شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی ؒ نے حضرت ابوالحسن امام علی نقی ہادی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اصحاب و شاگردان کی تعداد 185 نقل کی ہے اور جناب سید باقر شریف قرشی ؒ نے 178 نام ذکر کئے ہیں ۔ ذیل میں چند اصحاب کا مختصر تعارف پیش ہے۔
1۔ جناب ایوب بن نوح رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
وہ امین اور قابل اعتماد شخصیت تھے، علماء علم رجال نے ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے صالح بندوں میں شمار کیا ہے۔ وہ امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل تھے اور امام علی نقی علیہ السلام سے کثرت سے روایتیں نقل کی ہیں ، جب انکی وفات ہوئی تو اس وقت ان کے پاس صرف ایک سو پچاس دینار تھے جب کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ بہت دولتمند ہیں ۔
عمرو بن سعید مدائنی کا بیان ہے ایک صریا میں میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ وہاں جناب ایوب بن نوح ؒ تشریف لائے، انکو دیکھتے ہی امام عالی مقام اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور ان کے قریب جا کر ان سے گفتگو کی اور واپس اپنی جگہ تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: ائے عمرو! اگر چاہتے ہو کہ کسی جنّتی کو دیکھو تو اس شخص (ایوب بن نوحؒ) کو دیکھو۔ (الغیبۃ، شیخ طوسیؒ، صفحہ 212)
2۔ جناب ابو علی حسن بن راشد رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
وہ جواد الائمہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور امام ہادی حضرت علی نقی علیہ السلام کے صحابی اور مورد اعتماد تھے۔ شیخ مفیدؒ انہیں ممتاز فقہاء اور اولین درجہ کی شخصیات میں شمار کرتے تھے کہ جن سے حلال و حرام کے مسائل حاصل کئے جاتے تھے اور ان کی مذمت اور طعن و تشنیع میں کوئی روایت نہیں ہے ۔ (معجم رجال الحدیث، جلد4، صفحہ 324)
شیخ طوسیؒ نے امام علی نقی علیہ السلام کے نیک سفیروں اور وکیلوں کے تذکرے میں جناب حسن بن راشد ؒ کا نام لیا اور امام علی نقی علیہ السلام کے ان کے نام خطوط کا ذکر کیا ہے۔ (الغیبۃ، شیخ طوسیؒ، صفحہ 212)
محمد بن فرج کا بیان ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا جسمیں جناب حسن بن راشدؒ کے سلسلہ میں بھی پوچھا ۔ امام علی نقی علیہ السلام نے میرے خط کے جواب میں لکھا کہ تم نے حسن بن راشد ؒ کا نام لیا ہے، اللہ ان پر رحمت نازل کرے انھوں نے سعادتمند زندگی بسر کی اور دنیا سے شہید گذرے۔ (رجال کشی، جلد 6)
3۔ جناب حسن بن علی ناصر رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ طوسیؒ نے انہیں امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے، وہ علم الہدیٰ سید مرتضی رحمۃ اللہ علیہ اور جامع نہج البلاغہ سید رضی رحمۃ اللہ علیہ کے نانا تھے ۔ سید مرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے انکی توصیف میں تحریر فرمایا: علم و تقویٰ اور فقہ میں ان کا مقام و مرتبہ سورج سے زیادہ روشن و واضح ہے۔ دیلم میں اسلام کی تبلیغ کی کہ لوگ آپ کے سبب گمراہی سے ہدایت یافتہ ہوئے اور آپ کی دعا کے سبب حق کی جانب پلٹے، ان کے پسندیدہ صفات اور نیک اخلاق اس سے کہیں زیادہ ہیں جو شمار کئے جائیں اور اتنے واضح ہیں کہ جن کا چھپانا ممکن نہیں۔
4۔ جناب ابوالقاسم عبدالعظیم حسنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
چار واسطوں سے ان کا سلسلہ نسب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے ملتا ہے، شیخ طوسیؒ کے مطابق وہ امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابی تھے لیکن بعض دوسرے مورخین کے مطابق وہ جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السلام کے صحابی تھے۔ جناب عبدالعظیم حسنی علیہ السلام متقی، پرہیزگار عالم و فقیہ تھے اور امام علی نقی علیہ السلام کے قابل اعتماد تھے۔
ابوحماد رازی نے نقل کیا: میں سامرا میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حلال و حرام کے مسائل پوچھے تو آپؑ نے اس کے جوابات دئیے۔ جب میں آپؑ سے رخصت ہونے لگا تو آپؑ نے فرمایا: ائے حماد! جس علاقہ میں تم رہتے ہو اگر کبھی دین کے سلسلہ میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو جناب عبدالعظیم حسنیؒ سے پوچھ لینا اور میرا سلام ان کو کہہ دینا ۔
حضرت عبدالعظیم حسنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اگرچہ خالص شیعہ اثناء عشری تھے لیکن اس کے باوجود ایک بار آپ امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے سامنے تفصیل سے اپنے عقائد پیش کئے اور امام ؑ سے چاہا کہ اس سلسلہ میں ہدایت فرمائیں۔
امام علی نقی علیہ السلام نے ان کے عقائد سننے کے بعد فرمایا: ائے ابوالقاسم !خدا کی قسم ! جو تم نے بیان کیا وہ وہی دین حق ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے، تم اسی دین پر ثابت قدم رہو۔اللہ تمہیں دنیا و آخرت میں حق پر قائم رکھے۔
حضرت عبد العظیم بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں سے فرار کرتے ہوئے شہر ری آئے اور وہاں پر سکۃ الموالی نامی ایک محلے میں ایک شیعہ مؤمن کے گھر کے تہ خانے میں عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ گھر سے مخفی طور پر باہر آکر کسی قبر کی زیارت کیلئے جاتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ قبر امام موسی کاظمؑ کی نسل سے کسی امام زادہ کی ہے۔ آپ اسی تہ خانے میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ آپ کی ہجرت کی خبر ایک کے بعد ایک شیعوں کے کانوں تک پہنچی اور اس طرح اکثر شیعہ آپ کے وہاں رہنے سے با خبر ہو گئے تھے۔
حضرت عبدالعظیم حسنی ؒ کی رحلت 15 شوال سنہ 252 ہجری میں امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی۔مسلسل تہ خانے میں رہنے کے سبب آپؑ بیمار پو گئے اور اسی بیماری میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ شہر ری میں آپؑ کا روضہ عاشقان آل محمدؑ کی زیارت گاہ ہے۔
شیخ صدوقؒ نے روایت نقل کی ہےکہ شہر ری کا ایک شیعہ مومن امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوکر آیا ہوں تو امامؑ نے فرمایا: قبر عبدالعظیم جو تمہارے نزدیک ہے، کی زیارت کا ثواب قبر حسین بن علیؑ کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے۔(ثواب الاعمال ، صفحہ 99)
5۔ جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
جناب عثمان بن سعید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ محض گیارہ برس کی عمر میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آپؑ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے اور بہت ہی کم عرصے میں امام علی نقی علیہ السلام کے نزدیک قابل اعتماد شخصیت بن گئے۔
جناب احمد بن اسحاق قمی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک بار میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام و احوال پرسی کے بعد عرض کیا کہ بعض اوقات آپؑ تک رسائی ممکن نہیں ہوتی تو میں کس سے مسئلہ دریافت کروں تو امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا:ابو عمر عثمان بن سعید میرے نزدیک امین اور قابل اعتماد ہیں ، وہ جو بھی کہیں گے میری جانب سے کہیں گے ، تم تک جو بھی پیغام پہنچائیں گے وہ میری ہی جانب سے ہوگا۔
واضح رہے کہ جناب عثمان بن سعید امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھی وکیل تھے اور ان کی شہادت کے بعد غیبت صغری میں حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے پہلے نائب خاص قرار پائے اور جب اس دنیا سے رحلت کی تو حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف نے ان کے بیٹے جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو تعزیت پیش کی اور انہیں اپنا دوسرا نائب خاص قرار دیا۔
6. جناب علی بن جعفر ہمانی رضوان اللہ تعالی علیہ
جناب علی بن جعفر ہمانی رضوان اللہ تعالی علیہ ایک قابل اعتماد اور عالم شخصیت تھے، امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل بھی تھے، آپ دونوں اماموں کے محبوب تھے۔
ابو جعفر عملی کا بیان ہے کہ ابو طاہرین نے حج کے سفر میں علی بن جعفر کو دیکھا کہ وہ بہت زیادہ مال راہ خدا میں انفاق کر رہے ہیں تو حج سے واپسی پر انہوں نے خط لکھ کر امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پورا ماجرہ بیان کیا امام حسن عسکری علیہ السلام نے خط کے جواب میں لکھا میں نے خود انہیں دو لاکھ دینار دینے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے ان میں سے صرف ایک لاکھ دینار لیا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان امور میں دخالت کرے جن کی میں نے اجازت نہیں دی ہے۔
راوی کا بیان ہے جناب علی بن جعفر امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام علیہ السلام نے انہیں 30 ہزار سونے کے سکے دینے کا حکم دیا۔
7. جناب علی بن مہزیار اہوازی رضوان اللہ تعالی علیہ
آپ تیسری صدی ہجری کے نامور شیعہ عام ،فقیہ اور محدث تھے۔
زہد و عبادت کا یہ عالم تھا کہ طلوع آفتاب کے وقت سجدے میں جاتے تو جب تک ایک ہزار برادران دینی کے لئے دعا نہ کر لیتے سر نے اٹھاتے، جس سے آپ کی پیشانی پر نشان پڑ گیا تھا۔
آپ کے کارہائے نمایاں میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
1. امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد لوگوں کو امام علی نقی علیہ السلام سے آشنا کرنا۔
2. فقہی مسائل کو بیان کرنا اور لوگوں کے فقہی سوالات کے جوابات دینا۔
3. امام علیہ السلام کے فقہی نظریات سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔
4. ایران خصوصا اہواز میں لوگوں کو امام محمد تقی علیہ السلام سے آشنا کرنا۔
5. امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السلام کی وکالت اور نمائندگی۔
6. عباسی ظلم و جور کے باوجود امام اور لوگوں میں رابطہ برقرار کرانا۔
7. اہواز اور اہل اہواز کے لئے خیر و سکون کا سبب ہونا۔
8. جناب فضل بن شاذان رضوان اللہ تعالی علیہ
آپ معروف شیعہ عالم، متکلم اور فقیہ تھے جناب شیخ طوسی نے آپ کو امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔
جناب فضل بن شاذان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب العلل اور مناظرات میں امیر المومنین علیہ السلام کی امامت کو ثابت کیا اور غیروں کی امامت کو رد کیا۔
آپ نے 180 عنوان سے زیادہ پر کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔
9. جناب یحیی بن ہرثمہ
وہ ہارون رشید اور مامون عباسی کی فوج کے سپہ سالار ہرثمہ بن اعین کے فرزند تھے۔ پہلے حشویہ مذہب کے پیروکار تھے لیکن جب متوکل ملعون نے ان کو امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ منورہ سے سامرا لانے کی ذمہ داری دی تو اس سفر میں امام علی نقی علیہ السلام کے کرامات اور شخصیت سے آشنائی کے سبب شیعہ ہو گئے۔
علماء نے امام علی نقی علیہ السلام کے مدینہ منورہ سے سامرا کے سفر کی تفصیلات آپ ہی سے روایت کی ہے۔
10۔ جناب خیران خادم
جناب خیران خادم دوسری اور تیسری صدی ہجری میں شیعہ راوی تھے، ان کو امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت اور امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السلام کی وکالت کا شرف حاصل ہے۔ علماء علم رجال جیسے جناب شیخ طوسی نے ان کی توثیق و تائید کی ہے۔ جناب علی ابن مہزیار اہوازی اور سہل بن زیاد رازی راویان حدیث نے ان سے روایت نقل کی ہے۔ انھوں نے حدیث کے سلسلے میں ایک کتاب بھی تالیف فرمائی ہے کہ محمد بن عیسی عبیدی نے اس سے روایت کی ہے۔