خالق لوح و قلم ،رازق ارض و سماوات قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے: "وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین " اے حبیب ،ہم نے آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوان رحمت ، محبت و عطوفت سے نہ صرف اہل ایمان مستفید ہوئے ہیں بلکہ تمام انسان، یہاں تک کے موجودات بھی بہرہ مند ہیں ۔حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقدس وجود ، رسالت، پیغام وحی اور آپ کی تمام زحمتیں اور کوششیں سب خدائے واحد و رحمان کی رحمت کا مظہر ہیں ۔آپ کی رحمت کا ایک اہم ترین جلوہ، مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی تشکیل ، ترویج توحید، عدل و انصاف قائم کرنا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے آپ نے مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد دین اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عزم فرمایا اور اگر کچھ مسائل پیش نہ آتے اور مسلمان آپ کی بتائي ہوئي راہ پر گامزن رہتے تو ساری دنیا توحیدی حکومت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتی ، بنیادی طور پر سرزمین حجاز میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبعوث ہونا تمام انسانوں کے لۓ رحمت ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مبعوث بہ رسالت ہوکر جاہلیت کے غلط آداب و خرافات کو مٹایا عورتوں اور دیگر پسماندہ لوگوں کے حقوق دلوائے، ظلم وستم اور استثمار سے مقابلہ کیا، قبیلوں کو آپسی جنگ وخونریزی سے روکا، عدل وانصاف و مساوات قائم کیا، تمام قبیلوں، قوموں اور حکومتوں تک پیغام وحی پہنچایا ، اپنے ساتھیوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ فداکار مومن، مدبر و اسلامی اور انسانی اخلاق سے آراستہ ہوگئے اخلاقی اور روحانی فضائل سے انسانوں کو آراستہ کیا، توحید و اتحاد کے سائے میں انسانوں کو عزت وآزادی عطا کی، مخلوق و خالق کے درمیان مستحکم رابطہ قائم کیا یہ سب چیزیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا مظہر نہیں ہیں تو پھر اور کیا ہیں؟
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے سب سے زیادہ فائدہ مومنین کو پہنچتا ہے کیونکہ مومنین اپنی ذاتی اہلیت و لیاقت سے آپ کے توحیدی پیغام کو اچھی طرح سمجھنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اور سعادت و رستگاری کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اسی بناء پر خداوندعالم نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مومنین کے لئے خاص سفارشیں کی ہیں سورہ شعراء میں ارشاد قدرت ہوتا ہے: اے رسول جو مومنین تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے لئے اپنا بازو جھکاؤ یعنی تواضع اور فروتنی سے پیش آؤ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ ر آلہ وسلم نے بھی مومنین کے سروں پر اپنا سایہ رحمت و رافت اور محبت و تواضع پھیلادیا تھا، آپ کے اس عمل کو سراہتے ہوئے پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے " تو اے رسول یہ بھی خدا کی مہربانی ہے کہ تم جیسا نرم دل سردار ان کو ملا اور اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو تب یہ لوگ تمہارے پاس سے تتربتر ہوجاتے ۔
بے شک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت مومنین کے شامل حال تھی اور مومنین بھی آپ کو صمیم قلب سے چاہتے اور آپ پر اپنی جان نچھاور کیا کرتے تھے آّپ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار رہتے اور آپ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر آپ کے عزيز ترین صحابی حضرت ابوذر غفاری نے شدید تشنگي برداشت کی مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پانی پینے کے بعد ہی پانی پیا ، آپ کے موذن حضرت بلال حبشی نے شدید ترین ایذائيں برداشت کیں لیکن آپ کی راہ سے منہ نہیں موڑا اسی طرح حضرت سلمان فارسی نے آپ کی محبت میں طویل مسافت طے کی اور سفر کی طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں ان سب سے بڑھ کر حضرت علی علیہ السلام نے بارہا اپنی جان پر کھیل کر آنحضرت کی مدد و نصرت کی ۔ فرشتوں کو بھی رسول اسلام کی رحمت سے فیض پہنچتاہے امین وحی الہی جب " وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین" کی آیت لےکر آئے تو رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا اس رحمت سے تمہیں بھی فیض پہنچےگا تو جبرئيل امین نے عرض کیا کہ میں اپنی عاقبت کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھا لیکن اس آيت کے نازل ہونے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا ۔مخالفین کو بھی آنحضرت کی رحمت سے فیض پہنچتاہے اگر مخالفین و کفار اہلیت و لیاقت کا ثبوت پیش کرتے تو بے شک رحمت نبوی سے استفادہ کرکے اخروی اور معنوی مقامات تک پہنچ سکتے تھے لیکن انہوں نے رسول اسلام کی محبت و مہربانی کو نظرانداز کیا بلکہ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے لہذا اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے مگر وہ انکار کرجاتے تھے لیکن مشرکین کی ایذا رسانیوں کے باوجود رسول خدا نے فتح مکہ کے دن اپنی رحمت و مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ انہیں معاف فرمادیا ۔ہجرت کے آٹھویں برس رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوۓ ،مشرکین و کفار اور آپ کے دشمنوں نے برسوں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی اور آپ پر اور آپ کے ساتھیوں کو شدید ترین مصائب و ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا بلکہ بارہا آپ کے قتل کا منصوبہ بنایاتھا اور کئی مرتبہ ان منصوبوں پر عمل بھی کیا تھا ان ہی لوگوں نے آپ کے بہترين ساتھیوں کو خاک وخون میں غلطاں کیا تھا اور جب انہوں نے فتح مکہ کے دن آپ کی عظمت وشوکت دیکھی تو رعب وحشت اور خوف و ہراس سے لرزنے لگے ان کا خیال تھا کہ رسول اسلام ان سے انتقام لیں گے لیکن رسول رحمت نے ہرگز ان سے انتقام نہیں لیا بلکہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی" آج سے تم پر کچھ الزام نہیں خدا تمہارے گناہ معاف فرماۓ اور یہ معروف جملہ فرمایا کہ " جاؤ زندگي کی طرف لوٹ جاؤ تم آزاد شدہ ہو" ایسے پیغمبر رحمت پر ہمارا لاکھوں سلام ۔
سترہ ربیع الاول سنہ تراسی ہجری کی مقدس و نورانی تاریخ کو ہی رسول اسلام کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پیر کے دن مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ آنحضرت کے چھٹے جانشین ، سلسلہ عصمت و طہارت کی آٹھویں کڑی اور منصوص من اللہ اور معصوم ہیں۔ اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن خلکان نے اپنی کتاب "وفیات الاعیان" میں تحریر کیا ہے کہ آپ سادات اہل بیت سے تھے اور آپ کی فضیلت اور آپ کا فضل و کرم محتاج بیان نہیں ہے۔(وفیات الاعیان ج 1ص 105)، آپ کی ولادت کی تاریخ کو خداوند عالم نے بڑی عزت دی ہے اور احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کو روزہ رکھنا ایک سال کے روزے کے برابر ہے ۔ فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: یہ میرا فرزند ان چند مخصوص افراد میں سے ہے کہ جن کے وجود سے خدا نے بندوں پر احسان فرمایا ہے اور یہی میرے بعد میراجانشین ہوگا۔علماء کا بیان ہے کہ جعفر، جنت میں ایک شیریں نہر کا نام ہے، اسی کی مناسبت سے آپ کا لقب جعفر رکھا گیا ہے کیونکہ آپ کا فیض عام جاری نہر کی طرح تھا لہذا اس لقب سے ملقب ہوئے۔
مخلوقات کی ہدایت کی غرض سے انبیاء اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ تخلیق کیا گیا جو ہم تک آنحضرت اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی صورت میں پہنچا۔ اگر چہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم کے بعد کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع و ماحول میسر نہ ہو سکا مگر ہر امام نے اپنے عہد میں فیوض امامت امت تک پہچانے کا مناسب انتظام کیا۔کربلا کے مصائب کے بعد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک انوکھے انداز میں تبلیغ دین کی جو صحیفہ سجادیہ کی صورت میں آثارِ علمیہ کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام وہ کوہِ علم ہیں جس بلندیوں تک انسان کی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ آپ کا شریعت کدہ علم و حکمت کا سرچشمہ تھا۔فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت کا ایک اہم رخ یہ ہے کہ آپ نے اپنے علمی انقلاب سے معارف اسلام کے افق کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل بعد جب حضرت امام علی رضا علیہ السلام نیشاپور میں قدم رکھتے ہیں تو ہزارہا افراد امام کی آواز سننے اور فرمان کو کاغذ پر محفوظ کرنے کے سراپا مشتاق تھے۔ یوں تو سلسلہ امامت کے ہر فرد نے جس قدر ممکن ہو سکا ظلم و ستم اور قید و بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا، لیکن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کو اپنے عہد میں موقع مل گیا تھا کہ آنحضرت کے مقصد یعنی ( کتاب و حکمت کی تعلیم ) کو فروغ دیں۔ اس دور میں علم کی نشرو اشاعت اس حد تک ہوئی کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہوگیا اور فلسفی مسائل عام مجلسوں میں زیر بحث آنے لگے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس علمی تحریک کی بنیاد رکھی تھی اس کے سبب اسلامی دنیا علم کا گہواہ بن گئی جس میں ہزاروں مسلم دانشوروں نے تربیت حاصل کی۔تمام بلاد اسلامی میں اس عظیم دینی درس گاہ اور امام علیہ السلام کے علمی خزانے کے ہی چرچے تھے جس کی وجہ سے مکہ، مدینہ کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی عاشقان علم و دین امام کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہاں تک کہ بعض غیرمسلم دانشور بھی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھانے لگے۔
فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نےاس وقت کی مناسب سیاسی اور معاشرتی ضرورت کے پیش نظر اپنے والد ماجد کی علمی، ثقافتی اور تربیتی تحریک کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور علمی و نقلی مختلف شعبوں میں شاگردوں کی تربیت کی۔ آپ کے شاگردوں میں ہشام بن حکم، مفضل بن عمر کوفی، محمد بن مسلم ثقفی، ابان بن تغلب اور جابر بن حیان وغیرہ سرفہرست ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ امام علیہ السلام کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار سے زائد ہے۔
ابن عقدہ نے کتاب رجال میں فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے چار زار شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام کے بہت سارے شاگردوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے اور امام سے ہزارں کی تعداد میں روایات نقل کی خاص کر ابان بن تغلب نےامام علیہ السلام سے تیس ہزار روایتیں نقل کی ہیں۔
حسن بن علی وشا کہتے ہیں: میں نے مسجد کوفہ میں نو سو مشایخ حدیث سے ملاقاتیں کیں اور ان سب کو یہ کہتے ہوئے پایا کہ ''جعفربن محمد کا فرمان ہے'' یعنی وہ صرف امام جعفر صادق کے حوالےسے ہی احادیث بیان کیا کرتے تھے۔
شیخ جعفر شہیدی نے " زندگانی امام صادق" نامی کتاب کے صفحہ 65 پر امام علیہ السلام کی شاگردی کرنے والے علماء کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: زرارة بن اعین اور ان کے دو بھائی بکر و حمران،جمیل بن صالح، جمیل بن دراج،محمد بن مسلم طائفى، برید بن معاویه، هشام بن حکم، هشام بن سالم، ابوبصیر، عبیدالله، محمد، عمران حلبى، عبدالله بن سنان اور ابوالصباح کنانى جیسے معروف علماء نے نے امام کی شاگردی کی جن میں سے بعض کا یہاں پر ذکر کررہے ہیں ۔
جابر بن حیان: شیعہ کثیرالجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات اور ماہر فلکیات تھے۔ جمیل بن دراج: امام جعفرصادق علیہ السلام کے خاص شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام جمیل بن دراج پر بہت اعتماد کرتے تھے اور اپنے راز اور خاص باتیں صرف انہیں ہی بتایا کرتے تھے۔
لیث بن البخترى: امام جعفر صادق اور امام محمدباقر علیہما السلام کے شاگرد تھے، امام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں اکابر اور دانشمند کا لقب دیا تھا۔
ہشام بن حَکَم دوسری صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم علیہما السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ امام صادقؑ، امام کاظمؑ، امام علی رضاؑ اورامام جوادؑ سے ان کی مدح میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث کے مطابق آپ ائمہ کی حقانیت کے معترف، حق وحقیقت کے مؤید، اہلبیتؑ کی ولایت کے مدافع اور انکے دشمنوں کے باطل ہونے کو ثابت کرنے والے ہیں۔ احادیث میں ان کی پیروی کو ائمہ کی پیروی نیز ان کی مخالفت کو ائمہ کی مخالفت کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
جابر بن یزید جعفی: امام جعفرصادق علیہ السلام ان کی مدح میں فرماتے ہیں: ان کو جابر اس لئے کہتے ہیں کہ مومنین کی علمی کمزوریوں کا جبران کرتے ہیں، جابر اپنے زمانے میں علم بے کراں کے مالک تھے۔
زرارۃ کوفی: امام محمد باقر ،امام جعفرصادق ؑ اورامام موسی کاظم علیہم السلام کےخاص اصحاب اور بڑے پایہ کے شیعہ فقہاء، متکلمین اور اصحاب اجماع میں سے تھے۔ امام جعفرصادق علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر زرارہ نہ ہوتے تو میرے والد گرامی کی احادیث ختم ہوجاتیں، امام جعفرصادق علیہ السلام نےآپ کو بہشت کی بشارت دی ہے۔زرارہ کا تعلق عرب کے نامور خاندان الاعین سے ہے اور اس خاندان کے بہت سارے افراد ہمارے ائمہ علیہم السلام کے اصحاب اور فقہا میں سے ہیں۔خدایا ہم سب کو ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت پر چلنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ۔آمین