نجف سے کربلا تک گامزن عشق کے سیلاب کی گھن گرج یقینا باطل پرست طاغوتی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دینے کا سبب ہے خاص کراس عظیم اجتماع میں جب کربلا کے وہ نعرہ لگتے ہوں گے جنہیں امام حسین علیہ السلام عظیم سرمایہ کے طور پر چھوڑ کر گئے تو دشمنان دین و اسلام پر اور بھی گراں گزرتا ہوگا کہ تمام تر چالوں کے باوجود وہ کربلا کے حقیقی معارف سے اس قوم کے رشتے کو نہ توڑ سکے ،اور جس قوم کو کبھی اقتصادی ناکہ بندی کر کے کبھی لشکر کشی کے ذریعہ دبانا چاہا وہ ہر منزل پر کربلا کا سہارا لیکر مزید ابھری اور اسکی زباں پر نعرہ تھا ھیات منا الذلہ ۔
نجف سے کربلا تک کا یہ پیدل مارچ اور عظیم انسانی اجمتاع جہاں ایک عزت مند سماج کی شاندار تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے وہیں ہمارے وجود میں روح کربلا کے اترنے کا سبب بھی ہے کیا ہی خوب ہو کہ نجف سے کربلا چلتے چلتے ہم اپنے وجود میں وہ کربلا تعمیر کر لیں جس کی تمنا امام حسین علیہ السلا م نے آواز استغاثہ بلند کرتے ہوئے کی تھی ، حسین فکر کربلا کے محافظوں کو آواز دے رہے تھے کہ تمہیں ہمیشہ کربلائی بن کر رہنا ہے کربلا ایک ۶۱ ہجری کا واقعہ نہیں ہے حق و باطل کے درمیان کا ازلی و ابدی معرکہ ہے تمہیں اس معرکہ میں کربلائی اقدار کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور کربلا کی اہم قدر عزت و سربلندی ہے ۔
کربلا میں ہرگز کسی بھی مقام پر ایسا نہیں ملے گا کہ مظلومیت کے سبب کربلا والے اپنی عزت سےغافل ہو گئے ہوں ، یہ وہ چیز ہے جو ہمیں اپنے اپنے ملک اپنے اپنے معاشروں میں ہزارہا مشکلات کے باجود عزت سے جینے کا سبق دیتی ہے لہذا جب ہم کربلا پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کربلاکے تمام تر ان مناظر میں جو مظلومیت و غم و اندوہ کی ایک داستان خونچکاں کو اپنے دامن میں محفوظ کئے ہوئے ہیں ایک عزت و وقار کا شجاعت و جوش وولولہ کا ایسا آہنگ نظر آتا ہے جسکی نظیر پوری تاریخ میں نہیں ملتی ، اگر آپ طول تاریخ میں جنم لینے والی تحریکوں کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ بہت سی اسی تحریکیں ہیں جنہوں نے انقلابی انداز میں اپنے وجود کو منوایا اور اپنی جان کی بازی لگا کر اپنے ہدف و مقصد کی حفاظت کی ، اپنے اہداف کی تکمیل کی خاطر مسلحانہ اقدام کیا ،جنگ کا میدان گرم کیا ، خود بھی میدان کارزار میں جانفشانیاں کیں اور تاریخ کے لئے عبرتوں کو چھوڑا لیکن ایسا وقت بھی ان پر آیا کہ تحریک سے جڑے بہت سے افراد کے ذاتی طرز عمل کی بنیاد پر ذلت اٹھانی پڑی اور دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر کچھ لوگ مجبور ہو گئے لیکن ہمیں کربلا میں یہ چیز کہیں نظر نہیں آتی ہے ،
اگر کربلا میں حسین ع مہلت مانگتے ہیں تو عزت و سربلندی کے ساتھ ، جہاں نصرت طلب کرتے ہیں وہاں بھی عزت کے جلوے ہیں ، مدینہ سے کربلا تک راستے میں جتنے افراد سے ملاقات ہوتی ہے ہر ایک سے گفتگو میں جس چیز پر توجہ ہے وہ عزت و شرف ہے ، لہذا نظر آتا ہے کہ بہت سوں کو اپنے ساتھ شامل بھی کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جن سے گفتگو تو ہوتی ہے لیکن وہ ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہیں اس درمیان جو چیز اہم ہے وہ عزت و سربلندی ہے ، چاہے کوئی ساتھ آئے یا نہ آئے جو کربلا ئی اصول امام حسین ع نے پیش کیا وہ عزت و سربلندی ہے ، لہذا اپنے ساتھیوں کو تلاش کرنے میں بھی کہیں اپنی کمزوری کا اظہار نہیں کیا ہے ۔
یہ معمولی بات نہیں ہے کہ جو حسین ع انکار بیعت کر چکے اور اسی بنیاد پر میدان کارزار میں یزیدی لشکر کے سامنے ہیں کہ سر دیں گے لیکن یزید کے سامنے اپنے سر کو خم نہیں کریں گے وہی حسین ع یزید کے لشکر سے ایک شب کی مہلت مانگ رہے ہیں ، جب ہم اس کی تہہ تک جائیں گے تو اندازہ ہوگا کہ خدا کی اطاعت و بندگی کے لئے مہلت مانگنا خود اپنے وجود میں عزت و شرف کے مفہوم کو سنبھالے ہوئے ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بہ نقلے امام صادق علیہ السلام سے بیان ہونے والی حدیث میں اطاعت و بندگی پروردگار کو حصول عزت کا سبب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : من اراد عزاً بلاعشیرۃ وغنی بلامالٍ وھیبۃ بلاسلطان فلینقل من ذل معصیۃ اللہ الی عز طاعتہٖ جوکوئی بھی ایسی عزت کا ارادہ کرے جو بغیر قبیلہ و خاندان کے حاصل ہو مال کے نہ ہوتے ہوئے بھی بے نیاز رہے اوربغیرسلطنت کے ھیبت حاصل کر لے تو وہ خداوندمتعال کی نافرمانی کی ذلت سے نکل کراُس کی کی اطاعت کی عزت میں آجائے چونکہ فقط اطاعت میں ہی عزت ہے۔،، بہت ہی واضح اور روشن انداز میں جہاں حدیث یہ بیان کر رہی ہے کہ عزت طاعت الہی و بندگی میں ہے وہیں لوگ عزت کو این و آن کے یہاں سر جھکانے میں تلاش کرتے ہیں جبکہ در خدا کے علاوہ عزت کہیں نصیب نہیں ہونے والی اور اس حقیقت کو بھی حدیث نے یوں بیان کیا ہے : انی وضعت العز فی قیام اللیل والناس یطلبونها فی ابواب السلاطین فلم یجدوه ابدا; میں نے عزت کو رات یاد خدا میں قیام کرنے میں قرار دیا ہے جبکہ لوگ سلاطین کے دروازوں پر عزت ڈھونڈ رہے ہیں اور ہرگز انہیں یہ عزت کبھی ملنے والی نہیں ہے اسی لئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں جب طالب عزت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اذا طلبت العز فاطلبه بالطاعة ، جب بھی عزت کی تلاش ہو تو اسے طاعت الہی میں ڈھونڈو
جس مفہوم کو روایات میں بیان کیا جا رہا ہے اسکا مکمل مصداق امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے چنانچہ امام حسین ع نے دشمن سے ایک شب کی مہلت مانگ کر بتایا کہ زندگی میں اگر کسی چیز کے لئے حسین کومہلت درکار ہے گرچہ وہ ایک دن ہی کے لئے کیوں نہ ہو تو وہ طاعت رب ہے ، آپ نے جہاں ایک شب کی مہلت یہ کہہ کر لی :’’ لعلنا نصلی لربنا الیلة وندعوه ونستغفره، فهو یعلم انی کنت احب الصلاة له و تلاوة کتابه وکثرة الدعاء والاستغفار;‘‘ ، شاید کہ ہم اس شب میں اپنے رب کی نماز پڑھ سکیں ، اسے پکار سکیں ، اسکے حضور استغفار کر سلیں ، بیشک وہ جانتا ہے کہ میں نماز کو محبوب رکھتا ہوں ، تلاوت قرآن اور کثرت دعاء کو پسند کرتا ہوں ‘‘
وہیں میدان کارزار میں برستے تیروں کے سایے میں اول وقت نماز پڑھ کے بتایا کہ جو طاعت الہی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے وہ اتنا شکست نا پذٰیر ہو جاتاہے کہ تیروں کے سایہ میں بھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہتا اور دشمن اسے شہید تو کر دیتا ہے لیکن ہرانے میں ناکام رہتا ہے ۔ حد تو یہ ہے حسین علیہ السلام اس وقت بھی بندگی پروردگار سے غافل نہ رہے جب نشیب میں جسم اطہر تیروں سے چھلنی تھا زخموں پر زخم لگ رہے تھے اور نشیب سے ایک ہی آواز آ رہی تھی ’’ لا اله سواک یا غیاث المستغیثین ما لی رب سواک ولا معبود غیرک، صبرا علی حکمک ;
’’ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ائے فریاد کرنے والوں کی فریاد سننے والے ، تیرے علاوہ میرا کوئی رب نہیں ہے ، اور نہ تیرے علاوہ کوئی معبود ہے ، میں تیرے فیصلہ پر صابر وراضی ہوں ‘‘۔ امام حسین علیہ السلا م کا کردار اور آپ کے فرامین و ارشادات میں نمایاں طور پر آپکے عزتمندانہ طرز عمل کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ آپ کے اقوال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآنی تعلیمات کے پیش نظر آپ عزت کو ذات خدا میں منحصر سمجھتے ہوئے اس با ت کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ جسے بھی عزت چاہیے ہے اس کے لئیے ضروری ہے کہ کہ وہ خدا کی طرف رجوع کرے ۔
چنانچہ آپ خدا کے حضور مناجات کرتے ہوئے فر ماتے ہیں :(یامن خصّ نفسہ بالسمووالرفعۃ واولیاۂُ بعزہ یعستزون)’’اے وہ ذلت جس کانفس بلندی اوررفعت کے ساتھ مخصوص ہے اوراس کے اولیاء اس کی عزت سے تمسک کی وجہ سے عزت پاتے ہیں۔‘‘ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : یا من دعوتہ ذلیلا فاعزنی ائے وہ کہ جسے میں ذلت کی حالت میں پکارا تو اس نے مجھے عزیز کر دیا انت الذی اعززت پروردگارا یہ تیری ہی ذات ہے جس نے مجھے عزت بخشی ۔آپکی اس گفتگو کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آپ اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کسی اور سرچشمہ سے عزت کی خواہش و آرزو بے سود و بے وجہ ہے کیونکہ مبدا و ماخذ عزت ذات پروردگار ہے ۔
اب جو لوگ مال و زر کو عزت کا وسیلہ سمجھتے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مال و دولت کے بل پر حاصل ہونے والی عزت اول تو عزت نہیں اور اگر وقتی طور پر مان بھی لیا جائے تو یہ وہ عزت ہے جو فانی و وقتی ہے اور مال و ثروت کے جاتے ہی یہ بھی چلی جائے گی
آپ سے منسوب یہ شعر اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے جہاں آپ فرماتے ہیں : ایعتز الفتی بالمال زھوا وما فیھا بفوت عن اعتزاز کیا ایک جوان مال و منال پر فخر کرتے ہوئے عزت کا طالب ہو سکتا ہے جبکہ مال کے ختم ہونے کے ساتھ اس کی عزت بھی ختم ہو جانے والی ہے آپکے مطابق دنیا اور جو کچھ اس کی رنگینیاں ہیں ان کی اسی بنیاد پر کوئی اہمیت نہیں کہ سب فانی و ختم ہو جانے والی ہیں ھل الدنیا و ما فیھا جمیعا سوی ظل یزول مع النھار کیا دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ہے وہ ایک سایہ کی طرح نہیں ہے جو دن کے ڈھلتے ہیں ختم ہو جانے والا ہے شک نہیں کہ دنیا اور اس کی حقیقت کو سمجھنے والا ہی یہ کہہ سکتا ہے وما ان طبنا جبن ہمارا شیوہ خوف کھانا نہیں ہے
بلکہ حیات عزت و ذلت کے مفہوم کو حیات و موت سے عبارت قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :
موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل عزت کے ساتھ موت ذلت کے ساتھ جینے سے بہتر ہے
اور اپنے اس بیان کی تشریح ایک دوسری جگہ یوں فرماتےہیں :
انی لا اری الموت الا سعادہ
والحیاۃ مع الظالمین الا برما
میں موت کو اپنے لئے سعادت و کامیابی اور ظالموں کےساتھ جینے کو ننگ و عار سمجھتا ہوں ، یہ عزت و شرف شجاعت اور جوش و ولولہ کا انداز جو حسینی تحریک میں ہر طرف موجزن نظر آتا ہے ایسا نہیں ہے کہ محض کربلا میں ہو ، بلکہ ہر اس جگہ نظر آئے گا جس نے خود کو فکر کربلا سے متصل کر لیا چنانچہ ، عراق ہو شام و ایران یا لبنان جہاں اس فکرکے سایے میں پروان چڑھنے والوں کو دشمن نے ٹیڑھی نظر سے دیکھا ہے انہیں منھ کی کھانی پڑتی ہے ۔ اور ہونگے جو کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں لیکن ہم ہیات منا الذلہ کا نعرہ لگانے والے جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کر دکھاتے ہیں . یہ حقیقت میں کربلا ئی طرز فکر ہے جہاں محض اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا نظارا نہیں کیا جاتا بلکہ کمر ہمت باندھ کر اٹھا جاتا ہے اور دشمن کو کرارا جواب دے کر بتایا جاتا ہے کہ ہمارا تعلق کس مکتب سے ہے ، اور دنیا سمجھ جاتی ہے کہ مکتب کربلا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نہ ڈرایا جا سکتا ہے نہ دھمکایا جا سکتا ہے جہاں یہ اپنے شہداء کی لاشیں اپنے کاندھوں پر عزت و سربلندی کے ساتھ اٹھانا جانتے ہیں وہیں دشمن کی لاشیں بچھا کر اسے سبق سکھانا بھی جانتے ہیں کہ کربلا انکے پہلو میں دل بن کر دھڑک رہی اور آواز دے رہی ہے ہیھات منا الذلہ ۔