عاشورہ محرم الحرام سنہ 60 ہجری کو جب منافقین کے ہاتھوں قصرتوحید الہی کے ستون منہدم کئے جا رہے تھے اس وقت حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام نے زخمی پیشانی سے ریگزارکربلاء پراپنے خالق کے لئے سجدہ بجا لاکر قیامت تک کے لئے توحید الہی کوبچالیا۔
حسین ابن علی علیہ السلام نے دین الہی کی بقا کی خاطراپنے نانا کے مرقد پرنور سے جدا یونا اور اہل حرم اوراپنے اصحاب کے ساتھ تین دن کی بھوک اور پیاس کے ساتھ جام شہادت پینا قبول کرلیا مگرتوحید الہی کوقیامت تک محفوظ کردیا ۔ اگرامام عالی مقام بیعت فاسق سے علی الاعلان انکار نہ کرتے تو آج دنیا میں دین الہی کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔
امام مظلوم کی یہی عظیم قربانی آج توحید الہی کی اساس ہے جس میں ان کا اورانکے ساتھیوں کا خون آج بھی رواں دواں ہے ۔ امام مظلوم کی اسی قربانی کی مرہون منت ہی آج دین اسلام سرخرو ہے۔ شہید انسانیت اگرکربلا میں پرچم توحید بلند نہ کرتے تو دنیا کے گوشے گوشے ٘میں آج یہ مسجدوں سے لاالہ الااللہ کی صدائیں بلند نہ یوتیں۔
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حقیقت کو نظم کرکے حسینیت اور توحید الہی کے باہمی ربط کو تاریخ کے اوراق پرقیامت تک کے لئے ثبت کردیا ہے:
" حقا کہ بنائے لاالہ است حسین" یعنی یہی حق ہے کہ امام حسین ع ہی کلمہ توحید کی اساس ہیں۔
یزید نے تو سوال بیعت کے ساتھ ہی انکار وحی الہی کردیا تھا اوردین اسلام کو بنی ہاشم کا رچایا ہوا کھیل بتایا تھا۔ یہ امام حسین علیہ السلام کی ہی قربانی تھی جس نے یزید ایسے منکرتوحید الہی کو قیامت تک کے لئے نیست و نابود کردیا۔
تاریخ گواہ ہے جب دشمنان دین نے حجتہ خدا کی امن سے زندگی بسرکرنے کی تمام راہیں مسدود کردیں اورامام کے پاس بحزاپنی اوراپنے ساتھیوں کی شہادت پیش کرنے کے اورکوئی راستہ باقی نہ رہا تو امام نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان دشمنان خدا ورسول سے آک شب کی مہلت صرف عبادت الہی اورتسبیح وتحلیل کرنے کے لئے مانگی تھی۔ رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے امام مظلوم کی اس خواہش کی بے حرمتی کرتے ہوئے خود دشمن نے جواب دیا تھا کہ اے حسین ع تمہاری یہ نمازیں اورعبادتیں اگر تمہیں بچاسکتی ہیں تو یہ اک شب کی مہلت لے لو۔ یعنی اس وقت اک جانب امام حسین ع ارکان دین کو قائم کررہے تھے تو دوسری جانب منافقین دین الہی کو ختم کرنے کی تیاری کررہے تھے۔
صبح عاشورتیروں کی بارش میں نمازادا کرکے حجتہ خدا نے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہماری جانوں سے زیادہ اہم اورعظیم ہمارے لئے عبادت الہی ہے جس کے لئے ہم اپنا سب کچھ قربان کررہے ہیں۔
فوج اعدا کا مورخ حمید ابن مسلم لکھتا ہے کہ مہلت ملنے کے بعد ساری شب عاشور خیام حسینی سے تسبیح وتحلیل الہی کی آوازیں آتی رہیں جو اس حقیقت کا اعلان تھیں کہ امام حسین علیہ السلام یہ شہادت اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا کے لئے ، اس کی توحید کی حفاظت کے لئے پیش کررہے ہیں۔ معرکہ کربلا میں قدم قدم پرامام عالی مقام اپنے ہرعمل سے اپنے مقصد جہاد کو واضح کرتے جارہے تھے۔
امام حسین علیہ السلام کا محافظت دین اسلام کا یہ آفاقی مشن ان کی شہادت کے ساتھ روز عاشورہ ختم نہیں ہوا تھا بلکہ وقت عصر روزعاشور امام مظلوم نے صدائے استغاثہ " کون ناصر ومددگار ہے جو میری مدد کرے" بلند کرکے قیامت تک آنے والے ہر اہل ایمان کو اپنے اس مشن میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ امام عالی مقام کی ہدایت پران کے اسی مشن کو جاری اور باقی رکھنے کا نام حسینیت ہے۔ حسین ابن علی ع کی توحید الہی کی محافظت کرنے کی تاسی اور پیروی کرنے کو ہی حسینیت کہتے ہیں۔
سرورکائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک کے مطابق قرآن و اہلیبیت سے تمسک ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے مگرتمسک قائم رکھنے کے لئے پہلے قرآن واہلیبیت کی معرفت ہونا ضروری ہے۔ معرفت سے مراد ان ہستیوں کے اسوئے حسنہ ، ان کے مقاصد اور ان کی عظمت کو پہچاننا تاکہ ان کے قول وعمل کا اتباع کیا جاسکے۔ اس لئے ہرحسینی کو اتباع امام حسین ع کرنے کے لئے ضروری ہے کے حسینی مقصد کی پیروی کرے۔ کیونکہ حضرت امام حسین ع نے کربلا کے ذریعہ یہ پیغام واضح کردیا ہے کہ حسینیت کا اولین مقصد محافظت توحید الہی اور دین اسلام ہے۔ لہذا ہر حسینی اپنے ہر عمل سے اس مقصد حسینی کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ یہی ائمہ معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کا خلاصہ بھی ہے۔ اب وہ رسوم عزاداری ہوں یا زیارات مزارات مقدسہ ائمہ معصومین علیھم السلام ہرموقع پرتوحید الہی کو سب سے زیادہ مقدم رکھا گیا ہے۔
معتبرروایات میں زیارت روضہ مقدس امام حسین ع کے آداب میں سب سے مقدم اورافضل عمل یہ بتایا گیا ہے کہ زائرامام قصد زیارت کرنے سے پہلے اپنی زبان پرکلمہ توحید اس طرح جاری کرے:
" لااله الا الله والله اكبر والحمد لله "
ترجمہ: نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اللہ بزرگ تر ہے اور حمد اللہ ہی کے لئے ہے۔
اس عمل سے ہر حسینی یہ اعلان کرتا ہے کہ زیارت امام حسین علیہ السلام کا ہدف اور مقصد اس کےتوسط سے معرفت الہی حاصل کرنا ہے۔
زیارت امام حسین ع کے یہ الفاظ مقصد حسینیت کو بار بار دہراکر توحید الہی کی محافظت کی جانب دعوت دیتے ہیں:
ترجمہ :" میں گواہ ہوں کہ آپ نے {امام حسین ع} نماز قائم رکھی ،زکواۃ دیتے رہے، آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا، اور برے کاموں سے روکا اورآپ نے خدا کی خالص بندگی کی حتی کہ آپ شہید یوگئے۔ سلام ہو آپ پر خدا کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔"
وقت زیارت قبرمبارک کے قریب کھڑے ہوکر اللہ رب العزت کی یہ تسبیح جوخالصتا" توحید الہی کی معرفت کا اظہار ہے اسے اس طرح پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے:
ترجمہ : پاک ہے وہ جس کے خزانے ختم نہیں ہوتے، پاک ہے جس کی نشانیاں مٹتی نہیں، پاک ہے وہ کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ فنا نہیں ہوتا، پاک ہے وہ جس کے حکم میں اس کا کوئی شریک نہیں، پاک ہے وہ جس کا افتخارکم نہیں ہوتا ، پاک ہے وہ جس کی زندگی کا سلسلہ نہیں ٹوٹتا، پاک ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں"
زیارت کے ساتھ ہی بارگاہ الہی میں نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ صاحب مرقد اللہ تعالی کے ایسے منتخب بندے ہیں جنھوں نے معرفت الہی کے باب وا کئے ہیں ورنہ اک عام انسان یہ استطاعت کہاں رکھتا ہے کہ جو اللہ کی وحدانیت کا اس طرح اظہار کرسکے جو اس کا حق ہے۔ زیارت امام کے تمام ارکان عبادت الہی پر منتج ہوتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ معرفت الہی حاصل کرنے کا واحد راستہ تمسک اہلیبیت علیھم السلام ہے۔
مومن کو قرب الہی کی سعادت انہیں معصومین علیھم السلام سے تمسک اورقرب حاصل کرکے ملتی ہے۔ ان نمازوں میں بھی ان قرآنی سوروں کی تلاوت کرنے کی تاکید کی گئی ہے جنھِیں برکتوں کا خزانہ کہا جاتا ہے اورجو قرب الہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور باٰعث اجروثواب ہیں۔
اس عبادت سے حاصل ہوئے اجروثواب ہی کو موالیان معصومین علیھم السلام کے لئے بارگاہ الہی میں ہدیہ کرتے ہیں اور ان معصوم ہستیوں پربرکتوں کے نزول کی دعا صلواۃ پڑھ کر کی جاتی ہے جس کا حکم قرآن کریم کے سورہ احزاب کی آیت نمبر 56 میں دیا گیا ہے۔
ترجمہ: " بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبان ایمان تم بھی ان پر صلوات بھجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔"
یہی اک منفرد ایسی عبادت ہے جس میں اپنے بندوں اور ملائکہ کے ساتھ خود رب العزت بھی شامل ہوتا ہے۔
کربلا میں حرم امام حسین علیہ السلام کے اندر داخل ہونے سے قبل اک اذن دخول پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ یہ اذن بظاہر تو اسی طرح لگتا ہے جس طرح لوگ دنیاوی بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہونے سے قبل اجازت طلب کرتے ہیں مگراس کی عبارت اوراسلوب سے صاف ظاہر ہوتا کہ یہ زیارت سے قبل اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرنا ہے تاکہ زیارت معصوم توحید الہی کی معرفت کا وسیلہ قرار پائے۔ دعا کے جملے اس طرح ہیں:
" خدا بزرگ ترہے بہت بزرگ حمد ہے خدا کے لئے بہت بہت اور پاکی ہے خدا کی ہر صبح اور شام ، حمد ہے خدا کے لئے جس نے ہمیں یہ راہ دکھائی اورہم راہ نہ پاتے اگر خدا ہمیں راستہ نہ دکھاتا، بے شک خدا کے رسول حق کے ساتھ آئے۔"
حرم امام حسین علیہ السلام میں بعد زیارت دورکعت نمازامام مظلوم کو ہدیہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر اس تنبیہ کے ساتھ کہ یہ نماز قبر مبارک کے بالکل سامنے نہ ہو تاکہ یہ نماز خالصتا" قربت الہی کے لئے ادا کی جائے۔ اس نماز میں سورہ یاسین اور سورہ رحمن کی تلاوت کرنے کا بہت اجرو ثواب بتایا گیا ہے۔ یہ دونوں سورے قرب شہید کربلا میں ذکرتوحید الہی کرنے کا عظیم واسطہ ہیں۔ اس طرح زیارت امام حسین علیہ السلام کے توسط سے زائر کو قرب الہی حاصل کرنے کا بابرکت موقعہ نصیب ہوتا ہے۔
عصرعاشورجنگ کے آخری مرحلہ میں اپنی تلوارنیام میں رکھتے ہوئے امام کی زبان پر جو کلمہ حق جاری ہوا اس سے مقصد حسینی تاریخ میں قیامت تک کے لئے محفوظ ہوگیا۔
امام فرمارہے تھے:
" میرے مالک تو جانتا ہے اور بہتر جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری محبت میں سب سے ہاتھ اٹھالیا ہے اورفقط تیرے دیدار کے شوق میں اہل وعیال کو چھوڑدیا اوربچوں کو یتیم بنادیا ہے۔ مالک تیرے دیدارعشق میں میرے ٹکڑے کردئے جائیں تب بھی میرا دل تیرے سوا کسی اور کی طرف جھک نہیں سکتا۔"
یوم عرفہ دعا عرفہ میں امام حسین علیہ السلام نے معرفت الہی کے جو باب منکشف کئے ہیں انہیں ہراہل ایمان اپنی روح میں اتارکر قرب الہی حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔
یہ بارگاہ الہی میں امام حسین علیہ السلام کی اک طویل دعا ہے جس کے ابتدائی کلمات سے ہی اس کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے:
" حمد ہے خدا کے لئے جس کے فیصلے کو کوئی بدلنے والا نہیں کوئی اس کی عطا والا نہیں کوئی اس جیسی صفت والا نہیں اور وہ کشادگی کے ساتھ دینے والا ہے اور اس نے قسم قسم کی مخلوق بنائ۔۔۔۔۔ اے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے زیادہ دیکھنے والے اے سب سے تیز حساب کرنے والے اور اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے رحمت نازل فرما محمد و آل محمد پر۔۔۔۔"
عزادارئ امام حسین علیہ السلام کوعبادت کا مقام بھی اسی بنیاد پردیا جاتا ہے کہ اس کے وسیلہ سے معرفت الہی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے ذکرحسین ع ذکر الہی سے جدا نہیں ہوتا۔ ہر مجلس حسینی کی ابتدا تلاوت کلام الہی سے کی جاتی ہے۔ واقعات کربلا اور امام مظلوم کے قربانی کو کلام الہی کی روشنی میں واضح کیا جاتا ہے۔
شب وروزعاشورہ جواعمال بجائے لائے جاتے ہیں وہ صرف نمازوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا وں پر مشتمل ہیں۔ شب عاشورمیں سورکعات نمازمیں سورہ توحید پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ ان ایام میں توحید الہی کا ورد ہوتا رہے۔ اس رات کی اک دعا میں بھی حمد باری تعالی اس طرح کی گئی ہے:
"پاک تر ہے اللہ حمد اللہ ہی کے لئے ہے نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اللہ بزرگ تر ہے اور نہیں ہے کوئی حرکت و قوت مگر وہی جو خدائے بلند برتر سے ملتی ہے۔"
ان دعاوں کے ساتھ ہی اللہ تعالی کی بارگاہ میں کثرت سے استغفارکرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔
عزاداری کی صورت میں چودہ سو سال سے حسین مظلوم کی قربانی کی یاد تازہ کرنا ہی دراصل توحید الہی کی محافظت کرنے کے عہد کا احیاء کرنا ہے کیونکہ حسینیت کا محور ہی توحید الہی ہے۔