خطبہ امام زین العابدین ع اعلان فتح معرکہ کربلاء تھا
1034
m.u.h
24/08/2022
0 0
تحریر: تقدیس نقوی
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام معرکہ کربلاء کے وہ منفرد مجاہد ہیں جنھوں نے آغازجہاد یعنی مدینہ میں طلب بیعت کے مرحلہ سے لے کر انتہاء جہاد یعنی زندان شام سے رہائی کے وقت تک یزید ابن معاویہ کو ہر مرحلہ پرایسی عبرتناک شکست دی جس کے بعد یزید آپ سے دوبارہ بیعت کا سوال نہ کر سکا۔ واقعہ کربلاء کے ردعمل کے نتیجہ میں جب یزید کی سلطنت میں جگہہ جگہہ اس کے خلاف احتجاج اور بغاوت ہونے لگی خصوصا" مدینہ اور مکہ میں تو اس وقت بھی یزید امام زین العابدین علیہ السلام سے دور ہی رہا۔
اس بغاوت کو کچلنے کی غرض سے یزید نے اپنے معتمد مسلم بن عقبہ کی سربراہی میں اپنی افواج مدینہ میں بھیجیں جس نے مدینہ نبوی کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ سنہ 63 ھجری میں مدینہ میں شرمناک واقعہ حرہ ہوا جس میں بے شماراصحاب رسول شہید کردئے گئے تھے، خواتین کی عصمت دری کی گئی اور مسجد نبوی کی بے حرمتی کرنے کی غرض سے اس میں گھوڑے بندھوائے گئے۔
اس واقعہ کے وقت امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ کے مضافات میں اپنے گاوں " منبع" میں اپنے اہل وعیال کے ہمراہ قیام پذیر تھے مگراس وقت بھی کوئی یزیدی اہل کار امام عالی مقام سے کسی طرح کی بازپرس کرنے کی جرئت نہ کرسکا۔ چند برس قبل ہوئے واقعہ کربلاء اورشام میں ایک سال کی قید کی طرح امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ میں بھی تن تنہا اور بے یارو مددگار تھے۔ یزید اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف تھا کہ تمام سلطنت میں پھیلی بغاوت کو تو ظلم و جوراورطاقت کے ذریعہ دبایا جاسکتا ہے اور بزور شمشیرعوام سے تجدید بیعت کرائی جا سکتی ہے مگر فاتح کربلاء و شام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جن کی رگوں میں ان کے بابا سید الشھداء حضرت امام حسین ابن علی علیھم لسلام کا خون دوڑ رہا ہے کسی حال میں اس کی بیعت نہ کریں گے اور اسے ایک بار پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑیگا ۔ لہذا اس نے پورے واقعہ حرہ کے دوران یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ اپنی زراعت پر تن تنہا مقیم ہیں آپ سے کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی کوشش نہ کی۔ یزید پر امام زین العابدین علیہ السلام کا یہ رعب و دبدبہ کن وجوہات کی بنا پر قائم ہوا تھا اس کا اک مختصر تجزیہ کربلاء میں عصرعاشور شھادت حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد سے کوفہ و شام میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا بغور مطالعہ کرنے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
واقعہ کربلاء سے متعلق تمام معتبر توارِیخ شاہد ہیں کہ روزعاشورہ وقت قتال امام زین العابدین علیہ السلام جن کی عمر اس وقت تقریبا" 23 برس بتائی جاتی ہے سخت علیل تھے اور اپنے خیمہ میں بستر علالت پر بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ اسی سخت علالت کے باعث امام میدان جنگ میں تلوار سے اپنے بابا کی نصرت نہ کرسکے تھے۔ اسی نیم بے ہوشی کے سبب بعد شھادت امام حسین علیہ السلام آپ کی نگاہوں کے سامنے تاراجَی خیام ہوتی رہی اور آپکے اہل حرم کے سروں سے چادرِیں چھینی جاتی رہیں آپ کی اسی علالت کے باعث اشقیاء نے آپ کو طوق و زنجیر پہناکر گرفتار کر لیا تھا۔ اس علالت کے سبب ہی جواں سوال ہونے کے باوجود بھی اس وارث شیر خدا کو اپنی شجاعت کے جوہردکھانے اورجنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقعہ نہ حاصل ہوسکا۔
بعد عصر عاشور بھی تین دن کے بھوکے پیاسے بیمار و ناتواں اک جوان سے فوج یزید کو یہ خوف یقینا" لاحق نہ رہا ہوگا کہ وہ تن تنہا اس وقت ان کے خلاف تلوار اٹھا سکے گا یا کوئی فوج جمع کرسکے گا۔ تو پھر یزید کی نیابت کرنے والے عمر سعد ، ابن زیاد اور شمر کو ایسا کون سا خوف ستا رہا تھا جس کے سبب انھوں نے ناتواں اور بیمار امام کو طوق و زنجیر میں جکڑا ہوا تھا۔ کسی مقابلہ میں دو فریق ایک دوسرے کے مقابل آکر دو ہی طریقوں سے مخالف کو زیر کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں- ایک قوت تلوار اور دوسری قوت گفتار۔ تاریخ شاہد ہے کے حق و صداقت کی تبلیغ اور اظہار کے لئے قوت گفتار قوت تلوار سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔ اسی قوت کے ذریعہ دنیا میں انقلاب برپا ہوتے رہے ہیں اور مظلوموں اور حق پرستوں نے ظالموں اور جابروں کو نیست ونابود کردیا ہے۔ بس یہی وہ خوف تھا جو یزیدی فوج کے لئے باعث تشویش تھا۔ اک جانب فوج یزید کو میدان کربلاء میں خاندان نبوت پر ڈھائے گئے اپنے مظالم کے عوام میں باغیانہ ردعمل کا خوف تھا تو دوسری جانب قافلہ اہل حرم کا کربلاء سے روانگی کے بعد کوفہ و شام کے راستوں سے گذرتے ہوئے مقصد حسینی کی تشہیر اور ظالموں کی نشاندہی کروائے جانے کا خطرہ لاحق تھا۔ عمرسعد اور شمر امام زین العابدین علیہ السلام کی خاندانی عظمت ، قرابت رسول اور فصاحت و بلاغت کلام کا عوام الناس پر فوری اثر قائم ہوجانے سے خوف زدہ تھے جس کے باعث انہوں نے امام زین العابدین علیہ السلام اور اہل حرم کو بیڑیوں اور رسیوں میں جکڑ دیا تھا۔ اس طریقہ کار کے ذریعہ اک جانب وہ راستوں میں آتے ہوئے عرب قبائل کو یہ عندیہ دینا چاہ رہے تھے کہ وہ دراصل اک حکومت کے باغی اور خلیفہ وقت کی بیعت سے انکار کرنے والے گروہ کو قیدی بنائے لئے جارہے ہیں تو دوسری جانب وہ امام کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کراور بھاری طوق خاردار گلے میں ڈال کر انہیں اس قدر بے بس اور مجبورکردینا چاہتے تھے کہ وہ کسی مقام پر بھی موجود مجمع کے سامنے اپنی کوئی بات کہنے کی طاقت نہ رکھ سکیں۔
کربلاء کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی قیادت میں چلنے والے اہل حرم کے اس قافلہ کا پہلا پڑاو کوفہ تھا جو کربلاء سے تقریبا" ُچالیس پچاس میل دور ہے۔ اس مختصر راستے میں آنے والے قبائل سے بچنے کی فوح یزید کے پاس بظاہر کوئی صورت نہ تھی۔ سوائے اس کے امام اور اہل حرم کو سخت پہرے اور قید و بند میں وہاں سے گزارا جائے۔ دوسرے اس راستے میں پڑنے والے اکثر قبائل کربلا میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شامل تھے اور وہاں کی صورت حال سے بخوبی واقف تھے۔ اس خطہ کے لوگ اپنے سرداروں کی عہد شکنی، دنیا ہرستی اور یزیدی فوج سے سازشی معاونت کی حقیقت سے بھی واقف تھے۔ اس لئے فوج یِزید کو ان کی جانب سے بظاہر کسی ردعمل کا خدشہ نہ تھا۔ مگر یہ بات کوفہ سے شام جانے والے راستوں پر پڑنے والے عربی قبائل پر صادق نہیں آرہی تھی۔ اولا" یہ قبائل معرکہ کربلاء کی حقیقت سے بالکل واقف نہ تھے ۔ دوئم بہت سے علاقوں میں محبان اہلیبیت سکونت پذیر تھے جن سے کبھی بھی بغاوت کا خطرہ تھا۔ یہی بنیادی وجہ تھی کی فوج یزید نے کوفہ و دمشق کا سیدھا مختصر راستہ ترک کرکے مشکل اورطویل راستہ اختیار کیا۔ شمر جو سالار قافلہ تھا اس نے ان علاقوں سے دور چلتے ہوئے براہ راست دمشق جانے کے بجائے شمالی عراق میں موصل اور پھر وہاں سے شمالی شام میں غیرمعروف راستوں سسے ہوتے ہوئے حلب کے مقام پر پڑاوڈالا جہاں اس وقت بھی عیسایوں کی کثرت تھی۔ اس غیر معروف راستے کو اختیار کرنے کے سبب بے کجاوہ اونٹوں پر سوار اہل حرم کو انتہائی صعوبت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بے شمار بچے اونٹوں سے گرکر شہید ہوگئے۔ امام عالی مقام یہ سب مظالم سہتے ہوئے خاموشی سے یہ طویل سفر طے کرتے رہے ۔ بظاہرشمر مطمئن رہا کہ وہ بہ آسانی قافلہ اہل حرم کو پیش یزید پہنچانے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ مگر شمر اس حقیقت سے چشم پوشی کررہا تھا کہ ولی خدا اور ہادی برحق تبلیغ دین کے لئے کسی مکان و مقام کے محتاج نہیں ہوتے۔ اللہ تعالی مسبب الاسباب ہے۔ اسے جب پیغام حق پہنچانا ہوتا ہے وہ اس کے اسباب خود پیدا کردیتا ہے۔ جس بات سے شمر کوفہ و دمشق کے راستوں سے پریشان تھا وہی بات پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے دمشق میں یزید کے دربار کا انتخاب کیا۔
پورے معرکہ کربلا میں یزید کا امام زین العابدین علیہ السلام سے دربار دمشق کے علاوہ کسی مقام پر بھی کہیں آمنا سامنا نہیں ہوا تھا لیکن وہ امام کی اوران کے آباو اجداد کی خوبیوں اور فضائل سے بخوبی واقف تھا۔ یزید کے خیال و گمان میں بھی نہ تھا کہ امام زین العابدین علیہ السلام اس کی اجازت کے بغیر کئی سو کرسی نشینوں کے درمیان اس کے دربار ہی میں اس کے کفروالحاد کا پردہ فاش کردیں گے اور اسے مجمع کے اصرار پر انہیں کچھ کہنے کی اجازت دینا پڑیگی۔
مقاتل میں ہے کہ یزید نے جب اپنا دربارآراستہ کرالیا اور دمشق کے تمام امراء اور منصب داروں اور دیگر ممالک کے سفراء کو مدعو کر لیا تو اہل حرم کو دربار میں لایا گیا۔ تمام بیبیاں سروپا برہنہ تھیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام طوق و زنجیر میں گرفتار تھے۔ شمر یزید سے اک اک کا تعارف کرراہا تھا۔ یزید نے امام کی جانب متوجہ ہوکر کہا کہ تمہارے باپ نے مجھ سے بغاوت کی اور میری اطاعت سے منہ موڑا۔ دیکھا خدا نے تم لوگوں کو کیسا ذلیل و خوارکیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم لوگوں کو اس بغاوت کی سزا دی۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے یزید سے کہا کہ یزید مجھے اجازت دے کہ میں بھی تیرے اہل دربار کے سامنے کچھ کہہ سکوں۔ لیکن یزید نے منظور نہ کیا۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ اگر اس نے ابن الحسین کو اس وقت کچھ کہنے کی اجازت دیدی تو قیامت برپا ہوجائیگی۔ چنانچہ اس نے امام کو کچھ کہنے کی اجازت نہ دی۔ لیکن تمام درباریوں اور سفراء نے یزید سے اصرار کیا کہ اس مظلوم کی داستان بھی سننا چاہیے۔ جب یزید مجبور ہوا تو امام کو منبر پر آنے کی اجازت دیدی۔ امام زین العابدین علیہ السلام منبر پر تشریف لے گئے اور نہایت فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ وہی خطبہ تھا جس کو سننے کے بعد عوام کے سامنے واقعہ کربلا کی حقیقت کھلی اور یزید کی سلطنت میں خلفشار ہونے لگا۔ سب سے پہلے امام نے اللہ تعالی کی حمد ثنا فرمائی اور پھر فرمایا:
" اے لوگو تم میں سے جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا میں اسے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں۔ سنو میں علی ابن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جس نے حج کئے ہیں میں اس کا فرزند ہوں جس نے طواف کعبہ کیا ہے اور سعی کی ہے، میں پسر زمزم و صفا ہوں، میں فرزند فاطمہ زہرا ہوں میں اس کا فرزند ہوں جو پس گردن سے ذبح کیا گیا۔ میں اس پیاسے کا فرزند ہوں جو پیاسا ہی اس دنیا سے اٹھا، میں اس کا فرزند ہوں جس پر لوگوں نے پانی بند کردیا۔۔ میں محمد مصطفے ص کا فرزند ہوں میں اس کا فرزند ہوں جو کربلا میں شہید کیا گیا۔"
امام نے پھر فرمایا " لوگو خدا نے ہمیں پانچ چیزوں سےفضیلت بخشی ہے 1۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھر میں فرشتوں کی آمدورفت رہی اور ہم ہی معدن رسالت ہیں۔2۔ ہماری ہی شان میں قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں اور ہم نے لوگوں کی ھدایت کی۔ 3۔ شجاعت ہمارے گھر کی ہی کنیزہے۔ 4۔ ہم ہی صراط مستقیم اور ہدایت کا مرکزہیں۔ 5۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اور زمینوں میں بلند ہیں۔۔"
حاضرین نے جب امام کا یہ کلام سنا تو چیخیں مار مار کر رونے لگے۔ یہ حال دیکھ کر یزید گھبرا اٹھا۔ اسے ڈر ہوا کہ امام کا کلام سن کر کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے۔ اس نے موذن کو حکم دیا کہ فورا" اذان شروع کرے اور امام کے خطبہ کو منقطع کردے۔ موذن فورا" اذان دینے کے لئے کھڑا ہوگیا اور کہا " اللہ اکبر" امام نے بھی کہا تونے اک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی۔ پھر موذن نے کہا " اشھد ان لا الہ الا اللہ " پھر کہا " اشھد ان محمدا" رسول اللہ" ۔ یہ سن کر امام روپڑے۔ اور فرمایا اے یزید میں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں " بتا حضرت محمد مصطفے ص میرے نانا تھے یا تیرے۔ یزید نے کہا آپ کے۔ پھر آپ نے فرمایا " پھر تونے کیوں ان کے اہلیبیت کو شھید کیا؟" یزید نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے محل میں چلا گیا۔
گو کہ یزید کے دربار میں امام زین العابدین ع کا خطبہ طویل تھا مگر اوپر دئے گئے اس کے خلاصہ سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام زین العابدین ع نے یزید کی قید و سلاسل میں ہونے کے باوجود اس کے امراء اور روسا کے سامنے جس جرِئت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اپنے حق اور صداقت کو دلائل کے ساتھ علی الاعلان بیان کیا اور یزید کے مظالم کو اس کے محافظوں کے سامنے آشکار کیا یہ صرف خاندان رسالت کی صاحب عصمت و طہارت ہستی کا ہی حق تھا۔ امام نے اپنے اس خطبہ کے توسط سے توحید ، رسالت اور امامت کے کتنے ہی ابواب منکشف کردئے اور دربار میں بیٹھے ہوئے ہر صاحب عقل کو دعوت فکر دی کہ اب وہ فیصلہ کرے کہ معرکہ کربلاء میں حضرت امام حسین ع حق پر تھے یا یزید؟ اس طرح امام زین العابدین ع گویا اپنے کلام بلاغت سے دشمن کے دربار میں اپنے بابا اور انکے ساتھیوں کی فتح کا اعلان کررہے تھے اور یزید ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہاتھ مل رہا تھا۔