رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای دام ظلہ کا پیغام حج اورہماری ذمہ داری
1569
M.U.H
29/08/2018
0 0
سید نجیب الحسن زیدی
یقینا حج جیسا بڑا پلیٹ فارم اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کا بے نظیر و منفرد پلیٹ فارم ہے ، ایسا پلیٹ فارم جس سے صحیح طور پر استفاد ہ کیا جائے تو امت مسلمہ کی بہت سی مشکلات حل ہو سکتی ہیں ، لیکن افسوس کہ ہم آپس میں اتنے گتھم گتھا ہیں کہ اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں ہے حج کا بنیادی فلسفہ کیا ہے اور خدا نے کیوں تمام کلمہ گویوں کو ایک ہی لباس میں ایک ہی وقت میں ایک ہی سرزمین پر جمع ہونے کی دعوت دی ہے ،اگر اس سال کے رہبر انقلاب اسلامی کے حج کے مختصر لیکن آفاقی پیغام کے سلسلہ سے غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس حج کتنا بڑا سرمایہ ہے لیکن ہم کس قدر اس عظیم سرمایہ سے غافل ہیں رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام حج میں اس عظیم عبادت کے جن مختلف پہلووں کو بہت ہی اختصار سے بیان کیا ہے وہ قابل غور ہیں ہم ذیل میں رہبر انقلاب اسلامی کے اس سال کے پیغام حج کا ایک مختصر جائزہ لے رہے ہیں تاکہ انداز ہو سکے اس بابصیر و حکیم قائد و رہبر نے کن اہم نکات کی طرف ہماری توجہات کو مبذول کرانے کی کوشش کی ہے ،اور اس پیغام کے پیش نظر ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ شاید رہبر انقلاب اسلامی کے ذریعہ بیان کئے جانے والے نکات پر غور امت مسلمہ کے موجودہ مشکلات کی چارہ سازی کا سبب ہو سکے ۔
۱۔ ندائے قرانی اور محور توحید :
رہبر انقلابی اسلامی قرآن کریم کی آیت وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’یہ آسمانی آواز بدستور دلوں کو بلا رہی ہے اور صدیاں اور زمانے بیت جانے کے بعد بھی انسانیت کو توحید کے محور پر جمع ہو جانے کی دعوت دے رہی ہے۔ یہ دعوت ابراہیمی تمام انسانوں کے لئے ہے اور اس اعزاز سے سب کو نوازا گیا ہے‘‘
یہاں پر غور کرنے والی بات عمومی طور پر فرزندان توحید کی ایک محور پر دعوت ہے اب اگر اس دعوت کی اہمیت کو درک کرتے ہوئے ہم اپنے وجود کے اندر مزاج ابراہیمی بھی پیدا کر لیں تو یقینا الحادی طاقتیں وہ سب کچھ نہیں کر سکیں گی جو کرتی آ رہی ہیں ، یمن کا یہ حال نہیں ہوگا جو ہو رہا ہے اسلامی ممالک میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ ، دہشت گردانہ کاروائیوں جیسے حوادث رونما نہیں ہوں گے چونکہ فرزندان توحید اپنے ہی آپس سے نہ لڑ کر دشمن کی جستجو میں رہیں گے ، دشمن کی چال ہی یہی ہے کہ وہ ایسے شوشے چھوڑتا رہتا ہے جس سے ہم آپس میں الجھے رہیں اور وہ اپنا کام کرتا رہے ،اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر دو طرف کے درمیان کسی وجہ سے نا اتفاقی ہو گئی اور بات جنگ و جدال تک پہنچ گئی تو دشمن بسا اوقات دونوں ہی گروہوں کی اسلحوں سے مدد کرتا ہے ، تاکہ یہ آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور وہ اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہناتا رہے ۔لیکن یہ سب کچھ وہیں ہو پاتا ہے جہاں دعوے توحید ہو اور توحید انسان کے وجود میں نہ اتر سکی ہو لیکن جہاں توحید انسان کے رگ و ریشہ میں ہو وہاں انسان محور توحید پر جمع ہو کر یہ نہیں بھولتا کہ لا الہ الا اللہ کے محور تلے جمع ہونے والے ایک ہی ندا پر لبیک کہنے والے ایک قرآن ایک کعبے اور ایک رسول کے ماننے والے ہرگز چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ محور توحید پر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں بڑھتے ہیں کہ دشمن کو پسینے چھوٹ جائیں ، دعوت ابراہیمی کا در حقیقت ایک فلسفہ یہی ہے کہ ہم اپنے محور سے غافل نہ ہوں جو کہ توحید ہے
طہارت و پاکیزگی کا سبب :
رہبر انقلاب اسلامی نے روحانیت کی طرف توجہ دلاتے فرماتے ہیں :
’’آپ اس نعمت سے بہرہ مند ہیں اور ضیافت الہی کی پرامن وادی میں آپ وارد ہو چکے ہے۔ عرفات و مشعر و منی، صفا و مروہ و بیت، مسجد الحرام و مسجد نبوی، ان مناسک اور شعائر کی ہر ایک جگہ روحانیت اور روحانی ارتقا کی ایک کڑی ہے اس حاجی کے لئے جو اس توفیق کی قدر و منزلت سے آگاہ ہے اور اس سے اپنی طہارت کے لئے استفادہ کر رہا ہے اور اپنی بقیہ عمر کے لئے زاہ راہ جمع کر رہا ہے‘‘۔
یقینا اگر حج کی ا س عبادت سے ہم اپنی بقیہ عمر کے سلسلہ سے استفادہ کرنا چاہیں تو اپنے بھائیوں سے غافل نہیں رہ سکتے ، جب انسان پاکیزہ ہوتا ہے اور روحانیت سے نزدیک ہوتا ہے تو ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھتا ہے اور جب ایسا نہیں ہوتا تو اپنے میں ہی رہتا ہے لہذا یہ رخ بھی قابل غور ہے کہ اگر ہمیں اس روحانیت کا احساس ہو جائے جو حج کے ذریعہ پروردگار ہمارے وجود میں منتقل کرنا چاہتا ہے تو امت مسلمہ کی حالت وہ نہیں ہوگی جو ہے آج یمن ، عراق ، افغانستان ، میانمار و دیگر جگہوں پر جو مسلمانوں کی نابہ گفتہ صورت حال ہے اسکی ایک وجہ یہی ہے کہ ہم باطنی طہارت سے دور ہیں اور اسی بنا پر ایک دوسرے سے غافل ان چیزوں کی طرف بھاگ رہے ہیں جہاں وقت کے ساتھ اپنی قدر بھی روز بروز کھوتے جا رہے ہیں اور حاصل کچھ نہیں ہے ۔
مشترکہ مفاد :
مشترکہ مفاد کے سلسلہ سے رہبر انقلاب اسلامی اپنے پیغام میں فرماتے ہیں :
’’ایک اہم نکتہ جو ہر صاحب فکر اور تجسس رکھنے والے انسان کو دعوت فکر دیتا ہے، وہ تمام انسانوں، تمام نسلوں کے لئے ہر سال ایک خاص جگہ اور ایک خاص وقت پر دائمی جائے ملاقات کا تعین ہے۔ وقت اور مقام کی یہ وحدت فریضہ حج کے اصلی رموز میں سے ایک ہے۔ بے شک "لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ" کا ایک نمایاں مصداق خانہ خدا کے پہلو میں امت اسلامیہ کے افراد کی یہی سالانہ ملاقات ہے۔ یہ اسلامی اتحاد کا راز اور اسلام کی امت سازی کا ایک نمونہ ہے جو بیت اللہ کے زیر سایہ ہونا چاہئے۔ خانہ خدا کا تعلق سب سے ہے۔ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ‘‘۔
افسوس کی بات ہے کہ امت مسلمہ کی سالانہ ملاقات ہر بار ہوتی ہے ہے کوئی مشترکہ پالیسی سامنے نہیں آتی بلکہ بسا اوقات بعض اسلامی ممالک کے حاجیوں سے ہونے والا برتاو یہ بتاتا ہے کہ گویا دشمن کی مشترکہ پالیسی پر زیادہ عمل ہو رہا ہے ، اور ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن سے تشدد و تکفیریت کی بو آتی ہے ۔اگر ہم اپنے مشترکہ مفاد پر ہی غور کریں تو متوجہ ہو سکتے ہیں کہ دشمن نے کسطرح اپنے ساتھ ہمارے مفاد کے ساتھ اشتراک کر رکھا ہے اور ہم اسکو فائدہ پہنچا رہے ہیں جبکہ دیگر منادیان توحید سے نبرد آزما ہو کر دشمن کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ۔
مشرکین و مستکبرین سے اظہار برات :
حج کا اہم ہدف یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کو پہچانیں اور ایک ساتھ مل کر مشرکین سے اظہار برات کریں جس کے سلسلہ سے رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں : ’’ہمیشہ اور ہر سال اس مقام پر اور ایک خاص وقت پر حج اپنی واضح اور دو ٹوک زبان اور صریحی منطق سے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور یہ دشمنان اسلام کی خواہش کے بالکل برعکس ہے جو تمام ادوار میں اور خاص طور پر دور حاضر میں، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل محاذ آرا ہونے کی ترغیب دلاتے تھے اور دلا رہے ہیں۔ آج آپ مستکبر اور جرائم پیشہ امریکہ کا رویہ دیکھئے۔ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اس کی اصلی پالیسی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔ اس کی خباثت آمیز خواہش اور کوشش، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام، ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دینا، ظالم محاذ کی پشت پناہی کرنا، اس کے ہاتھوں مظلوم دھڑے کی بے رحمی سے سرکوبی کرنا اور اس ہولناک فتنے کی آگ کو ہمیشہ شعلہ ور رکھنا ہے۔ مسلمان ہوشیار رہیں اور اس شیطانی پالیسی کو ناکام بنائیں۔ حج اس ہوشیاری کی زمین فراہم کرتا ہے اور یہی حج میں مشرکین اور مستکبرین سے اعلان برائت کا اصلی فلسفہ ہےــ‘‘۔
کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ حج کے اتنے بڑے اجتماع کے ہونے کے باجود ایک دوسرے کے ساتھ ہم اپنی غلط فہمیوں کا ازالہ نہیں کر پاتے اور مسلسل دشمن کی سازشوں کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے نبرد آزما رہتے ہیں جبکہ مشرکین اور مستکبرین سے برات حج کی ایک حکمت ہے ، جسکی طرف توجہ نہ ہونے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف مختلف ممالک میں صف آرا نظر آتے ہیں اور وہ مشرکین و مستکبرین ہماری گتھم گتھا کا نظارہ کرتے ہیں جنکی شاطرانہ چالیں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہین اور جنکا اسلحہ خود ہمارے ہی ہاتھوں ایک دوسرے پر استعمال ہوتا ہے ۔
خداکی ذات پر بھروسہ :
امت مسلمہ کی ایک اور بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم دوسروں پر تو تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا پر بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ جب کسی مشکل میں پھنستے ہیں تو عالمی سامراج و استکباری ممالک کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ اگر اپنے وجود کے اندر توکل پیدا کریں اور خدا کی ذات پر تکیے کو اپنے وجود کی گہرایہوں تک اتار لیں تو ہمارے وجود کے اندر خودبخود ایک طاقت آ جائے گی ، ایسے رب کی عبادت و بندگی جو عالمین کا پروردگار ہے اپنے آپ میں خود ایک طاقت ہے رہبر انقلاب اس سلسلہ سے فرماتے ہیں :
"ذکر خدا حج کی روح ہے۔ اپنے دلوں کو ہم اس باران رحمت سے زندگی اور نشاط بخشیں اور اس پر اعتماد و توکل کو، جو در اصل قوت و وقار اور عدل و خوبصورتی کا سرچشمہ ہے، اپنے دلوں میں گہرائی تک اتاریں۔ ایسی صورت میں ہم دشمن کی چالوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ حجاج کرام! آپ شام، عراق، فلسطین، افغانستان، یمن، بحرین، لیبیا، پاکستان، کشمیر، میانمار اور دیگر علاقوں کے مظلوموں اور امت اسلامیہ کو اپنی دعا میں فراموش نہ کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ امریکہ، دیگر مستکبرین اور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھ کاٹ دے"۔
شک نہیں ہے کہ خدا پر بھروسہ اسکی ذات پر تکیہ خود ہمارے ایمان کی بالیدگی کا سبب بنے گا اور جب ہمارا ایمان مستحکم ہو جائے گا تو ہم دشمن پر کثرت کے باجود غلبہ پیدا کر سکتے ہیں ، جنگ بدر ہمارے سامنے ہے کس طرح مسلمانوں نے کم تعداد کے باجود کفار کو شکست فاش دی ، اگر کل جذبہ ایمانی کے چلتے ہم سر سے پاوں تک اسلحوں سے لیس کفار و مشرکین کو شکست دے سکتے ہیں تو آج بھی دے سکتے ہیں ، یقینا خدا پر بھروسہ ہو تو ہر مسکتبر و ظالم کے ہاتھ کاٹے جا سکتے ہیں ۔
یہ چند وہ اہم نکات ہیں جنکے اوپر اگر ہم توجہ کریں تو حج جیسی عبادت کو اپنی ایسی طاقت بنا سکتے ہیں کہ دشمن لاکھ جتن کے باجود ہمارے خلاف کسی سازش میں کامیاب نہ ہو سکے ،لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب ہم دین کے ظاہری عبادی احکامات پر عمل کے ساتھ ساتھ اسکی روح اور اسکی گہرائی کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں ۔