ان دنوں اسلام کے بطل جلیل حضرت امام سید روح اللہ موسوی الخمینی کی اکتسویں برسی منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس موقع پر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔ ان کی زندگی ویسے بھی بڑی جامعیت کی حامل ہے اور ایک بڑی شخصیت کے اعتبار سے جس پہلو کی جانب نظر کریں، وہ ہمیں بلندی پر فائز نظر آتے ہیں۔ عام طور پر ان کی زندگی کے سیاسی پہلو کو دیکھا گیا ہے، حالانکہ ان کا سیاسی پہلو دینی عرفانی اور اخلاقی اور ملکوتی پہلوؤں سے پھوٹتا ہے۔ ان کے وجود سے اسلامی انقلاب کی جو بہار وابستہ ہے وہ پڑی پہلو دار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی جامع تعلیم آج بھی جیسے انسان ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس پہلو سے آپ کی شخصیت کا مطالعہ کیا جائے۔ ہم زیر نظر سطور میں قرآن حکیم کے ساتھ امام خمینی کے خصوصی تعلق اور قرآن حکیم کے بارے میں ان کے بعض افکار کا ذکر کریں گے، اگرچہ یہ موضوع خود نہایت اہم ہے اور وسیع بھی۔ ہم اپنے قارئین میں اس موضوع کے حوالے سے اشتیاق پیدا کرنے کی غرض سے چند معروضات پیش کرتے ہیں۔
امام خمینی کی منظم زندگی میں قرآن حکیم ایک جزو لا ینفک ہی نہیں بلکہ ایک ملجا و ماوی کی حیثیت سے دکھائی دیتا ہے۔ آپ ہر شب نماز تہجد کے بعد اور نماز فجر سے پہلے قرآن حکیم کے ایک پارے کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ تلاوت ماہ مبارک رمضان میں دو گنا ہو جاتی تھی اور رمضان المبارک میں آپ اپنے معمولات میں تبدیلی کرتے تھے، تاکہ عبادات اور تمسک بالقرآن کا موقع زیادہ مل سکے۔ رمضان شریف میں نزول قرآن کے حوالے سے انھوں نے فرمایا: ”ماہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس نے تمام پردے چاک کر دیے ہیں اور اس میں جبرئیل امین رسول اللہ ؐ کے پاس آئے ہیں، دوسرے لفظوں میں پیغمبر اکرم ؐ جبرئیل امین کو دنیا میں لائے ہیں۔“ اس میں بہت گہرے نکات موجود ہیں، آپ کہنا چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ کا وجود اقدس نہ ہوتا تو جبرئیل امین بھی ان قرآنی حقائق، معارف، امور اور اوامر کو لے کر زمین پر نہ اترتے۔ اس مطلب کو مزید ذہنوں کے قریب کرنے کے لیے ہم دو اشعار اپنے قارئیں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ پہلا شعر ایک نعت سے ہے اور دوسرا قرآن حکیم کے حوالے سے ایک نظم سے ماخوذ ہے:
یہ جذب قلب ہے کہ نزول کلام ہے
اتری ہے یا کسی نے اتاری ہے گفتگو
ایسا اک ناز کمال آتا تو ممکن ہوتا
اے خدا! جس پہ اترتا ترا کامل قرآن
امام خمینی کے گھر کے افراد کا کہنا ہے کہ آپ کو اگر کسی موقع پر دو منٹ بھی مل جاتے تو اس دوران میں قرآن حکیم کھول کر اس کی تلاوت کرتے۔ مثال کے طور پر آپ کے لیے کھانا لایا جا رہا ہے اور دو منٹ اس دوران میں میسر ہیں تو آپ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تھے۔ آپ کے بارے میں آپ کے قریبی رفقاء کا کہنا ہے کہ آپ قرآن حکیم ہمیشہ کھول کر اور دیکھ کر تلاوت کرتے تھے۔ جو کتاب آپ کے قریب ترین ہوتی تھی، وہ قرآن حکیم ہی تھا۔ یہاں تک کہ جن دنوں تہران دوران جنگ بمباری کی زد میں تھا اور عمارات لرزہ براندام تھیں، آپ جس عمارت میں تھے، وہاں بھی الماریوں سے کتابیں گرنے کا خطرہ تھا، آپ نے قرآن حکیم کے علاوہ سب کتابیں اٹھوا دیں۔ بعثت پیغمبر اکرم ؐ کا مقصد بیان کرتے ہوئے امام خمینی کہتے ہیں: ”بعثت کا محرک نزول وحی و قرآن اور اسے انسانیت کے سامنے پیش کرنا ہے، تاکہ انسانوں کا تزکیہ کیا جائے اور ان کے نفوس ان ظلمات اور سیاہیوں سے مصفا اور پاک ہو جائیں، جو ان کے اندر موجود ہیں۔“
امام خمینی اس بات پر بہت زور دیتے تھے کہ قرآن فقط لفظوں اور ظواہر سے عبارت نہیں بلکہ اس کے حقائق کہیں زیادہ عمیق ہیں۔ حقیقت بعثت پر بات کرتے ہوئے ایک اور مقام پر کہتے ہیں: ”اصل بعثت کیا ہے، نزول وحی کیا ہے اور نزول وحی کی کیفیت کیا ہے، یہ وہ امور ہیں جو سربستہ ہیں اور راز کی حیثیت سے باقی ہیں۔ ہم جو بعثت سے سمجھ سکتے ہیں، وہ اس کی برکات ہیں کہ جو اس مظہر سے حاصل ہوئی ہیں۔“ امام خمینی نے یہ بھی فرمایا: ”قرآن جس کی حقیقت سمع و بصر، الفاظ اور اعراض نہیں لیکن اسے اس صورت میں نچلے(نازل) درجے پر لایا گیا ہے۔“ قرآن حکیم سب کے لیے راہنما ہے اور ہر صاحب فکر و فہم اور ہر درجہ معرفت کا انسان اس سے کسب فیض کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں امام خمینی فرماتے ہیں: ”قرآن ایک ایسا دسترخوان ہے جسے تمام طبقوں کے لیے بچھایا گیا ہے، یعنی اس کی ایک ایسی زبان ہے جو عامۃ الناس کے لیے بھی ہے اور فلاسفہ کے لیے بھی ہے، اس کی زبان عرفا کی اصطلاحی زبان بھی ہے اور اہل معرفت کی بھی جو حسب حقیقت ہے۔“
امام خمینی اسی امر پر بہت زور دیتے ہیں کہ قرآن کو پانے کے لیے انسان کو خود اپنی اصلاح کرنا ہے، قرآن کی پاکیزگیاں ناپاک ظروف میں نہیں آسکتیں۔ ایسے مطالب کو امام خمینی نے اپنے عارفانہ انداز سے اور اپنی خاص معرفت کی اصطلاحوں میں متعدد مقامات پر بیان کیا ہے، مثلاً ملاحظہ کیجیے۔ ”جب تک انسان خود اپنے حجاب میں ہے، اس قرآن کا ادراک نہیں کرسکتا، جو نور ہے اور خود اپنے فرمان کے مطابق نور ہے۔ جو لوگ حجاب میں ہیں اور بہت سے حجابات میں ہیں، اس نور کو نہیں پاسکتے۔ یہ ان کا گمان ہے کہ اس کا ادراک کرسکتے ہیں۔ جب تک انسان اپنے بہت سے تاریک حجابات سے باہر نہ نکلے، جب تک نفسانی خواہشات میں گرفتار رہے، جب تک خودبینی میں گرفتار رہے اور جب تک ایسی چیزوں میں گرفتار رہے، جو اس نے اپنے باطن نفس میں خود پیدا کرلی ہیں اور جو ایک دوسرے سے بڑھ کر تاریک ہیں، اس میں یہ قابلیت پیدا نہیں ہوتی کہ یہ نور الہیٰ اس کے قلب پر منعکس ہو۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ قرآن کو سمجھیں، اس کے حقیقی محتویٰ کو جانیں، نہ کہ اس نازل اور پائین تر چھوٹی صورت کو، وہ ایسا نہیں کرسکتے جب تک حجابات نہ اٹھ جائیں۔ وہ جب قرآن کے حقیقی مطلب کو جان لیں گے تو جس قدر اس کی قرائت کریں گے، بلندی کی طرف جائیں گے اور مبداء نور اور مبداء اعلیٰ کے نزدیک ہوتے جائیں گے۔“
قرآن میں بہت سے اسرار و موز ہیں اور بعض چیزیں خاصان خدا کے لیے خاص ہیں اور بعض چیزیں تو ایسی ہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے مابین ہیں۔ اس موضوع پر بھی امام خمینی مختلف مواقع پر بات کی ہے ایک مقام پر کہتے ہیں: ”یہ خطاب ہے حبیب و محبوب کے مابین اور مناجات ہیں، عاشق و معشوق کے مابین اور ایسے اسرار ہیں کہ جن تک خود اسے اور اس کے حبیب کے سوا کسی کو رسائی نہیں اور اس رسائی کا امکان بھی نہیں۔ بعض سورتوں میں آنے والے حروف مقطعہ مثلاً الم، ص، یس وغیرہ اسی قبیل سے ہیں اور بہت سی آیات کریمہ جن کی اہل ظاہر، اہل فلسفہ، اہل عرفان اور اہل تصوف میں سے ہر کوئی اپنی تفسیر یا تاویل کرتا ہے اسی قبیل سے ہیں، اگرچہ ہر گروہ اپنی ظرفیت کے مطابق کچھ حصہ یا خیال رکھتا ہے۔“
امام خمینی قرآن حکیم کو ہر طرح کی تحریف سے پاک اور محفوظ سمجھتے تھے، اس بات کو انھوں نے مختلف مقامات پر وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں بعض لوگوں نے بہت سی ضعیف اور مرسل روایات کے کمزور سہارے سے تحریف کا جو ناروا نظریہ اختیار کیا، امام خمینی نے اس کا سخت محاکمہ کیا ہے، چنانچہ صاحب فصل الخطاب کے نقطہ نظر کو وہم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اگر بات ویسی ہی ہوتی جیسا کہ صاحب فصل الخطاب کو وہم ہوگیا تھا اور ان کی کتابوں کا علمی فائدہ ہوا نہ عملی، انھوں نے بعض ضعیف روایتیں جمع کر ڈالیں، جن پر ہمارے علماء نے سخت تنقید کی ہے اور ہمارے متقدمین اہل فکر و فہم مثلاً "محمدین ثلاثہ” {شیخ کلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی} نے ان سے دوری اختیار کی ہے۔۔۔ مختصر یہ کہ اس کے کلام کی پستی اور ناپسندیدہ عقیدے کی برائی اس سے کہیں واضح ہے کہ اہل ادراک و فہم سے پنہاں رہے۔“ وہ واضح الفاظ میں قرآن عدم تحریف پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ قرآن کریم جو مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، صدر اول سے لے کر اب تک اس میں ایک کلمہ یا ایک حرف زیادہ یا کم نہیں ہوا۔۔۔ قرآن شریف کی طرف کسی کو دست درازی کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ جس طرح رسول اللہ ؐ کے زمانے میں نازل ہوا، اب بھی اسی طرح ہے، اس میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔“
قرآن حکیم کی ہمہ گیر اشاعت امام خمینی کا مطمح نظر تھا، آپ چاہتے تھے کہ قرآن و اسلامی احکام و تعلیمات غیر مسلموں تک پہنچائی جائیں۔ اس سلسلے میں وہ بعض فقہا کے اس نظریے کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ قرآن حکیم کو غیر مسلموں کے ہاتھ نہیں آنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک مقام پر امام خمینی کہتے ہیں: ”قرآن کے بارے میں احتیاط کے نام پر کفار کے لیے اس کی دستیابی سے ممانعت شارع مقدس کے ذوق کے خلاف ہے کیونکہ تبلیغ اسلام ضروری ہے۔ احکام الہیٰ کی اشاعت اور تمام ممکنہ وسائل سے انسانوں کی ہدایت کے واجب ہونے کے پیش نظر قرآن کی اشاعت ضروری ہے۔ یہ احتمال کہ کسی کافر کا ہاتھ قرآن کو لگے گا اور وہ نجس ہو جائے گا، اس مصلحت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ؐ نے بادشاہوں کے نام جو خطوط لکھے، ان میں قرآنی آیات موجود تھیں۔ وہ بادشاہ ان خطوط کو چھوتے تھے، حالانکہ وہ کافر تھے۔“ ابھی اس موضوع پر بہت کچھ کہنا باقی ہے، آج کی نشست اسی پر اٹھا رکھتے ہیں، یار زندہ صحبت باقی۔