صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد نقوی رحمت مآب
یوم وفات پر خصوصی پیشکش
قرآن مجید کامیابی کا معیار ایمان و عمل صالح کو قرار دیتا ہے۔ سورۂ مومنون میں ارشاد ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوٰتِھِمْ خَاشِعُوْنَ الخ۔ کا میاب وہ ہوتے ہیں جو نماز میں خضوع وخشوع بجالاتے ہیں ۔ سورہ ٔاعلیٰ میں ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّیٰ فلاح اس نے پائی جس نے نفس کو پاک کیا۔ سورۂ شمس میں اعلان ہوا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا کامیاب وہ ہوا جس نے تزکیہ نفس کیا۔ سورۂ قصص کی آیت ہے فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسیٰ اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ تو جن لوگوں نے توبہ کی ایمان لائے انہیں کے لئے کامیابی کی توقع ہے۔ ناکامیابی اور خسارہ ان کا مقدر ہے جو بے ایمان و بدکردار ہوں۔ سورۂ عصر نے تصریح کی وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ۔عصر کی قسم ہر انسان خسارہ میں ہے، سوائے ان کے جو باایمان با کردار ہیں سورۂ انعام میں اعلان ہے اِنَّہُ لَاْ یُفْلِحُ الظَّاْلِمُوْنَ۔ اللہ کبھی ظالموں کو فلاح نہیں دیتا۔ اسی سورہ میں یہ بھی ارشاد ہوا اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لاَ یُؤمِنُوْنَ۔ جن لوگوں نے اپنے نفس کو نقصان پہنچایا تو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اسی طرح کی اور بہت سی آیتیں ہیں جن کو ان معنی میں بیان کرنے سے مضمون طولانی ہوجائے گا۔ کثرت و قلت تعداد اسلحہ کی فراوانی یا کمی دولت و ثروت کی بہتات یا فقدان کو قرآن نے کبھی فتح وشکست کا معیار نہیں قرار دیا ۔ کبھی ارشاد ہوا کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃَم بِاِذْنِ اللہِ سورہ بقرۃ آیت ۲۴۹؍ایسا ہوتا رہاہے کہ کتنی ہی تھوڑی سی تعداد والے بڑے گروہوں پر اللہ کی مرضی کی بنا پر غالب آگئے ۔ قرآن میں مختلف مواقع پر آیات نے تصریح کی ہے کہ اللہ والے اور حق کے ساتھی غلبہ حاصل کریں گے۔ کبھی ارشاد ہوا لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ سورہ مجادلہ آیت ۲۱؍ اور یقینا ہم اور ہمارے پیغمبر ہی غالب ہوکر رہیں گے۔کہیں ارشاد ہے فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ۔ سورہ مائدہ آیت ۵۶؍ اللہ کا گروہ یقینا غالب آنے والوں میں ہے ۔ یہ کلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ الحق یعلو ولا یعلی علیہ۔ حق ہی سربلند رہتا ہے ۔ حق کے مقابلے میں کبھی باطل غالب نہیں آسکتا۔ مگرجب دنیا دار لوگ ان آیات کو دیکھتے ہیں تو وہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ہمیشہ قلت تعداد اور اسباب مادی مہیا نہ ہونے کے باوجود حق کیسے غالب آسکتاہے ۔ دنیاوالوں کی نظر میں تو عیش وآرام حاصل ہوجانا ، خزانوں کا زرو جواہر سے مملو ہونا ، ممالک کا زیر نگیں آجانا ، دنیا والوں کی گردنوں کا جھک جانا ہی کامیابی سمجھا جاتاہے لیکن جب تاریخ انسانیت پر نظر ڈالی جاتی ہے تو قرآن کا پیش کردہ معیار بالکل صحیح نظر آتاہے باطل کی ٹکر باطل سے ہو ، دنیادار دنیاداروں سے جنگ کریں تب تو وہی کامیاب نظر آتے ہیں جن کے پاس فوجوں کی تعداد زیادہ اور سامان حرب کی کثرت اور میدان جنگ کے نبردآزماسپاہی ہوں لیکن جب حق وباطل کی ٹکر ہوتی ہے تو وہاں یہ معیار باقی نہیں رہتا۔ جناب ابراہیمؑ اور نمرود میں مقابلہ ہوا ۔ کس کے فوج تھی اور کون بے یارو مددگار؟ کس کے پاس خزانے تھے اور کون بے سرمایہ؟ کس کے ساتھ کثرت تھی اور کس کے ساتھ قلت، یہ سب کو معلوم ہے لیکن نتیجہ میںبتا دیا کہ نمرود کی نہ فوج کام آئی نہ دولت و ثروت نہ ساتھیوں کی کثرت ۔ جناب ابراہیمؑ اپنی تمام بے سروسامانیوں کے ساتھ کامیاب ہوئے ۔ فرعون کے پاس لشکر کی کوئی کمی نہ تھی، دولت و ثروت کا کوئی حساب نہ تھا اور رب کہہ کر سجدہ کرنے والے ہی لاکھوں تھے، اس کے مقابلے میں بظاہر جناب موسیٰ کے پاس کچھ بھی نہ تھا لیکن بتائیے کامیاب کون ہوا۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ بھی اسی نظریے کی گواہ ہے، ابتدائی دور میں رسولؐ اسلام کے ساتھ ایک بوڑھا چچا تھا ایک کمزور عورت تھی اور ایک کمسن بھائی ۔ جب کہ باطل کی تمام طاقتیں مخالفت پر متحد تھیں ۔ کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ اس کمزور تعداد کو ساتھ لے کر پوری دنیا کو للکارنے والا کبھی اس طرح کا میاب ہوسکتاہے کہ پورا کرۂ ارض اشھد ان لاالہ الااللہ کی آواز سے گونج اٹھے گا ۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید کے اس نظریے کا سب سے بہتر ثبوت واقعۂ کربلا نے پیش کیا جب امام حسینؑ یزید کے مقابلے کے لئے اپنے اعزہ اور دوستوں کے مختصر سے لشکر کو لے کر چلے ہیں تو بڑے بڑے ماہر سیاست دانوں نے سمجھایا تھا کہ اتنی مختصر تعداد کے بل پر یزید کی قہار طاقت سے ٹکر نہ لیجئے ۔ مکہ میں بھی ایسے سمجھانے والوں کی کمی نہ تھی ۔ راستے میں بھی ایسے لوگ ملے تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خبردار کردیا تھا کہ کوفے سے کسی امداد کی توقع نہ رکھئے ۔ چاہے دل آپ کے ساتھ ہوں مگر تلواریں یزید کا ہی ساتھ دیں گی ۔ اگر معاذاللہ حسینؑ ایسے ناسمجھ تھے کہ خود نہ سمجھتے تھے تو بتانے والوں کے سمجھانے کے بعد بھی سمجھ میں نہ آیا۔ علی الخصوص جب شہادت جناب ہانیؑ اور جناب مسلمؑ کی خبر مل گئی اور کوفے والوں کی غداری کا علم بھی ہوگیا اس وقت بھی امام حسینؑ کی آنکھیں نہ کھلیں ؟ لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ امامؑ کامیابی وکامرانی کا معیار دنیاوالوں کے نقطۂ نظر سے نہیں قرآن کے نظریے کے مطابق قرار دیتے تھے۔ اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام حسینؑ نے کس طرح قرآنی معیار کی کامیابی کو روشن کردیا۔ یزید کے لشکر والے سمجھے ہم امام حسینؑ کا سب کچھ لوٹ کر مظالم اور تشدد کی انتہا کرکے اپنے خیال میں حسینؑ اور ان کے ساتھ والوں کو ذلیل و رسوا کرکے کامیاب ہوجائیں گے ۔ لہٰذا مظالم کو اس حد تک پہنچا دیا جس کا تصور بھی انسان واقعۂ کربلا سے پہلے نہ کرسکتا تھا ۔
اپنے خیال میں لاش حسینی کو پامال کرکے حق کو پامال کردیا ۔ وہ یہ سمجھے کہ اہلبیتؑ حسینؑ اسیر کرلئے گئے تو حق وانصاف کو اپنا قیدی بنا دیا لیکن نتیجہ ان کی امیدوں کے برخلاف نکلا ۔ جتنی ظلم کی تاریکی بڑھتی گئی حسینیت چکمتی گئی جتنا حق کچلا جاتا رہا مضبوط ہوتا گیا ۔ چادریں تو اہل حرم کے سروں سے چھینی گئیں لیکن باطل کا گھناؤنا چہرہ نمایاں ہوگیا اور آج بھی دنیا یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ حسینؑ سب کچھ کھو کر کامیاب ہوئے یا ناکامیاب اور یزید سب کچھ پاکر بھی جیتا یا ہارا ۔