امام کاظم علیہ السلام، اور سخت ترین حالات میں غریبوں و ناداروں کی مسیحائی
2133
M.U.H
12/04/2018
1 0
سید نجیب الحسن زیدی
امام کاظم علیہ السلام کی ولادت کی معروف تاریخ ۷ صفر المظفر ہے ،آپ نے ۱۲۸ ہجری ابواء کے مقام پر اس دنیا میں آنکھیں کھولیں آپ اپنے حلم کے سبب کاظم کے طور پر پہچانے گئے جبکہ آپکی کنیت ابو الحسن اور ابو ابراہیم بیان کی گئی ہے
آپ نے اپنی زندگی کے ۲۰ سال اپنے والد ماجد کی دامن تربیت و تحت امامت گزارے آپ اپنی اس بیس سالہ زندگی میں نے مختلف علمی حلقوں کو سجے دیکھا ، کہیں مناظرے کہیں علمی گھتیوں کو سلجھایا جانا ، کہیں کلامی و فقہمی مباحث کی گہماگہمی ، آپ نے اپنے والد ماجد امام صادق علیہ السلام کے دور میں انکی علمی مجاہدتوں کا نزدیک سے مشاہدہ کیا ۔
آپ کی امامت کے ۳۵ سالوں میں ۱۰ سال ایسے ہیں جو منصور دوانقی کی خلافت میں گزرے ، منصور ایسا شخص ہے جس نے اپنی خلافت میں شیعوں کے قتل اور انکی سرکوبی کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزار نہ کیا ، ۱۳۷ ھ میں اس نے ابو مسلم خراسانی کو قتل کیا اور اس کے بعد ابو مسلم کی خونخواہی میں جو بھی تحریک اٹھی اسے سختی سے دبا دیا ،منصور کا دور گھٹن و سختی کا دور تھا ، منصور دوانقی نے آپکی نگرانی کے لئے مدینہ میں ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا رکھا تھا یہ جاسوس آپ سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھتے اور حکومت وقت کو اسکی اطلاع دیتے جسکی بنا پر موقع پاتے ہی حکومت آپکے پاس نشست و برخاست کرنے والوں کو گرفتار کر لیتی ،آپ کی نگرانی اس قدر سخت تھی کہ ایک دور ایسا بھی آیا جب آپ کچھ مدت کے لئے غار میں رو پوش ہو گئے مرگ منصور کے بعد ۱۵۸ ھ میں اسکا بیٹا مہدی اسکا جانشین ہوا اور امام کاظم علیہ السلام کے دور امامت کے ۱۱ سال مہدی عباسی کی حکومت کے دور میں گزرے مہدی عباسی کی خلافت میں منصور کی حکومت جیسی گھٹن نہ تھی چنانچہ اس کے حکم سے بہت سے شیعوں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا امام کاظم علیہ السلام نے نسبتا اس دور کو اپنے حق میں بہتر پاتے ہوئے اس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور شیعوں کو نظم و نسق دینے کے لئے ممکنہ اقدامات کئے لیکن آپکے یہ بہتر حالات زیادہ دن نہ چل سکے کہ مہدی کے بعد ہادی عباسی نے ۱۵ مہینے خلافت کی اور ۱۷۰ میں ہلاک ہوا اس دور میں بھی حکومت کی جانب سے نگرانی ہوتی رہی اسکے بعد شہادت تک ہارون کی خلافت میں آپکی زندگی کے باقی ایام گزرےجو بہت سخت تھے چنانچہ آپکو ہارون کے دور میں کئی بار زندان جانا پڑا ہارون نے مہدی کی سیاست کے برخلاف اپنی حکومت کی بقا آپ پر سختی میں جانتے ہوئے شرائط کو بہت سخت بنا دیا کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ آپ کو آپکے ثقافتی و فرہنگی کاموں کی بنا پر بغداد حاضر ہونے کاحکم دیتا اور زندان میں ڈال دیتا اور پھر خود ہی پشیمان ہو کر آپکی رہائی کا حکم دیتا چنانچہ ملتا ہے کہ ایک بار آپکو بغداد طلب کیا اور زندان میں ڈال دیا لیکن خواب میں امام علی علیہ السلام کو ناراض و غم گین اس حالت میں دیکھا کہ فرماتے ہیں : تونے قطع رحم کیا ،لہذا فورا آپکی آزادی کا حکم دیا اور بصد احترام مدینہ واپس بھیجا ہارون کے دور کے ۱۴ سال آپکی زندگی کے سخت ترین سال تھے جس میں آپکی ایک طرف تو کڑی نگرانی ہوتی دوسری طرف ہارون دکھانے کے لئے آپ کے ساتھ اظہار محبت بھی کرتا ،اور اس ٹوہ میں رہتا کہ آپ سے تعلق کی بنیاد پر اپنے ہی کارندوں کا اور اپنی ہی حکومتی اہلکاروں تک کا امتحان لے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت میں اسکی ہیں لیکن اندر سے بات آپکی مانتے ہیں اسی بنیاد پر علی ابن یقطین کا بارہا امتحان کیا کہ پتہ چلے علی ابن یقطین کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے اور وہ کس کی اطاعت کرتے ہیں ،لیکن یہ امام کی دقت نظر تھی کہ بروقت علی ابن یقطین کو متوجہ کر دیا اور ہارون کو علی ابن یقطین پر شک کے باوجود کوئی ایسا ثبوت نہ مل سکا جس کے چلتے وہ انکے سلسلہ سے کاروائی کرتا ۔ان تمام حالات کے پیش نظرامام علیہ السلام نے خود بھی ایسی سیاست اختیار کی کہ حکومت وقت کو شبہہ نہ ہو کہ اس کے خلاف آپ کچھ منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔
سیاسی تدبیر :
آج ہمارے معاشرہ میں یہ بڑا سوال ہے کہ موجودہ دور کے سیاسی حالات کے پیش نظر صاحبان اقتدار کے ساتھ کیسا سلوک اختیار کرنا چاہیے ، آیا مکمل طور پر اس لئے ان سے ملنا جلنا بند کر دیا جائے کہ وہ ظالم ہیں یا پھر قوم و معاشرہ کی بقا کے لئے بوقت ضرورت ان سے ملاقات تو کی جائے لیکن اپنے اصولوں سے ہرگز سودا نہ کیا جائے ، اور جب موقع و محل ہو اپنی فکر و اپنے نظریہ کا اظہار کر دیا جائے جب ہم امام کاظم علیہ السلام کا دور دیکھتے ہیں تو سخت ترین گھٹن کے دور میں بھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ نے گرچہ حکومتی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی لیکن بعض مقامات پر مصلحتا آپ خلیفہ وقت کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے تھے ۔
حکام جور کے ساتھ ہمیں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے اسکی بہترین مثال امام کاظم علیہ السلام کی زندگی ہے جسکے آئینہ میں ہم اپنی ذمہ داریوں کو معین کر سکتے ہیں ۔ منصور دوانقی نے نوروز کے ایا م میں امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ اس عید کی مبارک بار دینے کے لئے جو محفل سجی ہے آپ بھی اس میں تشریف لائیں اور لوگ جو ہدایا و تحائف لا رہے ہیں انہیں قبول کریں ۔
امام علیہ السلام نے اس درخواست پر فرمایا: ''میں نے اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس عید کے سلسلہ سے کوئی بات نہیں سنی ہے یہ ایرانیوں کی عید ہے اسلام نےاسے عید قرار نہیں دیا ہے میں خدا کی بارگاہ میں اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں جسکی تائید اسلام نے نہیں کی ہے اور میں اسے احیاء کروں ،،منصور نے جب امام علیہ السلام کا انکار دیکھا تو کہا : میں یہ کام سپاہیوں کی دلجوئی کے لئے کر رہا ہوں لشکر کو مجذوب کرنے کے لئے کر رہا ہوں آپکو خدا کی قسم دیتا ہوں آپ اس نشست میں ضرور تشریف لائیں ،امام کاظم علیہ السلام نے جب منصور کا یہ اصرار دیکھا تو مصلحتا قبول کر لیا آپ اس پروگرام میں تشریف لے گئے اور حاکم وقت کے ہمراہ بیٹھ گئے لوگ زیارت کے لئے آتے اور تحفے تحائف دیتے جب سارے لوگ رخصت ہو گئے تو ایک بوڑھا فقیر نزدیک آیا اور اس نے کہا میرے پاس آپکو دینے کے کوئی ہدیہ و تحفہ تو نہیں ہے لیکن میں نے آپکے جد کے لئے یہ تین بیت کہیں ہیں انہیں ہی آپکی اجازت سے بطور ہدیہ آپکی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں پھر اس نے یہ اشعار پڑھے :
عجبت لمصقول علاک فرنده
یوم الهیاج و قد علاک غبار
و لا سهم نفذتک دون حرائر
یدعون جدّک و الدموع غزار
الا تغضغضت السهام و عاقها
عن جسمک الإجلال و الإکبار
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے :''میں اس تیغ سے حیرت و تعجب میں ہوں جو آپ پر بلند ہوئی ، اور جنگ کے دن جب آپکا وجود غبار آلود تھا
اس تیر پر میں حیرت و تعجب میں ہوں جو اہل حرم کے سامنے برسے ، جبکہ انصار اشکبار اآنکھوں کے ساتھ مدد کے لئے پکار رہے تھے لیکن تیر نہیں ٹوٹے اور رکاوٹ نہ بن سکے کہ آپ کے جسم میں پیوست نہ ہوں آپکی ہیبت وو جلال و منزلت کی خاطر ''
امام علیہ السلام نے جب یہ اشعار سنے تو اشعار پڑھنے والے فقیر سے کہا : بیٹھ جاو میں نے تمہار ہدیہ و تحفہ قبول کر لیا ہے اس کے بعد جتنے بھی ہدایا آپکے پاس آئے تھے سب کو جمع کرنے کا حکم دیا سب کو جب ایک جگہ جمع کر دیا گیا تو کہا منصور ان ہدایا کا کیا ہوگا ، منصور نے لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی دکھانے کی خاطر کہا یہ یہ سب آپکے لئے ہیں جو چاہیں کریں ، مولا نے سب کے سب ہدیے و تحائف ایک جگہ جمع کر کے اس بوڑھے فقیر کے حوالے کر دئے
چونکہ منصور کی فوج میں بہت سے لوگ ایرانی تھے ظاہر ہے کہ اپنے اپنے اعتبار سے حاکم وقت کو خوش کرنے کی انہوں نے کوشش کی ہوگی اور قیمتی تحائف دئے ہونگے لیکن کسی بھی ہدیہ و تحفے پر امام علیہ السلام نے قبولیت کی مہر نہ لگاتے ہوئے ایک فقیر شخص کے تحفہ پر مہر قبولیت لگائی اور وہ بھی اس چیز پر جو ظاہر میں وجود نہیں رکھتی تھی اشعار کی صورت تھی لیکن امام علیہ السلام نے اسی کو بطور ہدیہ قبول کر کے یہ واضح کر دیا کہ حکومت کی نظر میں ہدایا و تحائف کا معیار اور کچھ ہے امامت کی نظر میں معیار کچھ او ر ہے
حکومت تحفہ و ہدیہ کی دنیاوی قیمت کو دیکھتی ہے جبکہ امامت کی نظر نیت اور اسکی معنویت پر ہوتی ہے ،ا سکےساتھ ہی امام علیہ السلام نے یہ بھی ثابت کر ددیا کہ ہمیں دنیاوی تحفے تحائف کی ضرور ت نہیں ہوتی ہے اور دنیا کے زرق برق سے ہمارا تعلق نہیں ، یوں امام نے علیہ السلام نے منصور کی سیاست کو ناکام بناتے ہوئے اپنے طرز عمل سے اس محفل جشن کو ویسا بنا دیا جیسا آپ چاہتے تھے جبکہ منصور اسی محفل جشن کے ذریعہ ایرانیوں کے درمیان آپکو حقیر دکھانا چاہتا تھا ، اور چاہتا تھا کہ ایک ایسی عید میں جسکا تعلق اسلام سے نہیں ہے امام کو مدعو کر کے یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ گویا مجوسیوں کی عید میں امام علیہ السلام نے شرکت کی ہے جبکہ امام علیہ السلام نے پہلے ہی اس عید کو مسترد کرتے ہوئے اس میں آمد کو انسانی تقاضوں پر متوقف کر دیا اور اس لئے اس میں آنے کی حامی بھری کہ اسکا تعلق ایرانی لشکر سے تھااور امام اس لئے آئے کہ لشکر کی دلجوئی ہو سکے اس طرح امام علیہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کیا کہ منصور دوانقی دیکھتا رہ گیا ۔
محروموں اور ناداروں کی پناہ گاہ :
امام علیہ السلام سخت ترین گھٹن کے ماحول میں بھی سماج و معاشرہ کے محروم طبقے سے غافل نہ رہے اور مختلف موقعوں پر غریبوں و ناداروں کے لئے جو بن پڑا انجام دیتے نظر آئے ہمیشہ غریب و بے سہارا لوگوں کا سہارا بنے آپ نے وکالت کے نظام کے ذریعہ ان تمام لوگوں تک رسائی حاصل کی جنہیں ائمہ طاہرین علیھم السلام نے ہر دور میں مدد پہنچانا اپنی اولین ترجیح قرار دیا
آپکی سیرت میں ملتا ہے کہ راتوں کو چہرے پر نقاب ڈال کر مدینہ کے کوچوں میں نکل پڑتے اور ضرورت مندوں تک انکی ضرورت کی اشیاء پہنچاتے اپنے کاندھے پر انکا آذوقہ و سامان خود ڈھوتے فقراء تک انکی خوردو نوش کی اشیاء بھی پہنچاتے اور ضرورت کی چیزوں کو خریدنے کے لئے انہیں پیسے بھی دیتے ، تاریخ کہتی ہے کہ سو سے لیکر ۳۰۰ دیناروں کی تھیلیاں بناتے اور انہیں ضرورت مندوں کے یہاں پہنچا دیتے
آپ کی یہ تھیلیاں اس قدر مشہور ہوئیں مدینہ میں ان کا نام ہی موسی ابن جعفر کی تھیلیاں پڑ گیا تھا اور لوگ آپس میں تذکرہ کرتے کہ فلاں تک موسی بن جعفر کی تھیلی پہنچی یا نہیں وغیرہ ۔۔۔
آپ جہاں لوگوں کی مدد خود کرتے وہیں عبادت و بندگی پروردگار کے ساتھ زندگی کو چلانے والے امور سے بھی غافل نہیں تھےچنانچہ ملتا ہے کہ مدینہ سے باہر ایک کھیت تھا جس میں آپ بنفس نفیس زراعت کرتے اور محنت کرکے رزق حلال کماتے ۔آپ نے کھیتی باڑی و زراعت کو لوگوں کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا تھا اور اسکے ذریعہ آپ لوگوں کی مدد کرتے ،یہ مدد محض ایک بار کی نہ تھی بلکہ بعض مقامات پر تو کتنے ہی ایسے خاندان تھے جنہیں ہر مہینہ کا خرچ آپ دیتے تھے مثلا بعض وہ گھرانے جو حکومت وقت کے لئے زیادہ مورد عتاب تھے آپ کی توجہ ان پر زیادہ تھی مثلا جناب زید ابن علی ابن الحسین علیہ السلام کے قیا م کے بعد جب انکے گھر والوں پر حکومت نے دباو بنایا تو انکے وارثوں اور اہل خانہ کو ضرورت تھی کہ کوئی انکے سر پر ہاتھ رکھتا ایسی صورت میں امام کاظم علیہ السلام نے ابو خالد کابلی کے ذریعہ ان تک رقم پہنچائی
اسی طرح دیگر ان علویوں کی پرسان حالی کی جنکے ملکیتوں کو حکومت وقت کی جانب سے قرق و ضبط کر لیا گیا تھاجیسے حسین بن علی شہید فخ وغیرہ
امام علیہ السلام کے دور امامت میں جہاں حاکمان وقت کی طرف سے آپ کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی جا تی اور آپکی نقل و حرکت پر پوری نظر رکھی جاتی آپ کی کڑی نگرانی ہوتی وہیں غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد رسانی میں بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ شیعوں کی تعداد دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور شیعہ کسی ایک بڑی آبادی کی صورت میں نہ ہو کر بکھرے ہوئے تھے جبکہ انکی تعدا د بھی پہلے سے کافی زیادہ ہو چکی تھی ایسے میں امام علیہ السلام کے لئے بہت سخت تھا کہ دور دراز کے دیہاتوں میں شیعوں اور ضرورت مندوں تک امداد پہنچائی جا سکے ،ان تمام سختیوں کے باوجود آپ نے نظام وکالت کے ذریعہ بنحو احسن یہ کام انجام دیا جبکہ بارہا ایسا بھی ہوا کہ ہارون کے جاسوس آپ کے طریقہ کار کو دیکھ کر مشکوک ہوئے اور انہوں نے حکومت وقت تک مخبری بھی کی کہ امام علیہ السلام اس طرح اپنے چاہنے والوں کی مالی مدد کر رہے ہیں لیکن اسکے باجود آپ نے اتنا مضبوط نطام وکالت قائم کیا تھا کہ اگر خراسان کے علاقے نیشابور میں بی بی شطیطہ کے ذریعہ آپ لوگوں کی مدد کرتے تو ہارون کے دربار میں علی ابن یقطین و جعفر ابن محمد بن اشعث جیسی شخصتییں تھیں جو بظاہر وزیر و کارندے حکومت کے تھے لیکن کام امام کا انجام دیتے تھے جنکے ذریعہ آپ ضرورت مندوں کی مشکلات دور کرتے تھے اور یہ مدد اس انداز سے تھی کہ ہارون جیسا شاطر خلیفہ بھی پریشان تھا کہ ہو کیا رہا ہے اسکو ملنے والی خبریں یہ کہتیں کہ امام علیہ السلام ہر اس جگہ موجود ہیں جہاں انکے شیعہ ہیں جبکہ وہ خود دیکھتا کہ امام علیہ السلام کو اس نے ہی زندان میں ڈالا ہوا ہے اور ان کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے اسے سمجھ نہیں آتا کہ زندان میں رہتے ہوئے یہ کیسا مضبوط وکالتی نیٹ ورک ہے جو اپنے رہبر کے قید میں ہونے کے باوجود اپنا کام کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک دن اس نے امام علیہ السلام سے کہا : کیا آپ کو یہ گمان ہے کہ ہم دو الگ الگ خلیفہ ہیں ، چونکہ خراج اگر میرے لئے آتا ہے تو آپکے لئے بھی آتا ہے یہ کیا ماجرا ہے
غلاموں کا خیال :
غلاموں کی آزادی کے سلسلہ سے آپ کی فکر ہمیشہ مشغول رہتی ، آپ پر سختیاں ہوں یاآپ زندان میں ہوں آپکو کی آزادی کی فکر ستاتی رہتی اور آپ اس جوڑ توڑ میں رہتے کہ کیسے غلاموں کو آزاد کرایا جا سکے ، یوں تو عصر ائمہ طاہرین علیھم السلام میں ہر ایک امام کی خدمات میں ایک خدمت یہ رہی کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے اور غلاموں کو خرید کر انکو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے انہیں آزاد کرنا ائمہ طاہرین علیھم السلام نے ہمیشہ خود پر فرض جانا کہ اس کے ذریعہ شیعت کی بہت ترویج ہوئی ، ظاہر سی بات ہے جب کوئی غلام زندگی کے کچھ ہی سال سہی لیکن امام وقت کے ساتھ گزارے گا ، انکی عملی زندگی کو دیکھے گا انکے ساتھ نشست و برخاست کرے گا انکے اخلاق حسنہ کو دیکھے گا تو کچھ نہ کچھ تو سیکھے گا ہی ،اور جب حقیقی اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو جائے گا تو کیا بہتر کہ دوسروں کو بھی آشنا کرے ،اس طرح خود اپنے بل بوتے اپنی زندگی بھی گزارے گااور دوسروںکو بھی دین حقیقی کی دعوت دے گا، شاید یہی وجہ ہے بعض دانشور یہ مانتے ہیں کہ شیعت کی ترویج میں ایک اہم ہاتھ ان غلاموں کا ہے جنہیں ائمہ طاہرین نے خریدا ، ان کی تربیت کی اور پھر انہیں آزاد کر دیا چنانچہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سلسلہ سے ملتا ہے آپ نے ہزار غلاموں کو آزاد کیا اسی طرح امام سجاد علیہ السلام نے بھی ہزار سے زیادہ کی تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا دیگر ائمہ اطہار علیھم السلام نے بھی اسی طرح اس تحریک کو زندہ رکھا
چنانچہ امام کاظم علیہ السلام نے بھی اپنے اجداد کی روش و انکے طریقہ کار کو باقی رکھتے ہوئے غلاموں کی آزادی کواپنی اولویت قرار دیا ،اور نہ صرف خود اس کام میں حصہ لیا بلکہ اپنے فرزندوں کی تربیت بھی اس طرح کی کہ انہوں نے بھی اپنی زندگی کی ایک بڑی ذمہ داری غلاموں کی آزادی کو جانتے ہوئے اس راہ میں کسی کوشش سے دریغ نہ کیا جناب احمد جو شاہ چراغ کے نام سے مشہور ہیں انکے سلسلہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کی مالی حمایت کے چلتے ہزار غلاموں کو آزاد کیا صرف اتنا ہی نہیں کہ امام کاظم علیہ السلام نے غلاموں کی آزادی کے سلسلہ سے اقدام کیا اور غلاموں کو آزاد کیا یا اپنے گھر والوں کی کا پیسوں سے یوں مالی تعاون کیا کہ وہ غلاموں کو آزاد کرائیں بلکہ غلاموں کو انکی خدمت کے دور میں بھی غلام نہیں سمجھا چنانچہ آپکی با برکت زندگی میں ملتا ہے کہ آپ غلاموں کو اپنے اہل و عیال کے طور پر متعارف کراتے اور کہتے یہ میرے اہل خانہ ہیں یہ میرے گھر والے ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ آپ نے چار سو سے زیادہ غلاموں کے سلسلہ سے کہا کہ یہ میرے عیال کی حیثیت سے ہیں
حاصل مضون :
امام کاظم علیہ السلام نے دشوار ترین حالات میں اپنی زندگی کو اس طرح گزارا کہ نہ تو دشمن کو موقع دیا کہ وہ آپکے وجود کو اپنے حق میں استعمال کر سکے اور نہ آپ شیعوں کی ضرورتوں سے غافل رہے ، ضرورت پڑی تو سلاطین وقت کے ساتھ ایک مسند پر بیٹھے بھی لیکن کیا وہی جو مشیت پروردگار کے مطابق تھا حاکمان وقت کو خوش کرنے کی فکر میں لوگ کیا سے کیا کرتے ہیں اور کرتے بھی رہے چنانچہ لوگوں نے قیمتی ہدایا و تحائف دئے کہ سلطان وقت کو خوش کر دیں لیکن آپ نے خوش کیا تو ایک ایسے فقیر کو جس نے آپ کے جد کے سلسلہ سے مرثیہ کے کچھ بیت پڑھے ، آپ نے خوش کیا تو اسے جسکے پاس خلوص و محبت کے سوا کچھ نہ تھا جو خالی ہاتھ تھا لیکن دل میں محبت حسین علیہ السلام تھی
امام کا یہ طرز عمل ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے پیش نظر بھی یہی ہونا چاہیے کہ کس کے دل میں محبت امام حسین علیہ السلام ہے کس کے دل میں محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام ہے اس لئے کہ یہ وہ سرمایہ ہے کہ جسکی قیمت ممکن ہے ہم نہ جانتے ہوں لیکن امام علیہ السلام پہچانتے ہیں اس کی کیا قیمت ہے۔ علاوہ از یں سخت و دشوار ترین دور میں بھی ضرورت مندوں اور محتاجوں کو امام علیہ السلام نے فراموش نہیں کیا ، زندگی میں مشکلات تو سبھی کے یہاں آتی ہیں لیکن امام علیہ السلام کا عمل یہ بتاتا ہے کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم مشکلوں میں گھرے رہنے کے باجود مشکلات میں گھر جانے والے ضرورت مندوں و محتاجوں کی مشکلوں کو آسان کرتے ہیں ، لہذا ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سے جتنا ممکن ہے امام علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غریبوں ، محتاجوں اور ناداروں کا خیال رکھیں کہ ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کا یہی شیوہ رہا ہے اور شیعہ کہتے ہی اسے ہیں جو اپنے اسی راہ و ڈگر پر چلے جس پر اسکا امام چلا ہے ۔
۔ کلینی ، اصول کافی، جلد ۳ ص ۳۸۰، سبط ابن جوزی۔ تذکرۃ الخواص، ص ۳۱۳
ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ع جلد ۴ ص ۳۱۱
۔ یعقوبی،جلد ۲ ص ۴۰۰
ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ۳۴۲
۔ مسعودی ، مروج الذہب جلد ۳ ص ۳۳۴
کلینی ، اصول کافی ، جلد ۳ ، ص ۳۸۴
سبط ابن جوزی ، تذکرۃ الخواص ، ص ۲۱۸
۔ شیخ مفید ، الارشاد، جلد ۲ ، ص ۲۱۸
ابن شہر آشوب ، مناقب آلی ابی طالب ، جلد ۴ ص ۳۴۴
شیخ مفید ، ارشاد ، جلد ۲ ص ۱۰۹
۔ جباری ، محمد رضا ، سازمان وکالت ونقش آن در عصر ائمہ ، موسسہ امام خمینی رح ص ۲۹۶ ، چاپ اول
مفید ، الارشاد جلد ۲ ، ص ۲۲۷
رک: سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۱
ایضا
۔ مدرسی، مکتب در فرایند تکامل ، ص ۲۰ ، جباری ، محمد رضا ، سازمان وکالت ونقش آن در عصر ائمہ ، موسسہ امام خمینی جلد ۱ ص ۵۱ ، چاپ اول
۔راندی ، الخرائج و الجرائح، جلد ۱ ص ۳۲۹
۔ تاریخ طبری ، جلد ۸ ص ۱۸۹
۔ شیخ مفید ، الارشاد، جلد ۲ ص ۲۳۷
۔ سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۰،
، ۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۴،
۔ ثقفی ، الغارات ، جلد ۱ ص ۵۹
۔ رک: سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۴،
۔ شیخ مفید ، الارشاد، جلد ۲ ص ۲۴۴ ، اربلی، کشف الغمہ ، جلد ۲ ص ۲۳۶
۔ رک: سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۴،