-
شب قدر اور امام علی علیہ السلام کی وصیتیں
- مذہبی
- گھر
شب قدر اور امام علی علیہ السلام کی وصیتیں
1973
مولانا سید نجیب الحسن زیدی
04/06/2018
1
0
باسمہ سبحانہ
شب قدر اور امام علی علیہ السلام کی وصیتیں
مولانا سید نجیب الحسن زیدی
شب قدر کے یقینا اپنے خاص اعمال و اذکار ہیں جنہیں علماء نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے نقل کیا ہے ہم میں سے ہر ایک یقینا اس شب میں مصروف عبادت رہے گا ، لیکن عبادت و بندگی کےساتھ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہمیں محض ان شبوں میں دعائیں نہیں پڑھنی ہیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں کچھ عہد و پیمان بھی کرنا ہے تو آئیں اس عظیم شب کا استقبال ایسے کریں کہ جہاں شھادت امیر المومنین کا غم اپنے دل میں لئیے ہیں وہیں اپنے دل میں یہ عزم لیکر اٹھیں کہ امام علی علیہ السلام نے جو وصیتیں ہمارے لئیے کی تھیں چند شبوںمیں جن میں روایا ت کے مطابق ہماری تقدیر لکھی جاتی ہے ہم اپنی تقدیر میں ان وصیتوں پر عمل کو خود لکھ لیں ہم انہیں اپنا سر مشق بنائیں گے اور ان شبوں میں توبہ و مغفرت کے ساتھ کوشش کریں گے کہ اپنے آپکو امام علیہ السلام سے قریب کر سکیں یہ وہ وصیتیں ہیں جو کسی عام انسان کی وصیتیں نہیں ہیں بلکہ معروف اہل سنت عالم ابواحمد حسن بن عبداﷲ بن سعید عسکری کے بقول: اگر حکمت عملی میں سے کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہے جسے سنہری حروف سے لکھا جانا چاہئے تو وہ یہی رسالہ ہے جس میں امام علی علیہ السلام نے علم کے تمام ابواب 'سیر وسلوک کی راہوں ' نجات اور ہلاکت کی تمام باتوں ' ہدایت کے راستوں' مکارم اخلاق' سعادت کے اسباب ' مہلکات سے نجات کے طریقوں اور اعلیٰ ترین درجے کے انسانی کمال تک پہنچنے کی راہوںکو بہترین الفاظ میں بیان کیا ہے۔اس مختصر تحریر میں امام علی کے مخاطب صرف آپ کے فرزند امام حسن نہیں۔ بلکہ آپ نے اپنی حکیمانہ گفتگو میں حقیقت کے متلاشی تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے اس وصیت کا اہم حصہ انسان کی خود سازی پر توجہ ہے خود سازی کے ساتھ ساتھ اس وصیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کہ کس طرح امام علی علیہ السلام دوسروں کے بارے میں سوچتے تھے اور کس طرح انہیں انسانیت کی فکر رہتی تھی کہ انہوں نے رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے زندگی کے تجربات کو ان کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کی ہے لہذا ہم پر بھی لازم ہے کہ اگر ہم محبت علیؑ کا دم بھرتے ہیں تو علی کی طرح پہلو میں ایک ایسا دل بھی رکھیں جو صرف اپنے لئیے نہیں بلکہ اپنے تمام ہمنوعوں کے لئیے دھڑکے جس کا ہم و غم اپنی ذات نہ ہو کر پوری انسانیت ہو اسی لئے امام
علی علیہ السلا م نے نہ ظالم کے لئے کچھ بیان کیا کہ ظالم کیسا ہو تو اسکی مخالفت کرنا ہے نہ مظلوم کے لئے بیان کیا کہ مظلوم کون ہو تو حمایت کرنا ہے بلکہ مطلق طور پر بیان کیا ظالم چاہے تمہارے قبیلہ کا ہی کیوں نہ ہو تمہارے دین کا ماننے والا ہی کیوں نہ ہو تمہار اکوئی اپنا کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ظلم کرے تو علی ع کا مطالبہ ہے ہرگز خاموش نہ بیٹھنا اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جانا ،اب مظلوم چاہے کوئی غیر ہو جس سے تمہارا تعلق نہ ہو لیکن چونکہ وہ مظلوم ہے اسکی حمایت کرنا تمہارا فرض ہے اگر ہم علی ع کے پیرو اور انکے شیعہ ہیں تو ضرورت ہے کہ اٹھیں اور جہاں بھی ظلم ہے اس کے خلاف آوا ز اٹھائیں کہ علی ؑ کا مطالبہ ظالم اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑےہونے کا ہے علی ؑ کا مطالبہ ہے اپنے وجود کے قید سے ہم باہر نکلیں انسانیت کے لئے سوچیں ۔آج ہمیں اپنی ذات کے حصار سے نکل کر عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کے بارے میں سوچنا ہوگا یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا جس دین سے تعلق ہے وہ ہمیں کس راستہ پر لے کر جانا چاہتا ہے اور ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ ہمیں اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی ،اجتماعی شعور اپنے اندر بیدار کرنا ہوگا ؟ سیاسی تجزیہ کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی عالمِ اسلام ایک عرصے سے جس ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہے، درد مند، حلقے اس پر سراپا اضطراب ہیں لیکن صورت حال کی یچیدگی اور مسائل کی سنگینی کچھ اس نوعیت کی ہے کہ کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔یہ مسائل دو قسم کے ہیں۔ ایک عالمِ اسلام کے اندرونی اور باہمی مسائل و تعلقات۔دوسرے جارح استعماری طاقتوں کے پیداکردہ مسائل و مشکلات۔
اول الذکر میں ہر مسلمان ملک میں اندرون ملک اسلامی اور غیر اسلامی طاقتوں کی کش مکش اور ان کے درمیان محاذ آرائی اور کئی اسلامی ممالک کا آپس میں باہمی تصادم ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو غاصب اسرائیل ماہ مبارک رمضان میں مظلوم فسلطینیوں کا خون بہا رہا ہے تو دوسری طرف اسلام کا نام لینے والے سعودی عرب جیسے ممالک اپنے ہی بھائیوں کو یمن میں خاک و خوں میں غلطاں کر رہے ہیں کیا ہمارے لئے لازم نہیں کہ ہم آجکی شب دعاء کے ساتھ کوشش کریں کہ کم از کم اپنی اپنی سطح پر مسلمان ایک دوسرے سے دست بگریباں نہ ہو سکیں ۔غرض پہلا مسئلہ عالم اسلام کا ہے اس لئے ہمیں پورے عالم اسلام کے لئے دعاء کرنا چاہیے ۔ دوسرا بیت المقدس کا مسئلہ ہے جو ایک عرصے سے اسرائیل کے غلبہ و تسلط میں ہے اور اسرائیل نے اسے اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے اور اس کی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کا یہ حال ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھی عرب علاقے پر چڑھ دوڑتا ہےجو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے ؟ اگر علی ع ہوتے تو کیا یہ سب دیکھ کر خاموش ہو جاتے ؟ کیا علیؑ ہوتے تو شبہایے قدر میں اپنے لئے دعائیں کر کے سبکدوش ہو جاتے ؟ یا پھر دعائوں کے ساتھ ظالم و غاصب اسرائیل کی نابودی کے لئے عملی طور منصوبہ بندی بھی کرتے اور پروردگار سے بھی گڑگڑاکر دعاء کرتے کے مالک مسلمانوں میں اتحاد و بصیرت پیدا کر کے اپنے حق کے لئے لڑ سکیں اور حق پر مر سکیں ۔ ان شبہایے قدر میں ہمیں عالم اسلام کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے وہیں تکفیریت کے خطرات سے بھی خدا کے حضور پناہ مانگتے ہوئے اس کے چارہ کار اور اس سے مقابلہ کی راہوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے چنانچہ دو ذکر کئے گئے مسئلوں عالم اسلام کی مشکلات وفلسطین کے علاوہ ہمارا تیسر بڑامسئلہ تکفیریت کے خطرات کا ہے جس کے بموجب رمضان اللمبارک جیسے بندگی کے مہینہ میں بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور شیعیوں کو صرف اس لئیے تکفیریت کی جانب سے بڑی طاقتوں کی ایماء پر نشانا بنایا جا رہا ہے کہ وہ در اھلبیت اطہار علیھم السلام کے سوا کسی بھی در پر جھکنے کو تیار نہیں لہذا سعودی عرب ، بحرین ، یمن و لبنان سے لیکر نائجریا تک ان عاشقان علی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں یہاں پر ہم سب ملک کر عزم بلالی رکھنے والے افریقا کے خمینی وقت جناب آیۃ اللہ زکزاکی کے لئے دعا گو ہیں کہ خدا اس مرد مجاہد کو ظالموں پر کامیابی عطا فرما اور جلد انہیں اپنی قوم و اپنے گھر والوں سے ملا دے ۔ایک طرف تکفیریت ہے جو اسلام کے چہرہ کو دنیا میں مسخ کر کے پیش کر رہی ہے اور استعمار کے اہداف کے تحت پورے عالم اسلام میں خون کی ہولی کھیل رہی ہے اسے صرف شیعوں سے عناد نہیں یہ اپنے علاوہ ہر ایک کی تکفیر کرکے انہیں قتل کر کے اس کی تشہیر کرتے ہیں تاکہ اپنی بے رحمی اور اپنی حیوانیت کو اسلام کے کھاتے میں رکھ کر اسلام کو بدنام کریں تو دوسری طرف دوسری طرف عالم اسلام کی بے حسی قابل ماتم ہے کہ اس سلسلے میں اسے جس طرح سرگرم عمل ہونا چاہئے اور اس کے لئے جس جذبہ ایمانی اور جوش جہاد اور عزم و تدبر کی ضرورت ہے وہ مفقود ہے۔ کانفرنسیں ہو رہی ہیں لیکن نشتند و گفتند و برخاستند کی مصداق اور دشمن ہیں کہ وہ اپنے دانت اور تیز کیے جا رہے ہیں، ان کا پنجہ استبداد پھیلتا جا رہا ہے اور ان کی گرفت مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ان حالات میں عام لوگوں کے لیے صبر و شکیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے، تاہم مایوس و دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
اللہ کی نصرت و غیبی تائید پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اس نصرت الہیٰ کے حصول کے لئے رمضان کی مبارک ساعتوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے اور کیا ہی خوب کی ان دعاوںمیں ہمارے پیش نظر امام علی علیہ السلام کی وہ وصیتیں بھی ہو ں جو امام علی علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کی تھیں کیاہی خوب ہو کہ نھج البلاغہ کے ۴۷ مکتوب کو ایک بار ہم اٹھا کر پڑھ لیں کہ اس کے اندر پوری انسانیت کے لئے ایک پیغام ہے ،کاش ہم شبہائے قدر میں تلاوت ، و عبادت و ذکر کےساتھ تھوڑا سا وقت نکال سکیں اور سوچیں کہ علی ع نے ہم سے کیا چاہا ہے اور شک نہیں ہے علی علیہ السلام کی زندگی کے رہنما اصولوں کے سایہ میں پوری دنیا میں امن و امان کی فضا کو ہموار کیا جا سکتا ہے ایک ایسی دنیا بنائی جا سکتی ہے جہاں کوئی ظالم نہ ہو ظلم کا خطرہ نہ ہو کسی کو کسی بھائی کی جانب سے زیادتی کا خوف نہ ہو سب مل جل کر راہ بندگی کی طرف بڑھیں کہ بندگی میں ہی سب کی حیات ہے ۔