رمضان کا مبارک مہینہ اپنی برکتوں اورفضیلتوں کے ساتھ اختتام پذیر ہورہا ہے. اس برس کا رمضان ہرطرح منفرد تھا. کورونا وائیرس کی موذی بلا کے گھپ اندھیرے میں یہ اک روشنی کی کرن بن کر آیا. اس کی پرنورراتوں اور پرسکون دنوں کے سائے میں بے قرار دلوں کو قرارآگیا. اس میں کی گئی عبادتوں نے امید کے بجھتے چراغوں کو اک نئی زندگی بخشی. توبہ و استغفار کے سائبانوں میں صعوبتوں کی دھوپ میں جلتے ہوئے اہل ایمان کو پناہ دی. اس وقت جبکہ پوری دنیا میں کورونا کا قہرہرطرف تباہی مچا رہا ہے پریشان حالوں کو رمضان کی برکتوں نے ہی ناامیدی کے تھپیڑوں سے نجات دلائی. لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ یہ رمضان صدیوں بعد صبروآزمائش سے بھر پوراک ایسا منفرد رمضان تھا جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی.
ماہ مبارک میں ویران مسجدوں اور پرنور محفلوں کے مراکز میں پھیلے سناٹے دیکھ کر ایک بار ضرور اہل ایمان کے دل میں اپنے رب کے غیض و غضب کا خیال ایا ہوگا. شاید اسی لئے گھروں میں محصوراہل ایمان کو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے کے لئے گوشہ تنہائی نصیب ہوا. پہلے زمانے میں تزکیہ نفس کے لئے لوگ دنیا کی بھیڑ بھاڑ سے دور خانقاہوں اور اور تنہا گوشوں میں عبادت و ریاضت کرتے تھے. رمضان میں اعتکاف پر بیٹھتے تھے. کورونا کے طفیل عبادت گذاروں کے لئے انکے اپنے کنج قفس ہی گویا عابدوں کی خانقاہوں اوراعتکاف کے خیموں میں تبدیل ہوگئے. ہر مسلمان کے لئے اپنے تزکیہ نفس کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی اہتمام نہیں ہوسکتا تھا.
یہ بات بھی قابل صد شکر ہے کہ اللہ تعالی نے روزہ کی جس عظیم عبادت کی سعادت اس ماہ مبارک کے توسط سے ہمیں عطا کی تھی اسے ہم باوجود ان مشکلات اور پابندیوں کے اپنی اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق ادا کرسکے. مگر اب وہ وقت اچکا ہے کہ جب ہم اس مبارک مہینہ کو آلوداع کہہ رہے ہیں.
جب ہم کسی کو خود سے جدا ہوتے وقت آلوداع کہتے ہیں تو اس کا مقصد اس جانے والے سے اپنی بے انتہا محبت اور انسیت کا آظہار کرنا ہوتا ہے اور یہ باورکرانا ہوتا ہے کہ اس کی غیر موجودگی ہم پربہت شاق گذرے گی کیونکہ اس کی رفاقت ہمارے لئے ایک نعمت تھی جس سے ہم فیضیاب ہورہے تھے. اس لئے ہم جلد ہی اس کی واپسی کے مشتاق رہینگے. ان الوداعی لمحات میں اس جانے والی کے ساتھ گذارے گئے خوشگوار روز و شب کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور دعا کی جاتی ہے اللہ ہمیں پھر یہ قربت نصیب ہو. بس ہمارا یہی حال ماہ مبارک رمضان کو الوداع کرتے وقت ہورہا ہے. اس ماہ مبارک کی اک اک ساعت جس کے طفیل ہم سب اپنی پریشانیاں اور مصیبتیں بھلا چکے تھے اور اللہ کی ذات سے پرامید تھے کہ وہ ہمیں اس مبارک مہینہ میں اس موذی وبا سے نجات دلادیگا. بھلے ہی ابھی اس موذی وبا کا خاتمہ نہیں ہوا ہے مگر اس ماہ مبارک میں کی گئی اپنی قلیل اور ناقص عبادتوں کے طفیل دلوں میں قوی امید کی شمعیں روشن ضرور ہوگئی ہیں . دل کو یقین کامل ہےآللہ تعالی بڑا غفور رحیم ہے ہمیں اس مصیبت سے جلد نجات دیگا.
دراصل رمضان کی حیثیت اہل ایمان کے لئے ایک روحانی ورکشاپ کی سی ہے. اس ورکشاپ میں ایک معینہ مدت میں باہر کی دنیا سے لا تعلق ہوکر کچھ روحانی ایکسرسائز کرائی جاتی ہیں تاکہ اس کے بعد ان پریکٹسز کے ذریعہ حاصل کردہ روحانی صلاحیتوں کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کیا جاسکے. زندگی کے بدلتے رنگوں اور اترتے چڑھتے ماحول میں اپنی روحانی طاقت کا بروقت استعمال کروانے کی غرض سے ہی اللہ تعالی نے رمضان المبارک کی یہ ورکشاپ مختلف موسموں میں آتی جاتی رکھی. مختلف موسموں میں روزہ رکھ کر روزہ داروں کو ہر موسم کے دوران پیدا ہوئی بھوک و پیاس کی شدت کا احساس دلانے کا یہ موثر طریقہ ہے.
مگر رمضان کی یہ ورکشاپ ختم ہوتے ہی برائیوں سے اجتناب اور نیکیوں کی جانب ترغیب جیسی روحانی پریکٹسزکو ورک شاپ میں ہی پس پشت چھوڑ کر اپنی پرانی زندگی میں واپس آجانے سے اس ورکشاپ پر وقت صرف کرنا بے مقصد اور بے معنی ہوکر رہ جائیگا. اس لئے ضروری ہے کہ جو کچھ اس روحانی ورکشاپ سے حاصل کیا گیا ہے اسے ورکشاپ کے بعد بھی اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کیا جائے . وداع رمضان کے اسی موقعہ پر اور رمضان مبارک کی آخری ساعتوں میں ہر اہل ایمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کا عہد کرے کہ وہ یہ سلسلہ رمضان کی آخری ساعت کے ختم ہونے پر ختم نہیں کریگا.
کیا یہ مناسب ہوگا کہ ہم اک بار خود کو دنیاوی بکھیڑوں سے بچاتے ہوئے اورنیکیوں کی راہ پر آگے بڑھتے ہوئے عید کا چاند نمودار ہوتے ہی پھر اسی گناہ آلود دنیاوی زندگی کی بھیڑ میں خود کو گم کردیں اور اگلے برس رمضان کی امد تک ان تمام برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوجائیں؟
مشھور حدیث رسول کریم ص ہے کہ ماہ رمضان میں شیطان زنجیروں میں جکڑکرقید کردیا جاتا ہے. ممکن ہے کچھ لوگ اس کی بناء پر یہ مفروضہ بیان کریں کہ اس ماہ مبارک میں شیطان کے قید ہونے کے باعث وہ برائیوں سے خود کو دور رکھ سکے مگر پس رمضان یہ سہولت میسر نہ ہونے کے باعث شیطان کے جال سے بچنا آسان نہیں ہوتا. سب سے پہلے تو یہ واضح ہوجانا چاہئے کہ یہاں شیطان کے قید کردئے جانے سے مراد اگر وہی قید ہوتی جو ہمارے یہاں عمومی طور سے مجرموں کو جیل میں بند کرکے دی جاتی ہے جہاں مجرم کو لوہے کی زنجیریں پہنائی جاتی ہیں تو پھر ماہ رمضان میں شیطان کے اسی طرح قید ہوجانے کے نتیجہ میں کوئی ایک شخص بھی کوئی برائی نہ کرتا. بد قسمتی سے کچھ لوگوں کا رمضان مبارک میں بھی شیطانی کاموں میں ملوظ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ حدیث میں شیطان کے قید کئے جانے سے مراد عام دنیاوی قید نہیں ہے.
شیطان کو قید کرنےسے مراد یہ ہے کہ رمضان مبارک کے دوران لوگوں کا احکام الہی کی پابندی کرتے ہوئے اوراللہ کی نازل کردہ مخصوص رحمتوں کے سائے میں نیکیوں کی طرف خود بخود راغب ہوجانے کے سبب انکی روحانی طاقت میں اضافہ ہوجاتا ہے. اس لئے روزہ دار لا شعوری طور پر ہر برائی سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالی انہیں رمضان کی برکتوں سے کامیابی بھی عطا کرتا ہے. اس مبارک مہینہ میں روزہ دار ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہتا ہے. حتی کہ اس ماہ مبارک میں روزہ دار کا سونا بھی عبادت قرار دیا گیا ہے. اسی کیفیت کو اصطلاحا" بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ ماہ رمضان مبارک میں شیطان کو گویا قید کردیا گیا ہے جہاں روزہ داروں کی مسلسل عبادت میں مصروف رہنے کے باعث یہ شیطان انہیں اپنے جال میں پھنسانے سے قاصر رہتا ہے اور بے بسی سے دور سے انہیں تکتا رہ جاتا ہے. ماہ رمضان کی برکتوں کے سبب لوگ اس میں برائی کے مقابل نیکی کی جانب زیادہ راغب ہوتے ہیں .گویا وہ اپنی عبادتوں کے ذریعہ حاصل کردہ روحانی طاقت سے شیطان رجیم کوخود سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں. شیطان سے لڑنے اور اس کی چالوں سے بچنے کے لئے ان کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے.اگر پس رمضان بھی ہم اپنی اسی روحانی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے برائیوں کے مقابل نیکیوں کی راہ پر اپنے قدم بڑھاتے رہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دوران رمضان تو ہم شیطان کے چنگل سے بچنے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر بعد میں اسکے سامنے ہتھیار ڈالدیں گے.
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر شفقت اور مہربانی کرتے ہوئے توبہ و استغفار کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا ہے. صحیفہ سجادیہ کی وداع رمضان سے متعلق دعا میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں " اے اللہ تو ہی ہے جس نے اپنے بندوں کے لئے عفو و بخشش کا دروازہ کھولا ہے اوراس کا نام توبہ رکھا ہے. اور تونے اس دروازہ کی نشاندہی کے لئے اپنی وحی کو رہبر قرار دیا ہے تاکہ وہ اس دروازہ سے بھٹک نہ جائیں ….تو اب جو اس گھر ( عفو و درگذر) میں داخل ہونے سے غفلت کرے جب کہ دروازہ کھولا اور رہبرمقرر کیا جاچکا ہے تو اس کا عذر یا بہانہ کیا ہوسکتا ہے" یعنی ہم توبہ و استغفار کے ذریعہ اللہ تعالی سے اسکی مغفرت کے ہمیشہ طالب رہیں.
اب جب کہ یہ مخصوص عبادت اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمحہ کے لئے یہ غور وفکر کیا جائے کہ کیا ہم اس برس حق ماہ رمضان ادا کرسکے؟ کیا ہم اپنے روزوں کی ادئیگی کرکے وہ مقصد حاصل کرسکے کہ جو اللہ تعالی نے ہمارے لئے متعین فرمایا ہے ؟ کیا ہم اپنی ان کوتاہیوں اور خطاؤں سے بخوبی واقف ہیں کہ جو اس ماہ مبارک میں ہم سے سرزد ہوئی ہیں تاکہ ہم جلد ہی ان کی تلافی اور کفارہ ادا کرسکیں اس سے قبل کہ موت کا فرشتہ ہمارے دروازے پر دستک دیدے ؟ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے ہر ایک عمل کا محاسبہ کریں.
اللہ تعالی نے مسلمانوں پرروزے فرض کرتے ہوئے قران کریم میں سورہ البقرہ کی ایات نمبر 183مین ارشاد فرمایا کہ" (ترجمہ) اے ایمان والوں روزہ رکھنا تم پر اس طرح واجب ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا تاکہ تم اس کی وجہ سے متقی بن جاؤ ( یعنی بہت سے گناہوں سے بچے رہو). اور تقوی حاصل کرنے کئے ہمیں اپنے جسم اور روح یعنی نفس کو پاک رکھنا ہوگا جس کے لئے روزہ ایک بہترین اور موثر عمل ہے. تو کیا ہم تیس روزے رکھنے کے بعد اپنا تزکیہ نفس کرنے میں یعنی محرمات سے دور رہنے اور احکام اللہ کی پابندی کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں ؟ ہم روزہ رکھنے کے بعد منزل تقوی سے قریب ہوئے یا نہیں ؟
جیسا کہ مذکورہ بالہ آیہ کریمہ سے ظاہر ہےکہ مقصد روزہ تقوی اور تزکیہ نفس ہے جس کو حآصل کرکے انسان فلاح پاسکتا ہے. سورہ الشمس میں ارشاد ہورہا ہے کہ " ( ترجمہ) جس نے نفس کو گناہوں سے پاک رکھا وہ کامیاب ہوا"
تو کیا ہم اس رمضان میں اپنے نفس کو گناہوں سے پاک رکھ سکے؟ تزکیہ نفس کی کل ۴۸ منزلوں میں سب سے پہلے صبر وشکر کی منزل ہے جسکو حاصل کرنے کے لئے روزہ ایک بہترین طریقہ ہے. تو اس رمضان میں ہم نے صبر کا کہاں کہاں اور کیسے مظاہرہ کیا ؟ اس مہینے میں ہم کب کب اپنے خالق کے شکر گزار ہوئے؟ اس کا محاسبہ بھی یقیناً" مددگار ثابت ہوگا.
ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر ہم سب صمیم قلب سے یہ دعا کررہے ہیں کہ دنیا بھر میں امن و امان جلد بحال ہوجائے اوراگلے برس ہمیں پھر یہ موقعہ میسر ہو کہ ہم اس ماہ مبارک کا استقبال کرسکیں. اس سے مخصوص عبادتوں کو آزادی سے بخیر وخوبی انجام دے سکیں.