آپنے قربانی کے ایام میں یقینا بڑے بڑے بازار سجے دیکھے ہوں گے جہاں سیکڑوں کی تعداد میں جانوروں کو فروخت کے لئے لایا جاتا ہے ، اور کئی کئی دنوں تک مسلسل ان بازاروں میں ایک جم غفیر رہتا ہے ، لوگ اپنے پسندیدہ جانوروں کو تلاش کرتے رہتے ہیں ، بازار میں ان جانوروں کی کیا قیمت ہے اس کے بارے میں نیوز چیلنز اور اخبارات مقامی و قومی سطح پر رپورٹس پیش کرتے رہتے ہیں با این ہمہ اکثر و بیشتر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں قربانی کرنا ہے تو کونسا جانور قربان کیا جائے ؟ یوں تو قربانی کے جانور کے شرائط فقہا نے بیان کئے ہیں جنہیں ہم بازار جانے سے پہلے دیکھ سکتے ہیں فی الحال عنوان سے دھوکہ نہ ہو ہم قربانی کے جانور کے سلسلہ سے ہرگز کچھ نہیں بیان کرنے والے ہماری توجہ قربانی کے باطنی پہلو پر ہے اس شرط پر ہے جو قربانی کے لئے ضروری ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بسا اوقات انسان اپنے وجود میں پلنے والے جانور کو کھلاتا پلاتا رہتا ہے اسے پال پوس کر بڑا کرتا ہے اور قربانی کے موقع پر مارکیٹ و بازار میں جانوروں کو ڈھونڈتا ہے کہ انہیں قربان کیا جائے جبکہ قربانی کا اصل مقصد اس درندے پھاڑ کھانے والے جانور کی قربانی ہے جو انسان کے وجود میں مختلف شکلوں میں بیٹھا ہے ، کہیں بھیڑیے کی صورت ، کہیں لومڑی بن کر کہیں پھاڑ کھانے والے آوارہ کتوں کی صورت تو کہیں زیریلے ناگوں کی صورت ، جب کہ بیشتر اوقات ہم ان سب سے غافل ہو کر بہتر سے بہتر ایک بے زبان جانور کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں ، گو کہ ایک جانور کشی کی سالانہ رسم ہے جسے بعض لوگ منا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے عید قربان کے فرض کو ادا کر دیا ہے جبکہ عید قربان محض ایک رسم نہیں ہے جسے ہر سال منایا جاتا ہو بلکہ ایسی عید جسے ایک عظیم قربانی کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے اسے عید قرار دینے کا سب بھی یہی ہے چنانچہ قربانی کرنا صرف ایک علامتی رسم نہیں ہے بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح جناب ابراہیم نے اپنے بیٹے کو مالک کے حضور قربان کر دینے میں کوئی تامل نہ کیا اسی طرح ہم بھی ان کے اس عمل کی یاد میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اپنے خواہشات نفسانی کو قرب الہی تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ بننے دیں گے یہی وہ جذبہ ہے جو عبدیت کی منزلوں میں قدم رکھنے کا حوصلہ دیتا ہے وہ منزل جس سے بڑھ کر کوئی دوسری منزل نہیں ہے ۔یہ عبدیت ہی کی منزل ہے کہ دنیا کے ہر صاحب کمال نے اپنے کمال کے اظہار کے بعد اپنی عبدیت کا اعلان کر کے یہ واضح کیا ہے کہ ان کمالات کی بنیاد یہی بندگی ہے ورنہ بندگی سے ہٹ کر دنیا کا کوئی کمال کمال نہیں ہے ۔
عید قربان عید بندگی ہے عید قربان عید اطاعت پروردگار ہے اس دن کو محترم جاننا اور عمل ابراہیمی کی تاسسی کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس دن ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب تم اولاد جیسی نعمت کو خدا پر قربان کر سکتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی چیز ایسی نہیں جو تمہارے اور قرب الہی کے درمیان حائل ہو سکے ۔
یہ عید ہمیں محبت بھائی چار ے ایثار قربانی اخوت کا پیغام دیتی ہے اس مبارک دن میں ہمیں غریب اور بے سہار ا مستحق لوگوں کی بھر پو ر امداد کر نی چا ہیے مصائب و مشکلات میں گھرے برادران ایمانی ، غرباء مساکین، اور مستحقین کی حاجت روائی اور انکی ضرورتوں کو اس دن میں پورا کر کے ان کے درمیان گوشت تقسیم کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لائی جا سکتی ہیں یہ عید ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ دوسرے ضرورت مندوں کی خوشیوں پر اپنی خوشیوں کو قربان کرتے ہوئے انکے لئے کچھ ایسا کیا جائے کہ وہ خوش ہو سکیں ،اور اپنی خواہشوں پر ضرورت مندوں اور محتاجوں کی خواہشوں کا مقدم کرنا ایک قربانی سے کم نہیں ۔لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے وجود کے جانور کو خرید کر لانے والے جانور سے پہلے قربان کر چکا ہو، نفس کے درندے جانور کو قربان کر دیا ہو یہی وجہ ہے کہ اگر عید الاضحی اور عید قربان سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحی کا مفہوم بے معنی ہو جائے گا ۔
چنانچہ جب ہم قربانی کا جانور خریدیں تو یہ خیال رہے کہ ہم تو جانور ہی خرید رہے ہیں جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے ، اور یہ کام بڑی خاموشی کے ساتھ کیا تھا اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جب ہم قربانی کراتے ہیں تو کس قدر اپنے نام و نمود کی فکر رہتی ہے ، کس قدر اپنے خواہشات کے غلام رہتے ہیں ، کس قدر دل میں یہ جذبہ رہتا ہے کہ ہمارے جانور کی تعریف ہو ، لوگ کہیں بھائی کیا بکرا لائے ہو کیا دنبہ ہے ایسا تو ہم نے اب تک نہیں دیکھا …اگر یہ ساری چیزیں ہمارے دل میں ہیں تو اسکا مطلب ہے ہم جذبہ ابراہیمی سے بہت دور ہیں اس لئے کہ جناب ابراہیم نے جب اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو ان کا مطمع نظر صرف اور صرف خوشنودی خدا کا حصول تھا۔ جب خدا کی خوشنودی پیش نظر تھی توعمل اور اسکا نتیجہ دونوں ہی پروردگار کی طرف سے مورد قبول قرار پائے ۔پروردگار نے اسی لئے اس سنت ابراہیمی پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے کہ تم بھی اسی راہ پر چلو جس پر ابراہیم ع چلے تاکہ اپنے خواہشاکے جانوروں کی قربانی کر سکو ، اپنی مچلتی تمناوں کو خدا کے سامنے ذبح کرنے کی طاقت پیدا کر سکو ، جن چیزوں کو تم چاہتے ہو جو تمہیں عزیز ہیں انہیں خدا کے حکم کی خاطر ترک کرنے کا جذبہ پیدا کر سکو جانور کی قربانی تو ایک علامت ہے اور اس بات کے عہد ہے کہ اگر ہمیں خدا کی راہ میں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو پیش کرنا پڑے اور خدا کے احکامات کی پیروی اور خدا کے قوانین اور اسکے دستور کے نفاذ کے لئے عزیز ترین چیز بھی قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو ہم اطاعت خداوندی میں قطعاً گریز نہیں کریں گے۔جبکہ بسا اوقات ہم قربانی کا جانور خرید کر لاتے ہیں اسے ذبح کرتے ہیں اور پھر اسے تقسیم کرتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں سنت ابراہیمی پر عمل ہو گیا ۔کاش ہم جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتے کہ جانوروں کی قربانی کرنا ہی ادئیگی فرض نہیں ہے بلکہ قربانی کا ظاہری پہلو یہ ہے لیکن اسکا باطن یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کے جانور کو قربان کریں ،جو کہیں حرص ولالچ کی بنا پر لومڑی کی شکل میں ہمارے وجود کا حصہ بن چکا ہے ، کہیں پھاڑ کھانے والا درندہ ہیں تو کہیں زہر اگلنے والا افعی ہے ، ان سب سے خود کو نجات دیتے ہوئے ،سنت ابراہیمی پر عمل یقینا خوشنودی خدا کا سبب ہوگا ۔عید پر قربانی کرنے کا پیغام یہی ہے کہ یہ قربانی سنت حضرت ابراھیم ہے جسے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے اورجانوروں کی قربانی سے پہلے ہمیں اپنے نفس کو قربان کرنا ہے تب جاکے جو جانور ہم قربان کریں گے یقینا اس پر قربانی کا اطلاق ہوگا ۔
وگرنہ بقول شاعر
ذبح دنبے کو کیا ، خوش ہوئے قربانی کی
مذبح نفس میں اک خون کا قطرہ نہ بہا