تاریخ میں بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ دوسروں کے لئے وقف کر دیا تھا۔ دامن اسلام ایسی بےشمار ہستیوں سے پُر ہے جنہوں نے راہ خدا میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے۔ چونکہ انہیں اپنی ذات سے بڑھ کر انسانیت کی فکر تھی۔ اگر وہ آستانہ فنا سے رحلت بھی کر گئے تو بھی لوگوں کے درمیان ایسے ہی زندہ رہے جیسے کہ وہ ابھی ہیں۔ ان مقدس ذوات کی فہرست میں امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کو اس کائنات فانی سے کوچ کئے ہزار برس سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں لیکن انجیل اہل بیت، زبور آل محمد اور اخت القرآن یعنی صحیفہ سجادیہ کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا آپ عصر حاضر میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ حق و باطل کے مابین لڑی گئی جنگ کے عینی شاہد ہیں۔ آپ نے ان انسان نما حیوانوں کے بہیمانہ کرتوت اور ریگزار کربلا پر بہتر کے بے گور و کفن لاشے دیکھے۔ آپ نے جذبات کو ہمیشہ عقل کا تابع بنائے رکھا ورنہ اس بحرانی کیفیت میں انسان جوش میں آ کر ہوش کھو بیٹھتا ہے۔
کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا ہر لمحہ امام کے دل پر نشتر تھا۔ ہر آن نت نئی جفا جوئی اور بیداد گری سے دل آزاری کی جاتی تھی لیکن آپ نے مشیت الٰہی کے مقابل میں اف تک نہ کی۔ کرب و بلا کی اس خوں آشامی کے بعد لوگوں کے ضمیر بیدار ہونے لگے اور رفتہ رفتہ ان کی چشم بصیرت کھلتی گئی۔ جس کے باعث کچھ مخلص افراد سچے جذبہ ایمانی کے ساتھ حکومت وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بعض نے حصول اقتدار کی طلب میں ان کی ہمراہی اپنا لی۔ اس وقت امام علیہ السلام کا کسی بھی گروہ سے منسلک نہ ہونا آپ کو عوام الناس کی صفوں سے ممتاز بنا گیا۔ عام خیال تو یہی کہتا ہے کہ چاہے وہ انتقام، حسینی جذبہ سے سرشار نہ ہو بلکہ صرف بنی امیہ کے عناد میں ہو تب بھی آپ کو ان کی حمایت کا اشارہ کر دینا چاہیئے تھا لیکن چونکہ امام چہارم کی نگاہ حال سے بالاتر مستقبل پر تھی اور آپ کو اس بات کا کامل علم تھا کہ اس وقت قیام کرنا سعی بے سود ثابت ہو گا۔ اس لئے آپ نے کسی بھی گروہ کی حمایت نہ کر کے اپنی عاقبت اندیشی کا کامل ثبوت فراہم کیا اور ہمیں سکھا گئے کہ عقل کو جذبات پر فاتح ہونا چاہیئے۔
آپ کا کسی بھی مسلحانہ اقدام میں شامل نہ ہونا اسباب سے عاری نہ تھا۔ چونکہ حالیہ حکومت کی آپ پر کڑی نظر رہتی کہ کہیں آپ حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کر لیں۔ اگر آپ ان حکومت مخالف گروہ کے ساتھ شامل ہو جاتے تو حکومت کی پوری توجہات آپ کی جانب مرکوز ہو جاتی اور جیسے ہی موقع ہاتھ لگتا آپ کو قید کر لیتی یا پھر آپ کے چراغ زندگی کو خاموش کر دیا جاتا۔ اگر ہم اس بات کے معترف ہو جائیں کہ حکومت آپ تک رسائی نہیں کر سکتی تھی، پھر بھی آپ کی زندگی کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا اور اس بات کا بھی امکان تھا کہ آپ پر بھی جناب مختار ثقفی کی مانند ہوس و اقتدار کا الزام تھوپ دیا جاتا۔ ان وقتی اور جذباتی تحریک میں عدم شمولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کو پیغام انسانیت کی نشر و اشاعت کرنا تھی تا کہ معاشرہ میں بسنے والوں کو معلوم ہو کہ کربلا اسلحوں کی جنگ کا نام نہیں بلکہ دائمی کردار کی کسوٹی کا نام ہے۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ ملحق نہ ہونا اور بندگی معبود میں مصروف رہنا درحقیقت (خموشی سے) دین کی تبلیغ تھی۔ وگرنہ دین الٰہی کے دشمن آپ کے چراغ حیات کو مدہم کرنے میں کوئی لمحہ فروگذاشت نہ کرتے۔
واقعہ کربلا کے بعد اسیران حرم کی قافلہ سالاری، دشمن کے دربار میں دندان شکن خطبہ سے یزیدیت کو باطل اور حسینیت کو حق ثابت کرنا اور اپنے کردار و کلام سے حقیقت ابدی کو محفوظ کرنا عین مقصد اسلام تھا۔ اگر آپ ببانگ دہل حق و حقانیت کی تبلیغ کرتے تو شاید اسلام کی حقیقی تصویر صحیفہ سجادیہ آج ہم تک نہ پہنچ پاتی۔
نامساعد حالات میں امام سجاد علیہ السلام نے انسانیت کے پیغام کی اشاعت میں کوئی وقفہ نہیں کیا بلکہ سیاست کے شکنجوں کے سخت ہونے کے باوجود آپ الٰہی مشن میں کوشاں رہے۔ ہاں! تبلیغ کا انداز تبدیل ہو گیا تھا لیکن مقصد فقط انسانیت اور دین اسلام کی بقا رہا اور اپنی عبادتوں سے شریعت محمدی کے دم توڑتے چراغ حیات کو چمکتے سورج میں تبدیل کر دیا۔ امام علیہ السلام نے رہتی کائنات کو یہ سبق دیا ہے کہ تاریخ کے سرد و گرم حالات میں بھی ہم اپنے دینی فرائض سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر حالات و شرائط بے وفائی کر جائیں پھر بھی مصلی عبادت پر بیٹھ کر دعاوں کی صورت ترویج دین کرتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں کبھی بھی حالات کی ابتری اور شیرازہ میں برہمی سے مرعوب نہیں ہونا چاہیئے بلکہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مانند بشریت کی فلاح و بہبود میں کوشاں رہنا چاہیئے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)