سوال یہ ہے کہ آخر اس زمانہ میں اجتہاد کی اتنی مخالفت کیوں ہورہی
ہے؟۔ ہمارے نظام تقلید کے خلاف اتنے زور و شور سے پروپگنڈہ کیوں ہورہا ہے؟ یوں تو اخباریت اس سے پہلے بھی موجود رہی ہے لیکن اس پہ اتنا زیادہ زور و شور نہیں رہا ۔ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جب سے ایران کا اسلامی انقلاب آیا تب سے کچھ مرجعیت کے خلاف اور تقلید کے خلاف اور ہمارے مجتہدین کے خلاف ایک بہت زیادہ طوفان اٹھایا جارہا ہے اور کوشش یہ ہورہی ہے کہ یہ ہمارا نظام تقلید ختم ہوجائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارا نظام خمس، اس کی بھی شدید مخالفت کی جارہی ہے، ایک طبقہ کی طرف سے۔ تو ہم تو سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ تو واقعاً سازش کا شکار ہیں اور کچھ بے چارے اپنی نادانی میں یہ تمام باتیں کہتے ہیں چونکہ ان کو معلومات زیادہ نہیں ہے۔ جب ایران کا اسلامی انقلاب آیا تو امریکہ کی ایک بہت مشہور میگزین ہے میں نے اس سے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے اس چیز کا اور آج بھی اسے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی ایک بہت مشہور میگزین ہے نیویارک ٹائمس اس نے ایک مضمون چھاپا تھا اور ہندوستان کا ایک بہت مشہور اخبار ہے ٹائمس آف انڈیا اس میں اس کی نقل چھپی تھی اور اس میں اس نے یہ سبب بیان کیا تھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ ایران میں تو اسلامی انقلاب آگیا۔اور بہت سے دوسرے مسلمان ملک ہیں جہاںانقلاب نہیں آسکا۔ تواس کا اس نے تجزیہ کیا تھا۔ اس کی اور اس کی انالیسAnalasis(نفسیاتی تجزیہ) اس نے لکھی تھی اور اس نے بہت گہرائی میں جاکر وہ باتیں جو اس نے تلاش کرکے لکھی تھیں۔ پہلی بات جو اس نے لکھی تھی وہ یہی مرجعیت ہے کہ یہ مرجعیت کا زور ہے جو اسلامی انقلاب آیا۔ کیونکہ اب جب مقلد نے کہہ دیا ہے وہاں سے اور فرانس سے اعلان کردیا کہ اب کسی کو بھی عاشور کے دن گھر کے اندر نہیں رہنا ہے تو پورے ایران میں ایک ایک بچہ گھر سے باہر نکل آیا۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف مرجعیت کی طاقت تھی۔ یہ صرف مرجعیت کا زور تھا۔ کہ پورے ایران میں لاکھوں نہیںکروڑوں لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ اور اس کے بعد جو ایران کا شاہ تھا اس کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی مرجعیت ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو شکست ہوئی بڑی طاقتوں کو شکست ہوئی ایران میں۔
اسی طرح سے آپ آج دیکھ لیں کہ پوری کوشش یہ ہورہی ہے کہ عراق ٹکڑے ٹکرے ہوجائے امریکہ کی سازش ہے اور دوسری بڑی طاقتیں ہیں ان کی یہ سازش ہے کہ عراق کو تین ٹکڑوںمیں بانٹ دیں۔ شیعہ سنی اور کرد جبکہ دھوکہ دیا جاتا ہے کرد کو کرد کہہ کر جبکہ کرد بھی اہل سنت ہی ہیں۔ لیکن اس کو کہا جاتا ہے کہ تین قومیں وہاں رہتی ہیں۔ ایک شیعہ ہیں ایک سنی اور ایک کرد ہیں۔ اور ان میں آپس میں چاہتے ہیں کہ اتنا زیادہ کشت و کشتار ہو اتنا زیادہ خون خرابہ ہو کہ آخر میں کہا جائے کہ چونکہ صاحب یہاں امن قائم نہیں ہورہا ہے اور بہت زیادہ جانیں جارہی ہیںلہٰذا بہتر ہے کہ عراق کو تقسیم کردیا جائے۔ اسی لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کتنے دھماکے ہوئے ۔ سامرہ جو ہمارے اماموں کا روضہ تھا کس طرح سے اس کو دوبار بموں کے ذریعہ اڑایا گیا۔ کوئی اور مقام ہوتا اور کوئی اور قوم ہوتی تو کتنا خون بہہ گیا ہوتا اور لاکھوں لوگ مارے گئے ہوتے ۔ لیکن ایک فتویٰ آگیا آیت اللہ سیستانی مدظلہ کا کہ نہیں کوئی جھگڑا نہیں ہوگا، کوئی فساد نہیں ہوگا، کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔ انکا فتویٰ انٹر نیٹ پر موجود ہے کہ اہل سنت ہمارے بھائی ہیں اور یہ صرف اسلام دشمن طاقتوں کی سازش ہے جس کی وجہ سے یہ کاروائی ہوئی ہے۔ لہٰذا ہلکی سی بھی انتقامی کاروائی نہیں ہوگی۔ تھوڑابہت شروع ہوگیا تھا لیکن جیسے ہی یہ فتویٰ آیا وہ سب رک گیا۔ ورنہ وہ جو سازش تھی کہ عراق کو تقسیم کردیا جائے وہ اسی دن پوری ہوجاتی، کہ جب سامرہ کے روضوں کو بموں سے اڑایا گیا تھا۔ لیکن یہ کس کی طاقت ہے کوئی دنیا کی طاقت یہ روک نہیںسکتی تھی فساد کو اس طرح سے۔ یہ صرف اور صرف مرجعیت کی طاقت تھی کہ ایک بیان میں سارے فساد رک گئے وہاں کے ۔ ساری کارروائی رک گئی اور اس کے بعد جو اس کی سازش تھی وہ ناکام ہوگئی ۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ سب امریکہ اور یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کتتی بڑی طاقت ہے،جس کی وجہ سے ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئی چلی جارہی ہیں۔ لہٰذا اب ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ جس طرح سے ایران میں شکست ہوئی ان کو، جس طرح سے عراق میں شکست ہورہی ہے ،جس طرح سے اور مقامات پر شکست ہورہی ہے، اس کی بنیاد یہی مرجعیت ہے ۔ وہ چاہتے ہیںکہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ سے کچھ توخیر واقعی ایجنٹ ہیں اور کچھ اپنی نادانی میں مشکوک کہنا چاہئے کہ سمجھ نہیںپا رہے ہیں بات کو صحیح طریقہ سے، اور اپنی نادانی میں شکارہوگئے ہیں۔ اور اس طرح سے وہ مرجعیت کی اور اجتہاد و تقلید کی مخالفت کررہے ہیں۔ دوسری چیز جو اس نے بیان کی اور بہت زیادہ چھان بین کے بعد کہ دوسرے جو اسلامی ممالک ہیں ان میں انقلاب کیوں نہیں آیا اور ایران میں کیوں آگیا۔ اس کا سبب اس نے یہ بیان کیا کہ نظام خمس ہے شیعوں میں اور دوسرے فرقوں کے جو علماء ہیں وہ اپنے اداروں کو چلانے کیلئے اپنے مدرسوں کو چلانے کے لئے اپنے خرچوں کے لئے وہ حکومتوں کے محتاج ہیں۔ آج جتنے بھی ملک ہیں ان کے خلاف کوئی فرقہ یا مولوی کیوں نہیں بول رہا ہے۔ کچھ کر ڈالیں وہ امریکہ کے غلام ہوجائیں۔ وہ اسرائیل سے تعلقات ہوجائیں کچھ ہوجائے مولوی ان کے فرقے کا خاموش رہتاہے۔ کچھ نہیںبولتا۔ کیوں نہیں بولتا اس لئے کہ اس کو پوری مدد مل رہی ہے اسی حکومت کے ذریعہ سے۔
پورا اس کا خرچ جو ہے چل رہا ہے اسی حکومت کے ذریعہ سے پورا مدرسہ اس کا اسی حکومت کے ذریعہ سے اس کا خرچ جو ہے وہ چلا یا جارہا ہے۔ تو اب اس کی ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ ایک لفظ بھی بول سکے ۔ کیونکہ اِدھر بولا اُدھر وہاں سے سارا خرچ بند۔ تو اسی لئے حکومتوں کے خلاف وہ لوگ ایک لفظ بھی نہیں بول پاتے لیکن جو شیعیت میں خمس کا نظام ہے اس میں جو ہمارے مجتہدین ہیں جو ہمارے علماء ہیں وہ حکومتوں سے آزاد ہیں۔ ان کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ حکومتوں کے سامنے سرجھکائیں بلکہ نظام خمس کے ذریعہ سے ان کا رابطہ عوام سے رہتا ہے، حکومتوں سے نہیںرہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر وہ حکومتوں کے سامنے سر نہیں جھکاتے اور نہ ان کا کوئی خرچ حکومتوں کے اوپر رہتاہے۔
یہ دو چیزیں اس لئے بیان کی ہیں کہ یہ دوسبب ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایران کا انقلاب آیا ہے۔ اور آج بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے امریکہ کی سازشیں جو ہیں وہ ناکام ہورہی ہیں۔ تو امریکہ ہو اسرائیل ہو یا دوسری بڑی طاقتیں ہوں وہ خالی انالسس کرکے خاموش بیٹھ نہیں جاتے بلکہ وہ اس کے خلاف اس کو ختم کرنے کے لئے اس کو مٹانے کے لئے اپنی پوری طاقت لگادیتے ہیں لہٰذا آپ دیکھ رہے ہیں کہ اخباریت زیادہ سے زیادہ اس کو بڑھایا جارہا ہے پھیلایا جارہا ہے۔ کیونکہ اخباریت میں تقلید نہیں ہے۔ اجتہاد نہیں ہے اخباریت میں خمس کے خلاف جو ہے وہ عقیدہ رکھا جاتا ہے لہٰذا یہ ہوا کہ اخباریت کو بڑھاؤ تاکہ یہ مرجعیت بھی ختم ہوجائے اور نظام خمس بھی ختم ہوجائے تاکہ ان کی سازشیں کامیاب ہوجائیں۔ تو اس پر میں کہوں گا کہ کچھ لوگ تو واقعی ایجنٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، اللہ کرے کہ میری بات صحیح نہ ہو۔ اور بعض لوگ جو ہیں اپنی نادانی میں اپنی جہالت میں ان کی سازشوں کا شکار ہوجاتے ہیں تو میں ایک سبب یہ سمجھتا ہوں اس کا۔ اور دوسری چیز یہ ہے کہ اخباریت تو پہلے بھی تھی لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دی ہوں کسی مجتہد کو برا بھلا کہا ہو۔ مگر اب جو اخباریت چل رہی ہے، چونکہ امریکہ اور اسرائیل کے تحت چل رہی ہیں، لہٰذا اب یہ بہت گندی باتیں مجتہدین کے خلاف لعنت ہے اور یہ حلال زادہ نہیں ہیں، اور اس طرح کی چیزیں۔ تاکہ شیعوںمیں آپس میں خون خرابہ ہو۔ اب کون شیعہ برداشت کرے گا کہ مرجع وقت کو کوئی اس طرح سے گالی دے۔ ظاہر ہے کہ اس میں فساد پیدا ہوگا، اس میں جھگڑا پیدا ہوگا اور یہی امریکہ بھی چاہتا ہے یہی اسرائیل بھی چاہتا ہے اور یہی اسلام دشمن دوسری طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ شیعوں میں آپس میں خون خرابہ ہو۔ اس لئے آپ دیکھئے انٹر نیٹ پر اور پمفلٹ کے ذریعہ سے بہت زیادہ غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں ۔ اور دیکھئے حیدر آبادمیں فساد ہو بھی چکا ہے ایک مرتبہ وہ ایک مولانا تھے جنہوں نے اخباریت شروع کی وہاں پر۔ بہر حال اللہ بہتر جانتا ہے میری معلومات کے مطابق انہوں نے آیت اللہ خوئی اعلیٰ اللہ مقامہ سے اجازہ خمس مانگا تھا کہ مجھے خمس جمع کرنے اور خرچ کرنے کی اجازت دیجئے۔ شاید انہوں نے مناسب نہیں سمجھا یا ان کے اوپر اعتبار یا بھروسہ نہیں کیا ہوگا۔ انہوں نے اجازہ نہیںدیا، اس کے بعد سے وہ مرجعیت کے خلاف ہوگئے۔ انہوں نے گالیاں دینا شروع کیں اور بہت زیادہ لعن طعن اس بارے میں انہوں نے شروع کردی۔
الہ آباد میں علوی صاحب ہیں جن کے یہاں میں مجلسیں پڑھنے جاتا ہوں تو وہاں حیدر آباد ہی کے ایک خوجے صاحب تھے، بہت پڑھے لکھے تھے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے وہ مجھ سے ملے اور اس کے بعد وہ بیان کرنے لگے کہ حیدر آباد میں ان صاحب سے ملے کہ جو مرجعیت کے خلاف اخباریت کی تبلیغ کررہے تھے اور ان سے بھی کہا کہ اجتہاد اور تقلید یہ سب غلط ہے۔ لہٰذا آپ جو ہیں اس کو چھوڑیے تقلید کو ۔ تو انہوں نے کہا میں کیا کروں میرے پاس تو اتنا موقع نہیں ہے، میرے پاس تو اتنی تعلیم نہیں ہے نہ میں عربی جانتا ہوں نہ فارسی جانتا ہوں نہ میرے پاس وقت ہی اتنا ہے کہ میں مسائل کو سمجھ سکوں ان سے معلوم کرسکوں لہٰذا میں کیا کروں تو ان مولانا نے کہا جو تقلید کے مخالف تھے اور اجتہاد کے انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھئے ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ صاحب جب آپ ہی سے پوچھنا ہے، تو میں آپ سے کیوں پوچھوں آیت اللہ خوئی سے کیوں نہ پوچھوں؟ یوں بھی جب پوچھنا ہی پوچھنا ہے تو اسی کو تو تقلید کہتے ہیں۔ اور پھر میں آپ سے کیوں پوچھوں آپ کا علم زیادہ نہیں ہے آپ کی معلومات زیادہ نہیں ہے، میں ان سے کیوں نہ پوچھوں جنہوں نے ساٹھ سال محنت کی ہے، ساٹھ سال علم حاصل کرنے میں لگا دئے ہیں، ان سے پوچھوں۔ تو اس کے بعد ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ مل سکا ۔ تو یہ سمجھ لیجئے دھوکا ہے اصل میں دھوکہ ہے ۔
اور اصل میں حقیقت یہ ہے کہ یا تو مجتہد ہوجانا چاہئے خود انسان کو، اس میں اتنی صلاحیت ہو اس میں اتنی لیاقت ہو کہ وہ خود احکام کو حاصل کرسکے۔ اس کے لئے ظاہر ہے بہت زیادہ علم کی ضرورت ہے، حدیثوں کو آپ سمجھتے ہیں، علم رجال آپ سمجھتے رہیں، قرآن مجید پر آپ کو عبور ہو، عربی زبان جانتے ہوں، فن فصاحت و بلاغت کو آپ جانتے ہوں، تمام رموز، نکات اور جتنی باریکیاں ہیں ان سب سے آپ واقف ہوں۔ اب تو اجتہاد کا دائرہ اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ اب تو اجتہاد کے لئے آج کی جغرافیہ بھی معلوم ہونا چاہئے، آج کی سائنس بھی معلوم ہونا چاہئے۔
اگر فرض کیجئے کہ کوئی نوجوان آکر اس مجتہد سے پوچھے کہ صاحب میں انٹارٹیکا جانا چاہتا ہوں تو وہاں کے بارے میں کیا حکم شریعت ہے؟ تو جب وہ انٹارٹیکا جانتا نہیں تو وہاں کے بارے میں کیا بتائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ میں نارتھ پوسٹ جانا چاہتا ہوں وہاں کے لئے حکم شرعی کیا ہے؟ تو اگر مجتہد جانتا ہی نہیں کہ ساؤتھ پوسٹ کیا ہے اور نارتھ پوسٹ کیا ہے۔ لہٰذا آج تو اور زیادہ ایک مجتہد کو زیادہ معلومات ہونا چاہئے۔ سائنسی معلومات ہوں جغرافیہ کی معلومات ہوں۔ اسی طرح سے اور تمام چیزیں جن کی معلومات ہو تب کہیں جاکر وہ درجۂ اجتہاد تک پہنچے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج اجتہاد کے لئے بہت زیادہ معلومات ہونا چاہئے۔ تو ظاہر ہے کہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں جو اتنا علم حاصل کرلیتے ہیں اور درجہ اجتہاد تک پہنچ جاتے ہیں۔
تو یا تو خود مجتہد ہو یا پھر اجتہاد پر عمل کرے۔ اچھا احتیاط بھی آسان نہیں ہے۔ احتیاط میں یہ ہے کہ جتنے بھی مجتہد زندہ ہیں سب کے فتوے معلوم ہوں کس نے کس چیز کو حرام کیا ہے کس نے واجب کیا ہے بس مستحب کیا ہے کیا کس کا فتویٰ ہے کیونکہ احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ ہم نے حکم شرعی پر عمل کیا ہے۔ تو یقین کیسے حاصل ہوجب فتاویٰ الگ الگ ہیں۔ تو اس کے بعد یہ کہ آپ کو تمام فتاویٰ معلوم ہوں۔ ایک مثال میں پیش کرنا چاہتاہوں تاکہ بات نوجوان اور بچوں تک بھی پہنچ جائے۔ مثلاً دو طرح کے فتویٰ ہیں: کچھ مجتہدین کے فتویٰ ہیں کہ جو بڑے شہر ہیں ان میں جو محلہ ہیں وہی حد ترخص ہیں۔ لمبی لمبی بلڈنگیں ہیں ایک بلڈنگ میں دو ہزار لوگ رہتے ہیں اب ادھر بلڈنگ سے باہر نکلے اور ادھر نماز قصر ، اب یہ ان کا فتویٰ ہے۔ اور کچھ مجتہدین کا فتویٰ نہیں ہے۔ تو اب جو احتیاط پر عمل کررہا ہے اس کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ پوری نماز بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے کیونکہ ایک مجتہد کہہ رہا ہے کہ یہاں پر قصرہوگی اور ایک مجتہد کہہ رہا ہے کہ قصر نہیں ہوگی۔ تو اب اس کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ دونوں طرح سے پڑھے۔ تب اس کو اطمینان حاصل ہوگا کہ حکم شرعی پر عمل ہوگیا۔ تو احتیاط میں بھی علم کی ضرورت ہے اور احتیاط میں بڑی سختی ہے۔
تو یہ دو چیزیں اجتہاد یا احتیاط اب تیسری چیز رہ جاتی ہے تقلید ۔ تقلید جو ہے وہ عوام کے لئے ہے۔ عوام کے لئے اور پبلک کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ مجتہد کی تقلید کریں۔ تو اب سب سے آسان شریعت یہ ہے کہ مجتہد جس نے اتنی محنت کی ہے جس نے پوری زندگی گزاردی ہے جس نے پچاس پچاس سال علم کا سر مایہ حاصل کرنے میں لگا دیا ہے صرف کہنے میں وہ اگر ایک بات کہہ رہا ہے کہ حکم شرعی یہ ہے تو اب ہم آنکھ بند کرکے اس کے اوپر عمل کریں اب یہ ہماری ذمہ دار ی نہیں ہے۔ کوتاہی اس نے کی تو وہ ذمہ دار ہے۔ غلطی اگر اس نے کی تو وہ ذمہ دار ہے ہم سے میدان حشر میں نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیا یہ کیوں کیا۔ بلکہ سوال اس مجتہد سے ہوگا۔ اور اس میں بھی یہی ہے کہ اگر اس نے واقعی خلوص سے محنت کی ہے تو اگر غلطی بھی کی ہوگی تو غلطی کا مواخذہ اس مجتہد سے نہیں کیا جائے گا۔
تو اب دیکھئے کہ اگر اجتہاد نہ ہو تو آج کل کے زمانے میں آدمی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اخباری کہتے ہیں جو قرآن مجید میں ہے اسی پر عمل ہوگا۔ اور جو حدیث میں ہے لفظ بہ لفظ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اجتہاد نہیںہوسکتا عقل استعمال نہیں کی جاسکتی اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے لئے قرآن مجید میں یا کوئی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ملے گی۔ اب مجتہد کیا کہتا ہے کہ چونکہ تذکرہ نہیں ہے لہٰذا اصل برأت ہے قاعدہ برأت جاری ہوگیا۔ لہٰذاسفر کرسکتا ہے کیونکہ منع نہیں کیا گیا ہے، جاری ہوگیا۔ اور اخباری کیا کہتا ہے کہ اصل ہے۔ اس کا مطلب جو اخباری لوگ ہیں جو آج کے اخباری ہیں ان کو خود نہیںپتہ کہ اخباریت ہے کیا ۔ ورنہ ایک اخباری ہوائی جہاز کا سفر نہیںکرسکتا ایک اخباری ٹرین کا سفر نہیں کرسکتا۔ سگریٹ کا معاملہ بھی یہی ہے اس میں بھی اصل برأت جاری ہوگیا ہے۔ بہت سے مجتہدین نے اصل برأت جاری کی ۔ کیونکہ کوئی حدیث نہیں ایسی موجود ہے جس میں منع کیا گیا ہو کہ سگریٹ نہ پیا کرو۔ اس زمانے میں سگریٹ تھی ہی نہیں۔ اس زمانہ میں حقہ تھا ہی نہیںلہٰذا سوال ہی نہیں ہوتا کہ کوئی حدیث ہو۔ لہٰذا یہاں کے اوپر اصل برأت مجتہدین نے اصل برأت کیا ہے لیکن جو اخباری ہیں ان کے یہاں اصل احتیاط لہٰذا جو اخباری وہ سگریٹ نہیں پی سکتا۔ وہ حقہ نہیں گڑگڑا سکتا کیونکہ ان کے یہاں اصل احتیاط ہے۔ قرآن میں موجود ہے:
وکرمناہ بنی آدم و حملنا ہ فی البر و البحر
ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا کی اور و حملنا ہ فی البر و البحر اور ہم ان کو زمین کے اوپر اور تری کے اوپر سمندروں کے اوپر دریاؤں کے اوپر چلنے کا راستہ دکھایا۔ ہم نے ان کو سواریاں عطا کیں۔ تو قرآن مجید میں ہوائی سفر کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ جب ہوائی سفر کا تذکرہ نہیں صرف زمینی سفر کا تذکرہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک اخباری صرف زمینی سفر کرسکتا ہے۔ یا پھر سمندرجہاز سے سفر کرسکتا ہے وہ ہوائی جہاز سے سفر نہیںکرسکتا۔ یہ ہے اصل احتیاط لیکن جو اجتہاد ہے اس میں برأت ہے۔ برأت کا مطلب یہ ہے کہ جب منع نہیں کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہم کو اجازت ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ اسی طرح بہت سی چیزیں ہیں آپ دیکھیں بلکہ مولویوں پر تو بہت سی چیزیں حرام ہوجائیں گی۔ اگر اصل احتیاط پر عمل ہوا تو بہت سی چیزیں حرام ہوجائیں گی ۔ دہی پلاؤ اس زمانے میں تھا نہیں۔ کباب جو آج مشہور ہیں بہت سی دکانوں کے اس زمانے میں تھے نہیں۔ اس زمانے میں یہ سب چیزیں نہیں تھیں۔ تو یہ سب چیزیں حرام ہوجائیں گی۔ یہیں پر اصل برأت جاری ہوتی ہے۔ یہیں پر ایک مجتہد فیصلہ کرتاہے۔
تو اخباریت جو ہے وہ صرف دھوکا دینے کیلئے ہے۔ اور ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ چار کتابیں جو ہیں ان کی ہر ہر حدیث صحیح ہے ۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں ضرورت نہیں ہے اس کی؟ وہ دلیل دیتے ہیں جو اجتہادکے مخالف ہیں وہ ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیوں ضرورت نہیں ہے؟ کیونکہ جو چار کتابیں ہیں ان میں ہر چیز آگئی ہے۔ یہ چار کتابیں جو ہیں کلینیؒ صاحب کی اصول کافی ، یا شیخ صدوق ؒ کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ، یا شیخ طوسی ؒ کی ہے تہذیب و استبصار ۔ ان چاروں کتابوں کی ہر حدیث صحیح ہے اوراس پر عمل کرنا واجب ہے۔ کسی حدیث کو اگر غلط مانا تو پھر وہ شیعیت سے خارج ہے۔ لیکن بہت سی حدیثیں اسی میں ہیں کہ بہت معذرت کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ وہ خود اخباریوں کے عقائد کے خلاف ہیں۔ وہ اتحاد کے قائل نہیں ہیں شیعہ سنی کے اور اس میں زبردست حدیثیں موجود ہیں شیعہ سنی اتحاد کے لئے ۔ اسی طرح سے وہ واجب جانتے ہیں اذان میں اشہد انّ علیاً ولی اللہ کہنا۔ مجتہدین نے اسکو مستحب قرار دیا ہے باعث ثواب قرار دیا ہے۔ لیکن کیا جز و اذان کہا گیا۔ جبکہ من لایحضرہ الفقیہ میں اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ جب آپ اس کی ہر بات صحیح مان رہے ہیں تو آپ نبی کی کتاب جس کو آپ صحیح مان رہے ہیں اسی میںمخالفت ہے اذان میں علیاً ولی اللہ کہنے کی۔ تو یہ تو تضاد ہوگیا ہے۔ دونوں چیزیں الگ الگ ہوگئیں۔ اسی سے مجتہدین نے کہا کہ کوئی بھی حدیث ہم اس وقت تک صحیح نہیں مانتے جب تک اس کو جانچ نہ لیں پرکھ نہ لیں۔ چاہے وہ اصول کافی کی حدیث ہو۔ چاہے وہ من لا یحضرہ الفقیہ کی حدیث ہو چاہے وہ تہذیب میں آئی ہو وہ یا استبصار میں آئی ہو جب تک ہم اس کو جانچ نہیںلیں گے، پرکھ نہ لیں گے علم رجال کے تحت علم حدیث کے تحت چاہے وہ کسی کتاب میں ہو، ہم اس کو صحیح نہیں مانیں گے۔ اسی لئے شیعوں میں کسی کتاب کو صحیح کا درجہ نہیں دیا گیا۔ کہ جیسے صحیح بخاری ، صحیح مسلم، ترمذی وغیرہ ۔ اور ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جو ان حدیثوں کی کتابو ں کو نہ مانے بدعتی ہے ہر حدیث صحیح ہے اور عمل کرنا واجب ہے۔ تو اسی طرح اخباری ہیں کہ وہ کہتے ہیں ان چاروں کتابوں کی ہر حدیث صحیح ہے اور جو نہ مانے تو وہ ایسا جملہ استعمال کرتے ہیں جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا کہ گویا وہ حلال زادہ نہیںہے جو کسی حدیث کو غلط مانے تو اسی میں متضاد حدیثیں بھی ہیں جو ایک دوسرے سے ٹکرارہی ہیں۔ وہاں پر مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور اسی لئے مجتہدین نے کسی بھی حدیث کو صحیح کا لقب نہیں دیا ہے۔ جیسے صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، ترمذی، اسی طرح سے صحیح کافی نہیں ہے صحیح تہذیب نہیں ہے صحیح من لایحضرہ الفقیہ نہیں ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہم کسی حدیث کو اس وقت تک صحیح نہیں مانیںگے جب تک ہم خود تحقیق نہ کرلیں۔ جب تک کہ ہم خود ریسرچ نہیںکریں گے کسی بھی حدیث کو صحیح نہیں مانیں گے۔ اخباری کہتے ہیں علم رجال کا حاصل کرنا حرام ہے۔ کیونکہ علم رجال ہم اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ ہم یہ پرکھیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں۔ تو چونکہ حدیثوں کو صحیح ماننا تو واجب ہے لہٰذا علم رجال کا حاصل کرنا حرام ہے۔ تو یہ سب ان کے عقائد ہیں جس کی وجہ سے بہت زیادہ تفرقہ آج کل پھیل رہا ہے۔ اور میرے جمعہ کے خطبے بھی آصفی مسجد میں اتفاق سے اسی موضوع پر ہورہے ہیں تو بے شمار خبریں میں نے پیش کیں۔ ایک تو اخباری اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن جو ہے وہ تحریف شدہ ہے۔ جبکہ تمام ائمہ معصومین ؑ نے ہمیشہ اسی قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اس کی نقلیں اور اسی قرآن مجید کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔ یہی قرآن مجید انہوں نے اپنے اصحاب کو دیا تو اگر یہ تحریف شدہ ہوتا تو ائمہ معصومینؑ اس کو قابل استفادہ نہ سمجھتے اور قابل استدلال اس کو نہ سمجھتے اور کوئی حدیث کسی امام کی ہم کو نہیں ملتی مستند جس میں کسی امام نے کہا ہو کہ اس میں کوئی کمی یا زیادتی ہوئی ہے۔ وہاں تحریف معنوی کا کہیں یہ تذکرہ ہے۔ بھئی آپ کوئی بھی جملہ کہیں اور اس کے کوئی اور معنیٰ بیان کرے کوئی کوئی اور معنی بیان کرے۔، تو جملہ وہی رہے گا معنوں میں تحریف ہوجائے گی۔ تو تحریف معنوی کے سلسلہ میں تو ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہم لوگ مانتے ہیں اس کو کہ معنوںمیں تحریف کردی گئی لیکن کسی لفظ کو بدل دیا گیا ہو۔ کسی آیت کو بدل دیا گیا ہو یا کہیں کمی کہیں بیشی ہو۔ ہمارے علماء اس بات کے قائل نہیں ۔ لیکن اخباری اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں تحریف ہوئی ہے اور اس میں کمی یا زیادتی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید کا اعلان ہے: انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون
ہم ہی نے یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے بچانے وا لے ہیں۔ اسی طرح اعلان ہورہا ہے کہ اس میں نہ باطل سامنے سے داخل ہوسکتا ہے نہ پشت سے داخل ہوسکتا ہے ۔ توجب باطل داخل ہو ہی نہیں سکتا۔ تو پھر کوئی اضافہ بھی نہیںہوسکتا۔ کمی بھی نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ اخباری اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ قرآن تحریف شدہ ہے اور اس میں تحریف ہوئی ہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہم عقل استعمال نہیں کرسکتے اپنی کسی بھی آیت کے سلسلہ میں کسی بھی حدیث کے سلسلے میں بلکہ جو بھی ارشاد ہے بس ہم کو لفظ بلفظ اس پر عمل کرنا ہے تو اس طرح کے عقائد ہیں ان کے جس کی وجہ سے وہ خود آجکل مشکل میں گرفتار ہیں۔ اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جس میں اس طرح سے پھنسے ہوئے ہیں کہ نکل نہیں سکتے۔ لیکن وہ خود اپنی اخباریت پر عمل نہیں کرتے صرف اتنا کہتے رہتے ہیں کہ تقلید نہیں ہے تقلید نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے آقاؤں نے اور ان کے سرپرستوں نے یہی سمجھا دیا ہے کہ بھئی اخباریت میں تقلید نہیں ہے اجتہاد کے خلاف ہیں۔ لہٰذا اخباریت کی زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو۔ بہت سے ذاکرین بھی آپنے دیکھا ہوگا وہ بھی اخباریت کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں اجتہاد کے خلاف۔ ان بچارے ذاکرین کو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ اخباریت ہے کیا؟!۔ اس کا عقیدہ کیا ہے؟۔ اس کی بنیاد کیاہیں اور ان کے نظریات کیا ہیں؟۔ ان کو صرف یہ کہنا ہے عوام کے سامنے کہ بھئی اجتہاد نہیں ہونا چاہئے اخباریت ہونا چاہئے۔ اور ادھر تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج کی جو اخباریت ہے اس کو ایک سازش کے تحت کرایا جارہا ہے۔ امریکہ کی سازش ہے اسرائیل کی سازش ہے اور جو اسلام دشمن ممالک ہیں ان کی سازش ہے لہٰذا ہمارے عوام کو اس سازش کو سمجھنا چاہئے اور اس کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اتنی ہی میری گذارش ہے۔( تقریر)