کی خدمت میں آؤں۔
نکلتے وقت آپ کے غلام نے ایک تھیلی میرے والد کودی اور کہا کہ اس میں پانچ سو درہم ہیں دو سو درہم لباس مہیا کرنے کے لئے دو سو درہم قرض ادا کرنے کے لئے او ر سو درہم زندگی کی ضروریات مہیا کرنے کے لئے اس کے بعد ایک تھیلی مجھے لاکر دی اور کہا اس میں تین سو درہم ہیں سو درہم گدھا خریدنے کے لئے اور دو سو درہم زندگی کی ضروریات مہیا کرنے کے لئے جبل نہ جانا بلکہ سوراء چلے جاؤ۔
محمد نے جبل جانے کا اردہ ترک کردیا اور سوراء چلے گئے وہیں شادی کی کچھ عرصہ کے بعد ان کے پاس امام حسن عسکریؑ کی طرف سے ایک ہزار دینار پہونچے۔ (۲۳)
آپ کا علم
امام حسن عسکری ؑبھی اپنے آباء و اجداد کی طرح تمام دینی علوم اور احکام قوانین کے عالم تھے علوم دین کے منابع آپ کے پاس موجود تھے اس کے علاوہ آپ کو خدا کی طرف سے عصمت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی، علوم دین کی نشر و اشاعت اور ترویج کواپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اور اس عظیم ذمہ داری کی انجام دہی سے کسی بھی حال میں پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
البتہ تمام ائمہ کے لئے ایک جیسے حالات نہیں تھے ہر امام دینی علوم کی ترویج میں اپنے زمانے کے حالات اور امکانات کے مطابق عمل کرتا تھا افسوس جو علوم امام حسن عسکری ؑسے نقل ہوئے ہیں ان کی مقدار آپ کے آباء و اجداد خصوصاً امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ذریعہ نقل ہونے والے علوم سے بہت کم ہے جس کے دو سبب ہوسکتے ہیں۔
ایک تو آپ کی امامت کا زمانہ بہت کم تھا یعنی آپ کل چھ سال منصب امامت پر فائز رہے دوسرے آپ اپنی امامت کے دور میں’’ سر من رأی‘‘ فوجی چھاونی میں رہے جہاںخلیفہ کے خفیہ اور علانیہ ایجنٹ آپ کی نگرانی کرتے تھے لہٰذا آپ کے اقوال و اعمال اور آپ کے پاس آنے جانے والے افراد کی نقل و حرکت مکمل طور پر دوسروں کے زیر نظر تھی۔
ان وجوہات کی بنا پر آپ سے مروی احادیث کی تعداد آپ کےآباء واجداد سےمروی احادیث کے برابر نہیں ہے۔
لیکن اس کے باوجود مختلف موضوعات توحید، نبوت، معاد، امامت، اخلاق، موعظہ، نصیحت اور فقہ کے مختلف ابواب میں آپ سے بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں جو تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں درج ہیں۔
اس کے علاوہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ اور دیگر ائمہ ؑسے مروی بہت سی احادیث ضائع ہوگئی ہوں اور ہم تک نہ پہونچ سکی ہوں آپ نے اپنے اس مختصر سے چھ سالہ دور امامت میں متعدد شاگردوں اور راویوں کی تربیت کی جن کے اسمائے گرامی تاریخ، حدیث اور رجال کی کتابوں میں درج ہیں۔ (۲۴)
........................................
(۱)الارشاد، ج۲، ص ۳۱۳؛ بحار الانوار، ۵۰، ص۲۳۸۔ ۲۳۵
(۲)کفایۃ الاثر، ص۲۸۲
(۳)کفایۃ الاثر، ص۲۸۴
(۴)کفایۃ الاثر، ص۲۸۵
(۵)کفایۃ الاثر، ص۲۸۸
(۶)الارشاد، ج۲، ص۳۱۴
(۷)الارشاد، ج۲، ص۳۱۴
(۸)الارشاد، ج۲، ص۳۱۵
(۹)الارشاد، ج۲، ص۳۱۵
(۱۰)الارشاد، ج۲، ص۳۱۶
(۱۱)الارشاد، ج۲، ص۳۱۶
(۱۲)الارشاد، ج۲، ص۳۱۶
(۱۳) الارشاد، ج۳ ص۳۱۷
(۱۴)الارشاد، ج۲، ص۳۱۶
(۱۵)الارشاد، ج۲، ص۳۱۹
(۱۶)الارشاد، ج۲، ص۳۱۳
(۱۷)الارشاد، ج۲، ص۳۲۱
(۱۸)الارشاد، ج۲، ص۳۲۹
(۱۹)الارشاد، ج۲، ص۳۳۴
(۲۰)الارشاد، ج۲، ص۳۳۰
(۲۱)الارشاد، ج۲، ص۳۱۳
(۲۲)نور الابصار، ص۱۸۳؛ الصواعق المحرقہ، ص۲۰۷
(۲۳)کافی، ج۱، ص۵۰۶
(۲۴) ایک محقق نے آپ سے مروی احادیث کو مسند الامام العسکری کے نام سے جمع کیا ہے جس میں آپ سے روایت نقل کرنے والوں کے نام درج ہیں جن کی تعداد ایک سو انچاس (۱۴۹)افراد ہے۔