امامت کا الٰہی تصور امام تقیؑ کی سیرت کی روشنی میں
223
M.U.H
28/05/2025
0 0
تحریر:مولانا سید کرامت حسین ،شعور جعفری
جب دنیا کی نگاہیں علم، فضیلت اور روحانیت کے ایسے مظاہر کی تلاش میں سرگرداں ہوں، جو نہ صرف عقل کو مطمئن کریں بلکہ دل کو بھی روشن کریں، تو وہ ہستیاں اُفقِ تاریخ پر ابھرتی ہیں جو نہ عمر کی قیود میں بندھی ہوتی ہیں، نہ ہی زمانے کے معیارات کی محتاج ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ہستی امام محمد تقی علیہ السلام کی ہے—ایک ایسی نورانی شخصیت جنہوں نے بچپن کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کا وہ دریا جاری کیا، جس میں بڑے بڑے فقہا و حکماء کی کشتیاں لرزنے لگیں۔
یہ وہ امام ہیں جنہوں نے نہ صرف مناظروں میں عقل کو مات دی، بلکہ زہد و عبادت میں دلوں کو مسخر کیا؛ جن کی سخاوت نے مفلسوں کو غنی کر دیا، اور جن کی مسکراہٹ نے جابروں کے ایوان ہلا دیے۔ آپ کی حیات طیبہ ایک ایسی زندہ تفسیر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ امامت نہ عمر کی محتاج ہے، نہ ظاہری اقتدار کی، بلکہ یہ وہ مقام ہے جسے خدا اپنی حکمت سے عطا کرتا ہے، جیسا کہ قرآن نے فرمایا:
امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک دائمی دعوت ہے—دعوتِ شعور، سیرت، سخاوت، اور استقلال کی؛ جہاں علم صرف الفاظ کا ذخیرہ نہیں بلکہ حکمت کی روشنی ہے، جہاں زہد فقط ترکِ دنیا نہیں بلکہ اللہ سے گہری وابستگی ہے، اور جہاں امامت صرف منصب نہیں بلکہ امت کی تربیت کا الٰہی نظام ہے۔
آپؑ کی ولادت باسعادت ۱۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؑ کا اسمِ گرامی “محمد”، کنیت “ابو جعفر” اور معروف لقب “تقی” و “جواد” تھا۔ آپؑ کو سات سال اور چند مہینوں کی عمر میں منصبِ امامت عطا ہوا۔ اور اس قلیل عمر میں وہ کارنامے سرانجام دیے جن پر تاریخِ امامت فخر کرتی ہے اور عقلِ انسانی محوِ تحیر ہو جاتی ہے۔ [الارشاد، شیخ مفید، ج۲، ص۲۷۳]
امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنی ابتدائی پرورش اپنے والد بزرگوار، امام علی رضا علیہ السلام کے زیر سایہ پائی۔ امام رضا علیہ السلام، جو خود علم و زہد اور اخلاق و حلم کے امام تھے، اپنے فرزند ارجمند کو محبت، وقار، اور تربیتِ معصومانہ کے خالص انداز سے سنوارتے۔ وہ آپؑ کو نام سے نہیں بلکہ کنیت “ابو جعفر” سے پکارا کرتے۔ ایک موقع پر خراسان سے مدینہ لکھے گئے اپنے خط میں امام رضا علیہ السلام نے آپؑ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
“میری جان تم پر فدا ہو۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض غلام تمہاری سواری کو باغ کے چھوٹے دروازے سے نکالتے ہیں تاکہ تم سے کوئی راہ میں نہ مل سکے۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ بڑے دروازے سے نکلا کرو، اور ہمیشہ اپنے ساتھ سونا چاندی رکھو تاکہ جو مانگے اُسے دے سکو… اپنے چچاؤں اور پھوپھیوں کو کم از کم پچاس دینار دینا۔”
[عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۴۵]
یہ وصیت نہ صرف ایک امام کی تربیت کا نمونہ ہے بلکہ آئندہ آنے والے امام کی سیرت کا خلاصہ بھی ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام بچپن ہی سے علمی کمالات کا ایسا مظہر تھے کہ عباسی دربار تک بھی ان کے چرچے عام ہو گئے۔ جب خلیفہ مامون نے آپؑ کی کمسنی پر اعتراض کرتے ہوئے امتحان لینے کا فیصلہ کیا، تو بغداد کے مشہور قاضی یحییٰ بن اکثم کو بلایا گیا۔ مجمع عام تھا، وزراء، فقہا اور حکام حاضر تھے۔ یحییٰ نے پوچھا: “محرم اگر شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟” امامؑ نے نہایت متانت سے سوال کی کئی شقیں بیان فرمائیں:
“کیا شکار حرم میں ہوا ؟ کیا جان بوجھ کر یا نادانستہ ؟ کیا شکار چھوٹا تھا یا بڑا ؟ کیا دن میں کیا یا رات میں ؟ کیا شکار کرنے والا بالغ تھا یا نابالغ ؟…”
یحییٰ کے ہوش اڑ گئے۔ وہ سوال تو ایک تھا، مگر اس کا جواب کئی جہات رکھتا تھا—یہ وہی علمِ لدنی تھا جو قرآن میں ارشاد ہوا:
وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (مریم: ۱۲)
سب پر واضح ہو گیا کہ یہ بچہ نہیں، وہی امام ہے جو وراثتِ نبوی کا حامل ہے۔
آپؑ کے علمی کمالات فقط مناظروں یا درباروں میں محدود نہ تھے، بلکہ روزمرہ کے دینی، فقہی، کلامی اور اخلاقی مسائل میں بھی آپؑ کی علمی بلندی کے آثار نمایاں تھے۔ راویوں کے مطابق امامؑ سے کم از کم تین ہزار مسائل دریافت کیے گئے جن کے جوابات آپؑ نے فقہی استدلال کے ساتھ مرحمت فرمائے۔ [بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۱۷]
امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی زہد، عبادت، اور سادگی کی مثال تھی۔ حسین مکاری روایت کرتے ہیں کہ:
“میں نے بغداد میں امامؑ کی عظمت دیکھی تو دل میں خیال آیا کہ یہیں رہ جاؤں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ امامؑ نے مسکرا کر فرمایا:
‘اے حسین! مجھے میرے جد کا حرم اور جو کی روٹی اس زندگی سے زیادہ عزیز ہے جو تم سوچ رہے ہو۔’”
[بحار، ج۵۰، ص۱۱۰]
امامؑ کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ہر دروازے پر رحمت بن کر حاضر ہوتے۔ اسی لیے آپؑ کا لقب “الجواد” مشہور ہوا۔ احمد بن حدید کے قافلے پر ڈاکو حملہ آور ہوئے۔ امامؑ نے نہ صرف ان کے مال کے برابر رقم عطا کی، بلکہ اتنی عزت افزائی کی کہ وہ خود کو غنی محسوس کرنے لگے۔ ایک اور علوی کو جب کنیز خریدنے کے لیے درہم نہ ملے تو امامؑ نے پورا باغ، کنیز اور مال اس کے نام کر دیا۔ [اعیان الشیعہ، ج۲، ص۴۱]
آپ کے شاگردوں میں ایسے جلیل القدر اصحاب شامل تھے جنہوں نے امامت کی فکری بنیادوں کو استحکام بخشا، اور علومِ اہل بیتؑ کی ترویج و اشاعت میں سنگِ میل ثابت ہوئے۔
• علی بن مہزیار اہوازی: امام ہادی علیہ السلام کے بعد آپؑ کے وکیل بھی رہے۔
• عبدالعظیم حسنی: امام تقیؑ اور امام ہادیؑ دونوں کے شاگرد، جن کی زیارت کو “مستحب مؤکد” کہا گیا۔
• احمد بن محمد بن عیسی قمی اور حسین بن سعید اہوازی: اہل قم و اہواز کے محدثین، جن کی روایتیں آج بھی شیعہ فقہ کا حصہ ہیں۔
[رجال نجاشی، رجال کشی، الفہرست طوسی]
یہ شاگرد فقط روایت کرنے والے نہیں، بلکہ فکر و حکمت کے وارث تھے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کے اقوال میں ایمان، توکل، اور اخلاق کا دریا بہتا نظر آتا ہے:
مَنْ وَثِقَ بِاللّٰهِ رَأَى السُّرُورَ، وَمَنْ تَوَكَّلَ عَلَيْهِ كَفَاهُ الْأُمُورَ.
“جو اللہ پر بھروسا کرے، وہ خوشی دیکھے گا، اور جو اس پر توکل کرے، اللہ اسے کافی ہوگا۔”
[تحف العقول، ص۴۵۷]
الغِيبَةُ جُهْدُ العاجِزِ.
“غیبت کمزور کا سہارا ہے۔”
العُلَماءُ غُرَباءُ لِكَثرَةِ الجُهّالِ بَينَهُم.
“علماء اجنبی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے اردگرد جہالت کی کثرت ہوتی ہے۔”
یہ وہ کلمات ہیں جو صرف لفظ نہیں، روشنی ہیں۔ جو صرف علم نہیں، سلوک ہیں۔
جب علی بن جعفر جیسے بزرگ، جو خود امام موسیٰ کاظمؑ کے بیٹے تھے، نے مسجد نبویؐ میں امام محمد تقیؑ کے ہاتھ چومے اور فرمایا:
“جب اللہ نے امامت کے لیے اس بچے کو منتخب کیا تو میں کیوں اعتراض کروں؟ میں تو ان کا غلام ہوں۔”
[کشف الغمہ، ج۳، ص۱۸۰]
تو یہ صرف خضوع نہیں، بلکہ امامت کی حقیقت کا اعلان تھا کہ:
اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الأنعام: ۱۲۴)
بالآخر ۲۲۰ ہجری میں معتصم عباسی نے زہر دے کر اس مہربان چراغ کو بجھا دیا۔ امامؑ نے آخری لمحے تک شکوہ نہ کیا، صرف فرمایا:
“خروجي من دارك خير لك”
“تمہارے گھر سے میرا نکلنا، تمہارے لیے بہتر ہے۔”
امام محمد تقی علیہ السلام نے صرف ۲۵ سال کی عمر پائی، اور ۱۷ سال امامت فرمائی، مگر آپؑ کا ہر لمحہ صداقت، زہد، اور علم کا ترجمان رہا۔
آج بھی جب علم حیران ہو، جب سچائی دبی ہو، جب زہد مذاق بن جائے—تو امام محمد تقیؑ کی حیات ہمیں دعوت دیتی ہے کہ:
“حق کے لیے عمر شرط نہیں، نیت شرط ہے؛ اور جو خدا کے لیے اٹھتا ہے، وہ چھوٹا ہو کر بھی بڑا ہو جاتا ہے۔”
⸻
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ و مصادر:
• الارشاد، شیخ مفید
• بحارالانوار، علامہ مجلسی
• عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق
• کشف الغمہ، اربلی
• تحف العقول
• رجال نجاشی، رجال کشی
• الفہرست، شیخ طوسی
• اعیان الشیعہ