معتبر روایات کے مطابق حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت 25 محرم سنہ 95ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریبا" 57برس تھی۔ آپ کی شہادت کا سبب اموی بادشاہ ولید ابن عبدالملک کے ذریعہ دیا گیا زہرتھا جو اس نے صرف بغض اہلیبیت میں دیا تھا ورنہ امام اس وقت بھی سیا سی اور حکومتی معاملات سے دور مدینہ کے باہر مقام منبع میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ زراعت میں مشغول پرامن زندگی گذار رہے تھے اور کسی طرح بھی حکومت وقت کے لئے خطرہ نہیں تھے۔امام کو آپ کے عم بزرگوارحضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے پہلو میں جنت البقیع میں دفنایا گیا۔
واقعہ کربلاء کے دوران امام زین العابدین علیہ السلام نے انتہائی علالت کی حالت میں بھی روز عاشور تک دیگر شہداء کے ساتھ ساتھ تمام مظالم اٹھائے۔ دیگر شہداء کی مصیبتیں تو انکی شہادت کے ساتھ ختم ہوگئیں مگر امام زین العابدین علیہ السلام جو آل رسول کے مردوں میں واحد فرد حیات تھے اس لئے آپ کی مصیبتیں ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئیں جن کا سلسلہ ایک سال بعد تک شام کے زنداں سے رہائی کے وقت تک جاری رہا۔ عصر عاشور جب ظالموں نے خیام حسینی میں آگ لگائی تھی تو امام اس وقت نیم غشی کی حالت میں اپنے خیمہ میں اپنے بستر پر تھے اس وقت ایک شقی نے وہ بستر بھی آپکے نیچے سے کھینچ لیا تھا۔اہل حرم کے ساتھ کربلاسے کوفہ تک کا سفر بھی آپ نے طوق و زنجیر پہنے ہوئےاس حالت میں پیدل طے کیا تھا کہ جب اہل حرم کے سروں پر چادر نہ تھی۔ پھر امام نے بازار کوفہ سے اپنی ماوں بہنوں کا برہنہ سر گذرنا اور دربار ابن زیاد میں حاضر ہونا بھی بے بسی سے دیکھا۔
کچھ دن بعد اہل حرم کا قافلہ دمشق لے جایا گیا جس کی سا ربانی امام فرمارہے تھے۔راستہ طویل اور سخت تھا اس لئے آپ کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر رسیوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ آپ کمزوری کے باعث اونٹ سے گر نہ جائیں۔ اہل حرم کا یہ قافلہ جب دمشق پہنچا تو اسے فوری دربار یزید میں جانے کی اجازت نہ دی گئی ۔بازار دمشق سجایا جارہا تھا تاکہ لوگ آل رسول کو قیدی بنا دیکھ سکیں۔جب بازار اور دربار آراستہ ہوچکے تو امام زین العابدین علیہ السلام کو اہل حرم کے ساتھ داخلہ کی اجازت ملی۔ یہ وہ وقت تھا جب امام اپنی ماوں بہنوں اور پھوپھیوں کو دربار یزید میں برہنہ سرکئی سوکرسی نشینوں کے سامنے آتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امام زاروقطار رو رہے تھے۔ رہائی کے بعد بھی اسوقت کو یاد کرکے آپ بہت زیادہ گریہ کرتے تھے۔ جب کوئی پوچھتا تھا کہ مولاآپ پر سب سے زیادہ مصیبتیں کہاں پڑیں تو آپ کا ایک ہی جواب ہوتا تھا " آلشام آلشام الشام"
آپ کی مصیبتوں میں اس وقت اضافہ ہوجاتاتھا جب آپکو شام کے تماشائی باغی اور کافر سمجھ کر ذلیل کرتے تھے۔مگر ان تمام صعوبتوں اور مظالم کو سہنے کے باوجود بھی امام عالی مقام اک لمحہ کے لئے بھی اپنے فرض منصب امامت اور جانشین رسول ہونے کی ذمہ داری سے غافل نہ تھے اور اپنے سفر کے سب سے زیادہ اذیتناک اس مرحلہ میں بھی اپنے بابا کی شہادت عظمی کے مقصد کی تبلیغ اور نشر واشاعت دین محمدی میں مصروف تھے۔یزید کے قیدی بن کر دشمنوں کے نرغہ میں گھرے رہنے کے باوجود امام اپنے اس اہم کام کو جس شجاعت اور ہمت کے ساتھ انجام دے رہے تھے وہ کوئی آسان کام نہ تھا۔خصوصا" ایسے ماحول میں جہاں یزید نے اپنی پوری سلطنت میں یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ کچھ ایسے قیدی لائے جارہے ہیں جنھوں نے خلیفہ وقت کے خلاف بغاوت کی ہے۔اس جھوٹے پروپیگنڈہ کے باعث لوگوں کے دل اور ذہن بدل چکے تھے۔
چنانچہ جب اہل حرم کا یہ مختصر قافلہ دمشق کی جامع مسجد کے قریب پہنچا تو اک شامی نے ایل حرم کو کافر سمجھتے ہوئے امام کے سامنے گستا خانہ کلام کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے جس نے تم کو ہلاک کیا اور فتنہ کو جڑ سے اکھاڑدیا. امام زین العابدین علیہ السلام اس شامی کے اس گستاخ کلام کو نہائیت صبر و تحمل کے ساتھ سنتے رہے۔جب وہ شامی اپنی بات مکمل کرچکا تو اس بھرے مجمع میں امام نے اس سے پوچھا کیا تونے قرآن پڑھا ہے. اس نے کہا ہاں پڑھا ہے۔آپ نے پوچھا تونے قرآن میں یہ آیت " وآت ذالقربی حقہ ")سورہ الاسراء آیت 26( اس نے کہا ہاں پڑھی ہے۔ امام نے فرمایا اور یہ آیت بھی پڑھی " انما یریدا للّٰہ لیذھب عنکم الرجس اهل البیت و یطهركم تطهيرا" ( سورہ الأحزاب ايت 23) اس نے کہا ہاں پڑھی ہے۔ امام نے فرمایا اے شخص یہ تمام آیات ہماری شان میں نازل ہوئی ہیں۔ یہ سن کر وہ شخص گھبراگیا اور اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ آٹھاکر کہنے لگا اے پروردگار میں توبہ کرتا ہوں اور ان لوگوں سے سخت بیزار ہوں جنھوں نے تیرے نبی کی آل پہ ظلم کیا ہے۔امام کا یہانقلابی طریقہ احتجاج اور تشہیر مقصد شہادت امام حسین علیہ السلام شام میں قیام کے دوران مسلسل جاری رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کے اک سال کے بعد یزید امام کو انکے اہل حرم کے ساتھ قید سے آزاد کرنے پر مجبور ہوا۔ یزید کے دربار میں یزید اور اسکے رفقاء اور حامیوں کی موجودگی ہی میں امام نے کئی مواقع پر یزید کے ظلم و ستم اور اسکے باطل پر ہونے کا اعلان کچھ اس طرح سے کیا کہ سننے والوں کے دل منقلب ہوگئے اور یزید کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اس طرح امام دشمنوں کے نرغہ میں اپنے بابا کی حقانیت اور اہیلبیت کے فضائل علی اعلان بیان کرتے رہے۔
مقاتل میں ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام کو یزید کے دربار میں لایا گیا تو اس وقت وہ ملعون شراب نوشی میں مصروف تھا اور امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس اک طشت میں اس کے سامنے رکھا تھا۔سامنے اہل حرم مجرموں کی طرح صف بستہ کھڑے تھے امام نے یزید سے پوچھا اے یزید یہ بتا کہ اگر حضرت رسول خدا ص ہم لوگوں کواس حالت میں دیکھتے تو انکا کیا حال ہوتا ؟ یزید کہنے لگا آپکے باپ نے میرے حقوق سے انکار کیا اور میری سلطنت میں جھگڑا ڈالا بس خدا نے ان کے ساتھ وہ کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔ امام نے جواب دیا اے یزید اللہ سے ڈر یہ کام اللہ نے نہیں بلکہ تیری فوج نے کیا ہے۔ قتل حسین ع کا ذمہ دار تو ہے۔میرے باپ نے کسی کا حق ضبط نہیں کی ۔خدا لعنت کرے ان پر جنھوں نے میرے پدربزرگوار کو قتل کیا ہے۔یزید یہ سنکر غصہ میں آگیا اور امام کے قتل کا حکم دینے لگا جسے سن کر دربار میں بیٹھے لوگوں کے تیور بدل گئے اور یزید خوف زدہ ہوکر امام کے قتل سے باز رہا۔
اس طرح امام اپنے حق کا اعلان مسلسل کرتے رہے۔ اک دن یزید نے امام علیہ السلام کو زندان سے اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ وہ اپنے مصاحبوں کے سامنے آپکی تذلیل کرسکے۔ یزید نے اپنے زرخرید اک خطیب سے کہا کہ وہ منبر پر جاکر اسکے فضائل اور بنی فاطمہ کے معاذاللہ عیوب بیان کرے۔ اس نے حکم کی تعمیل کی امام نے اس بدبخت کو مخاطب کرکے کہا افسوس تونے ایک نافرمان بندے کے لئے اپنے خدا کی نافرمانی کی اسلئے اب آتش جہنم میں جانے کے لئے خود کا آمادہ کرلے۔ امام نے یزید سے کہا اگر تو اجازت دے تو میں بھی کچھ کہوں۔پہلے تو یزید نے انکار کیا مگر درباریوں کے اصرار پر اجازت دیدی۔ امام علیہ السلام نے اس وقت جو بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا وہ دراصل قاتل حسین یزید کے دربار میں اسکے اور اسکے حامیوں کی موجودگی میں پہلی مجلس عزاء حسین تھی جس میں امام نےپہلے اپنے اور اہلیبت کے فضائل بیان فرمائے اور پھر قاتل کے سامنے ہی اسکے مظالم اور اہلیبیت کے مصائب کا ذکرفرمایا جسے سن کر وہاں موجود ہر درباری اشکبار تھا۔ امام نے فرمایا :
" لوگو جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے میں علی ابن الحسین ع ہوں. فاطمہ زہراء کا بیٹا ہوں۔ ان کا پارہ جگر ہوں جو مکہ و منی کا مالک ہے۔میں اس کا بیٹا ہوں جو صاحب صفا آور مروہ ہے۔میں اس کا بیٹا ہوں جس کے ساتھ آسمان پر ملائکہ نے نماز پڑہی۔ میں اس کا فرزند ہوں جو حوض کوثر کا مالک ہے۔ میں اس کا فرزند ہوں جس پر قرآن نازل ہوا۔ میں اس رسول کا فرزند ہوں جس کے لئے جنت کے دروازے کھولے گئے اور جسے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہوئی۔
میں اس کا فرزند ہوں جو زمین کربلاء پر بے گور وکفن پڑا رہا۔ میں اس کا فرزند ہوں جو پیاسا ذبح کیا گیا اور جس کی بے کسی پر ملائکہ روئے۔ لوگو خدا نے سخت بلاؤں سے ہمارا امتحان لیا ہے۔اس نے ہمارے لئے ہدایت کو مخصوص کیا ہے اور ہمارے دشمنوں کے لئے ہلاکت کو۔خدا نے ہم کو تمام عالم پر فضیلت دی اور وہ چیزیں عطا فرمائیں جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہیں۔ علم' حلم' شجاعت' محبت خدا اور محبت رسول۔
حضرت کا یہ کلام سن کر تمام حاضرین رونے لگے۔ یہ دیکھ کر یزید کو خوف ہوا کہ کہیں لوگ بغاوت پر نہ اتر آئیں اور اس نے گھبراکر موذن کو اذان دینے کا حکم دیا۔