شمس الملت شیخ محمد بن مکی عاملی المعروف ’’شہید اول‘‘ کا تعلق جبل عامل کے علاقے سے ہے۔ جبل عامل کا علاقہ اب موجودہ لبنان میں واقع ہے، لیکن ماضی میں جب اسلامی حکومت سرحدوں کے لحاظ سے بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی، اس وقت جبل عامل کا علاقہ شام کی سلطنت میں شامل تھا۔ جبل عامل کا علاقہ ہمیشہ سے اہل بیتؑ کے جاں نثاروں کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور آج بھی اسرائیل اور اس کے حواریوں کو اگر سخت ترین مزاحمت کا سامنا ہے تو اس میں جبل عامل کے سپوتوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ دراصل یہ وہ سرزمین ہے، جہاں حضرت ابوذر غفاریؓ کو سزا کے طور پر جلا وطن کرکے بھیجا گیا تھا۔ حضرت ابوذر غفاری جبل عامل میں کچھ عرصہ رہے تھے کہ یہاں بغاوت بلکہ انقلاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو انہیں بحرین کے اطراف میں دھکیل دیا گیا، لیکن جب وہاں بھی محبت اہل بیتؑ دلوں میں گھر کرنے لگ گئی تو انہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا اور پھر مجبوراً انہیں دوبارہ مدینے بھیج دیا گیا، مدینے سے پھر نکال دیا گیا اور ’’ربذہ‘‘ جانے کا حکم دے دیا گیا، جہاں حضرت ابوذر غفاریؓ کا انتہائی کسمپرسی کے عالم میں انتقال ہوا جبکہ آپ کے پاس سوائے آپ کی بیٹی یا اہلیہ کے کوئی تیسرا فرد نہ تھا، جبل عامل اب آج کل جنوبی لبنان کا علاقہ ہے اور اس کے مشہور شہروں میں ” بعلبک، جباعہ، نقبطیہ جزین، صیدا اور دیگر چھوٹے شہر شامل ہیں اور یہ سارا ہی علاقہ ہی تقریباً شیعہ نشین ہے۔
شہید اول اسی جنوبی لبنان کے علاقے جزین میں 734 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے قصبہ میں ہی حاصل کی۔ والد نے ذہانت دیکھتے ہوئے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے عراق جانے کی اجازت دے دی۔ آپ عراق کے شہر حلہ تشریف لائے، کمسنی میں ہی ’’فخر المحققین‘‘ سے ’’اجازہ نقل حدیث‘‘ حاصل کیا، پھر نجف اشرف تشریف لائے اور صرف سترہ (۱۷) سال کی عمر میں اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے۔ علامہ حلی کے دروس میں شریک ہوتے رہے۔ اس کے بعد درس و تدریس خاص طور پر مذہب حقہ کی ترویج کے لئے مکہ، مدینہ، بغداد، مصر، دمشق، بیت المقدس، حلب، مقام الخلیل ابراہیم اور دیگر درجنوں شہروں کا سفر کیا۔ ان شہروں میں دیگر مکاتب کے بڑے بڑے فقہاء سے آپ کے بحث مباحثے بلکہ مناظرے بھی ہوتے رہے اور اس طرح آپ کی شہرت سارے عالم اسلام میں پھیل گئی جبکہ آپ ابھی جوانی کی منزلوں میں تھے۔ شہید اول شمس الدین محمد بن مکی کی یہ شہرت اور علمی بلندی ان کے لئے خطرناک ثابت ہوتی چلی گئی، دیگر مذاہب کے شکست خوردہ فقہاء نے آپ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی اور وہی ہمیشہ کا مکروہ ترین حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا اور عوام الناس میں انہیں رافضی، غالی اور نصیری کے نام سے مشہور کرنا شروع کر دیا (اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دشمنان تشیع آج بھی اسی جھوٹے پروپیگنڈے کے ہتھیار سے ہمارے گلے کاٹ رہے ہیں)۔
آپ کی شہادت کے واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اسی زمانے میں بلاد اسلامی میں تشیع کے خلاف اس قدر پروپیگنڈا تھا کہ ہر گلی محلے کی مساجد اور مدارس میں شیعوں کو گمراہ اور بدعت گزار فرقے کی حیثیت سے عوام الناس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا، لیکن شہید اول نے یہ پروپیگنڈا باطل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور شہر شہر قریہ قریہ سفر کرتے تھے، دیگر مکاتب فکر کے علماء اور فقہاء سے گفتگو کرتے تھے، جس کے نتیجے میں صاف دل لوگ چاہے عوام الناس ہوں یا علماء ان کی غلط فہمیاں دور ہوتی تھیں اور یہاں تک کہ بہت سے لوگ ’’مذہب حقہ‘‘ قبول کر لیتے تھے اور اگر قبول نہیں بھی کرتے تھے تو ایک رواداری اور محبت کے ماحول میں مددگار ثابت ہوتے تھے۔ مگر دوسری طرف جو سینے بغض و عناد سے پر ہوتے تھے، ان پر یہ ماحول بہت گراں گزر رہا تھا اور ان کا برسوں کا پروپیگنڈا نقش بر آب ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں جب شہید اول دمشق میں مقیم تھے تو مخالفین کو آپ کے خلاف سازش کا بھرپور موقع مل گیا۔
اس زمانے میں شام پر "برقوق‘‘ خاندان کے ’’سیف الدین برقوق‘‘ کی حکومت تھی، جو دشمنی اہل بیتؑ میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ دمشق کے دو ملا شہید اول کے علم کے سامنے عاجز آنے کے بعد آپ کے خلاف ایک مقدمہ تیار کرتے ہیں اور دمشق کے ان تمام علماء کو جمع کرکے یہ مقدمہ ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ دو ملا یعنی مثلاً ملا تقی الدین جبلی اور ملا یوسف ابن یحییٰ اپنے ہم خیال ستر افراد کے دستخط اس بات پر لیتے ہیں کہ شیخ شمس الدین محمد ابن مکی فاسد عقیدہ رکھتا ہے، رافضی ہے اور حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرتا ہے اور پھر اس دستاویز کی حمایت میں ایک ہزار جاہلوں سے اپنی مرضی کے خط لکھوائے جاتے ہیں اور پھر یہ مقدمہ بیروت کے قاضی کی عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے، بیروت اور صیدا کے قاضیوں کی گواہی لے کر اسے دمشق کے قاضی عباد ابن جماعہ کو بھیجا جاتا ہے۔ عباد ابن جماعہ اس دستاویز کو قاضی برہان الدین کو بھیجتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اس آدمی (شہید اول) کے لئے اپنے مذہب کے مطابق فتویٰ دو، ورنہ تمہیں تمہارے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔“
کیونکہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہو رہا تھا، اس لئے سب نے شہید اول کے خلاف فیصلہ دیا اور ان ملاؤں کے فیصلے کو سلطان برقوق کے سامنے رکھا گیا۔ سیف الدین برقوق نے تمام مذاہب کے علماء (غیر از تشیع) اور منصب داران مملکت کو دربار میں جمع کیا اور پھر شہید اول کو دربار میں طلب کیا گیا۔ سلطان نے اس مرد خدا پر لگائے گئے الزامات کو دہرایا۔ شمس الدین محمد بن مکی نے ان سارے الزامات کی تکذیب کی، لیکن آپ کی تکذیب کو قبول نہیں کیا گیا اور زندان میں ڈال دیا گیا اور سلطان نے قاضی برہان الدین مالکی کو فیصلے کا اختیار دے دیا۔ قاضی بربان الدین مالکی جو شہید اول سے بحث و مباحثہ میں شکست کا داغ دل میں لئے بیٹھا تھا، اس نے شیخ شمس الدین کے قتل کا فتویٰ دے دیا، آپ کو پھانسی کا لباس پہنایا گیا اور دمشق کے قلعے میں 9 جمادی الاول ۷۸۶ ہجری بروز جمعرات ۵۱ سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔ ان افراد کے بغض و کینے کا عالم یہ تھا کہ آپ کو صرف پانی ہی نہیں دیا گیا بلکہ پھانسی کے بعد آپ کی لاش کو سنگسار کیا گیا اور سنگسار کرنے کے بعد آپ کے لاشے کو جلا دیا گیا۔
آپ کے واقعات کی تفصیل کے لئے پوری ایک کتاب درکار ہے، لیکن محدودیت کے پیش نظر ہم نے جواں نسل کے لئے اس مجاہد عالم کی زندگی کا خاکہ خلاصہ کے طور پر ذکر کیا۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم چند کا ذکر کئے دیتے ہیں، جو آج بھی حوزه ہائے علمیہ میں رائج ہیں۔ ان میں مشہور ترین کتاب ’’اللمعة الدمشقیہ‘‘ ہے، جو آپ نے خراسان کے لوگوں کے لئے شام کے زندان میں لکھی اور خفیہ طریقے سے خراسان تک پہنچی۔ یہ کتاب پڑھے بغیر کوئی بھی عالم اجتہاد کی منزلوں میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ "دروس و الشریعہ فی فقہ الامامیة، غاية المراد في شرخ تکت الارشاد، جامع المعین من فوائد الشرحین، البیاں، رسالہ فی الباقیات، الصالحات اور ان کے علاوہ بے شمار چھوٹے بڑے رسالے اور مقالے۔ یہ ہیں مذہب اہل بیتؑ کے وہ حقیقی جانباز، جو ہر دور میں انصار حسینیؑ کے مصداق رہے۔ جنہیں راہ عشق علیؑ و آل علیؑ میں بدترین انتقام کا نشانہ بننا پڑا، مگر ان کے قدم راہ استقامت پر ڈگمگا نہ سکے۔ خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت راوَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ