مصنف تصور عباس خان
شیعوں کی طرح اہل سنت کی کتابوں میں بھی بہت سی روایات امام مہدی کے بارے میں نقل کی گئی ہیں حتی کہ بعض اہل سنت کے مصنفین نے مستقل کتابیں امام مہدی کے بارے میں لکھی ہیںجس سے وہ اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ یہ عقیدہ صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص ہے اہل سنت کے وہ علماء جنہوں نے امام مہدی کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں ان میںسے بعض درج ذیل ہیں جیسے
اربعون حدیثا : ۔ابونعیم اصفہانی(م۴۲۰ھجری )جس نے باقاعدہ امام مہدی سے مخصوص چالیس احادیث کے عنوان سے کتاب لکھی ۔
البیان فی اخبارصاحب الزمان ۔ابوعبداللہ محمد گنجی شافعی نے یہ مستقل کتاب امام مہدی کے بارے میں لکھی ہے اور اس کوگیارہ بابوں میں تقسیم کیا ہے اور اپنی کتاب کے آخری باب کا عنوان رکھا ہے’’فی الدلالۃ علی جواز بقاء المھدی حیا ‘‘
پس اس بنا پر اس نے نہ صرف امام کی ولادت اور غیبت کو قبول کیا ہے بلکہ اس پر ہونے والے ہراشکال کوبھی رد کیا ہے اور کہا ہے کہ امام زندہ ہیں۔عقدالدررفی اخبار المنتظر: جو یوسف بن یحیی ٰ بن علی بن عبدالعزیز مقدسی شافعی کی لکھی ہوئی ہے جس نے اس کتاب کو بارہ بابوں میں تقسیم کیا ہے ۔العرف الوردی فی الاخبار المھدی: جو جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی نے امام مہدی کے موضوع پر لکھی ہے ۔البرھان فی علامات مھدی آخرالزمان :کہ جس کو علاء الدین بن حسام الدین مشہورمتقی ھندی نے لکھا ہے اوراس میں ٢٧٠احادیث کو ذکر کیا ہے ۔ان کے علاوہ اہل سنت کے اکثر علماء نے اپنی کتابوں میں امام مہدی کے بارے میں روایات کو نقل کیا ہے امام احمد بن حنبل نے امام زمانہ عج کے بارے میں ١٣٠روایات کو ذکر کیا ہے کہ جو ایک مستقل کتاب "احادیث المھدی "کے عنوان سے بھی چھپ کر منظر عام پر آگئی ہے یہاں ہم فقط چند ایک احادیث کو بطور مثال بیان کرتے ہیں ۔
پہلی حدیث: بخاری ،ابوھریرہ سے نقل کرتا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘(صحیح بخاری ،ج٤،ص ١٤٣؛)مسلم نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے( صحیح مسلم ،ج١،ص ٩٤) تم پرکیا گزرے گی جب عیسی ابن مریم نازل ہونگے حالانکہ امام تم میں سے ہوگا ۔صحیح بخاری اور مسلم کے تمام شارحین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث امام مہدی کے بارے میں ہے اور اس مورد کے علاوہ اس کی تشریح ممکن نہیں ۔شیعہ کتب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیسی نازل ہونگے تو نماز کے وقت حضرت امام مہدی سے کہیں گے کہ نماز پڑھائیں اور صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے جس سے امام مہدی عج کی عظمت بھی سمجھی جاسکتی ہے ۔اور ساتھ یہ بھی کہ امام مہدی اور حضرت عیسی دو شخصیات ہیں اور ان لوگوں کا جواب بھی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ حضرت عیسی ہی امام مہدی عج ہیں ۔ یہی ان کی اپنی معتبر کتاب کہ یہ حدیث ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
دوسری حدیث :امام مہدی عج امام علی اور فاطمہ زہرا کی اولاد میں ہونگے ۔قال: علی بن ھلال قال: دخلت علی رسول اللہ فی شکاتہ التی قبض فیھا فاذا فاطمۃ ،سلام اللہ علیھا ۔عندراسہ
،قال: فبکت حتی ارتفع صوتھا فرفع رسول اللہ ؐطرفہ الیھا فقال :حبیبتی فاطمۃ ماالذی یبکیک ؟فقالت اخشی الضیعۃ من بعدک ۔فقال ؐیاحبیبتی ۔۔۔۔۔۔ علی فلما قبض النبی لم تبق فاطمۃ بعدہ الاخمسۃ وسبعین یوما حتی الحقھا اللہ بہ ۔ؐ‘‘ ۔ترجمہ ’’علی بن ہلال نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ؐکی بیماری کے آخری ایام میں کہ جس بیماری کے سبب رسول خدا ؐنے اس دنیا سے رحلت فرمائی ان کے گھر گیا اور فاطمہ زہرا ۔سلام اللہ علیھا کو ان کے والدکے سرہانے بیٹھے دیکھا کہ آپ بلند آواز سے گریہ کررہی تھیں اس وقت پیغمبر نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایامیری بیٹی !کیوں اتنا رورہی ہو ؟جواب دیا۔ڈرتی ہوں کہ آپ کے بعد میراحق ضایع نہ ہوجائے ؟اس وقت رسول خدا نے فرمایا۔معلوم ہے کہ خداوند متعال نے اہل زمین پر نگاہ ڈالی اور ان میں سے آپ کے والد کو منتخب کیا پھر اسے نبوت عطاکی ؟خداوند متعال نے ایک بار پھر اہل زمین پر نگاہ ڈالی اور آپ کے شوہر کو منتخب کیا اور مجھ پر وحی نازل کی کہ میں آپ کی شادی علی سے کردوں ؟اے فاطمہ ہم اہل بیت ہیں کہ جنہیں خدا نے سات خصوصیات ہمیں عطا کی ہیں کہ جو نہ ہم سے پہلے کسی کو عطا کیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کیں ۔میں خاتم المرسلین ہوں اورتمام انبیا میں سے خدا وند متعال کے نزدیک محبوبترین اور عزیزترین ہوں اور میں آپ کا باپ ہوں ؛میراجانشین بہترین وصی ہے اور خدا وند منان کے نزدیک محبوبترین ہے اور وہ آپ کا شوہر ہے ؛ ہمارا شہید سب سے عظیم ہے اورشہیدوں میں سے خداکے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ حمزہ بن عبدالمطلب آپ کے والد اور آپ کے شوہر کا چچا ہے ؛وہ ہم سے ہے جس کو خدانےدوپرعطاکیے ہیں جن کے ذریعے بہشت میںدوسرے فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتا ہے اورجہاں چاہے پرواز کرے وہ جعفربن ابیطالب، آپ کے والد کے چچا کا بیٹا اور آپ کے شوہر کا بھائی ہے ۔ اس امت کے دوسبط ہم میں سے ہیں یعنی تیرے دوفرزند حسن وحسین علیھماالسلام یہ دونوں جوان اہل بہشت کے سردار ہیںقسم اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث فرمایا کہ ان کا والد ان سے عظیم ہے ؛اے فاطمہ !اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ان دونوں سے اس امت کا مہدی ہوگا جب دنیا لاقانونیت اور ہرج ومرج کا شکارہوگی فتنے اور فساد عام ہونگے راستے ناامنی کا شکارہونگے بعض لوگ دوسرے لوگوں پر حملے کریں گے بڑے چھوٹوں پر مہربانی نہیں کریں گے اور چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کریں گے ۔۔۔۔اس وقت خداوند متعال ان دونوں کی اولاد میں سے اس کو مبعوث فرمائے گا کہ جو گمراہی کے قلعوں کا خاتمہ کرے گا اور دلوں پر لگے تالے کھولے گا آخری زمانے میں خداکے دین کو سرافرازی عطاکرے گا جس طرح کہ میں نےرسالت ابتدائی زمانے میں خداکے دین کو قائم کیا وہ دنیا کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ؛
اے فاطمہ غمگین نہ ہو اور گریہ مت کر تحقیق خداوند متعال تیرے لیے مجھ سے زیادہ مہربان اور رؤف ہے اس مقا م اورمنزلت کی وجہ سے جو میری نظروں میں تمہارے لیے ہے خدا نے تجھے وہ شوہر عطاکیا ہے جو نسب کے لحاظ سے ہم اہل بیت میں سے شریف ترین انسان ہے وہ امت میں سے محبوب ترین ،مہربان ترین ،عادل ترین اورداناترین ہے؛
میں نے اپنے خداسے درخواست کی ہے کہ میری اہل بیت میں سے سب سے پہلے جو مجھ سے ملے وہ تم ہو ؛
علی ؑ نے فرمایا :جب رسول خدا ؐکی رحلت ہوئی ٧٥دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ خدا نے اسےفاطمہ کو اپنے باپ کے ساتھ ملحق کردیا اور اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں( محمد بن یوسف بن محمد قرشی گنجی شافعی ،البیان فی اخبارصاحب الزمان ،باب ١،ح١،ص٨١۔٨٣
تیسری حدیث :مہدی اہل بیت پیغمبر میں سے ہوں گے ’’عن ابی داوود،عن عثمان بن ابی شیبۃ ،عن فضل بن رکین ،عن قطر ،عن قاسم بن( ابی بزہ) ابی برۃ عن ابی الطفیل ،عن علی علیہ السلام عن النبی ؐوقال ’’لولم یبق من الدھر الایوم لبعث اللہ رجلا من اھل بیتی یملاھا عدلاکماملئت جورا ۔‘‘ ابوداوودعثمان بن ابی شیبہ سے ،اس نے فضل بن رکین سے ،اس نے قطر سے ،اس نے قاسم بن ابی بزہ یا ابی برہ سے ،اس نے ابوطفیل سے اور اس نے علی ؑسے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے تو بھی خداوند متعال میری اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا جو دنیا کو عدل سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی (سنن ابی داوود ،ج٢،ص ٢٠٧؛مسند احمد بن حنبل ،ج١،ص ٩٩؛ینابیع المودۃ ،ص٥١٩)
چوتھی حدیث :غیبت میں صبر کرنے والوں کا اجر ہے’’عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ۔رضی اللہ عنھما ۔قال قال رسول اللہ ؐ’’’ان علیا امام امتی من بعدی ومن ولدہ القائم المنتظر الذی اذاظھریملاالارض عدلا وقسطاکماملئت جورا وظلما ،والذی بعثنی بالحق بشیرا ونذیرا ان الثابتین علی القول بامامتہ فی زمان غیبتہ لاعزمن الکبریت الاحمر ۔فقام الیہ جابربن عبداللہ الانصاری فقال یا رسول اللہ ولولدک القائم غیبۃ ؟قال ای وربی لتمحصن الذین امنوا ویمحق الکافرین ،یاجابر ان ھذاامرمن امراللہ وسرمن سراللہ ،مطوی من عباداللہ ،فایاک والشک فیہ فان الشک فی امراللہ عزوجل کفر ‘‘۔سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا :تحقیق علی میرے بعد اس امت کا امام ہے اور اس کی اولاد میں سے قائم منتظر دنیا میں آئے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وستم سے بھر چکی ہوگی ۔ اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا تحقیق جو غیبت کے زمانے میں اس کی امامت پر ثابت قدم رہیں گے کبریت احمر سے بھی زیادہ ان کی ارزش ہوگی۔ اس وقت جابربن عبداللہ انصاری اٹھے اور عرض کی :اے رسول خدا !کیا آپ کے بیٹے قائم آل محمد کے لیے غیبت ہوگی ؟رسول خدا نے جواب دیا جی ہاں ،خداکی قسم ایسا ہی ہے تاکہ مومنین کو خالص بنائے اور کافروں کو تباہ وبرباد کرے اے جابراس کی غیبت خداکے کاموں میں سے ایک کام ہے اور خداکے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جو خدا کے بندوں سے پوشیدہ ہے پس اس میں شک کرنے سے بچ ،کیونکہ خدا کے امر میں شک اور تردید کفر ہے( قندوزی ،ینابیع المودۃ ،ج٣،باب ٩٤،ص١٦٤۔١٦٩)
پانچویں حدیث: امام مہدی سے بیعت کا مکان :’’عن اعمش ،عن زربن جیش ،عن حذیفۃ ،قال : قال رسول اللہ ؐ’’لولم یبق من الدنیا الایوم واحد لبعث اللہ فیہ رجلا اسمہ اسمی وخلقہ خلقی یکنی اباعبداللہ یبایع لہ الناس بین الرکن والمقام ،یرداللہ بہ الدین ویفتح لہ فتوحا فلایبقی علی ظھر الارض الامن یقول لاالہ اللہ فقام سلمان فقال یارسول اللہ من ای ولدک ھو؟
قال من ولد ابنی ھذا،وضرب بیدہ علی الحسین ۔علیہ السلام ۔‘‘۔’’ اعمش نے زربن جیش سے اور اس نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :اگرچہ دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے توبھی خداوند متعال ایک ایسے مرد کومبعوث فرمائے گا کہ جو میراہمنام اور اس کا اخلاق میرے اخلاق کی طرح اور اس کی کنیت ابوعبداللہ ہوگی لوگ مسجدالحرام میں رکن اور مقام کے درمیان اس کی بیعت کریں گے خداوند متعال اس کے واسطے سے لوگوں کے درمیان اپنے دین کو سرفرازی عطاکرے گا اور اس کے ہاتھ پر بہت سی فتوحات نصیب فرمائے گاپس دنیا میں کوئی ایساانسان نہیں ملے گا مگر یہ کلمہ توحید لاالہ اللہ کا اقرار کرے گا اسی دوران سلمان فارسی اٹھے اور عرض کی یارسول اللہ !یہ مرد آپ کی عترت میں سے کس کابیٹا ہوگا ؟پیغمبر اکرم نے فرمایا اس کی اولاد میں سے اور ساتھ اپنا ہاتھ امام حسین ابن علی کے کندھے پر رکھا (گنجی شافعی ،کتاب البیان ،باب١٣،فی ذکر کنیتہ ۔۔۔اوراربلی ،کشف الغمہ ،ج٣،ص٢٧٥
چھٹی حدیث:لقب مہدی ہے ۔ حاکم نیشاپوری نے ابن سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ’’حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب ،ثنامحمد بن اسحاق الصغانی ،ثناعمرو بن عاصم الکلایی ،ثناعمران العطان ،ثناقتادہ ،عن ابی نضرۃ ،عن ابی سعید رضی اللہ عنہ ،قال : قال رسول اللہ ؐ المھدی منا اھل البیت۔۔۔‘‘ رسول خدا نے فرمایاکہ مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا‘‘
’’المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری ح٨٨٢٠؛سنن ابن ماجہ ،باب خروج المھدی ؑ،ج١٣،ص٢٥٥،
ساتویں حدیث :سعید بن مسیب کہتا ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس تھا کہ حضرت امام مہدی کا ذکر آیا تو ام سلمہ نے فرمایا :میں نے رسول خدا ؐسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا المھدی من ولد فاطمہ کہ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا۔(سنن ابن ماجہ ،ج١٢،ص ٢٥٦،ح٤٢٢٤)
چند مہم نکات
مذکورہ بالا ر وایات کی روشنی میں چند ایک مہم نکات سامنے آتے ہیں ۔
١:اولایہ کہ جوآخری زمانے میں ظہور فرمائے گا اور دنیا کو عدل وانصاف سے پر کردے اور الہی حکومت کا قیام کرے گا اس کا لقب مہدی ہوگا ۔
٢:دوسرا نکتہ یہ امام مہدی کے ظھور کا عقیدہ رکھنا واجب ہے تمام شیعہ اور اہل سنت امام مہدیؑ کے ظھور کا عقیدہ رکھتے ہیں شاید اہل سنت کے چند ایک افراد مل جائیں کہ جنہوں نے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن مسلمانوں کے اجماع کے سامنے ان کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
٣:امام مہدی ،پیغمبراکرم ؐکی اہل بیت اورحضرت علی اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے ۔
٤:جب امام مہدی ظھور فرمائیں گے توحضرت عیسی ٰ ان کی نصرت کے لیے زمین پر آئیں گے اوران کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔
٥:امام مہدی کا ظھور سرزمین مکہ سے ہوگا اور لوگ آپ کی بیعت کریں گے ۔
ختم شد