مجتبٰی علی ابن شجاعی
عالم انسانیت کے ایک عظیم مفکر مدبر نڈر بے باک رہنما اور باعمل عالم دین حضرت آیت اللہ امام خمینی آج سے 28 سال قبل دعوت حق کو لبیک کہہ گئے عالم بشریت میں آج اس عظیم قائد کی یاد میں تقریبات کا اہتمام ہو رہا ہے ہم بھی اس جید عالم دین کے خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں درود ہو اس مرد مجاہد فرزند زہرا (س) پر جس نے قرآن پاک اور اہلبیت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کامل رکھ کر مردہ قوم کو نئی زندگی بخشی نہ صرف ایک ایرانی قوم کو بلکہ پورے امت مسلمہ کو حیات جاودانی عطا کی ۔
عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لہر دوڑا کر مسلمانوں کے نیم مردہ ضمیروں کو جگا کر ان میں ہمت عزم و استقلال کی پھونک ماری اور بے نظیر دروس دے کر مسلمانوں کو راہ راست پر لا کھڑا کیا یہی نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے مظلوم اور مستضعف مسلمان اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی سعی کر رہے ہیں اور ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف کھلم کھلا ناراضگی کا اظہار کر کے اپنے حقوق کے مطالبے کر رہے ہیں۔
جی ہاں یہی وہ ہستی تھی جو دینی و عصری علوم سے نہ صرف واقف تھے بلکہ آپ نے ان علوموں کو عملی جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے ثابت کر کے دکھایا کہ عمل کے بغیر علم کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ورنہ عین اس زمانہ میں کتنے ایسے فرد ایران میں موجود تھے جو اس غیر اسلامی نظام کے مخالف تو تھے لیکن میدان عمل کی جانب قدم بڑھا نہ سکے
مرحوم قائد نے شدید مشکلات و مصائب کا مقابلہ کیا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی جلاوطنی کے کھٹن اور مشکل ترین طولانی ایام گزارے اپنے عزیز دوستوں یہاں تک کہ اپنے عزیز فرزند کی میت دیکھنی پڑی برے القابات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اخیر وقت تک ایک لمحہ بھی اپنی زمہ داری سے جدا نہ ہوئے اور اپنے فرائض بخوبی سے انجام دئے ۔
اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے، کہا جاتا ہے کہ جب امام راحل کے فرزند ارجمند رحلت کر گئے تو امام خمینی (رح) تدریس میں مشغول تھے اور جب امام کو اطلاع دی گئی کہ آپ کے عزیز فرزند انتقال کر گئے آپ تشریف لائے تو امام نے فرمایا ٹھہرو پہلے میں درس کو مکمل کروں گا اس وقت میں تدریس میں مشغول ہوں ۔
یقیناً امام راحل امام خمینی (رح) ایک لامثال رہنما تھے جنہوں نے استعماری استکباری طاغوتی سامراجی ٹینکوں گولوں بموں اور توپوں کا مقابلہ توکل علی اللہ سے کیا اور عالم اسلام کو کامیابی اور سربلندی کا عظیم تحفہ پیش کیا ۔
امام راحل کی قیادت میں انقلاب اسلامی ایران کا سورج جب طلوع ہوا تو دنیا بھر کی سیاسی پیشن گوئیان تجزیہ نگار اور حکمران انگشت بہ دندان رہ گئے خاص طور پر ایسے پیشن گوئی کرنے والوں حکمرانوں اور تجزیہ نگاروں کو شدید بحران آ گیا جو امام کی قیادت والی تحریک کو محض بازیچہ اطفال سمجھ رہے تھے اور تجزئے کر رہے تھے کہ یہ تحریک جلد ہی ناکامی کے سمندر میں غرق ہوجائے گی ۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امام خمینی اگر سامراجیت طاغوتیت اور شیطانیت کے خلاف قیام نہ کرتے تو شاید ہی آج مسلمان ان شیطانی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوتے اور پورا نظام اسلامی ان ہی طاقتوں کے زیر اثر ہوسکتا تھا جس طرح ایران میں تھا جس کی ایک چھوٹی مثال یہ ہے کہ تیل ایران کا تھا اور قیمت امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔
امام خمینی رح ) اتحاد کے بہت بڑے داعی گزرے ہیں جنہوں نے وقتاً فوقتاً اتحاد و اتفاق یکجہتی کے دروس دئے اور خود بھی اس عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی جدا نہ ہوئے آج دنیا میں اگر مسلمانوں کے بچہ بچہ کے زبان پر القدس لنا القدس لنا کا نعرہ ورد ہو رہا ہے وہ امام خمینی کی ہی مرہون منت ہے انہوں نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دے کر تاریخ ساز فتوٰی صادر کر دیا کہ اس روز بیت المقدس کی آزادی کے لئے مسلمان کوششیں کریں اور اسرائیل کے خلاف احتجاج درج کریں۔
امام خمینی رح) ایک عظیم پایہ کے مصنف بھی تھے جن کی تصانیف کا بیش بہا خزانہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور ان کا مطالعہ کر کے امام کی عالمانہ صلاحیت اور وسعت فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگرچہ امام اس دارالفانی سے رخصت کر گئے لیکن آپ ہمارے درمیان آج بھی زندہ و پائندہ ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے